وَاِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ ۔۔ :” كُلًّا “ میں تنوین عوض کی ہے، یعنی اس کا مضاف الیہ محذوف ہے۔ اصل میں تھا ” کُلُّھُمْ “ یا ” کُلُّ ھٰؤُلَاءِ “ (یہ سب لوگ) ” لَمَّا “ کا معنی ” جب “ ہے، یہ حرف شرط ہے جس کی شرط محذوف ہے۔ ” لَيُوَفِّيَنَّهُمْ “ اس کی جزا ہے۔ وہ محذوف شرط ” لَمَّا “ کے معنی کے مطابق نکالی جائے گی، یعنی ” لَمَّا جَاءَ أَجَلُھُمْ “ یعنی بیشک یہ سب لوگ (جب ان کا وقت آئے گا) تو یقیناً انھیں ان کا رب ان کے اعمال کا ضرور پورا پورا بدلہ دے گا۔ چونکہ وہ لوگ قیامت کے منکر تھے، اس لیے اس جملے میں کئی طرح سے تاکید آئی ہے۔ ” اِنَّ “ ، لام تاکید اور نون ثقیلہ۔ ” لَّمَّا “ کا مابعد حذف کرنے سے بھی ایک ہیبت پیدا ہو رہی ہے، کیونکہ خود لفظ ” لَّمَّا “ میں وقت کا مفہوم شامل ہے، یعنی جب وہ وقت آئے گا۔ ( ” اِنَّ كُلًّا لَّمَّا “ کی یہ سب سے واضح اور آسان توجیہ ہے) دیکھیے تفسیر الشعراوی۔ تفسیر نسفی میں ہے : ” قَالَ صَاحِبُ الإِْیْجَازِ ” لَمَّا “ فِیْہِ مَعْنَی الظَّرْفِ وَقَدْ دَخَلَ فِی الْکَلاَمِ اخْتِصَارٌ کَأَنَّہُ قِیْلَ ” وَإِنَّ کُلاًّ لَّمَّا بُعِثُوْا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ “ مطلب وہی ہے جو اوپر گزرا، البتہ انھوں نے ” لَمَّا جَاءَ أَجَلُھُمْ “ کے بجائے ” لَمَّا بُعِثُوْا “ محذوف نکالا ہے۔ - اِنَّهٗ بِمَا يَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ : اس میں اعمال کی جزا پوری پوری دینے کی وجہ بیان کی ہے کہ وہ ان کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے، اس لیے عمل نیک ہو یا بد اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔
وَاِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّہُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَہُمْ ٠ ۭ اِنَّہٗ بِمَا يَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ١١١- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- وُفِّيَتْ- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔
(١١١) اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک کو آپ کا پروردگار ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا، نیکی کا ثواب کے ساتھ اور برائی کا عذاب کے ساتھ وہ خیر وشر ثواب و عذاب سے پوری طرح واقف ہے۔