Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کافروں کی تنقید کی پراہ نہ کریں کافروں کی زبان پر جو آتا وہی طعنہ بازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں اسلیے اللہ تعالیٰ اپنے سچے پیغمبر کو دلاسا اور تسلی دیتا ہے کہ آپ نہ اس سے کام میں سستی کریں ، نہ تنگ دل ہوں یہ تو ان کا شیوہ ہے ۔ کبھی وہ کہتے ہیں اگر یہ رسول ہے تو کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے؟ بازاوں میں کیوں آتا جاتا ہے؟ اس کی ہم نوائی میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتر؟ اسے کوئی خزانہ کیوں نہیں دیا گیا ؟ اس کے کھانے کو کوئی خاص باغ کیوں نہیں بنایا گیا ؟ مسلمانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ تم تو اس کے پیچھے چل رہے ہو ۔ جس پر جادو کر دیا گیا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے پیغمبر آپ ملول خاطر نہ ہوں ، آزردہ دل نہ ہوں ، اپنے کام سے نہ رکئے ، انہیں حق کی پکار سنانے میں کوتاہی نہ کیجئے ، دن رات اللہ کی طرف بلاتے رہیئے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی تکلیف دہ باتیں آپ کو بری لگتی ہیں ، آپ توجہ بھی نہ کیجئے ۔ ایسا نہ ہو آپ مایوس ہوجائیں یا تنگ دل ہو کر بیٹھ جائیں کہ یہ آوازے کستے ، پھبتیاں اڑاتے ہیں ۔ اپنے سے پہلے کے رسولوں کو دیکھئے سب جھٹلائے گئے ستائے گئے اور صابر و ثابت قدم رہے یہاں تک اللہ کی مدد آپہنچی ۔ پھر قرآن کا معجزہ بیان فرمایا کہ اس جیسا قرآن لانا تو کہاں؟ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی ساری دنیا مل کر بنا کر نہیں لا سکتی اس لیے کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ جیسی اس کی ذات مثال سے پاک ، ویسے ہی اس کی صفتین بھی بےمثال ۔ اس کے کام جیسا مخلوق کا کلام ہو یہ ناممکن ہے ۔ اللہ کی ذات اس سے بلند بالا پاک اور منفرد ہے معبود اور رب صرف وہی ہے ۔ جب تم سے یہی نہیں ہو سکتا اور اب تک نہیں ہو سکا تو یقین کر لو کہ تم اس کے بنانے سے عاجز ہو اور دراصل یہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اس کا علم ، اس کے حکم احکام اور اسکی روک ٹوک اسی کلام میں ہیں اور ساتھ ہی مان لو کہ معبود برحق صرف وہی ہے بس آؤ اسلام کے جھنڈے تلے کھڑے ہو جاؤ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 مشرکین نبی کی بابت کہتے رہتے تھے کہ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ نازل کیوں نہیں ہوتا، یا اس کی طرف سے کوئی خزانہ کیوں نہیں اتار دیا جاتا، ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ آپ کی بابت جو باتیں کہتے ہیں ان سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔ سورة الحجر اس آیت میں انہی باتوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ شاید آپ کا سینہ تنگ ہو اور کچھ باتیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں اور وہ مشرکین پر گراں گزرتی ہیں ممکن ہے آپ وہ انھیں سنانا پسند نہ کریں آپ کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے، وہ آپ ہر صورت میں کئے جائیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥] آپ قریش مکہ کے معبودوں کو نہ کوئی گالی دیتے تھے اور نہ ہی انھیں برا بھلا کہتے تھے بلکہ صرف یہ کہتے تھے کہ تمہارے یہ معبود نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں اور اسی بات پر مشرکین چڑ جاتے تھے کیونکہ اس بات کو وہ اپنے معبودوں کی بھی توہین تصور کرتے تھے اپنی بھی اور اپنے آباؤ اجداد کی بھی۔ اس بات کا کوئی معقول جواب تو ان کے پاس تھا نہیں اس کے بجائے وہ یہ کرتے کہ کبھی اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑانے لگتے، کبھی تکذیب کرتے اور کبھی کچھ اعتراضات یا مطالبے شروع کردیتے ممکن ہے ان کی مسلسل اس قسم کی حرکات کے نتیجہ میں آپ کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ انھیں ایسی آیات سنانے کا کیا فائدہ ہے جبکہ وہ ایمان لانے کے بجائے الٹا چڑ جاتے ہیں اور پھبتیاں کسنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان باتوں سے آپ کو رنجیدہ خاطر اور تنگ دل نہ ہونا چاہیے جو وحی آپ پر نازل ہو رہی ہے آپ انھیں سنا دیا کریں۔ آپ کی اتنی ہی ذمہ داری ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان سے خود نمٹ لے گا۔- قریش کی معجزہ طلبیاں :۔ قریش مکہ کے اعتراضات یا مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اگر تم واقعی اللہ کے پیغمبر ہو تو تم پر اللہ کی طرف سے کوئی خزانہ بھی نازل ہونا چاہیے تھا جس سے تمہاری مالی حالت بہتر ہوجاتی اور اس مادی قوت کے بل بوتے پر ہی تم لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا سکتے یا کوئی فرشتہ ہی تمہارے ساتھ موجود رہنا چاہیے تھا جس سے تمہیں روحانی طاقت بھی حاصل ہوجاتی اور لوگوں کو بھی تمہاری نبوت کا یقین ہوجاتا اور وہ تم پر ایمان لے آتے جب ان میں سے کوئی بھی چیز تمہیں میسر نہیں تو ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں ؟ آپ کافروں کی ان باتوں سے دل گرفتہ نہ ہوں کیونکہ معجزے دکھلانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں اور انھیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ رہی معجزے کی بات تو معجزے دکھلانا اللہ کا کام ہے جو ہر چیز کا مالک و مختار ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ ۔۔ : کفار ہر وقت کوئی نہ کوئی معجزہ لانے کی فرمائش کرتے رہتے تھے کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ چلیے آپ احد پہاڑ ہی سونے کا بنا دیجیے، یا کوئی فرشتہ ہی ساتھ لے آئیے۔ ان کی عجیب و غریب فرمائشوں کا ذکر سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) اور سورة فرقان (٧، ٨) میں کچھ تفصیل کے ساتھ ہے۔ ان آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے شبہات، مطالبات اور طعن و تشنیع سے تنگ آ کر آپ پریشان اور غم زدہ نہ ہوجائیں، بلکہ شرک کی مذمت کے لیے اور توحید کے اثبات کے لیے جو بھی وحی آئے آپ کسی بھی کمی بیشی کے بغیر ان تک پہنچاتے رہیں۔ یہ نہ ہو کہ وحی کا وہ حصہ حذف کردیں جس میں بتوں کی عیب جوئی اور شرک کی مذمت ہے۔ - اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ : یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ نے محض عذاب سے ڈرانے کے لیے بھیجا ہے، لہٰذا کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کیے بغیر آپ اس فریضہ کو سرانجام دیتے رہیں۔ - وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ : یعنی ان کے مطالبات کو پورا کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے، ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو آپ کو ایک خزانہ کیا روئے زمین کے تمام خزانے دے دے گا اور ایک فرشتہ کیا آپ پر سیکٹروں فرشتے اتار دے گا۔ بہرحال جیسی اس کی مصلحت اور حکمت ہوگی ویسا ہی کرے گا، آپ کو ان چیزوں سے کیا غرض ؟ ہر چیز کا نگران وہ خود ہے۔ آپ تو اللہ تعالیٰ کا جو حکم آئے بےدھڑک ان کو سناتے رہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چوتھی آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے، واقعہ یہ تھا کہ مشرکین مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مختلف قسم کی فرمائشیں پیش کیں ایک یہ کہ اس قرآن میں ہمارے بتوں کو برا کہا گیا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان نہیں لاسکتے، اس لئے یا تو آپ کوئی دوسرا قرآن لائیں یا اسی میں بدل کر ترمیم کردیں، ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ ( بغوی، مظہری) - دوسرے یہ کہ ہم آپ کے رسول ہونے پر جب یقین کریں کہ یا تو دنیا کے بادشاہوں کی طرح آپ پر کوئی خزانہ نازل ہوجائے جس سے سب کو بخشش کریں، یا پھر کوئی فرشتہ آسمان سے آجائے وہ آپ کے ساتھ یہ تصدیق کرتا پھرے کہ بیشک یہ اللہ کے رسول ہیں۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی لغو و بیہودہ فرمائشوں سے دل تنگ ہوئے، کیونکہ رحمۃ للعالمین سے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، ان کے ایمان لانے کی فکر کو دل سے نکال دیں، اور نہ یہ ممکن تھا کہ ان کی بےہودہ فرمائشوں کو پورا کریں، کیونکہ اول تو یہ فرمائشیں نری بےعقلی پر مبنی ہیں، بت اور بت پرستی اور دوسری بری چیزوں کو برا نہ کہا جائے تو ہدایت کیسے ہو اور خزانہ کا نبوت کے ساتھ کیا جوڑ، ان لوگوں نے نبوت کو بادشاہت پر قیاس کرلیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ دستور نہیں کہ ایسی حالت پیدا کردیں کہ لوگ ایمان لانے پر مادی طور سے مجبور ہوجائیں، ورنہ سارا جہاں اس کے قبضہ قدرت میں ہے کسی کی کیا مجال تھی کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی عقیدہ یا عمل رکھ سکتا، مگر اس نے اپنی حکمت بالغہ سے اس دنیا کو دار الامتحان بنایا ہے، یہاں کسی نیکی پر عمل یا بدی سے پرہیز پر مادی اسباب کے ذریعہ کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا البتہ آسمانی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ نیک و بد اور اچھے برے کا امتیاز اور ان کے نتائج بتلا کر نیکی پر عمل اور بدی سے پرہیز پر آمادہ کیا جاتا ہے، اگر رسول کے ساتھ معجزانہ طور پر کوئی فرشتہ اس کے قول کی تصدیق کے لئے مامور ہوتا اور جب کوئی نہ مانتا تو اسی وقت اس کو نقد عذاب کا سامنا ہوتا تو یہ ایمان پر مجبور کرنے کی ایک صورت ہوتی نہ اس میں ایمان بالغیب رہتا جو ایمان کی اصل روح ہے اور نہ انسان کا اپنا کوئی اختیار رہتا جو اس کے عمل کی روح ہے اور علاوہ اس کے کہ ان کی فرمائشیں لغو اور بےہودہ تھیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی فرمائشیں کرنا خود اس کی دلیل تھی کہ یہ لوگ رسول و نبی کی حقیقت کو نہیں پہچانتے، رسول اور خدا میں کوئی فرق نہیں کرتے، رسول کو خدا تعالیٰ کی طرح قادر مطلق سمجھتے ہیں اسی لئے اس سے ایسے کاموں کی فرمائش کرتے ہیں جو اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔- غرض رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ایسی فرمائشوں سے سخت دلگیر اور دل تنگ ہوگئے تو آپ کی تسلی اور ان کے خیالات کی اصلاح کے لئے یہ آیت نازل ہوئی، جس میں پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا گیا کہ کیا آپ ان کے کہنے سے مجبور ہو کر اللہ کے بھیجے ہوئے قرآن کا کوئی حصہ چھوڑ دیں گے جس سے یہ لوگ ناخوش ہوتے ہیں، مثلا جس میں بتوں کی مجبوری و بےکسی اور کسی چیز پر قادر نہ ہونے کا بیان ہے، اور کیا آپ ان کی ایسی فرمائشوں سے دل تنگ ہوجائیں گے، یہاں لفظ لَعَلَّكَ سے اس مضمون کو تعبیر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقع آپ کے بارے میں ایسا گمان ہوسکتا تھا، بلکہ مقصود آپ کا ان چیزوں سے بری ہونا بیان کرنا ہے کہ آپ نہ قرآن کا کوئی حصہ ان کی رعایت سے چھوڑ سکتے ہیں اور نہ آپ کو ان کی فرمائشوں سے دل تنگی ہونی چاہئے، کیونکہ آپ تو اللہ کی طرف سے نذیر یعنی ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں اور سب کاموں کو سرانجام دینا تو اللہ ہی کی قدرت میں ہے، ڈرانے والے کی تخصیص مخاطب کی خصوصیت کی وجہ سے کی گئی کیونکہ یہ کافر تو ڈرانے ہی کے مستحق ہیں ورنہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے نذیر یعنی ڈرانے والے ہیں ایسے ہی بشیر یعنی نیک لوگوں کو خوشخبری سنانے والے بھی ہیں، اس کے علاوہ نذیر درحقیقت اس ڈرانے والے کو کہتے ہیں جو شفقت و محبت کی بنا پر خراب اور مضر چیزوں سے ڈرائے، اس لئے نذیر کے مفہوم میں بشیر کا مفہوم بھی ایک حیثیت سے شامل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ وَضَاۗىِٕقٌۢ بِہٖ صَدْرُكَ اَنْ يَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ كَنْزٌ اَوْ جَاۗءَ مَعَہٗ مَلَكٌ۝ ٠ ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۝ ١٢ ۭ- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے - «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - كنز - الْكَنْزُ : جعل المال بعضه علی بعض وحفظه . وأصله من : كَنَزْتُ التّمرَ في الوعاء، وزمن الْكِنَازُ «2» : وقت ما يُكْنَزُ فيه التّمر، وناقة كِنَازٌ مُكْتَنِزَةُ اللّحم . وقوله تعالی: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] أي : يدّخرونها، وقوله : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ- [ التوبة 35] ، وقوله : لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] أي : مال عظیم . - ( ک ن ز ) الکنز - ( ض ) کے معنی دولت جمع کر کے اس محفوظ رکھ دینے کے ہیں یہ اصل میں کنزت التمر فی الواعاء سے مشتق ہے ۔ - جس کے معنی کھجور کا بار دان میں بھر کر محفوظ کرلینے کے ہیں ۔ اور کھجوا اندوختہ کرنے کے موسم مو زمن الکناز کہا جاتا ہے ۔ اور ناقتہ کناز کے معنی گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ - : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔ میں یکنزون سے مراد وہ لوگ ہیں جو سونا اور چاندی جمع کرنے مصروف رہتے ہیں ۔ اور اسے راہ خدا میں صرف نہیں کرتے ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کہاجائے گا : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة 35] کہ جو کچھ جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔ اور آیت لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] میں کنز کے معنی خزانہ اور بڑی دولت کے ہیں - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم میں جو تبلیغ رسالت اور ان کفار کے معبودوں کی تردید اور برائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے، سو شاید ان کے مذاق سے تنگ آکر آپ اس کو چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔- اور ان امور کے پورا کرنے میں آپ کا دل کفار مکہ کی اس بات سے تنگ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آسمان سے کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا تاکہ آپ عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزارتے یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا جو ان کی نبوت کی گواہی دیتا، آپ تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ڈرانے والے پیغمبر ہیں اور ان کی باتوں اور ان کو عذاب دینے پر پورا اختیار رکھنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ ہی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَضَاۗىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ يَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ جَاۗءَ مَعَهٗ مَلَكٌ ۭ ) - یہ مضمون اس سے پہلے بڑی وضاحت کے ساتھ سورة الانعام میں آچکا ہے لیکن زیر مطالعہ گروپ کی مکی سورتوں میں بھی جا بجا مشرکین کی ایسی باتوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں گروپس میں شامل یہ تمام مکی سورتیں ایک ہی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ - یہاں مکی سورتوں کی ترتیب مصحف کے بارے میں ایک اہم نکتہ سمجھ لیں۔ رسول اللہ کے قیام مکہ کے بارہ سال کے عرصے کو اگر چار چار سال کے تین حصوں میں تقسیم کریں تو پہلے حصے یعنی پہلے چار سال میں جو سورتیں نازل ہوئیں وہ قرآن مجید کے آخری دو گروپوں میں شامل ہیں ‘ یعنی سورة قٓ سے لے کر آخر تک۔ درمیانی چار سال کے دوران نازل ہونے والی سورتیں درمیانی گروپوں میں شامل ہیں اور آخری چار سال میں جو سورتیں نازل ہوئی ہیں وہ شروع کے دو گروپوں میں شامل ہیں۔ ایک گروپ میں سورة الانعام اور سورة الاعراف جبکہ اس دوسرے گروپ میں سورة یونس تا سورة المؤمنون (اس میں صرف ایک استثناء ہے جس کا ذکر بعد میں آئے گا) ۔ - (اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ)- اس دور کی سورتوں میں مختلف انداز میں بار بار حضور کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا فرض منصبی یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو خبردار کردیں۔ اس کے بعد تمام معاملات اللہ کے حوالے ہیں۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ ایمان یا ہدایت کی توفیق کسے دینی ہے اور کسے نہیں دینی۔ کوئی معجزہ دکھانا ہے یا نہیں نافرمانوں کو کب تک مہلت دینی ہے اور کب ان پر عذاب بھیجنا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :13 اس ارشاد کا مطلب سمجھنے کے لیے ان حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جن میں یہ فرمایا گیا ہے ۔ مکہ ایک ایسے قبیلے کا صرف مقام ہے جو تمام عرب پر اپنے مذہبی اقتدار ، اپنی دولت و تجارت اور اپنے سیاسی دبدبے کی وجہ سے چھایا ہوا ہے ۔ عین اس حالت میں جب کہ یہ لوگ اپنے انتہائی عروج پر ہیں اس بستی کا ایک آدمی اٹھتا ہے اور علی الاعلان کہتا کہ جس مذہب کے تم پیشوا ہو وہ سراسر گمراہی ہے ، جس نظام تمدن کے تم سردار ہو وہ اپنی جڑ تک گلا اور سڑا ہوا نظام ہے ، خدا کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تلا کھڑا ہے اور تمہارے لیے اس سے بچنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اس مذہب حق اور اس نظام صالح کو قبول کر لو جو میں خدا کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ اس شخص کے ساتھ اس کی پاک سیرت اور اس کی معقول باتوں کے سوا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے جس سے عام لوگ اسے مامور من اللہ سمجھیں ۔ اور گردوپیش کے حالات میں بھی مذہب و اخلاق اور تمدن کی گہری بنیادی خرابیوں کے سوا کوئی ایسی ظاہر علامت نہیں ہے جو نزول عذاب کی نشان دہی کر تی ہو ۔ بلکہ اس کے برعکس تمام نمایاں علامتیں یہی ظاہر کر رہی ہیں کہ ان لوگوں پر خدا کا ( اور ان کے عقیدے کے مطابق ) دیوتاؤں کا بڑا فضل ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک ہی کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں یہ بات کہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ، اور اس کے سوا کچھ ہو بھی نہیں سکتا ، کہ چند نہایت صحیح الدماغ اور حقیقت رس لوگوں کے سوا بستی کے سب لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ کوئی ظلم و ستم سے اس کو دبانا چاہتا ہے ۔ کوئی جھوٹے الزامات اور اوچھے اعتراضات سے اس کی ہوا اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کوئی متعصبانہ بے رخی سے اس کی ہمت شکنی کرتا ہے اور کوئی مذاق اڑا کر ، آوازے اور پھبتیاں کس کر ، اور ٹھٹھے لگا کر اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے ۔ یہ استقبال جو کئی سال تک اس شخص کی دعوت کا ہوتا رہتا ہے ، جیسا کچھ دل شکن اور مایوس کن ہو سکتا ہے ، ظاہر ہے ۔ بس یہی صورت حال ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ہمت بندھانے کے لیے تلقین فرماتا ہے کہ اچھے حالات میں پھول جانا اور برے حالات میں مایوس ہو جانا چھچورے لوگوں کا کام ہے ۔ ہماری نگاہ میں قیمتی انسان وہ ہے جو نیک ہو اور نیکی کے راستے پر صبر و ثبات اور پامردی کے ساتھ چلنے والا ہو ۔ لہٰذا جس تعصب سے ، جس بے رخی سے ، جس تضحیک و استہزا سے اور جن جاہلانہ اعتراضات سے تمہارا مقابلہ کیا جا رہا ہے ان کی وجہ سے تمہارے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آنے پائے ۔ جو صداقت تم پر بذریعہ وحی منکشف کی گئی ہے اسکے اظہار و اعلان میں اور اس کی طرف دعوت دینے میں تمہیں قطعا کوئی باک نہ ہو ۔ تمہارے دل میں اس خیال کا کبھی گزر تک نہ ہو کہ فلاں بات کیسے کہوں جبکہ لوگ سنتے ہی اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور فلاں حقیقت کا اظہار کیسے کروں جب کہ کوئی اس کے سننے تک کا روادار نہیں ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، تم جسے حق پاتے ہو اسے بےکم و کاست اور بے خوف بیان کیے جاؤ ، آگے سب معاملات اللہ کے حوالہ ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ آپ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں تو ہمارا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں رہے گا۔ اس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کے لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ جو وحی آپ پر نازل کی جا رہی ہے، اس کا کوئی حصہ آپ ان لوگوں کو راضی کرنے کے لیے چھوڑ بیٹھیں۔ لہذا ان کی ایسی باتوں سے آپ زیادہ رنجیدہ نہ ہوں، کیونکہ آپ کا کام تو یہ ہے کہ انہیں حقیقت سے آگاہ فرما دیں اس کے بعد یہ لوگ مانیں، یا نہ مانیں، یہ آپ کی نہیں، خود ان کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ لوگ جو فرمائشیں کر رہے ہیں کہ آپ پر کوئی خزانہ نازل ہو، تو بھلا نبوت کا خزانے سے کیا تعلق ہے؟ تمام تر اختیار اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہ اپنی حکمت کے تحت فیصلہ فرماتا ہے کہ کونسی فرمائش پوری کرنی چاہئے اور کونسی نہیں۔ واضح رہے کہ یہ ترجمہ بعض مفسرین کے اس قول پر مبنی ہے۔ قیل : ان لعل ھنا لیست للترجی بل للتعبید۔ وقیل انھا للاستفہام الانکار۔ (روح المعانی ج :12 ص : 307، 706)