26۔ 1 یہ وہی دعوت توحید ہے جو ہر نبی نے آ کر اپنی اپنی قوم کو دی۔ جس طرح فرمایا (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25) 21 ۔ الانبیاء :25) جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے، ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔ 26۔ 2 یعنی اگر مجھ پر ایمان نہیں لائے اور اس دعوت توحید کو نہیں اپنایا تو عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکو گے،
[٣٢] قوم نوح اپنے پانچ فوت شدہ بزرگوں کے مجسموں کی پجاری تھی یعنی ود، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر کے مجسموں کو پوجتے تھے۔ اس کی تفصیل پہلے سورة اعراف میں گذر چکی ہے۔ اور سورة نوح میں بھی یہ ذکر آئے گا۔- [٣٣] المناک دن سے مراد قیامت کا دن بھی ہے اور وہ دن بھی جب طوفان نوح آیا تھا۔
اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ ۔۔ : یہی ہر رسول کی دعوت تھی اور یہی سب کی بعثت کا مقصد تھا، فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) [ الأنبیاء : ٢٥ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ ” میں تم پر دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں “ کے بجائے فرمایا : ” دردناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ “ یہ زیادہ ڈرانے کے لیے فرمایا کہ وہ عذاب اتنا دردناک ہے کہ جس دن وہ آئے گا وہ دن ہی سرا سر الم والا، یعنی نہایت دردناک ہوگا۔ یہی بات اس سورت کی آیت (٣) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی۔
اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ ٠ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ اَلِيْمٍ ٢٦- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
(٢٦) اور میں تمہیں کھلے طور پر ڈراتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو تم پر کیا درد ناک عذاب یعنی غرق ہونے کا عذاب نازل ہوگا۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :30 یہ وہی بات ہے جو اس سورہ کےآغاز میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہوئی ہے ۔