استقامت کی ہدایت استقامت اور سیدھی راہ پر دوام ، ہمیشگی اور ثابت قدمی کی ہدایت اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور تمام مسلمانوں کو کر رہا ہے ۔ یہی سب سے بڑی چیز ہے ۔ ساتھ ہی سرکشی سے روکا ہے کیونکہ یہی توبہ کرنے والی چیز ہے گو کسی مشرک ہی پر کی گئی ہو ۔ پرودگار بندوں کے ہر عمل سے آگاہ ہے مداہنت اور دین کے کاموں میں سستی نہ کرو ۔ شرک کی طرف نہ جھکو ۔ مشرکین کے اعمال پر رضامندی کا اظہار نہ کرو ۔ ظالموں کی طرف نہ جھکو ۔ ورنہ آگ تمہیں پکڑ لے گی ۔ ظالموں کی طرف داری ان کے ظلم پر مدد ہے یہ ہرگز نہ کرو ۔ اگر ایسا کیا تو کون ہے جو تم سے عذاب اللہ ہٹائے؟ اور کون ہے جو تمہیں اس سے بچائے ۔
112۔ 1 اس آیت میں نبی اور اہل ایمان کو ایک تو استقامت کی تلقین کی جا رہی ہے، جو دشمن کے مقابلے کے لئے ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ دوسرے حد سے بڑھ جانے سے روکا گیا ہے، جو اہل ایمان کی اخلاقی قوت اور رفعت کردار کے لئے بہت ضروری ہے۔ حتٰی کہ یہ تجاوز، دشمن کے ساتھ معاملہ کرتے وقت بھی جائز نہیں ہے۔
[١٢٤] یعنی آپ خود بھی اور آپ کے متبعین بھی مخالفین کی باتوں کی قطعاً پروا نہ کریں اور اللہ کے حکم بجالانے کے لیے مضبوطی سے ڈٹ جائیں اور اس کی قائم کردہ حدود کا پورا پورا خیال رکھیں، ان سے تجاوز نہ کریں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایک ایک فرد سے اور تمہارے تمام تر اعمال سے پوری طرح خبردار ہے۔
فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكًَ : ” فَاسْتَقِمْ “ میں سین اور تاء کا اضافہ یا تو طلب کے لیے ہے، معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح سیدھا اور قائم رہنے کی درخواست کرتا رہ جس طرح تجھے حکم دیا گیا ہے اور یہ اضافہ مبالغے اور تاکید کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ قرطبی نے فرمایا، استقامت دائیں یا بائیں طرف جائے بغیر ایک طرف کو سیدھے چلتے چلے جانا ہے۔ یہ معنی یہاں زیادہ مناسب ہے۔ پہلا معنی بھی درست ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ہی ہم ہر رکعت میں صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔ استقامت کا معنی باطل کے دونوں کناروں افراط اور تفریط (زیادتی اور کمی) سے بچ کر ان کے عین درمیان سیدھا رہنا ہے۔ یہ نہایت مشکل کام ہے۔ پہلے تو ہر وقت اس کا خیال رکھنا ہی مشکل ہے کہ عین صحیح راستہ کیا ہے ؟ پھر اس پر قائم رہنا اس سے بھی مشکل ہے۔ رازی نے اسے ایک مثال سے سمجھایا ہے کہ دھوپ اور چھاؤں کے درمیان ایک جگہ ہے۔ اس کا معلوم کرنا اور ہر وقت اس کا خیال رکھنا کس قدر مشکل ہوگا۔ اس لیے اہل علم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمایا تھا : ( شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ ) [ ترمذی : ٣٢٩٧] ” مجھے سورة ہود نے بوڑھا کردیا۔ “ اس کا سبب انبیاء ( علیہ السلام) کی قوموں پر عذاب کے واقعات کے بجائے یہ حکم ہے : (فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ )- ” فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ “ سے معلوم ہوا کہ سیدھا راستہ جس پر خوب ثابت رہنے کا حکم ہے، صرف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی فرمایا۔ یہاں استقامت کا حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان تمام لوگوں کو ہے جو کفر سے توبہ کر کے آپ کے ساتھ اہل ایمان میں داخل ہوئے، مگر سب کو کس چیز پر استقامت کا حکم ہے، صرف اس پر جسے ” فاستقم “ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یعنی صرف اس پر جس کا حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے امر صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوا ہے، آپ کے سوا ابوبکر (رض) سے لے کر امت کے آخری شخص تک ایک بھی شخص ایسا نہیں جو مامور من اللہ ہو اور جسے وحی کے ذریعے سے حکم ملتا ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا ایک شخص بھی ایسا نہیں جس کی رائے اللہ کا حکم یا دین ہو، جس پر امت کو قائم رہنے کا حکم ہو۔ اس سے تمام تقلیدی گروہوں کا استقامت سے ہٹ جانا ثابت ہوا۔ نجات چاہتے ہیں تو تمام لوگوں کی رائے، قیاس اور تقلیدی گروہ بندی چھوڑ کر صرف کتاب و سنت کو لازم پکڑنا ہوگا۔- استقامت (اللہ کے حکم پر پوری طرح قائم رہنا) ایک نہایت جامع لفظ ہے، جس میں پوری شریعت آجاتی ہے۔ عقائد میں اللہ کی صفات پر اس طرح ایمان جس طرح اس نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کسی صفت کا انکار کرنا (تعطیل) ، نہ اسے مخلوق کی صفات جیسا سمجھنا (تشبیہ) بلکہ جیسا اللہ کی شان کے لائق ہے۔ اعمال میں نہ کسی حکم پر عمل چھوڑنا (نافرمانی) اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنا یا آپ سے الگ راستہ نکالنا (رہبانیت اور بدعت) ۔ اخلاق میں، مثلاً نہ بخل کرنا نہ بےجا خرچ کرنا۔ غرض ہر چیز میں عین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحیح راستہ معلوم کرکے اس پر قدم بہ قدم چلنا استقامت ہے۔ سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ آپ مجھے اسلام میں کوئی ایسی بات بتلائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے ؟ فرمایا : ( قُلْ آمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ) ” کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر خوب ثابت قدم رہ۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب جامع أوصاف الإسلام : ٣٨ ] استقامت کے اجر اور فضیلت کے لیے دیکھیے سورة حٰم السجدہ (٣٠) اور احقاف ( ١٣) ۔- وَلَا تَطْغَوْا : ” طَغٰی یَطْغَی طُغْیَانًا “ حد سے بڑھنا، یعنی شریعت کی اطاعت کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حدیں مقرر کردی ہیں اپنے آپ کو انھی کے اندر رکھو، ان سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرو۔ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ان سے تجاوز حرام ہے۔ انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ تین آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کے گھروں کی طرف آئے۔ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کے بارے میں پوچھ رہے تھے، جب انھیں بتایا گیا تو گویا انھوں نے اسے کم سمجھا اور کہنے لگے : ( وَأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَدْ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ ، قَالَ أَحَدُھُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّيْ أُصَلِّي اللَّیْلَ أَبَدًا، وَ قَالَ آخَرُ أَنَا أَصُوْمُ الدَّھْرَ وَلاَ أُفْطِرُ ، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ إِلَیْھِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَ کَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّيْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہٗ لٰکِنِّيْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ ، وَ أُصَلِّيْ وَأَرْقُدُ ، وَ أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ ) [ بخاری، النکاح، باب الترغیب في النکاح : ٥٠٦٣ ] ” ہماری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا نسبت ؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے پہلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں۔ “ ان میں سے ایک نے کہا : ” میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔ “ دوسرے نے کہا : ” میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا۔ “ تیسرے نے کہا : ” میں عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔ “ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے تو آپ نے فرمایا : ” تم لوگوں نے اس اس طرح کہا ہے ؟ یاد رکھو، اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خشیت رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں، لیکن میں تو روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور نماز پڑھتا ہوں اور سو بھی جاتا ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو شخص میری سنت (میرے طریقے) سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔ “ رہے روزانہ ایک ہزار رکعتیں پڑھنے والے، چالیس سال تک عشاء اور فجر ایک وضو سے پڑھنے والے، بارہ سال بھوکے جنگل میں عبادت کرنے والے حضرات، تو یا تو صاف ان پر جھوٹ باندھا گیا ہے، کیونکہ یہ انسان کے بس کی بات ہی نہیں، یا پھر وہ اسی طغیانی کا شکار تھے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ (نعوذ باللہ)- اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ : یعنی استقامت اختیار کرو یا طغیانی، اللہ تعالیٰ تمہارا عمل سب دیکھ رہا ہے۔
