Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 4 گفتگو نہ کرنے سے مراد، کسی کو اللہ تعالیٰ سے کسی طرح کی بات یا شفاعت کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ الا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ طویل حدیث شفاعت میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " اس دن انبیاء کے علاوہ کسی کو گفتگو کی ہمت نہ ہوگی اور انبیاء کی زبان پر بھی اس دن صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ ہمیں بچا لے، ہمیں بچا لے ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٧] اللہ کے ہاں سفارش کی کڑی شرائط :۔ اس آیت سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں ہمیں اولیاء کے تذکروں میں بکثرت ایسی حکایات ملتی ہیں کہ فلاں بزرگ اکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اپنے ایک ایک مرید کو بخشوائے بغیر راضی نہ ہوں گے اور نہ خود جنت میں داخل ہوں گے اور بالآخر وہ اللہ میاں کو اپنی بات منوا کے ہی چھوڑیں گے حالانکہ وہ دن ایسا سخت ہوگا کہ انبیاء بھی اللہ کے حضور لوگوں کی سفارش کرنے سے ہچکچائیں گے اور بالآخر قرعہ فال رسول اللہ پر پڑے گا اور وہی اللہ کے حضور سفارش کریں گے۔ بلاشبہ دوسرے انبیاء اور بعض دوسرے نیک لوگوں کی سفارش کرنا بھی احادیث سے ثابت ہے مگر اس سفارش کے لیے بڑی کڑی شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ صرف وہی شخص سفارش کرسکے گا جس کو اللہ کی طرف سے اجازت حاصل ہوگی اور وہ بھی صرف اس شخص کے حق میں سفارش کرسکے گا جس کے حق میں اللہ کو منظور ہوگا اور خاص اس جرم کے لیے جس کی سفارش اللہ کو منظور ہوگی لہذا ایسی سفارش پر بھروسہ کرنے والوں کو وہاں سخت مایوسی سے دو چار ہونا پڑے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَ يَاْتِ : یہاں چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس دن کا کچھ نقشہ بیان فرمایا ہے۔ ” یَاتِ “ اصل میں ” یَأْتِیْ “ ہی ہے۔ زمخشری نے لکھا ” يَوْمَ يَاْتِ “ کی طرح ” لاَ أَدْرِ “ بھی کہہ دیتے ہیں۔ سیبویہ اور خلیل نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یاء کو حذف کرکے اس کی جگہ کسرہ پر اکتفا کرنا ہذیل کی لغت میں بہت ہے (یعنی دوسری لغات میں بھی ہے مگر کم ہے) ۔ ” يَاْتِ “ کا فاعل وہی ہے جو اوپر گزرا ” يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّهُ النَّاسُ “۔ ” یَوْمٌ“ کا لفظ عربی میں وقت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ” التحریر والتنویر لابن عاشور “ یعنی جس دن وہ وقت آئے گا، یا جس وقت وہ دن آئے گا۔ زمخشری نے ایک معنی یہ لکھا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ آئے گا، یعنی ” یَاتِ “ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) [ الفجر : ٢٢ ] ” اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔ “- لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ : یہاں سے نصرانیوں کی اور بعض مسلمانوں کی اس سفارش کا رد ہوگیا جو ان کے خیال میں کچھ ہستیوں کے اختیار میں ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہونے یا بڑے زبردست ہونے کی وجہ سے جسے چاہیں گے چھڑا لیں گے، حالانکہ وہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کو بات کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورة نبا (٣٨) ۔- فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ : ” شَقِيٌّ“ بروزن ” فَعِیْلٌ“ مبالغہ کے لیے ہے۔ قاموس میں ہے ” اَلشَّقَا “ کو کبھی ” اَلشَّقَاءُ “ بھی کہا جاتا ہے، سختی، تنگی۔ ” شَقِیَ یَشْقٰی “ (ع) یہ ” رَضِیَ یَرْضٰی “ کی طرح ہے، یعنی ناقص واوی ہے۔ زمخشری نے فرمایا : ” اَلَّذِیْ وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ بِإِسَاءَتِہِ “ یعنی وہ بدبخت جس کے لیے اس کی بدعملی کی وجہ سے آگ واجب ہوگئی۔ ” سَعِیْد “ وہ خوش قسمت جس کے لیے اس کے نیک اعمال کی وجہ سے جنت واجب ہوگئی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۝ ٠ ۚ فَمِنْہُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ۝ ١٠٥- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- شقي - الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ،- . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] - ( ش ق و ) اشقاوۃ - ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔- سعد - السَّعْدُ والسَّعَادَةُ : معاونة الأمور الإلهية للإنسان علی نيل الخیر، ويضادّه الشّقاوة، وأعظم السّعادات الجنّة، فلذلک قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ [هود 108] ، وقال : فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ [هود 105] ،- ( س ع د ) السعد - والسعادۃ ( خوش نصیبی ) کے معنی ہیں حصول خیر میں امور الہیہ کا انسان کے لئے ممدا ور معاون ہونا ۔ اس کی ضد شقاوۃ ( بدبختی ) ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا ہے : وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ [هود 108] اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں ( داخل کئے جائیں گے ۔ اور فرمایا : ۔ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ [هود 105] پھر ان مٰن سے کچھ بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ )- یعنی کچھ انسان بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :106 جس مضمون سے تقریر کی ابتدا کی گئی تھی اسی پر اب تقریر کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ تقابل کے لیے پہلے رکوع کے مضمون پر پھر ایک نظر ڈال لی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani