Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

113۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ ظالموں کے ساتھ نرمی کرتے ہوئے ان سے مدد حاصل مت کرنا۔ اس سے ان کو یہ تأثر ملے گا کہ گویا تم ان کی دوسری باتوں کو بھی پسند کرتے ہو۔ اس طرح یہ تمہارا ایک بہت بڑا جرم بن جائے گا جو تمہیں بھی ان کے ساتھ، نار جہنم کا مستحق بنا سکتا ہے۔ اس سے ظالم حکمرانوں کے ساتھ ربط وتعلق کی بھی ممانعت نکلتی ہے، اگر مصلحت عامہ یا دینی منافع متقاضی ہوں۔ ایسی صورت میں دل سے نفرت رکھتے ہوئے ان سے ربط وتعلق کی اجازت ہوگی۔ جیسا کہ بعض احادیث سے واضح ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٥] کافروں سے سمجھوتہ یا دوستی کی ممانعت :۔ پہلی آیت میں ہدایات ایجابی قسم کی تھیں اور اس آیت میں سلبی قسم کی ہیں اور یہ بھی ایمان کا تقاضا ہیں یعنی اپنے مخالفوں اور اسلام دشمنوں سے دین کی باتوں میں کسی بات پر لچک پیدا نہ کرنا، نہ ان سے سمجھوتہ کیا جائے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو دوست سمجھا یا بنایا جائے۔ اگر ان میں سے تم لوگوں نے کوئی کام بھی کیا تو وہ تمہیں بھی لے ڈوبیں گے اس صورت میں تم اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکو گے اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی دوسری طاقت تمہاری کچھ مدد کرسکے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا :” رَکِنَ “ (ن، ع، ف) مائل ہونا۔ 1 ” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “ اور ” اَلظَّالِمِیْنَ “ میں فرق ہے۔ ” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “ وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، خواہ کبھی کبھار کیا ہو اور ” اَلظَّالِمِیْنَ “ ظلم کرنے والے، جن کی روش ہی یہ ہے۔ جب پہلی قسم کے لوگوں کی طرف مائل ہونے سے منع فرمایا تو دوسری قسم کی طرف مائل ہونے کا آپ خود اندازہ کرلیں۔ 2 جب ان کی طرف مائل ہونا منع ہے جنھوں نے ظلم کیا تو خود کسی پر ظلم کرنا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کس قدر قبیح ہوگا۔ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( یَا عِبَادِيْ إِنِّيْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِيْ وَ جَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوْا ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٧٧، عن أبي ذر (رض) ] ” اے میرے بندو میں نے کسی پر ظلم کرنا خود اپنے آپ پر حرام کر رکھا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام کردیا، سو تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔ “ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِتَّقُوْا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٧٨، عن جابر بن عبداللہ ] ” ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہوگا۔ “ 3 ظلم میں شرک اور دوسرے تمام ظلم شامل ہیں، یعنی جو لوگ ظلم کی طرف مائل ہوں ان سے کوئی دوستی اور محبت نہ رکھو، چاہے وہ کافر ہوں یا نام کے مسلمان۔ (شوکانی) 4 ان کی طرف مائل ہونے میں ان کے ساتھ محبت، ان کے ساتھ مجلس آرائی، ان کے پاس بیٹھنا، انھیں ملنے کے لیے جانا، ان کے ظلم پر چپ رہنا، ان کے کاموں پر خوش ہونا، ان جیسا بننا، ان کا فیشن اختیار کرنا، ان کا ذکر عزت اور تعظیم کے ساتھ کرنا، سب کچھ شامل ہے۔ ” رُکُوْنٌ“ (مائل ہونے) کا کم از کم مرتبہ پاس رہ کر چپ رہنا اور آخری مرتبہ ظلم پر ان کی حوصلہ افزائی اور مدد ہے ۔- فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۔۔ : ” َلَا تَرْكَنُوْٓا “ نہی کے جواب میں فاء نے ” تَمَسَّ “ مضارع کو نصب دیا ہے۔ اس آیت سے ظالم حکمرانوں، سرداروں اور چودھریوں سے ربط وتعلق کی ممانعت نکلتی ہے۔ ہاں ان کے شر سے بچنے کے لیے یا مصلحت عامہ یا دعوت دین یا دینی ضرورت کے تقاضے کے پیش نظر ان سے میل جول رکھے تو اس کی اجازت ہے، بشرطیکہ دل میں ان کے ظلم کی وجہ سے نفرت رکھے، جیسا کہ سورة آل عمران (٢٨) اور بعض احادیث میں آیا ہے۔ غرض ظلم کرنے والوں سے دلی محبت یا میلان کسی صورت جائز نہیں، البتہ مجبوری کی وجہ سے ان کے پاس جانا، نصیحت کرنا، ان کے ظلم پر مجبوراً خاموش رہنا یا دین کی مصلحت اور حق کی دعوت و تاکید کے لیے ربط وتعلق رکھنا الگ بات ہے۔ - لَا تُنْصَرُوْنَ : اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حاکم اگر ظالم اور بدکار ہو تو اس کی اطاعت اسی وقت ہے جب وہ ظلم یا شریعت کی نافرمانی کا حکم نہ دے۔ اگر وہ شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی اطاعت جائز نہیں، الا یہ کہ اس کے ضرر سے بچنے کے لیے بظاہر اطاعت کا اظہار کرے اور دل میں برا سمجھے، جیسا کہ اوپر سورة آل عمران کے حوالے سے گزرا۔ حاکم کی اطاعت اس وقت فرض ہے : 1 جب وہ مسلمان ہو۔ دیکھیے سورة نساء (٥٩) ۔ 2 مسلمانوں میں اقامت صلوۃ جاری رکھے۔ دیکھیے مسلم (١٨٥٥) ۔ 3 اس سے کھلم کھلا کفر کا ظہور نہ ہو۔ دیکھیے بخاری (٧٠٥٦) ۔ 4 اور وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دے۔ دیکھیے بخاری (٧١٤٤) ۔ ” وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ “ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ظالم حکمرانوں کی حمایت اور ان کی طرف میلان کا نتیجہ آخرت کے عذاب کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ولایت (دوستی و حمایت) اور اس کی نصرت (مدد) سے محرومی بھی ہے۔ آج یہ حقیقت ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں انسان کو خرابی اور بربادی سے بچانے کے لئے ایک اور اہم ہدایت نامہ دیا گیا ہے (آیت) وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ، یعنی ظالموں کی طرف ادنیٰ میلان بھی نہ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے ساتھ تمہیں بھی جہنم کی آگ لگ جائے۔ لَا تَرْكَنُوْٓا مصدر کون سے بنا ہے جس کے معنی کسی طرف خفیف سے میلان اور جھکاؤ اور اس پر اعتماد و رضا کے ہیں، اس لئے آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ ظلم و جور میں خود مبتلا ہونے کو تو دین و دنیا کی تباہی سبھی جانتے ہیں مگر ظالموں کی طرف ادنیٰ سا جھکاؤ اور میلان، ان سے راضی ہونا، ان پر اعتماد کرنا بھی انسان کو اسی بربادی کے کنارے لگا دیتا ہے۔- اس جھکاؤ اور میلان سے کیا مراد ہے ؟ اس کے متعلق صحابہ وتابعین کے چند اقوال منقول ہیں جن میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں، سب اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں :- حضرت قتادہ نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ ظالموں سے دوستی نہ کرو اور ان کا کہنا نہ مانو، ابن جریج نے فرمایا کہ ظالموں کی طرف کسی طرح کا بھی میلان نہ رکھو، ابو العالیہ نے فرمایا کہ ان کے اعمال و افعال کو پسند نہ کرو ( قرطبی) سدی نے فرمایا کہ ظالموں سے مداہنت نہ کرو یعنی ان کے برے اعمال پر سکوت یا رضا کا اظہار نہ کرو، عکرمہ نے فرمایا کہ ظالموں کی صحبت میں نہ بیٹھو، قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ شکل و صورت اور فیشن اور رہن سہن کے طریقوں میں ان کا اتباع کرنا یہ سب اسی ممانعت میں داخل ہے۔- قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ ظلم و جور کی ممانعت اور حرمت کے لئے اس آیت میں وہ انتہائی شدت ہے جو زیادہ تصور میں لائی جاسکتی ہے کیونکہ ظالموں کے ساتھ دوستی اور گہرے تعلق ہی کو نہیں بلکہ ان کی طرف ادنی درجہ کے میلان اور جھکاؤ اور ان کے پاس بیٹھنے کو بھی اس میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔- امام اوزاعی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی شخص اس عالم سے زیادہ مبغوض نہیں جو اپنی دنیوی مفاد کی خاطر کسی ظالم سے ملنے کے لئے جائے ( مظہری ) ۔- تفسیر قرطبی میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہل کفر اور اہل معصیت اور اہل بدعت کی صحبت سے اجتناب اور پرہیز واجب ہے، بجز اس کے کہ کسی مجبوری سے ان سے ملنا پڑے، اور حقیقت یہی ہے کہ انسان کی صلاح و فساد میں سب سے بڑا دخل صحبت اور ماحول کا ہوتا ہے، اسی لئے حضرت حسن بصری نے ان دونوں آیتوں کے دو لفظوں کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پورے دین کو دو حرف لاَ کے اندر جمع کردیا ہے، ایک پہلی آیت میں لَا تَطْغَوْا اور دوسرا دوسری آیت میں لَا تَرْكَنُوْٓا، پہلے لفظ میں حدود شرعیہ سے نکلنے کی اور دوسرے لفظ میں برے لوگوں کی صحبت کی ممانعت ہے اور یہی سارے دین کا خلاصہ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ۝ ٠ ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۝ ١١٣- ركن - رُكْنُ الشیء : جانبه الذي يسكن إليه، ويستعار للقوّة، قال تعالی: لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلى رُكْنٍ شَدِيدٍ [هود 80] ، ورَكنْتُ إلى فلان أَرْكَنُ بالفتح، والصحیح أن يقال : رَكَنَ يَرْكُنُ ، ورَكِنَ يَرْكَنُ «2» ، قال تعالی: وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا[هود 13] ،- ( ر ک ن ) رکن - ۔ کسی چیز کی وہ جانب جس کے سہارے پر وہ قائم ہوتی ہے استعارہ کے طور پر ذور اور قوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلى رُكْنٍ شَدِيدٍ [هود 80] اے کاش ( آج ) مجھ کو تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوئی یا میں کسبی زبر دست سہارے کا آسرا پکڑا جاتا ۔ اور رکنت الی ٰ فلان ارکن کے معنی کسی کیطرف مائل ہونے کے ہیں یہ فتح کاف کے ساتھ ہے مگر صحیح رکن یر کن ( ن) یا رکن یر کن ( س) ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا[هود 13] جن لوگوں نے ہماری نافرمانی کی انکی طرف نہ جھکنا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ظالم کے ساتھ الفت کی ممانعت - قول باری ہے ولا ترکنوا الی اذین ظلموا افتمسکم النار۔ ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آ جائو گے ۔ کسی چیز کی طرف رکون یعنی جھکنے کے معنی یہ ہیں اس کے ساتھ لگائو اور محبت کی بنا پر جھکنے والے کو اس پر قرار آجائے۔ یہ بات ظالموں کی ہم نشینی ان سے الفت اور ان کی باتوں پر کان دھرنے کی ممانعت کی مقتضی ہے ، اس کی نظیر یہ قول باری ہے فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین یاد آ جانے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٣) اور اے مسلمانو ان لوگوں کی طرح مت جھکو جنہوں نے کفر وشرک اور گناہ کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے کہیں تمہیں دوزخ کی آگ لگ جائے، جیسا کہ ان لوگوں کو لگی ہوئی ہے اور اللہ کے علاوہ تمہارے رشتہ داروں اور ساتھیوں میں کوئی دوزخ کی آگ لگ جائے، جیسا کہ ان لوگوں کو لگی ہوئی ہے اور اللہ کے علاوہ تمہارے رشتہ داروں اور ساتھیوں میں کوئی نہیں جو تمہیں عذاب الہی سے بچا لے اور پھر تمہارے حق میں جس چیز کا ارادہ ہوچکا ہے وہ نہ ٹالا جائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٣ (وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا)- یہ خالص حق اور باطل کی کش مکش ہے اس میں کہیں کوئی رشتہ داری کا معاملہ کوئی پرانے مراسم قبیلے کی محبت وغیرہ عوامل تم لوگوں کو کسی لمحے ان کی طرف جھکنے پر مائل نہ کریں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani