Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٨] اس سے پہلی آیت میں نماز کی تاکید اور اس کے فوائد بیان کیے گئے تھے اور اس آیت میں صبر کی تلقین کی جارہی ہے اور یہی دو چیزیں ہیں جن کے متعلق مسلمانوں کو آڑے اور مشکل وقت میں اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا : آیت (وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ 45؀ۙ ) 2 ۔ البقرة :45)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ ۔۔ : نماز کے ساتھ دوسری چیز جو استقامت علی الحق میں اور ظلم کی طرف میلان سے روکنے میں بیحد مددگار ہے وہ صبر ہے، فرمایا : (وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ) [ البقرۃ : ٤٥ ] ” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ “ مفردات راغب میں ہے : ” صبر کا معنی کسی کو تنگی میں روک کر رکھنا ہے، کہا جاتا ہے : ” صَبَرْتُ الدَّابَّۃَ “ ” میں نے جانور کو چارے کے بغیرباندھ رکھا “ اور ” صَبَرْتُ فُلاَنًا “ ” میں نے اس کا ایسا پیچھا کیا جس سے وہ کسی طرح نکل نہ سکے۔ “ صبر نفس کو اس چیز پر روک کر اور باندھ کر رکھتا ہے جس کا تقاضا عقل اور شرع کرتی ہیں، یا اس چیز سے باندھ کر اور روک کر رکھتا ہے جس سے روکنے کا عقل اور شرع تقاضا کرتی ہیں۔ “ اہل علم عموماً صبر کی تین قسمیں بتاتے ہیں : 1 اپنے آپ کو نیکی پر باندھ کر اور ہمیشہ کے لیے اس کا پابند بنا کر رکھنا۔ 2 اپنے آپ کو ہمیشہ اللہ کی نافرمانی سے روک کر رکھنا۔ 3 مصیبت پر جزع فزع کے بجائے اللہ کی تقدیر پر راضی رہنے کا پابند بنانا۔ استقامت کے لیے صبر کی ضرورت واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیت کی طرح قرآن میں بہت سی جگہوں پر صبر کا ذکر فرمایا، حتیٰ کہ فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ، یعنی آپ صبر و ثابت قدمی کے ساتھ رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔- صبر کے لفظی معنی باندھنے کے ہیں اسی لئے اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کیلئے بھی صبر بولا جاتا ہے جس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ نیک کاموں کے کرنے پر اپنے نفس کو ثابت قدم رکھے اور یہ بھی کہ برے کاموں میں مبتلا ہونے سے اس کو روکے، اس جگہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دینے سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ جو احکام آیات مذکورہ میں آپ کو دیئے گئے ہیں مثلاً استقامت، اقامت صلوة وغیرہ ان پر آپ مضبوطی سے قائم رہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مخالفین کی مخالفت اور ایذاؤں پر صبر کی تلقین مقصود ہو، اور اس کے بعد جو یہ ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ محسنین یعنی نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے، اس میں بظاہر محسنین سے مراد وہ لوگ ہیں جو آیات مذکورہ کے احکام امر و نہی کے پابند ہوں، یعنی دین میں استقامت کا مقام ان کو حاصل ہو، حدود شرعیہ کی پوری رعایت کرتے ہوں، ظالموں کے ساتھ دوستی اور بےضرورت تعلق نہ رکھتے ہوں، نماز کو آداب کے ساتھ افضل وقت میں ادا کرنے کے پابند ہوں، تمام احکام دین پر ثابت قدم ہوں۔- اور خلاصہ ان سب کا وہی ہے جو احسان کی تعریف میں خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو یا کم ازکم یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہے ہیں، جب انسان کو حق تعالیٰ کی ذات وصفات کے یقین کا یہ درجہ حاصل ہوجائے تو اس کے تمام اقوال و افعال خود بخود درست ہوجاتے ہیں، علماء سلف میں تین کلمے ایسے معروف تھے جو باہم ایک دوسرے کو لکھا کرتے تھے، وہ یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ اول یہ کہ جو شخص آخرت کیلئے کام میں مشغول ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے کاموں کو خود بخود درست فرما دیتے ہیں اور ان کی ذمہ داری خود لے لیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص اپنی باطنی حالت کو درست کرلے کہ قلب کا رخ سب سے ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی ظاہری حالت کو خود بخود درست فرما دیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے معاملہ کو صحیح و درست کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور تمام لوگوں کے درمیان کے معاملات کو خود درست فرما دیتے ہیں، اصل عبارت ان تین کلمات کی یہ ہے : وکان اھل الخبر یکتب بعضھم الی بعض بثلاث کلمت، من عمل لاخرتہ کفاہ اللہ امر دنیاہ، ومن اصلح سریرتہ اصلح اللہ علانیتہ ومن اصلح فیما بینہ وبین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس۔ ( تفسیر روح البیان ١٣١ ج ٢ ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١١٥- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - ضيع - ضَاعَ الشیءُ يَضِيعُ ضَيَاعاً ، وأَضَعْتُهُ وضَيَّعْتُهُ. قال تعالی: لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] - ( ض ی ع ) ضاع - ( ض ) الشیئ ضیاعا کے معنی ہیں کسی چیز کا ہلاک اور تلف کرنا ۔ قرآن میں ہے : لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] اور ( فرمایا ) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اوامر خداوندی پر مستقیم رہیے اور ان کی تکالیف پر صبر کیجیے، اللہ تعالیٰ ایسے مومن برگزیدہ بندوں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا جو قول وفعل ہر ایک طریقہ سے نیک ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani