Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اوقات نماز کی نشاندہی ابن عباس وغیرہ کہتے ہیں دن کے دونوں سرے سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے ۔ قتادہ ضحاک وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے سرے سے مراد صبح کی نماز اور دوسرے سے مراد ظہر اور عصر کی نماز رات کی گھڑیوں سے مراد عشاء کی نماز بقول مجاہد وغیرہ مغرب و عشاء کی ۔ نیکیوں کو کرنا گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ سنن میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس مسلمان سے کئی گناہ ہو جائے پھر وہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لے ، تو اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر فرمایا اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ نے فرمایا ہے جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے ، جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ مسند میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا ، وضو کیا ، پھر فرمایا میرے اس وضو کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز ادا کرے ، اس کے صبح سے لے کر اب تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، پھر عصر کی نماز پڑھے ، تو ظہر سے عصر تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، پھر مغرب کی نماز ادا کرے ، تو عصر سے لے کر مغرب تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ پھر عشاء کی نماز سے مغرب سے عشاء تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر یہ سوتا ہے لوٹ پوٹ ہوتا ہے پھر صبح اٹھ کر نماز فجر پڑھ لینے سے عشاء سے لے کر صبح کی نماز تک کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ یہی ہیں وہ بھلائیاں جو برائیوں کو دور کردیتی ہیں ۔ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، بتلاؤ تو اگر تم میں سے کسی کے مکان کے دروازے پر ہی نہر جاری ہو اور وہ اس میں ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر ذرا سی بھی میل باقی رہ جائے گا ؟ لوگوں کے نے کہا ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی مثال ہے ۔ پانچ نمازوں کی کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں اور گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچوں نمازیں اور جمعہ جمعہ تک اور رمضان رمضان تک کا کفارہ ہے جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے مسند احمد میں ہے ہر نماز اپنے سے پہلے کی خطاؤں کو مٹا دیتی ہے ۔ بخاری میں ہے کہ کسی شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس گناہ کی ندامت ظاہر کی ۔ اس پر یہ آیت اتری اس نے کہا کیا میرے لیے ہی یہ مخصوص ہے؟ آپ نے جواب دیا نہیں بلکہ میری ساری امت کے لیے یہی حکم ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس نے کہا میں نے باغ میں اس عورت سے سب کچھ کیا ، ہاں جماع نہیں کیا اب میں حاضر ہوں جو سزا میرے لیے آپ تجویز فرمائیں میں برداشت کرلوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ چلا گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی اگر یہ بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کرتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برابر اسی شخص کی طرف دیکھتے رہے پھر فرمایا ۔ اسے واپس بلا لاؤ ۔ جب وہ آ گیا تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اس پر حضرت معاذ نے دریافت کیا کہ کیا یہ اسی کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ سب لوگوں کے لیے ہے ۔ مسند احمد میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تم میں روزیاں تقسیم فرمائیں ہیں ۔ اخلاق بھی تقسیم فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے ۔ جس سے خوش ہو اور اسے بھی جس سے غضبناک ہو ۔ لیکن دین صرف انہیں کو دیتا ہے جن سے اسے محبت ہو ۔ پس جسے دین مل جائے یقینا اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور اسکی زبان مسلمان نہ ہو جائے ۔ اور بندہ ایماندار نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اسکی ایذاؤں سے بےفکر نہ ہوجائیں ۔ لوگوں نے پوچھا ایذائیں کیا کیا ؟ فرمایا دھوکہ اور ظلم ۔ سنو جو شخص مال حرام کمائے پھر اس میں سے خرچ کرے اللہ اسے برکت سے محروم رکھتا ہے ۔ اگر وہ اس میں سے صدقہ کرے تو قبول نہیں ہوتا ۔ اور جتنا کچھ اپنے بعد باقی چھوڑ مرے وہ سب اس کے لیے آگ دوزخ کا توشہ بنتا ہے ۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ ایک عورت سودا لینے کے لیے آتی تھی افسوس کہ میں اسے کوٹھڑی میں لے جاکر اس سے بجز جماع کے اور ہر طرح لطف اندوز ہوا ۔ اب جو اللہ کا حکم ہو وہ مجھ پر جاری کیا جائے ۔ آپ نے فرمایا شاید اس کا خاوند غیر حاضر ہوگا اس نے کہا جی ہاں یہ بات تھی ۔ آپ نے فرمایا تم جاؤ حضرت ابو بکر صدیق سے یہ مسئلہ پوچھو ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے بھی یہی سوال کیا پس آپ نے بھی حضرت عمر کی طرف فرمایا پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالت بیان کی آپ نے فرمایا شاید اس کا خاوند اللہ کی راہ میں گیا ہوا ہوگا ؟ پس قرآن کریم کی یہ آیت اتری تو کہنے لگا کیا یہ خاص میرے لیے ہی ہے ؟ تو حضرت عمر نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں اس طرح صرف تیری ہی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ سب لوگوں کے لیے عام ہے ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر سچے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ وہ عورت مجھ سے ایک درہم کی کھجوریں خریدنے آئی تھی تو میں نے اسے کہا کے اندر کوٹھڑی میں اس سے بہت اچھی کھجوریں ہیں وہ اندر گئی میں نے بھی اندر جا کر اسے چوم لیا ۔ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور اپنے نفس پر پردہ ڈالے رہ ۔ لیکن ابو الیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھ سے صبر نہ ہو سکا ۔ میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا افسوس تونے ایک غازی مرد کی اس غیر حاضری میں ایسی خیانت کی ۔ میں نے تو یہ سن کر اپنے آپ کو جہنمی سمجھ لیا اور میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میرا اسلام اس کے بعد کا ہوتا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذرا سی دیر اپنی گردن جھکا لی اسی وقت حضرت جبرائیل یہ آیت لے کر اترے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص نے آکر حضور صیلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی اللہ کی مقرر کردہ حد مجھ پر جاری کیجئے ۔ ایک دو دفعہ اس نے یہ کہا لیکن آپ نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا ۔ پھر جب نماز کھڑی ہوئی اور آپ نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں ۔ آپ نے فرمایا تو نے اچھی طرح وضو کیا ؟ اور ہمارے ساتھ نماز پڑھی اس نے کہا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا بس تو تو ایسا ہی ہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔ خبردار اب کوئی ایسی حرکت نہ کرنا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ۔ حضرت ابو عثمان کا بیان ہے کہ میں حضرت سلمان کے ساتھ تھا ۔ انہوں نے ایک درخت کی خشک شاخ پکڑ کے اسے جھنجھوڑا تو تمام خشک پتے جھڑ گئے پھر فرمایا ابو عثمان تم پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے یہ کیوں کیا ؟ میں نے کہا ہاں جناب ارشاد ہو ۔ فرمایا اسی طرح میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا ۔ پھر فرمایا جب بندہ مسلمان اچھی طرح وضو کر کے پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی چھڑ جاتے ہیں جیسے اس خشک شاخ کے پتے جھڑ گئے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں برائی اگر کوئی ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لو کہ اسے مٹا دے ۔ اور لوگوں سے خوش اخلاقی سے ملا کرو ۔ اور حدیث میں ہے جب تجھ سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لیا کر تاکہ یہ اسے مٹا دے میں نے کہا یارسول اللہ کیا لا الہ الا اللہ پڑھنا بھی نیکی ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تو بہترین اور افضل نیکی ہے ۔ ابو یعلی میں ہے ۔ دن رات کے جس وقت میں کوئی لا الہ الا اللہ پڑھے اس کے نامہ اعمال میں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں یہاں تک کہ ان کی جگہ ویسی ہی نیکیاں ہو جاتی ہیں ۔ اس کے راوی عثمان میں ضعف ہے ۔ بزار میں ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کوئی خواہش ایسی نہیں چھوڑی جسے پوری نہ کی ہو ۔ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کے ایک ہو نے کی اور میری رسالت کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا بس یہ ان سب پر غالب رہے گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

114۔ 1 دونوں سروں سے مراد بعض نے صبح اور مغرب، اور بعض نے عشاء اور مغرب دونوں کا وقت مراد لیا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ آیت معراج سے قبل نازل ہوئی ہو، جس میں پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔ کیونکہ اس سے قبل صرف دو ہی نمازیں ضروری تھیں، ایک طلوع شمس سے قبل اور ایک غروب سے قبل اور رات کے پچھلے پہر میں نماز تہجد۔ پھر نماز تہجد امت سے معاف کردی گئی، پھر اس کا وجوب بقول بعض آپ سے بھی ساقط کردیا گیا۔ (ابن کثیر) واللہ اعلم۔ 114۔ 2 جس طرح کہ احادیث میں بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا پانچ نمازیں، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک، ان کے مابین ہونے والے گناہوں کو دور کرنے والے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے، ایک اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بتلاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر بڑی نہر ہو، وہ روزانہ اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو، کیا اس کے بعد اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گا ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں آپ نے فرمایا اسی طرح پانچ نمازیں ہیں، ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہوں اور خطاؤں کو مٹا دیتا ہے ۔ (مسلم بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] نیکیوں سے برائیوں کا دور ہونا :۔ دن کے اطراف سے مراد صبح اور مغرب کی نماز ہے اور کچھ رات گئے سے عشاء کی نماز مراد ہے۔ گویا اس آیت سے یہ تین نمازیں ثابت ہوئیں اور نماز اگر مکمل آداب کے ساتھ ادا کی جائے تو انسان کے چھوٹے چھوٹے گناہ از خود معاف ہوجاتے ہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :- ١۔ سیدنا ابن مسعود کہتے ہیں کہ کسی شخص نے ایک (انصاری) عورت کا بوسہ لے لیا۔ پھر آپ کے پاس آکر اپنا گناہ بیان کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (یہ آیت سننے کے بعد) اس شخص نے آپ سے پوچھا : کیا یہ امر (نماز سے صغیرہ گناہوں کا معاف ہوجانا) خاص میرے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ میری امت سے جو بھی ایسا کرے (بخاری، کتاب التفسیر)- (مسلم، کتاب التوبہ، باب (اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي للذّٰكِرِيْنَ ١١٤؀ۚ ) 11 ۔ ھود :114) میں یہ واقعہ ذرا تفصیل سے ہے)- ٢۔ سیدنا حذیفہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : آدمی کی آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال، اس کی اولاد اور اس کے پڑوسی میں ہوتی ہے اور نماز، روزہ، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر ان کا کفارہ بن جاتے ہیں (بخاری، کتاب مواقیت الصلوۃ۔ باب الصلوۃ کفارۃ)- ٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : پانچوں نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جبکہ وہ بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے (مسلم، کتاب الطھارۃ، باب فضل الوضوء والصلوۃ عقبہ )- ٤۔ سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بھلا بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ بار نہا لیا کرے تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟ لوگوں نے جواب دیا، نہیں ذرا بھی نہیں رہے گا آپ نے فرمایا : یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے اللہ ان کے ذریعہ گناہ مٹا دیتا ہے (بخاری، کتاب مواقیت الصلوۃ باب فضل الصلوۃ لوقتھا)- نیکیوں سے برائیوں کے دور ہونے کی تین صورتیں :۔ اور نیکیوں سے برائیاں دور ہونے کی تین صورتیں ہیں ایک یہ کہ جو شخص نیکیاں بکثرت کرے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ دوسری یہ کہ اس سے برائی کی عادت چھوٹ جاتی ہے اور تیسری یہ کہ جس معاشرہ میں نیکی کے کام بکثرت ہو رہے ہوں برائیاں از خود وہاں سے رخصت ہونے لگتی ہیں اور سر نہیں اٹھا سکتیں۔- [١٢٧] یعنی تمہیں نیک بنانے اور برائیوں سے بچانے کا بہترین ذریعہ نماز ہے جس سے اللہ کی یاد تازہ ہوتی رہتی ہے اسی کی طاقت سے تم بدی کی انفرادی اور اجتماعی قوتوں کا مقابلہ کرسکتے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس آیت اور اس کے بعد والی آیات میں استقامت کا اور طغیانی اور ظالموں کی طرف میلان سے اجتناب کا طریقہ بتایا ہے، وہ ہے اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق جو نماز سے حاصل ہوتا ہے اور صبر کرنا اور برائی اور فساد فی الارض سے منع کرتے رہنا۔ - وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ : اقامت کا معنی سیدھا کرنا، مراد نماز کو اس کے اوقات پر سنت کے مطابق پورے ارکان اور خشوع و اخلاص کے ساتھ ادا کرنا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالک بن حویرث (رض) سے فرمایا : ( صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّیْ ) [ بخاری، الأذان، باب الأذان للمسافرین إذا کانوا۔۔ : ٦٣١ ] ” نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے دیکھا ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں۔ “ قرطبی نے فرمایا کہ مفسرین میں سے کسی کا اختلاف نہیں کہ یہاں اس سے مراد فرض نماز ہے۔ - ایمان کے بعد سب سے زیادہ زور اقامت صلاۃ پر دیا گیا ہے اور اسے کفر و ایمان کے درمیان فرق قرار دیا گیا ہے، کیونکہ روزانہ پانچ دفعہ مسجد میں جا کر اللہ کے سامنے حاضری میں ارکان اسلام کا کچھ نہ کچھ حصہ آجاتا ہے۔ کلمہ اسلام تشہد میں موجود ہے، پوری نماز کے دوران میں کھانے پینے سے بلکہ دنیا کے ہر کام سے پرہیز روزے کا عکس ہے، اپنے کاروبار کو چھوڑ کر آنا اس شخص کے بس کی بات نہیں جو زکوٰۃ نہ دے سکتا ہو اور قبلے کی طرف رخ حج کی یاد دلاتا ہے۔ - طَرَفَيِ النَّهَارِ : دن کے دو کنارے۔ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک نہار (دن) ہوتا ہے، اس میں تین نمازیں آجاتی ہیں۔ زوال سے پہلے والے کنارے میں فجر اور زوال کے بعد والے میں ظہر اور عصر۔ ” زُلَفًا “ ” زُلْفَۃٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” غُرْفَۃٌ“ کی جمع ” غُرَفٌ“ ہے، اس سے مراد دن کے آخری حصے کے قریب کے اوقات ہیں، کیونکہ ” اِزْلَافٌ“ کا معنی قرب ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ) [ الشعراء : ٩٠ ] ” اور جنت متقی لوگوں کے لیے قریب لائی جائے گی۔ “ اور فرمایا : (مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ) [ الزمر : ٣ ] ” ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ “ اس سے مراد مغرب اور عشاء ہیں، کیونکہ وہ دن کے قریب ہوتی ہیں۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں نمازیں آجاتی ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر ان آیات کا نزول معراج کے بعد ہوا ہو تو اجمالی طور پر ان میں پانچوں نمازیں آجاتی ہیں، البتہ چونکہ یہ سورت مکی ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ آیات معراج میں پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے نازل ہوئی ہوں اور ان آیات سے دن کے دونوں کنارے سورج نکلنے سے پہلے (فجر) اور غروب ہونے سے پہلے (عصر) کی نماز ہی فرض ہو اور رات کی گھڑیوں سے مراد تہجد ہو جو پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور تمام امت پر فرض تھی، پھر اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی، البتہ اس کی تاکید اور فضیلت باقی رہی۔ اصل یہ ہے کہ تفصیلی طور پر نماز پنج گانہ کے اوقات کی تعیین اور تفصیل حدیث ہی سے ملتی ہے اور قرآن مجید پر عمل حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ منکرین حدیث میں سے پہلے کچھ لوگ قرآن میں تین نمازیں مانتے تھے، پھر دوپر آگئے، بعد والے ایک پر آگئے اور پرویز نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ سے لے کر اب تک متواتر احادیث اور متواتر عمل کے ساتھ آنے والے نماز کے طریقے کا سرے ہی سے انکار کردیا اور حقیقت یہی ہے کہ صرف قرآن سے نہ نماز کے مکمل اوقات معلوم ہوسکتے ہیں، نہ اس کے ارکان، نہ ارکان کی ترتیب، نہ رکعات کی تعداد اور نہ شروع یا ختم کرنے کا طریقہ، غرض حدیث ترک کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن پر عمل سے جان چھوٹ جائے اور یہی ان بدنصیب لوگوں کی دلی خواہش ہے جو ان شاء اللہ کبھی پوری نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔- اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ : پچھلے جملے میں اللہ کے حکم پر استقامت میں اور ظالموں کی طرف میلان سے محفوظ رہنے میں مدد کرنے والی سب سے مضبوط چیز بتائی تھی کہ فلاں فلاں وقت میں نماز قائم کرو، اب اس کی وجہ بتائی۔ عموماً ” اِن “ تعلیل یعنی وجہ بتانے کے لیے آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نیکی گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ ابوذر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَأَتْبِعِ السَّیِّءَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُھَا ) [ مسند أحمد : ٥؍١٥٣، ح : ٢١٤١٢۔ ترمذی : ١٩٨٧۔ صحیح الجامع : ٩٧، وحسنہ الألبانی ] ” برائی کے بعد ساتھ ہی نیکی کر تو یہ اسے مٹا دے گی۔ “ نماز بھی ایک ایسی ہی نیکی ہے جس سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی اجنبی عورت کا بوسہ لیا، پھر (ازراہ ندامت) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر سوال کرنے لگا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ( اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ) تو اس آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ یہ صرف میرے لیے ہے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لِجَمِیْعِ أُمَّتِيْ کُلِّھِمْ ) ” یہ میری ساری امت کے لیے ہے۔ “ - [ بخاری، مواقیت الصلٰوۃ، باب الصلاۃ کفارۃ : ٥٢٦ ]- شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں :” نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو تین طرح : 1 جو نیکیاں کرے اس کی برائیاں معاف ہوں۔ 2 اور جو نیکیاں پکڑے اس سے خو برائی کی چھوٹے۔ 3 اور جس ملک میں نیکیوں کا رواج ہو وہاں ہدایت آئے اور گمراہی مٹے، لیکن تینوں جگہ وزن غالب چاہیے، جتنا میل اتنا صابن۔ “ (موضح) ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَنَّ نَھْرًا بِبَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُوْلُ ذٰلِکَ یُبْقِيْ مِنْ دَرَنِہِ ؟ قَالُوْا لاَ یُبْقِيْ مِنْ دَرَنِہِ شَیْءًا، قَالَ فَذٰلِکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ یَمْحُو اللّٰہُ بِہِ الْخَطَایَا ) [ بخاری، مواقیت الصلٰوۃ، باب الصلوات الخمس کفارۃ : ٥٢٨ ] ” اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ دفعہ غسل کرے تو تمہارا کیا کہنا ہے کہ یہ اس کی میل میں سے کچھ باقی چھوڑے گا ؟ “ انھوں نے کہا : ” وہ اس کی میل میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑے گا۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہی پانچوں نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نماز کی پابندی رکھئے دن کے دونوں سروں پر ( یعنی اول اور آخر میں) اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیک کام ( نامہ اعمال سے) مٹا دیتے ہیں برے کاموں کو یہ بات ( کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں) ایک ( جامع) نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کیلئے ( کیونکہ ہر نیکی اس قاعدہ کلیہ میں داخل ہے، پس اس سے ہر نیکی کی رغبت ہونا چاہئے) اور ( ان منکرین کی طرف سے جو معاملات پیش آتے ہیں ان پر) صبر کیا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے ( صبر بھی اعلی درجہ کی نیکوکاری ہے اس کا پورا اجر ملے گا اور اوپر جو سابقہ کی ہلاکت کے واقعات مذکور ہوئے) تو ( وجہ اس کی یہ ہوئی کہ) جو امتیں تم سے پہلے گزری ہیں ان میں ایسے سمجھ دار لوگ نہ ہوئے جو کہ ( دوسروں کو) ملک میں فساد ( یعنی کفر و شرک) پھیلانے سے منع کرتے بجز چند آدمیوں کے کہ جن کو ان میں سے ہم نے ( عذاب سے) بچا لیا تھا ( کہ وہ تو البتہ جیسے خود کفر و شرک سے تائب ہوگئے تھے اوروں کو بھی منع کرتے رہتے تھے اور ان ہی دونوں عمل کی برکت سے وہ عذاب سے بچ گئے تھے باقی اور لوگ چونکہ خود ہی کفر میں مبتلا تھے انہوں نے اوروں کو بھی منع نہ کیا) اور جو لوگ نافرمان تھے وہ جس ناز و نعمت میں تھے اسی کے پیچھے پڑے رہے اور جرائم کے خوگر ہوگئے ( کہ اس سے باز ہی نہ آئے، خلاصہ یہ کہ نافرمانی تو ان میں عام طور پر رہی اور منع کرنے والا کوئی ہوا نہیں اس لئے سب ایک ہی عذاب میں مبتلا ہوئے ورنہ کفر کا عذاب عام ہوتا اور فساد کا خاص، اب بوجہ منع نہ کرنے کے غیر مفسد بھی مفسد ہونے میں شریک قرار دیئے گئے اس لئے جو عذاب مجموعہ کفر و فساد پر نازل ہوا وہ بھی عام رہا) اور ( اس سے ثابت ہوگیا کہ) آپ کا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو کفر کے سبب ہلاک کردے اور ان کے رہنے والے ( اپنی اور دوسروں کی) اصلاح میں لگے ہوں ( بلکہ جب بجائے اصلاح کے فساد کریں اور فساد کرنے والوں کو منع نہ کریں اس وقت عذاب خاص کے مستحق ہوجاتے ہیں) اور اگر اللہ کو منظور ہوتا سب آدمیوں کو ایک ہی طریقہ کا بنا دیتا ( یعنی سب کو مومن کردیتا لیکن بعض حکمتوں سے ایسا منظور نہ ہوا، اس لئے دین کے خلاف مختلف طریقوں پر ہوگئے) اور ( آئندہ بھی) ہمیشہ اختلاف (ہی) کرتے رہیں گے مگر جس پر آپ کے رب کی رحمت ہو ( وہ دین کے خلاف طریقہ اختیار نہ کرے گا) اور ( ان میں اختلاف رہے) اور ( اختلاف کیلئے پیدا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ) آپ کے رب کی یہ بات پوری ہوگی کہ میں جہنم کو جنات سے اور انسانوں سے دونوں سے بھر دوں گا (اور خود اس کی حکمت یہ ہے کہ جس طرح مرحومین میں صفت رحمت کا ظہور ہو مغضوبین میں صفت غضب کی ظاہر ہو پھر اس ظہور کی حکمت یا اس حکمت کی حکمت اللہ ہی کو معلوم، غرض اس ظہور کی حکمت سے جہنم میں جانا بعضوں کا ضرور اور جہنم میں جانے کیلئے وجود کفار کا تکوینًا ضروری اور وجود کفار کے لئے اختلاف لازم، یہ وجہ ہے سب کے مسلمان نہ ہونے کی) اور پیغمبروں کے قصوں میں سے ہم یہ سارے ( مذکورہ) قصے آپ سے بیان کرتے ہیں جن کے ذریعہ سے ہم آپ کے دل کو تقویت دیتے ہیں ( ایک فائدہ بیان قصص کا تو یہ ہوا جس کا حاصل آپ کو تسلی دینا ہے) اور ان قصوں میں آپ کے پاس ایسا مضمون پہنچا ہے جو خود بھی راست ( اور قطعی) ہے اور مسلمانوں کیلئے ( برے کاموں سے روکنے کیلئے) نصیحت ہے اور ( اچھے کام کرنے کیلئے) یاد دھانی ہے ( یہ دوسرا فائدہ بیان قصص کا ہوا، ایک فائدہ نبی کیلئے، دوسرا امت کیلئے) اور جو لوگ باوجود ان حجج قاطعہ کے بھی) ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجئے کہ ( میں تم سے الجھتا نہیں) تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو ہم بھی ( اپنے طور پر) عمل کر رہے ہیں اور ( ان اعمال کے نتیجہ کے) تم ( بھی) منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں ( سو عنقریب باطل کھل جاوے گا) اور آسمانوں اور زمین میں جتنی غیب کی باتیں ہیں ان کا علم خدا ہی کو ہے ( تو بندوں کے اعمال تو غیب بھی نہیں ان کا علم تو بدرجہ اولی حق تعالیٰ کو ہے) اور سب امور اسی کی طرف رجوع ہوں گے (یعنی علم و اختیار دونوں اللہ ہی کے ہیں پھر اس کو کیا مشکل ہے اگر اعمال کی جزا و سزا دیدے اور جب وہ ایسا علم و اختیار رکھتا ہے) تو ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اسی کی عبادت کیجئے ( جس میں تبلیغ بھی داخل ہے) اور اسی پر بھروسہ رکھئے ( اگر تبلیغ میں کسی اذیت کا احتمال ہو، یہ بیچ میں بطور جملہ معترضہ کے آپ سے خطاب فرما دیا، آگے پھر وہی مضمون ہے یعنی) اور آپ کا رب ان باتوں سے بیخبر نہیں جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو ( جیسا کہ اوپر علم غیب سے اعمال کا علم بدرجہ اولی ثابت ہوگیا ) ۔- معارف و مسائل :- اسلوب قرآنی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت شان کی طرف اشارہ : - سورة ہود میں انبیاء سابقین اور ان کی قوموں کے عبرتناک حالات و واقعات ذکر کرنے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت محمدیہ کو چند ہدایات دی گئی ہیں جن کا سلسلہ پچھلی آیت (آیت) فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ سے شروع ہوا ہے، ان ہدایات میں قرآن کریم کا یہ حسن بیان کس قدر دلکش اور ادب آموز ہے کہ جس کام کا حکم مثبت انداز میں دیا گیا اس میں تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب بنایا گیا ہے اور امت محمدیہ کو تبعاً اس میں شامل کیا گیا ہے، جیسے فاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ اور مذکورہ صدر آیت میں (آیت) اَقِمِ الصَّلٰوةَ اور اس کے بعد واصْبِرْ ۔ اور جس کام سے روکا گیا اور اس سے بچنے کی ہدایت کی گئی تو اس میں براہ راست امت کو مخاطب کیا گیا، جیسے پچھلی آیتوں میں (آیت) لَا تَطْغَوْا اور لَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۔- اور غور کیا جائے تو پورے قرآن میں عام طور پر یہی طرز استعمال ہوا ہے کہ امر کا مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنایا گیا ہے اور نہی و ممانعت کا مخاطب امت کو، جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت شان کا اظہار ہے کہ جو کام قابل ترک ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی ان سے پرہیز کرتے ہیں، آپ کی فطرت سلیمہ اور طبیعت ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی تھی کہ کسی بری خواہش اور بری چیز کی طرف میلان ہی نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایسی چیزیں جو ابتداء اسلام میں جائز و حلال تھیں مگر انجام کار ان کا حرام ہونا اللہ تعالیٰ کے علم میں طے شدہ تھا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حلال ہونے کے زمانہ میں کبھی ان کے پاس نہیں گئے، جیسے شراب یا سود اور جوا وغیرہ۔- اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے آپ کو اور آپ کی پوری امت کو اقامت صلوة کا حکم دیا گیا ہے، علماء تفسیر صحابہ وتابعین کا اس پر اتفاق ہے کہ صلوة سے مراد اس جگہ فرض نمازیں ہیں ( بحر محیط، قرطبی) اور صلوة کی اقامت سے مراد اس کی پوری پابندی اور مداومت ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نماز کو اس کے تمام آداب کے ساتھ ادا کرنا مراد ہے بعض نے فرمایا کہ نماز کو اس کے افضل وقت میں ادا کرنا مراد ہے یہی تیں قول آیت اَقِمِ الصَّلٰوةَ کی تفسیر میں منقول ہیں اور درحقیقت یہ کوئی اختلاف نہیں یہ سبھی چیزیں ” اقامت صلوة “ کے مفہوم میں شامل ہیں۔- اقامت صلوة کا حکم دینے کے بعد نماز کے اوقات کا اجمالی بیان یہ ہے کہ : دن کے دونوں سروں یعنی شروع اور آخر میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کرو۔ کیونکہ زلفا، زلفة کی جمع ہے جس کے معنی ایک حصہ اور قطعہ کے ہیں، دن کے دونوں سروں کی نماز کے متعلق اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ پہلے سرے کی نماز نماز فجر ہے، آخری سرے کی نماز بعض حضرات نے مغرب کو قرار دیا ہے کہ دن کے بالکل ختم پر ہے اور بعض حضرات نے عصر کی نماز کو دن کے آخری سرے کی نماز قرار دیا ہے کیونکہ دن کی آخری نماز وہی ہے، وقت مغرب دن کا جزء نہیں بلکہ دن گزرنے کے بعد آتا ہے، اور زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ، یعنی رات کے حصوں کی نماز سے مراد جمہور مفسرین حسن بصری، مجاہد، محمد بن کعب، قتادہ، ضحاک وغیرہم نے مغرب و عشاء کی نماز کو قرار دیا ہے، اور ایک حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے ’‘ جس میں ارشاد فرمایا ہے کہ زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ، مغرب و عشاء ہیں ( تفسیر ابن کثیر ) ۔- جبکہ طَرَفَيِ النَّهَارِ سے مراد صبح اور عصر کی نماز ہوئی اور زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ سے مغرب و عشاء کی تو اس آیت میں چار نمازوں کے اوقات کا بیان آگیا صرف ظہر کی نماز کا بیان رہ گیا جو دوسری آیت (آیت) اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ میں آیا ہے۔- اس آیت میں اوقات مذکورہ میں اقامت صلوة کے حکم کے بعد ان کا ایک عظیم فائدہ بھی بتلایا گیا ہے کہ (آیت) اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ یعنی نیک کام مٹا دیتے ہیں برے کاموں کو، حضرات مفسرین نے فرمایا کہ نیک کام سے تمام نیک کام مراد ہیں، جن میں نماز، روزہ، زکوٰة، صدقات، حسن خلق، حسن معاملہ وغیرہ سب داخل ہیں مگر نماز کو ان سب میں اولیت حاصل ہے، اسی طرح السَّـيِّاٰتِ کا لفظ تمام برے کاموں کو حاوی اور شامل ہے خواہ وہ کبیرہ گناہ ہوں یا صغیرہ، لیکن قرآن مجید کی ایک دوسری آیت نیز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعدد ارشادات نے اس کو صغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے، معنی یہ ہیں کہ نیک کام جن میں نماز سب سے افضل ہے، صغیرہ گناہوں کا کفارہ کردیتے ہیں اور ان کے گناہوں سے بچتے رہو تو ہم تمہارے چھوٹے گناہوں کا خود کفارہ کردیں گے۔- صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پانچ نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک ان تمام گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں جو ان کے درمیان صادر ہوں، جبکہ یہ شخص کبائر یعنی بڑے گناہوں سے بچا رہا ہو، مطلب یہ ہے کہ بڑے گناہ تو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے مگر چھوٹے گناہ دوسرے نیک کام نماز، روزہ، صدقہ وغیرہ کرنے سے خود بھی معاف ہوجاتے ہیں، مگر تفسیر بحر محیط میں محقیقن علماء اصول کا یہ قول نقل کیا ہے کہ صغیرہ گناہ بھی نیک کام کرنے سے جبھی معاف ہوتے ہیں جبکہ آدمی ان کے کرنے پر نادم ہو اور آئندہ کیلئے نہ کرنے کا ارادہ کرے، ان پر اصرار نہ کرنے، روایات حدیث میں جتنے واقعات کفارہ ہوجانے کے منقول ہیں ان سب میں یہ تصریح بھی ہے کہ ان کا کرنے والا جب اپنے فعل پر نادم ہو اور آئندہ کیلئے توبہ کرے اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو گناہ معاف ہوجانے کی بشارت سنائی۔ واللہ اعلم۔- مشہور و معروف روایات حدیث میں کبائر یعنی بڑے گناہ ان چیزوں کو بتلا یا ہے :۔- (١) اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک یا برابر قرار دینا، (٢) قصدًا کسی فرض نماز کا چھوڑنا، (٣) کسی کو ناحق قتل کرنا، (٤) حرام کاری، (٥) چوری (٦) شراب نوشی، (٧) ماں باپ کی نافرمانی، (٨) جھوٹی قسم، (٩) جھوٹی گواہی، (١٠) جادو کرنا، (١١) سود کھانا، (١٢) یتیم کا مال ناجائز طور پر لے لینا، (١٣) میدان جہاد سے بھاگنا، (١٤) پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا، (١٥) کسی کا مال ناجائز طور پر غصب کرنا، (١٦) عہد شکنی کرنا، (١٧) امانت میں خیانت کرنا، (١٨) کسی کو گالی دینا، (١٩) کسی شخص کو ناحق مجرم قرار دیدینا وغیرہ۔ کبیرہ اور صغیرہ یعنی بڑے اور چھوٹے گناہوں کی تفصیل مستقل رسالوں میں علماء نے لکھ دی ہیں، میرے رسالہ گناہ بےلذت میں بھی مذکور ہے وہاں دیکھی جاسکتی ہے۔- بہرحال آیت مذکورہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نیک کام کرنے سے بھی گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ برے کام کے بعد نیک کام کرلو تو وہ اس کی برائی کو مٹا دے گا، اور فرمایا کہ لوگوں سے خوش خلقی کے ساتھ معاملہ کرو ( ابن کثیر بحوالہ مسند احمد ) ۔- حضرت ابوذر غفاری نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمایئے آپ نے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی گناہ ہوجائے تو اس کے بعد کوئی نیک کام کرو تاکہ وہ اس کو مٹا دے۔- درحقیقت ان حادیث میں گناہ سے توبہ کرنے کا مسنون و محمود طریقہ بتلایا گیا ہے جیسا کہ مسند احمد میں بروایت صدیق اکبر منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرکے دو رکعت نماز نفل ادا کرلے تو اس گناہ کی معافی ہوجائے گی ( الروایات کلہا من ابن کثیر) اس نماز کو نماز توبہ ہی کہا جاتا ہے۔- (آیت) ذٰلِكَ ذِكْرٰي للذّٰكِرِيْنَ ، یعنی یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے، اس میں ذلک کا اشارہ قرآن کریم کی طرف بھی ہوسکتا ہے اور احکام امر و نہی کی طرف بھی، جن کا ذکر اس سے پہلے آیا ہے، مراد یہ ہے کہ یہ قرآن یا اس کے مذکورہ احکام ان لوگوں کیلئے ہدایت و نصیحت ہیں جو نصیحت سننے اور ماننے کے عادی ہیں اس میں اشارہ یہ ہے کہ ہٹ دھرم، ضدی آدمی جو کسی چیز پر غور ہی نہ کرے وہ ہر ہدایت سے محروم رہتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ۝ ٠ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ۝ ١١٤ ۚ- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- طرف - طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ- [هود 114] - ( ط رف ) الطرف - کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- زلف - الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] - وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] - ( ز ل ف ) الزلفۃ - اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٤) اور آپ نماز کی پابندی رکھیں دن کے دونوں کناروں میں یعنی نماز صبح اور ظہر یا یہ کہ صبح، ظہر، عصر کی اور رات کے داخل ہونے پر یعنی مغرب اور عشاء کی نماز کی، بیشک پانچوں نمازوں سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں یا یہ کہ حسنات سے مراد یہ کلمات ہیں۔ ” سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر “۔- اور یہ تائبین کے لیے توبہ کا طریقہ ہے یا یہ کہ توبہ کرنے والوں کے گناہوں کے لیے یہ کفارات ہیں۔- یہ آیت کریمہ ابو الیسربن عمر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- شان نزول : (آیت) ” واقم الصلوۃ “۔ (الخ)- بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ومسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا، پھر اس کے بعد آکر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، ” واقم الصلوۃ “۔ (الخ) یعنی نیک کام برے کاموں کو مٹا دیتے ہیں، انہوں نے عرض کیا یہ حکم خاص میرے لیے ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام امت کے لیے ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے ابو الیسر سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک عورت کھجوریں خریدنے کے لیے آئی، میں نے اس سے کہا اندر گھر میں اس سے اچھی ہیں، چناچہ وہ میرے ساتھ اندر گھر میں گئی اور میں نے جھک کر اس کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس بارے میں بتایا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجاہد فی سبیل اللہ کی عدم موجودگی میں اس کے گھر والوں کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے ؟ تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی بھیجی کہ (آیت) ” واقم الصلوۃ “۔ سے للذاکرین “۔ اور اسی کے ہم معنی ابوامامہ (رض) معاذ بن جبل (رض) ابن عباس (رض) ، بریدہ (رض) وغیرہ سے روایات مروی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٤ (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ )- دن کے دونوں سروں پر فجر اور عصر کے اوقات ہیں جبکہ رات میں مغرب اور عشاء شامل ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ پانچ نمازوں کا موجودہ نظام گیارہ نبوی میں معراج کے بعد قائم ہوا ہے۔ اس سے پہلے مکی دور میں تقریباً ساڑھے دس برس تک نمازوں کے بارے میں جو احکام نازل ہوئے وہ اسی نوعیت کے ہیں۔ یہاں ایک نکتہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیں کہ حضور سے اس انداز میں صیغۂ واحد میں جو خطاب کیا جاتا ہے وہ دراصل آپ کی وساطت سے امت کو حکم دینا مقصود ہوتا ہے۔- (

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :113 دن کے دونوں سروں پر سے مراد صبح اور مغرب ہے ، اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشاء کا وقت ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ارشاد اس زمانے کا ہے جب نماز کے لیے ابھی پانچ وقت مقرر نہیں کیے گئے تھے ۔ معراج کا واقعہ اس کے بعد پیش آیا جس میں پنج وقتہ نماز فرض ہوئی ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو بنی اسرائیل حاشیہ 95 ، طہ حاشیہ 111 ، الروم ، حاشیہ 124 ) ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :114 یعنی جو برائیاں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو برائیاں تمہارے ساتھ اس دعوت حق کی دشمنی میں کی جارہی ہیں ، ان سب کو دفع کرنے کا اصلی طریقہ یہ ہے کہ تم خود زیادہ سے زیادہ نیک بنو اور اپنی نیکی سے اس بدی کو شکست دو ، اور تم کو نیک بنانے کا بہترین ذریعہ نماز ہے جو خدا کی یاد کو تازہ کرتی رہے گی اور اس کی طاقت سے تم بدی کے اس منظم طوفان کا نہ صرف مقابلہ کر سکو گے بلکہ اسے دفع کر کے دنیا میں عملا خیر و صلاح کا نظام بھی قائم کرسکو گے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو العنکبوت حواشی77 تا 79

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

62: دن کے دونوں سروں سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں اور بعض مفسرین نے ان سے فجر اور مغرب کی نمازیں مراد لی ہیں، اور رات کے حصوں کی نماز سے مراد مغرب، عشاء اور تہجد کی نمازیں ہیں۔ 63: برائیوں سے یہاں مراد صغیرہ گناہ ہیں، قرآن وسنت کے بہت سے دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان سے جو صغیرہ گناہ سرزد ہوتے ہیں ان کا کفارہ ان نیک کاموں سے ہوتا رہتا ہے جو انسان ان کے بعد کرتا ہے، چنانچہ وضو نماز اور دوسرے تمام کاموں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں، سورۃ نساء (٤۔ ٣١) میں یہ مضمون گزرچکا ہے کہ : اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