[٢] فساد فی الارض کا علاج صرف دعوت توحید ہے :۔ یہ آیت بھی لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ ہی کی تفصیل ہے کہ جب اللہ کے سوا کوئی الٰہ یعنی معبود برحق موجود نہیں تو عبادت بھی اسی کی کی جانی چاہئے یہی وہ حکم ہے جس سے تمام انبیاء نے اپنی دعوت کا آغاز کیا ہے اور یہ تو واضح ہے کہ تمام انبیاء کی بعثت ایسے اوقات میں ہوتی رہی جب تمام آباد دنیا ظلم و جور سے بھر جاتی تھی یہ ظلم و جور خواہ کفر و شرک جیسے گندے عقائد سے تعلق رکھتا ہو خواہ کردار و اعمال سے۔ بہرحال فساد فی الارض کی جتنی بھی قسمیں ہیں ان سب کا واحد اور بنیادی علاج یہی ہے کہ انھیں ایک اللہ کی خالصتاً عبادت کی دعوت دی جائے اور ان میں اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت پیدا کی جائے پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں انھیں دنیا اور آخرت میں ان کے برے انجام سے ڈرایا جائے اور جو اسے قبول کرکے اس کے تقاضوں کے مطابق اعمال بجا لانے لگیں انھیں دنیوی و اخروی فلاح کی بشارت دی جائے۔
اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ : یعنی یہ قرآن اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بلکہ ہر رسول کو اللہ تعالیٰ نے اسی لیے بھیجا، فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) [ الأنبیاء : ٢٥ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ سورة نحل (٣٦) میں بھی ہر رسول کے بھیجنے کا مقصد ایک اللہ کی عبادت کا حکم اور طاغوت سے اجتناب کی تاکید بیان فرمایا ہے۔ - اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ : چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے اپنے گھر والوں ام المومنین خدیجہ، زید، علی اور اپنے خاص دوست ابوبکر (رض) کے سامنے اللہ کا حکم پیش کیا، وہ ایمان لے آئے، پھر جب یہ آیت اتری : (ۚوَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) [ الشعراء : ٢١٤ ] ” اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا “ تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کے قبائل کو آواز دے کر جمع کیا اور ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔ [ بخاری : ٤٧٧٠ ] پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت : (وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا) [ سبا : ٢٨ ] تمام دنیا کے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور اس کے ثواب کی خوش خبری کا پیغام پہنچانے کا کام شروع کیا۔ چناچہ دوسرے ملکوں سے پہلے جزیرۂ عرب کے لوگوں تک نرمی اور محبت کے ساتھ اور پھر جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے یہ پیغام پہنچایا اور ان سب کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کیا، پھر تمام دنیا کے بادشاہوں کو خطوط لکھے، جن میں بشارت بھی تھی اور نذارت بھی۔ چناچہ روم کے فرماں روان ہرقل کو خوش خبری دی کہ تم مسلمان ہوجاؤ تو سلامت بھی رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دوہرا اجر دے گا اور ڈرایا بھی کہ اگر تم نے اسلام سے منہ موڑا تو تمہاری رعایا کے کفر کا بوجھ بھی تمہاری گردن پر ہوگا۔[ بخاری : ٧] دوسرے تمام حکمرانوں تک بھی یہ پیغام پہنچایا، پھر آپ کے خلفاء نے مشرق سے مغرب تک یہ پیغام پہنچا دیا۔
دوسری آیت میں متذکرہ آیات کا بیان ایک سب سے اہم اور مقدم چیز سے شروع ہوتا ہے یعنی حق تعالیٰ کی توحید، ارشاد ہوتا ہے (آیت) اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ یعنی ان آیات میں جو مضامین بیان کئے گئے ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم یہ ہے کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہ کی جائے۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ، یعنی ان آیات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم فرمایا ہے کہ وہ سارے جہاں کے لوگوں سے کہہ دیں کہ میں اللہ کی طرف سے تم کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں، مراد یہ ہے کہ نافرمانی اور اپنی ناجائز خواہشات کا اتباع کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور اطاعت شعار نیک لوگوں کو آخرت کی نعمتوں اور دونوں عالم کی راحتوں کی خوشخبری دیتا ہوں۔- نذیر کا ترجمہ ڈرانے والے کا کیا جاتا ہے لیکن یہ لفظ ڈرانے والے دشمن یا درندے یا دوسرے نقصان پہنچانے والوں کے لئے نہیں بولا جاتا، بلکہ نذیر اس شخص کے لئے جو اس کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی اپنے عزیز کو شفقت و محبت کی بناء پر ایسی چیزوں سے ڈرائے اور بچائے جو اس کے لئے دنیا یا آخرت یا دونوں میں مضرت پہنچانے والی ہیں۔
اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ ٠ ۭ اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ ٢ ۙ- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔
(٢) جس نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ اسکے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کی جائے اور جو اس کی عبادت کرتا ہے اور جو عبادت نہیں کرتا اس کو ان سب کی پوری خبر ہے اور اس کا بڑا مقصد یہی ہے کہ تم توحید خداوندی کو مانو اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوزخ سے ڈرانے والا اور جنت کی خوشخبری سنانے والا ہوں۔
آیت ٢ (اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ ۭ اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ )- انبیاء ورسل کے لیے قرآن میں بشیر اور نذیر کے الفاظ بار بار آتے ہیں۔ جیسے سورة النساء میں فرمایا : (رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِط وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا) اور سورة الانعام میں فرمایا : (وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ الاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ) (آیت ٤٨)