خلاصہ تفسیر - جس طرح کہ آپ کو حکم ہوا ہے ( راہ دین پر) مستقیم رہیے اور وہ لوگ بھی (مستقیم رہیں) جو کفر سے توبہ کر کے آپ کے ساتھ ہیں اور دائرہ (دین) سے ذرا مت نکلو یقینًا وہ تم سب کے اعمال کو خوب دیکھتا ہے اور ( اے مسلمانو ان) ظالموں کی طرف (یا جو ان کی مثل ہوں ان کی طرف دلی دوستی سے یا اعمال و احوال میں مشارکت و مشابہت سے) مت جھکو، کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جاوے اور ( اس وقت) خدا کے سوا تمہارا کوئی رفاقت کرنے والا نہ ہو پھر تمہاری حمایت کسی طرف سے بھی نہ ہو ( کیونکہ رفاقت تو حمایت سے سہل ہے جب رفاقت کرنے والا بھی کوئی نہیں تو حمایت کرنے والا کون ہوتا ) ۔- معارف و مسائل - سورة ہود میں انبیاء سابقین اور ان کی قوموں کے واقعات نوح (علیہ السلام) سے شروع کر کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک خاصی ترتیب و تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیں جن میں سینکڑوں مواعظ و حکم اور احکام و ہدایات ہیں، ان واقعات کے ختم پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے امت محمدیہ کو ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی، فرمایا (آیت) ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي نَقُصُّهٗ عَلَيْكَ مِنْهَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ، یعنی یہ ہیں پہلے شہروں اور بستیوں کے واقعات جو ہم نے آپ کو سنائے ہیں، یہ بستیاں جن پر اللہ تعالیٰ کے عذاب آئے ان میں سے بعض کے تو ابھی کچھ عمارات یا کھنڈرات موجود ہیں اور بعض بستیاں ایسی کردی گئی ہیں جیسے کھیتی کاٹنے کے بعد زمین ہموار کردی جائے پچھلی کھیتی کا نشان تک نہیں رہتا۔- اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہ اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے کو چھوڑ کر بتوں اور دوسری چیزوں کو اپنا خدا بنا بیٹھے، جس کا انجام یہ ہوا کہ جب خدا تعالیٰ کا عذاب آیا تو ان خود ساختہ خداؤں نے ان کی کوئی مدد نہ کی، اور اللہ تعالیٰ جب بستیوں کو عذاب میں پکڑتے ہیں تو ان کی گرفت ایسی ہی سخت اور درد ناک ہوا کرتی ہے۔- اس کے بعد ان کو آخرت کی فکر میں مشغول کرنے کے لئے فرمایا کہ ان واقعات میں ان لوگوں کیلئے بڑی عبرت اور نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہیں، جس دن تمام اولاد آدم ایک جگہ جمع اور موجود ہوگی، اس دن کا حال یہ ہوگا کہ کسی شخص کی مجال نہ ہوگی کہ بغیر اجازت خداوندی ایک حرف بھی زبان سے بول سکے۔- اس کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکرر خطاب کرکے ارشاد فرمایا (آیت) فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۭ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ، یعنی آپ دین کے راستہ پر اسی طرح مستقیم رہے جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی مستقیم رہیں جو کفر سے توبہ کرکے آپ کے ساتھ ہوگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود سے نہ نکلو کیونکہ وہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔- استقامت کا مفہوم اور اہم فوائد و مسائل : - استقامت کے معنی سیدھا کھڑا رہنے کے ہیں، جس میں کسی طرف ذرا سا جھکاؤ نہ ہو، ظاہر ہے کہ یہ کام آسان نہیں، کسی لوہے پتھر وغیرہ کے عمود کو ماہر انجینئر ایک مرتبہ اس طرح کھڑا کرسکتے ہیں کہ اس کے ہر طرف زاویہ قائمہ ہی رہے کسی طرف ادنی میلان نہ ہو لیکن کسی متحرک چیز کا ہر وقت ہر حال میں اس حالت پر قائم رہنا کس قدر مشکل ہے وہ اہل بصیرت سے مخفی نہیں۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مسلمانوں کو اس آیت میں اپنے ہر کام میں ہر حال میں استقامت پر رہنے کا حکم فرمایا گیا ہے، استقامت لفظ تو چھوٹا سا ہے مگر مفہوم اس کا ایک عظیم الشان وسعت رکھتا ہے کیونکہ معنی اس کے یہ ہیں کہ انسان اپنے عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت، کسب معاش اور اس کی آمد و صرف کے تمام ابواب میں اللہ جل شانہ کی قائم کردہ حدود کے اندر اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر سیدھا چلتا رہے، ان میں سے کسی باب کے کسی عمل اور کسی حال میں کسی ایک طرف جھکاؤ یا کمی، زیادتی ہوجائے تو استقامت باقی نہیں رہتی۔- دنیا میں جتنی گمراہیاں اور عملی خرابیاں آتی ہیں وہ سب اسی استقامت سے ہٹ جانے کا نتیجہ ہوتی ہیں، عقائد میں استقامت نہ رہے تو بدعات سے شروع ہو کر کفر و شرک تک نوبت پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات وصفات کے متعلق جو معتدل اور صحیح اصول رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائے اس میں افراط وتفریط یا کمی بیشی کرنے والے خواہ نیک نیتی ہی سے اس میں مبتلا ہوں گمراہ کہلائے گی، انبیاء (علیہم السلام) کی عظمت و محبت کی جو حدود مقرر کردی گئی ہیں ان میں کمی کرنے والوں کا گمراہ و گستاخ ہونا تو سب ہی جانتے ہیں، ان میں زیادتی اور غلو کرکے رسول کو خدائی صفات و اختیارات کا مالک بنادینا بھی اسی طرح کی گمراہی ہے، یہود و نصاری اسی گمراہی میں کھوئے گئے، عبادات اور تقرب الی اللہ کے لئے جو طریقے قرآن عظیم اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعین فرما دیئے ہیں، ان میں ذرا سی کمی کوتاہی جس طرح انسان کو استقامت سے گرا دیتی ہے اسی طرح ان میں اپنی طرف سے کوئی زیادتی بھی استقامت کو برباد کرکے انسان کو بدعات میں مبتلا کردیتی ہے، وہ بڑی نیک نیتی سے یہ سمجھتا رہتا ہے کہ میں اپنے رب کو راضی کر رہا ہوں اور وہ عین ناراضگی کا سبب ہوتا ہے اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کو بدعات و محدثات سے بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اس کو شدید گمراہی قرار دیا ہے، اس لئے انسان پر لازم ہے کہ جب وہ کوئی کام عبادت اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا جوئی کے لئے کرے تو کرنے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلے یہ کام رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے اس کیفیت و صورت کے ساتھ ثابت ہے یا نہیں اگر ثابت نہیں تو اس میں اپنا وقت اور توانائی ضائع نہ کرے۔- اسی طرح معاملات اور اخلاق و معاشرت کے تمام ابواب میں قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عملی تعلیم کے ذریعہ ایک معتدل اور صحیح راستہ قائم کردیا ہے جس میں دوستی، دشمنی، نرمی، گرمی، غصہ اور بردباری، کنجوسی اور سخاوت، کسب معاش اور ترک دنیا، اللہ پر توکل اور امکانی تدبیر، اسباب ضروریہ کی فراہمی اور مسبب الاسباب پر نظر، ان سب چیزوں میں ایک ایسا معتدل صراط مستقیم مسلمانوں کو دیا ہے کہ اس کی نظیر عالم میں نہیں مل سکتی، ان کو اختیار کرنے سے ہی انسان کامل بنتا ہے اس میں استقامت سے ذرا گرنے ہی کے نتیجہ میں معاشرہ کے اندر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ استقامت ایک ایسا جامع لفظ ہے کہ دین کے تمام اجزاء و ارکان اور ان پر صحیح عمل اس کی تفسیر ہے۔- سفیان بن عبداللہ ثقفی نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے اسلام کے معاملہ میں کوئی ایسی جامع بات بتلا دیجئے کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے، آپ نے فرمایا قل امنت باللہ ثم استقم، یعنی اللہ پر ایمان لاؤ اور پھر اس پر مستقیم رہو، ( رواہ مسلم۔ از قرطبی) - اور عثمان بن حاضر ازدی فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ عباس کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرما دیجئے، آپ نے فرمایا علیک بتقوی اللہ والاستقامۃ اتبع ولا تبتدع ( رواہ الدارمی فی مسندہ۔ از قرطبی) یعنی تم تقوی اور خوف خدا کو لازم پکڑو اور استقامت کو بھی، جس کا طریقہ یہ ہے کہ دین کے معاملہ میں شریعت کا اتباع کرو، اپنی طرف سے کوئی بدعت ایجاد نہ کرو۔- اس دنیا میں سب سے زیادہ دشوار کام استقامت ہی ہے اسی لئے محققین صوفیاء نے فرمایا ہے کہ استقامت کا مقام کرامت سے بالاتر ہے، یعنی جو شخص دین کے کاموں میں استقامت اختیار کئے ہوئے ہے، اگرچہ عمر بھر اس سے کوئی کرامت صادر نہ ہو، وہ اعلی درجہ کا ولی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ پورے قرآن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس آیت سے زیادہ سخت اور شاق کوئی آیت نازل نہیں ہوئی، اور فرمایا کہ جب صحابہ کرام نے ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لحیہ مبارک میں کچھ سفید بال دیکھ کر بطور حسرت و افسوس کے عرض کیا کہ اب تیزی سے بڑھاپا آپ کی طرف آرہا ہے تو فرمایا کہ مجھے سورة ہود نے بوڑھا کردیا، سورة ہود میں جو پچھلی قوموں پر سخت و شدید عذاب کے واقعات مذکور ہیں وہ بھی اس کا سبب ہوسکتے ہیں مگر ابن عباس نے فرمایا کہ یہ آیت ہی اس کا سبب ہے۔- تفسیر قرطبی میں ابو علی سری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے خو اب میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی تو عرض کیا کہ کیا آپ نے ایسا فرمایا ہے کہ مجھے سورة ہود نے بوڑھا کردیا ؟ آپ نے فرمایا ہاں انہوں نے پھر دریافت کیا کہ اس سورت میں جو انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات اور ان کی قوموں کے عذاب کا ذکر ہے اس نے آپ کو بوڑھا کیا ؟ تو فرمایا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس رشاد نے (آیت) فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ - یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو انسان کامل کی مثالی صورت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے تھے اور فطری طور پر استقامت آپ کی عادت تھی مگر پھر اس قدر بار یا تو اس لئے محسوس فرمایا کہ آیت میں مطلق استقامت کا حکم نہیں بلکہ حکم یہ ہے کہ امر الہٰی کے مطابق استقامت ہونا چاہئے، انبیاء (علیہم السلام) پر جس قدر خوف و خشیت الہٰی کا غلبہ ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے، اس خشیت ہی کا یہ اثر تھا کہ باوجود کامل استقامت کے یہ فکر لگ گئی کہ اللہ جل شا نہ کو جیسی استقامت مطلوب ہے وہ پوری ہوئی یا نہیں۔- اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو اپنی استقامت کی تو زیادہ فکر نہ تھی کیونکہ وہ بحمداللہ حاصل تھی مگر اس آیت میں پوری امت کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے، امت کا استقامت پر قائم رہنا دشوار دیکھ کر یہ فکر و غم طاری ہوا۔- حکم استقامت کے بعد فرمایا وَلَا تَطْغَوْا، یہ لفظ مصدر طغیان سے بنا ہے، اس کے معنی حد سے نکل جانے کے ہیں جو ضد ہے استقامت کی، آیت میں استقامت کا حکم مثبت انداز میں صادر فرمانے پر کفایت نہیں فرمائی بلکہ اس کے منفی پہلو کی ممانعت بھی صراحۃ ذکر کردی کہ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق وغیرہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ حدود سے باہر نہ نکلو کہ یہ ہر فساد اور دینی و دنیوی خرابی کا راستہ ہے۔
فَاسْتَقِمْ كَـمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ٠ اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ١١٢- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(١١٢) سو اطاعت خداوندی پر جیسا کہ آپ کو قرآن حکیم میں حکم ہوا ہے مستقیم رہیے اور وہ حضرات بھی جو کفر وشرک سے توبہ کرکے آپ کی ہمراہی میں آچکے ہیں، آپ کے ساتھ مستقیم رہیں اور کفر وشرک نہ کرو اور قرآن کریم میں جو حلال و حرام کے بارے میں احکامات ہیں ان کی نافرمانی نہ کرو، اللہ تعالیٰ خیر وشر کو خوب دیکھتا ہے۔
آیت ١١٢ (فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ ) - آپ کے ساتھ وہ لوگ بھی صبر و استقامت کے ساتھ ڈٹے رہیں جو شرک سے باز آئے ہیں جنہوں نے کفر کو چھوڑا ہے اور آپ کے ساتھ ایمان لائے ہیں۔- (وَلاَ تَطْغَوْا)- تجاوز کی ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ منکرین حق پر جلد عذاب لے آنے کی خواہش کریں اور یہ بھی کہ چاروں طرف سے ان لوگوں کی مخالفت کے سبب کسی لمحے غصے میں آجائیں اور حلم و بردباری کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھیں۔- (اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ)- اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال بھی دیکھ رہا ہے اور جو کچھ تمہارے مخالفین کر رہے ہیں ان کی تمام حرکتیں بھی اس کے علم میں ہیں۔ اس لیے اس کے ہاں سے تمہیں تمہارا اجر وثواب ملے گا اور ان لوگوں کو ان کے کرتوتوں کی سزاملے گی۔