Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلا نبی؟ سب سے پہلے کافروں کی طرف رسول بنا کر بت پرستی سے روکنے کے لیے زمین پر حضرت نوح علیہ السلام ہی بھیجے گئے تھے ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں اگر تم غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑو گے تو عذاب میں پھنسو گے ۔ دیکھو تم صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرتے رہو ۔ اگر تم نے خلاف ورزی کی تو قیامت کے دن کے دردناک سخت عذابوں میں مجھے تمہارے لینے کا خوف ہے ۔ اس پر قومی کافروں کے رؤسا اور امراء بول اُٹھے کہ آپ کوئی فرشتہ تو ہیں نہیں ہم جیسے ہی انسان ہیں ۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم سب کو چھوڑ کر تم ایک ہی کے پاس وحی آئے ۔ اور ہم اپنی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ایسے رذیل لوگ آپ کے حلقے میں شامل ہوگئے ہیں کوئی شریف اور رئیس آپ کا فرماں بردار نہیں ہوا اور یہ لوگ بےسوچے سمجھے بغیر غور و فکر کے آپ کی مجلس میں آن بیٹھے ہیں اور ہاں میں ہاں ملائے جاتے ہیں ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس نئے دین نے تمہیں کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچایا کہ تم خوش حال ہوگئے ہو تمہاری روزیاں بڑھ گئی ہوں یا خلق و خلق میں تمہیں کوئی برتری ہم پر حاصل ہو گئی ہو ۔ بلکہ ہمارے خیال سے تم سب سے جھوٹے ہو ۔ نیکی اور صلاحیت اور عبادت پر جو وعدے تم ہمیں آخرت ملک کے دے رہے ہو ہمارے نزدیک تو یہ سب بھی جھوٹی باتیں ہیں ۔ ان کفار کی بےعقلی تو دیکھئے اگر حق کے قبول کرنے والے نچلے طبقہ کے لوگ ہوئے تو کیا اس سے حق کی شان گھٹ گئی؟ حق حق ہی ہے خواہ اس کے ماننے والے بڑے لوگ ہوں خواہ چھوٹے لوگ ہوں ۔ بلکہ حق بات یہ ہے کہ حق کی پیروی کرنے والے ہی شریف لوگ ہیں ۔ چاہے وہ مسکین مفلس ہی ہوں اور حق سے روگردانی کرنے والے ہیں ذلیل اور رذیل ہیں گو وہ غنی مالدار اور امیر امراء ہوں ۔ ہاں یہ واقع ہے کہ سچائی کی آواز کو پہلے پہل غریب مسکین لوگ ہی قبول کرتے ہیں اور امیر کبیر لوگ ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں ۔ فرمان قرآن ہے کہ تجھ سے پہلے جس جس بستی میں ہمارے انبیاء آئے وہاں کے بڑے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے آپ باپ دادوں کو جس دین پر یایا ہے ہم تو انہیں کی خوشہ چینی کرتے رہیں گے ۔ شاہ روم ہرقل نے جو ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ شریف لوگوں نے اس کی تابعداری کی ہے یا ضعیف لوگوں نے؟ تو اس نے یہی جواب دیا تھا کہ ضعیفوں نے جس پر ہرقل نے کہا تھا کہ رسولوں کے تابعدار یہی لوگ ہوتے ہیں ۔ حق کی فوری قبولیت بھی کوئی عیب کی بات نہیں ، حق کی وضاحت کے بعد رائے فکر کی ضرورت ہی کیا ؟ بلکہ ہر عقل مند کا کام یہی ہے کہ حق کو ماننے میں سبقت اور جلدی کرے ۔ اس میں تامل کرنا جہالت اور کند ذہنی ہے ۔ اللہ کے تمام پیغمبر بہت واضح اور صاف اور کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اس میں کچھ نہ کچھ جھجھک ضرور پائی سوائے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کہ انہوں نے کوئی تردد و تامل نہ کیا واضح چیز کو دیکھتے ہی فوراً بےجھجھک قبول کرلیا ان کا تیسرا اعتراض ہم کوئی برتری تم میں نہیں دیکھتے یہ بھی ان کے اندھے پن کی وجہ سے ہے اپنی ان کی آنکھیں اور کان نہ ہوں اور ایک موجود چیز کا انکار کریں تو فی الواقع اس کا نہ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ۔ یہ تو نہ حق کو دیکھیں نہ حق کو سنیں بلکہ اپنے شک میں غوطے لگاتے رہتے ہیں ۔ اپنی جہالت میں ڈبکیاں مارتے رہتے ہیں ۔ جھوٹے مفتری خالی ہاتھ رذیل اور نقصانوں والے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠] سیدنا نوح کا قصہ پہلے سورة اعراف کے رکوع نمبر ٨ میں بھی گذر چکا ہے لہذا وہ حواشی بھی مدنظر رکھے جائیں۔- [٣١] یعنی تمہیں صاف صاف بتارہا ہوں کہ کن باتوں اور کاموں کے ارتکاب سے تم پر عذاب آنے کا اندیشہ ہے اور اس عذاب سے بچنے کے ذرائع کیا ہیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖٓ : جن حالات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں توحید کی دعوت پیش کر رہے تھے، وہ چونکہ ویسے ہی حالات تھے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) کو پیش آ چکے تھے، اس لیے حسب موقع یہاں سے گزشتہ انبیاء کا ذکر کیا جا رہا ہے اور باقی سورت تقریباً اسی تذکرے سے بھری ہوئی ہے، تاکہ ایک طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمت بندھے، آپ کو اور مسلمانوں کو تسلی ہو کہ انجام کار اللہ کے رسولوں اور اہل حق کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یقیناً مدد ہوتی ہے اور دوسری طرف پہلی قوموں کے اعتراضات اور ان کے انبیاء کے جوابات آپ کے لیے نمونہ بنیں اور آپ کی قوم کو پہلے کفار کے انجام سے ڈرایا جائے۔ - آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، وہ اور ان کی اولاد سب موحد اور دین حق پر تھے، پھر شیطان کے بہکانے سے بزرگوں کی پوجا بت پرستی کی صورت میں شروع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین پر سب سے پہلے رسول نوح (علیہ السلام) بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں ہے اور بت پرستی کے آغاز کی تفصیل سورة نوح میں آئے گی۔ نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں ٤٣ بار آیا ہے۔ - اِنِّىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : نوح (علیہ السلام) نے صرف ڈرانے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ان کی قوم نے سمع و طاعت کا اظہار ہی نہیں کیا کہ انھیں خوش خبری دی جاتی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے نوح ( علیہ السلام) کو ان کی قوم کے پاس رسول بنا کر ( یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت مت کرو ( اور جو بت تم نے قرار دے رکھے ہیں، وَدّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو چھوڑ دو ، چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جا کر ان سے فرمایا کہ) میں تم کو ( درصورت عبادت غیر اللہ کے) صاف صاف ڈراتا ہوں ( اور اس ڈرانے کی تفصیل یہ ہے کہ) میں تمہارے حق میں ایک بڑے تکلیف دینے والے دن کے عذاب کا اندیشہ کرتا ہوں سو ان کی قوم میں جو کافر سردار تھے وہ ( جواب میں) کہنے لگے کہ ( تم جو نبوت کا دعوی کرتے ہو جیسا نذیر مبین سے معلوم ہوتا ہے تو ہمارے جی کو یہ بات نہیں لگتی کیونکہ) ہم تو تم کو اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں ( اور بشر کا نبی ہونا دور از کار ہے) اور اگر ( بعض لوگوں کے اتباع کرنے سے استدلال کیا جاوے تو وہ قابل استدلال نہیں کیونکہ) ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارا اتباع انہیں لوگوں نے کیا ہے جو ہم میں بالکل رذیل ہیں ( جن کی عقل اکثر خفیف ہوتی ہے پھر) وہ ( اتباع) بھی محض سرسری رائے سے ( ہوا ہے یعنی اول تو ان کی عقل ہی صائب نہیں غور کے بعد بھی غلطی کرتے دوسرے پھر غور بھی نہیں کیا، اس لئے ایسے لوگوں کا تم کو نبی سمجھ لینا یہ کوئی حجت نہیں بلکہ بالعکس ہمارے اتباع سے مانع ہے کیوں کہ شرفاء کو رذیلوں کی موافقت سے عار آتی ہے نیز اکثر ایسے کم حوصلہ لوگوں کے اغراض بھی حصول مال یا ترفع ہوا کرتا ہے، سو یہ لوگ بھی دل سے ایمان نہیں لائے) اور ( اگر یہ کہا جاوے کہ باوجود رذیل ہونے کے ان لوگوں کو کسی خاص امر کے اعتبار سے ہم پر فضیلت ہے جس کے اعتبار سے ان کی رائے اس بات میں سائب ہے سو) ہم تم لوگوں میں ( یعنی تم میں اور مسلمانوں میں) کوئی بات اپنے سے زیادہ نہیں پاتے ( اس لئے تم مسلمانوں کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے) بلکہ ہم تم کو ( بالکل) جھوٹا سمجھتے ہیں، نوح ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میری قوم ( تم جو کہتے ہو کہ تمہاری نبوت جی کو نہیں لگتی تو) بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی جانب سے دلیل پر ( قائم) ہوں ( جس سے میری نبوت ثابت ہوتی ہو) اور اس نے مجھ کو اپنے پاس سے رحمت ( یعنی نبوت) عطا فرمائی ہو پھر وہ ( نبوت یا اس کی حجت) تم کو نہ سوجھتی ہو تو ( میں کیا کروں محبوب ہوں) کیا ہم اس ( دعوٰی یا دلیل) کو تمہارے سر منڈھ دیں اور تم اس سے نفرت کئے چلے جاؤ مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ کہنا کہ جی کو نہیں لگتی یہ محض اس وجہ سے ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں، اور میرے پاس اس کے واقع اور صحیح ہونے کی دلیل موجود ہے یعنی معجزہ وغیرہ نہ کہ کسی کا اتباع، اس سے اس کا جواب بھی ہوگیا کہ ان کا اتباع حجت نہیں لیکن کسی دلیل کا فائدہ موقوف ہے غور و فکر پر وہ تم کرتے نہیں اور یہ میرے بس سے باہر ہے) اور ( اتنی بات اور زائد فرمائی کہ) اے میری قوم ( یہ تو سوچو کہ اگر میں نبوت کا غلط دعوٰی کرتا تو آخر اس میں میرا کچھ مطلب تو ہوتا مثلا یہی ہوتا کہ اس کے ذریعہ سے خوب مال کماؤں گا تو تم کو معلوم ہے کہ) میں تم سے اس ( تبلیغ) پر کچھ مال نہیں مانگتا، میرا معاوضہ تو صرف اللہ کے ذمہ ہے ( اسی سے آخرت میں اس کا طالب ہوں اسی طرح اور اغراض بھی اگر غور کرو تو منتفی پاؤ گے پھر جب کوئی غرض نہیں پھر مجھ کو جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ تھا خلاصہ یہ ہے کہ کذب دعوی کو کوئی امر مقتضی نہیں اور صدق دعوی پر دلیل قائم ہے پھر نبوت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے) اور ( تم جو اتباع اراذل کو اپنے اتباع سے مانع بتلاتے ہو اور صراحةً یا دلالةً یہ چاہتے ہو کہ میں ان کو اپنے پاس سے نکال دوں سو) میں تو ان ایمان والوں کو نکالتا نہیں ( کیونکہ) یہ لوگ اپنے رب کے پاس ( عزت و مقبولیت کے ساتھ) جانے والے ہیں ( اور بھلا کوئی شخص مقربان شاہی کو نکالا کرتا ہے اور اس سے اس کا بھی جواب ہوگیا کہ یہ لوگ دل سے ایمان نہیں لائے) لیکن واقعی میں تم لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ ( خواہ مخواہ کی) جہالت کر رہے ہو ( اور بےڈھنگی باتیں کر رہے ہو) اور ( بالفرض والتقدیر) اگر میں ان کو نکال بھی دوں تو ( یہ بتلاؤ کہ) مجھ کو خدا کی گرفت سے کون بچائے گا ( کیا تم میں اتنی ہمت ہے جو ایسے بیہودہ مشورے دے رہے ہو) کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے اور ( اس تقریر میں ان کے تمام شبہات کا جواب ہوگیا لیکن آگے ان سب جوابوں کا پھر تتمہ ہے یعنی جب میری نبوت دلیل سے ثابت ہے تو اول تو دلیل کے سامنے استبعاد کوئی چیز نہیں پھر یہ کہ وہ مستبعد بھی انہیں البتہ کسی امر عجیب و غریب کا اگر دعوی کرتا تو انکار واستبعاد چندان منکر و مستبعد نہ تھا گو دلیل کے بعد پھر وہ بھی مسموع نہیں البتہ اگر دلیل بھی مقتضی استبعاد کو ہو تو پھر واجب ہے لیکن میں تو کسی ایسے امر عجیب کا دعوی نہیں کرتا چنانچہ) میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ میں ( یہ کہتا ہوں کہ میں) تمام غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور ( یہ تو اپنی نبوت کے متعلق ارشاد فرمایا، آگے اپنے تابعین کے متعلق ارشاد ہے یعنی) جو لوگ تمہاری نگاہوں میں حقیر ہیں میں ان کی نسبت ( تمہاری طرح) یہ نہیں کہہ سکتا کہ ( یہ لوگ دل سے ایمان نہیں لائے اس لئے) اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو ثواب نہ دے گا ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کو اللہ ہی خوب جانتا ہے ( تو ممکن ہے کہ ان کے دلوں میں اخلاص ہو تو پھر میں ایسی بات کیونکر کہہ دوں) میں تو ( اگر ایسی بات کہہ دوں تو) اس صورت میں ستم ہی کروں ( کیونکہ بےدلیل دعوٰی کرنا گناہ ہے، جب نوح (علیہ السلام) نے سب باتوں کا پورا پورا جواب دے دیا جس کا جواب پھر ان سے کچھ بن نہ پڑا تو عاجز ہوکر) وہ لوگ کہنے لگے کہ اے نوح تم ہم سے بحث کرچکے پھر اس بحث کو بڑھا بھی چکے سو ( اب بحث چھوڑو اور) جس چیز سے تم ہم کو دھمکایا کرتے ہو ( کہ عذاب آجاوے گا) وہ ہمارے سامنے لے آؤ انہوں نے فرمایا کہ ( اس کو لانے والا میں کون ہوں مجھ کو پہنچا دینے سنا دینے کا حکم تھا سو میں بجا لاچکا) اس کو تو اللہ تعالیٰ بشرطیکہ اس کو منظور ہو تمہارے سامنے لاوے گا اور ( اس وقت پھر) تم اس کو عاجز نہ کرسکو گے ( کہ وہ عذاب واقع کرنا چاہے اور تم نہ ہونے دو ) اور ( جو میرا کام تھا پہنچا دینا اور سنا دینا اس میں میں نے تمہاری پوری خیر خواہی اور دلسوزی کی لیکن) میری خیر خواہی تمہارے کام نہیں آسکتی گو میں تمہاری کیسی ہی خیر خواہی کرنا چاہوں جب کہ اللہ ہی کو تمہارا گمراہ کرنا منظور ہو ( جس کی وجہ تمہارا عناد و استکبار ہے مطلب یہ کہ جب تم ہی اپنی بد قسمتی سے اپنے لئے نفع حاصل کرنا اور نقصان سے بچنا نہ چاہو تو میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے) وہی تمہارا مالک ہے ( اور تم مملوک تو تم پر اس کے تمام حقوق واجب ہیں اور تم ان کو براہ عناد ضائع کرکے مجرم ہو رہے ہو) اور اسی کے پاس تم کو جانا ہے ( وہ تمہارے اس سارے عناد و کفر کی کسر نکال دے گا) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن خود تراش لیا ہے آپ ( جواب میں) فرما دیجئے کہ اگر ( بالفرض) میں نے تراشا ہوگا تو میرا یہ جرم مجھ پر ( عائد) ہوگا ( اور تم میرے جرم سے بری الذمہ ہوگے) اور ( اگر تم نے یہ دعوی تراشا ہوگا یعنی مجھ پر بہتان لگایا ہوگا تو تمہارا یہ جرم تم پر عائد ہوگا اور) میں تمہارے اس جرم سے بری الذمہ رہوں گا۔- معارف و مسائل - حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی تو قوم نے ان کی نبوت و رسالت پر چند شبہات و اعتراضات پیش کئے، حضرت نوح (علیہ السلام) نے باذن اللہ ان کے جوابات دیئے جن کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل دیانت اور معاشرت کے بھی آگئے ہں، آیات مذکورہ میں یہی مکالمہ فرمایا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِہٖٓ۝ ٠ۡاِنِّىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٢٥ ۙ- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥) حضرت نوح (علیہ السلام) جس وقت اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے کہا کہ میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے رسول بنا کر یہ پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :29 مناسب ہو کہ اس موقع پر سورہ اعراف رکوع ۸ کے حواشی پیش نظر رکھے جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani