27۔ 1 یہ وہی شبہ ہے، جس کی پہلے کئی جگہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت و رسالت کا اجتماع بڑا عجیب تھا، جس طرح آج کے اہل بدعت کو بھی عجیب لگتا ہے اور وہ بشریت رسول کا انکار کرتے ہیں۔ 27۔ 2 حق کی تاریخ میں یہ بات بھی ہر دور میں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتداء میں اس کو اپنانے والے ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں بےنوا کم تر سمجھا جاتا تھا اور صاحب حیثیت اور خوش حال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتی کہ پیغمبروں کے پیروکاروں کی علامت بن گئی۔ چناچہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفیان سے نبی کی بابت پوچھا تو اس میں ان سے ایک بات یہ بھی پوچھی کہ اس کے پیروکار معاشرے کے معزز سمجھے جانے والے لوگ ہیں یا کمزور لوگ حضرت ابو سفیان نے جواب میں کہا کمزور لوگ جس پر ہرقل نے کہا رسولوں کے پیروکار یہی لوگ ہوتے ہیں (صحیح بخاری) ۔ قرآن کریم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خوش حال طبقہ ہی سب سے پہلے پیغمبروں کی تکذیب کرتا رہا ہے۔ ( سورة زخرف۔ 23) (وَكَذٰلِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَآ ۙاِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ 23) 43 ۔ الزخرف :23) اور یہ اہل ایمان کی دنیاوی حیثیت تھی اور جس کے اعتبار سے اہل کفر انھیں حقیر اور کم تر سمجھتے تھے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ حق کے پیروکار معزز اور اشراف ہیں چاہے وہ مال و دولت کے اعتبار سے فروتر ہی ہوں اور حق کا انکار کرنے والے حقیر اور بےحیثیت ہیں چاہے وہ دنیوں اعتبار سے مال دار ہی ہوں۔ 27۔ 3 اہل ایمان چونکہ، اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی عقل و دانش اور رائے کا استعمال نہیں کرتے، اس لئے اہل باطل یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بےسوچ سمجھ والے ہیں کہ اللہ کا رسول انھیں جس طرف موڑ دیتا ہے، یہ مڑ جاتے ہیں جس چیز سے روک دیتا ہے، رک جاتے ہیں۔ یہ بھی اہل ایمان کی ایک بڑی بلکہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ لیکن اہل کفر و باطل کے نزدیک یہ خوبی بھی " عیب " ہے۔
[٣٤] یہ وہی اعتراض ہے جو کہ منکرین حق کی طرف سے تمام انبیاء پر ہوتا رہا ہے جن کے خیال میں نبی کو یا تو مافوق البشر مخلوق ہونا چاہیے یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہر وقت رہنا چاہیے یا کم از کم دنیوی وجاہت کے لحاظ سے یعنی مال و دولت اور شان و شوکت کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ جب تک ان کے نظریہ کے مطابق نبی کو ان چیزوں میں سے کوئی امتیازی چیز حاصل نہ ہو وہ نبی نہیں ہوسکتا۔- [٣٥] کسی نبی کے ابتدائی پیر و کاروں کے خصائل :۔ منکرین حق کا دوسرا بڑا اعتراض یہی ہوتا ہے کہ کیونکہ نبی پر سب سے پہلے ایمان لانے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو معاشرہ اور قوم کے چودھریوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ ہوں، غریب ہوں، نوجوان اور باہمت ہوں اور جو ایسے ظالمانہ معاشرہ کے سامنے ڈٹ جانے کی کچھ جرأت بھی رکھتے ہوں ایسے ہی لوگ ہر نبی کا ابتدائی سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی لوگ قوم کے چودھریوں کی نظروں میں کھٹکتا خار بن جاتے ہیں حتیٰ کہ چودھری لوگ ان کی موجودگی میں نبی کے پاس بیٹھنا اور کوئی بات سننا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان چودھریوں کے نظریات چونکہ خالصتاً مادہ پرستانہ ہوتے ہیں لہذا نبی کی دعوت کو رد کرنے کا انھیں یہ بہانہ بھی ہاتھ لگ جاتا ہے کہ اس نبی کے ہم نشین تو رذیل قسم کے لوگ ہیں لہذا ہم اسے سچا کیسے سمجھ سکتے ہیں کچھ شریف لوگ اس کے پیروکار ہوتے تو ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھتے اور اس نبی کی بات سنتے۔
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ : آلوسی نے فرمایا : ” اَلْمَلَاءُ “ کا لفظ اسم جمع ہے، جیسا کہ ” رَھْطٌ“ (گروہ) ہے۔ اس لفظ سے اس کا واحد کوئی نہیں آتا۔ ” مَلَأَ یَمْلَأُ “ کا معنی بھرنا ہے، یعنی ایک رائے پر متفق لوگوں کی جماعت، جس کے رعب و جلال اور ظاہری شکل و صورت سے آنکھیں بھر رہی ہوں۔ (راغب) - مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا : نوح (علیہ السلام) اور دوسرے پیغمبروں کی امتوں کے کافروں کی طرح مکہ کے کافر بھی ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہی بات کہا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری طرح کا بشر ہو، جو کھاتا پیتا، بازاروں میں چلتا پھرتا، سوتا جاگتا، بیویاں اور بال بچے رکھتا ہو، آخر وہ اللہ کا رسول کیسے ہوسکتا ہے۔ (دیکھیے فرقان : ٧) مطلب یہ ہے کہ رسالت اور بشریت میں تضاد ہے اور ان دونوں کا ایک شخص میں جمع ہونا ناممکن ہے، حالانکہ تمام انبیاء میں دونوں اوصاف جمع تھے، جیسا کہ فرمایا : (اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاۗءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا) [ بنی إسرائیل : ٩٣ ] ” تو کہہ میرا رب پاک ہے، میں تو ایک بشر کے سو اکچھ نہیں جو رسول ہے۔ “ اور دیکھیے سورة فرقان (٢٠) اور مومنون (٣٣، ٣٤) کفار آپ کا بشر ہونا جانتے تھے، کیونکہ آپ انھی میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے آپ کو رسول ماننے سے انکار کردیا۔ افسوس کہ کچھ جدی پشتی مسلمان باپ دادا سے سن کر آپ کو رسول مانتے ہیں، مگر آپ کے بشر ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک ہی ذہن ہے کہ انسان رسول نہیں ہوسکتا۔ - وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ ۔۔ : ” اَرَاذِلُ “ ” اَرْذَلُ “ کی جمع ہے، یعنی کم تر درجے کے لوگ۔ ” بَادِیَ “ ” بَدَا یَبْدُوْ “ (ظاہر ہونا) سے اسم فاعل ہو تو معنی ہوگا ظاہر دیکھنے میں اور ” بَدَءَ یَبْدَءُ “ (شروع ہونا) سے ہو تو معنی ہوگا پہلی نظر میں، یعنی اس وجہ سے بھی ہم آپ کی پیروی اختیار نہیں کرسکتے کہ کچھ لوگ جو آپ کے متبع ہوگئے ہیں وہ تو دیکھنے ہی سے نظر آتے ہیں کہ ہمارے رذالے یعنی کم تر درجے کے لوگ ہیں۔ گویا ان کی نظر میں اس شخص کے تابع ہونا، جس کے پیروکار معاشرے میں نچلے درجے کے لوگ ہوں، ان کی شان کے منافی ہے۔ (دیکھیے شعراء : ١١١) بعینہٖ یہی بات مکہ کے کھاتے پیتے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ان کی پیروی ہماری قوم کے غلام اور نچلے طبقے کے لوگ کرتے ہیں۔ ( دیکھیے انعام : ٥٢ تا ٥٤) حالانکہ حق کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس کے ابتدائی پیروکار دنیوی لحاظ سے کمزور لوگ ہی ہوئے ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہرقل اور ابوسفیان کے سوال و جواب میں مذکور ہے کہ جب ابوسفیان نے بتایا کہ اس کی پیروی ضعفاء نے کی ہے تو ہرقل نے کہا، یہی لوگ تمام رسولوں کے پیروی کرنے والے رہے ہیں۔ [ بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی ۔۔ : ٧ ]- وَمَا نَرٰي لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ : ” ہم تمہارے لیے اپنے آپ پر کوئی برتری نہیں دیکھتے “ قوم کا یہ خطاب نوح (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں سے ہے کہ کسی بھی چیز میں تم ہم سے بڑھ کر نہیں ہو۔ - بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِيْنَ : یعنی اس بات میں کہ تم کہتے ہو نوح (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں۔
تیسری آیت میں مشرکین کی گفتگو ہے جس میں چند شبہات و اعتراضات کئے گئے ہیں، اس آیت کے حل طلب الفاظ کی تشریح یہ ہے :۔- لفظ مَلَاُ عام طور پر جماعت کے لئے بولا جاتا ہے، بعض ائمہ لغت کا کہنا ہے کہ قوم کے سرداروں اور ذمہ داروں کی جماعت کو مَلَاُ کہتے ہیں، بشر کا ترجمہ ہے انسان یا آدمی اَرَاذِلُ ارذل کی جمع ہے حقیر و ذلیل کو کہا جاتا ہے جس کی قوم میں کوئی حیثیت اور عزت نہ ہو، بَادِيَ الرَّاْيِ کے معنی ہیں ابتدائی اور سطحی رائے۔- ان لوگوں کا پہلا اعتراض حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت پر یہ تھا کہ (آیت) مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا، یعنی آپ تو ہمیں جیسے انسان اور آدمی ہو، ہماری ہی طرح کھاتے پیتے چلتے پھرتے اور سوتے جاگتے ہو پھر ہم آپ کا یہ فوق العادت امتیاز کیسے تسلیم کرلیں کہ آپ خدا کے رسول اور پیغمبر ہیں۔- ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ انسانوں کی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا جائے وہ جنس بشر سے نہ ہونا چاہئے بلکہ کوئی فرشتہ ہو جس کا امتیاز سارے انسانوں کو چار و ناچار تسلیم کرنا پڑے۔- اس کا جواب چوتھی آیت میں یہ دیا گیا، (آیت) يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَاٰتٰىنِيْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ ۭ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَاَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ ۔- اس میں بتلایا گیا کہ رسول کا بشر یا آدمی ہونا تو نبوت و رسالت کے منافی نہیں بلکہ غور کرو تو یہی ضروری ہے کہ آدمیوں کا رسول آدمی ہونا چاہئے تاکہ آدمیوں کو اس سے دین سیکھنا آسان ہو انسان اور فرشتہ کے مزاج میں زمین آسمان کا تفاوت ہے، اگر فرشتہ کو رسول بنا کر بھیج دیا جاتا تو انسانوں کو اس سے دین سیکھنا سخت مشکل ہوجاتا، کیونکہ فرشتہ کو تو نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس نہ نیند آتی ہے نہ تکان ہوتا ہے، نہ اس کو انسانی ضروریات و حوائج پیش آتی ہیں وہ انسانوں کی اس کمزوری کا احساس کیسے کرتا، اور بغیر اس احساس کے انسان عمل میں اس کا اتباع کیسے کرسکتے، یہ مضمون قرآن کی دوسری آیتوں میں صراحةً اور اشارۃً کئی جگہ آچکا ہے یہاں اس کا ذکر کرنے کے بجائے یہ بتلایا کہ اگر عقل سے کام لو تو رسول و پیغمبر کے لئے یہ تو ضروری نہیں کہ وہ آدمی نہ ہو، ہاں یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بینہ اور حجت اس کے ساتھ ہو جس کو دیکھ کر لوگوں کو یہ تسلیم کرنا آسان ہوجائے کہ یہ خدا ہی کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہے، وہ بینہ اور حجت عام لوگوں کے لئے انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات ہوتے ہیں، اسی لئے نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اپنے ساتھ اللہ کی طرف سے بینہ اور حجت اور رحمت لے کر آیا ہوں تم اس کو دیکھتے اور غور کرتے تو انکار نہ کرتے، مگر تمہارے انکار وعناد نے تمہاری نگاہوں کو اس سے اندھا کردیا اور تم انکار کر بیٹھے اور اپنی ضد پر جم گئے۔- مگر خدا تعالیٰ کی یہ رحمت جو پیغمبر کے ذریعہ آتی ہے ایسی چیز نہیں کہ زبردستی لوگوں کے سر ڈال دی جائے، جب تک وہ خود اس کی طرف رغبت نہ کریں، اس میں اشارہ پایا گیا کہ دولت ایمان جو میں لے کر آیا ہوں اگر میرا بس چلتا تو تمہارے انکار اور ضد کے باوجود تمہیں دے ہی دیتا مگر یہ قانون قدرت کے خلاف ہے، یہ نعمت زبردستی کسی کے سر نہیں ڈالی جاسکتی، اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ زبردستی کسی کو مومن یا مسلمان بنانا کسی دور نبوت میں جائز نہیں رکھا گیا، بزور شمشیر اسلام پھیلانے کا سفید جھوٹ گھڑنے والے خود بھی اس حقیقت سے بیخبر نہیں مگر ایک بات ہے جو واقفوں کے دلوں میں تردد پیدا کرنے کے لئے چلتی کی جاتی ہے۔- اس کے ضمن میں اس کی وجہ بھی سمجھی گئی کہ فرشتہ کو رسول کیوں نہیں بنایا گیا، وجہ یہ ہے کہ فرشتہ جو مافوق العادت قوت و طاقت رکھتا ہے اور اپنے وجود کی ہر حیثیت میں انسان سے ممتاز ہے اس کو دیکھ کر ایمان لانا ایک جبری عمل ہوجاتا کس کی مجال تھی کہ فرشتہ کے سامنے وہ ہٹ دھرمی کرتا جو انبیاء کے سامنے کی جاتی ہے اور شرعاً وہ ایمان مقبول نہیں جو کسی قوت قاہرہ سے مجبور ہو کر اختیار کیا جائے، بلکہ مطلوب ایمان بالغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ کا پورا مشاہدہ کئے بغیر ایمان اختیار کیا جائے۔- ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا (آیت) وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ ، یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ آپ پر ایمان لانے والے سب سرسری نظر میں حقیر و ذلیل کمینے لوگ ہیں، کوئی شریف بڑا آدمی نہیں اس اعتراض کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ تمہاری بات اگر حق اور صحیح ہوتی تو قوم کے بڑے لوگ اس کو قبول کرتے، ان چھوٹے اور رذیل لوگوں کا قبول کرنا اس کی علامت ہے کہ آپ کی دعوت ہی قبول کرنے کے قابل نہیں، دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے لئے آپ کی دعوت ایمان قبول کرنے سے رکاوٹ یہ ہے کہ ہم ایمان لے آئیں تو بحیثیت مسلمان ہم بھی ان کے برابر سمجھے جائیں گے، نمازوں کی صفوف اور دوسری مجالس میں ہمیں ان کے ساتھ ان کے برابر بیٹھنا پڑے گا یہ ہم سے نہیں ہوسکتا۔- حقیقت سے دور ان ناواقفوں نے غرباء فقراء کو جن کے پاس مال کی بہتات نہیں اور دنیوی جاہ و مال نہیں ان کو اراذل قرار دے رکھا تھا، حالانکہ یہ خود ایک جاہلانہ خیال ہے، عزت و ذلت اور عقل و فہم مال و دولت کے تابع نہیں بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ جاہ و مال کا ایک نشہ ہوتا ہے جو انسان کو بہت سی معقول اور صحیح باتوں کے سمجھنے اور قبول کرنے سے روک دیتا ہے، کمزور غریب آدمی کی نظر کے سامنے یہ رکاوٹیں نہیں ہوتیں وہ حق اور صحیح بات کو قبول کرنے میں مسابقت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ زمان قدیم سے عادۃ اللہ یہی رہی ہے کہ پیغمبروں پر اول ایمان لانے والے غرباء فقراء ہی ہوتے ہیں، اور پچھلی آسمانی کتابوں میں اس کی تصریحات بھی موجود ہیں، اسی وجہ سے جب ہرقل شاہ روم کے پاس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامہ مبارک دعوت ایمان کے لئے پہنچا اور اس کو یہ فکر ہوئی کہ معاملہ کی تحقیق کرے چونکہ اس نے تورات و انجیل میں انبیاء (علیہم السلام) کی علامات پڑھی ہوئی تھیں اس لئے اس وقت عرب کے جو لوگ ملک شام میں آئے ہوئے تھے ان کو جمع کرکے ان علامات کے متعلق چند سوالات کئے۔- ان سوالات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کا اتباع کرنے والے قوم کے کمزور اور غریب لوگ ہیں یا وہ جو قوم کے بڑے کہلاتے ہیں ؟ ان لوگوں نے بتلایا کہ کمزور اور غریب لوگ ہیں اس پر ہرقل نے اقرار کیا کہ یہ علامت تو سچے نبی ہونے کی ہے کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کا اول اول اتباع کرنے والے یہی کمزور غریب لوگ ہوتے ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ غرباء و فقراء کو رذیل سمجھنا ان کی جہالت تھی، حقیقت میں رذیل تو وہ ہے جو اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے مالک کو نہ پہچانے، اس کے احکام سے روگردانی کرے اسی لئے سفیان ثوری (رح) سے کسی نے پوچھا کہ کمینہ اور رذیل کون ہے ؟ تو فرمایا وہ لوگ جو بادشاہوں اور افسروں کی خوشامد میں لگے رہیں، اور ابن الاعرابی نے فرمایا وہ شخص جو اپنا دین برباد کرکے کسی دوسرے کی دنیا سنوارے، امام مالک (رح) نے فرمایا کہ کمینہ وہ شخص ہے جو صحابہ کرام کو برا کہے کیونکہ وہ پوری امت کے سب سے بڑے محسن ہیں جن کے ذریعہ دولت ایمان و شریعت ان کو پہنچی ہے۔- بہرحال ان کے جاہلانہ خیال کی تردید تیسری آیت میں اول تو اس طرح کی گئی ہے کہ پیغمبر کی نظر کسی کے مال پر نہیں ہوتی وہ کسی سے اپنی خدمت و ہمدردی کا معاوضہ نہیں لیتا اس کا معاوضہ تو صرف اللہ کے ذمہ ہوتا ہے اس لئے اس کی نطر میں امیر و غریب برابر ہوتے ہیں، تم اس سے نہ ڈرو کہ ہم مالدار ہیں، مسلمان ہوجائیں گے تو ہم سے مال کا مطالبہ کیا جائے گا۔
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ ہُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ ٠ ۚ وَمَا نَرٰي لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍؚ بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِيْنَ ٢٧- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] - ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - رذل - الرَّذْلُ والرُّذَالُ : المرغوب عنه لرداء ته، قال تعالی: وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] ، وقال : إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود 27] ،- ( رذل ) الرذل والرذال - وہ چیز جس سے اس کے روی ہونے کی وجہ سے بےرغبتی کی جائے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] اور تم میں سے ایسے بھی ہیں جو بدترین حالت کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود 27] مگر جو ہم میں رذاے ہیں اور پرو ہو بھی گئے ہیں تو لے سوچے سمجھے ) سر سری نظر سے ۔- بادِيَ- وقوله تعالی: بَادِئ الرأْي [هود 27] أي : ما يبدأ من الرأي، وهو الرأي الفطیر، وقرئ : بادِيَ بغیر همزة، أي : الذي يظهر من الرأي ولم يروّ فيه، وشیء بَدِيءٌ: لم يعهد من قبل کالبدیع في كونه غير معمول قبل .- اور آیت کریمہ : بَادِيَ الرَّأْيِ ( سورة هود 27) رائے فطری یعنی وہ رائے جو ابتدا سے قائم کرلی جائے ۔ ایک قراءت میں بادی الرای بدوں ہمزہ کے ہے اس صورت میں اس کے معنی ظاہری رائے کے ہوں گے جس میں غور وفکر سے کام نہ لیا گیا ہو ۔ شیئ بدیئ ۔ انوکھی چیز جو پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئے جیسا کہ البدیع جو پہلے معمول نہ ہو ۔ البداۃ وہ حصہ جس سے تقسیم کی ابتداء کی جائے اسی سے گوشت کے بڑے ٹکڑے کو بداء کہا جاتا ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔
(٢٧) یہ سن کر قوم نوح کے سردار کہنے لگے کہ اے نوح ہم تو تمہیں اپنے جیسا آدمی دیکھتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم پر وہی لوگ ایمان لائے ہیں جو ہم میں بالکل کم تر اور کمزور ہیں اور وہ بھی سرسری رائے سے اور ان کی رائے بھی ٹھیک نہیں جو انہوں نے ایسا کیا ہے۔- اور ہم تم لوگوں کے دعوے میں کوئی بات خود سے زیادہ بھی نہیں پاتے تم بھی کھاتے پیتے ہو جیسا کہ ہم کھاتے پیتے ہیں بلکہ ہم تو تمہارے دعوے میں تمہیں بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں۔
آیت ٢٧ (فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰٹک الاَّ بَشَرًا مِّثْلَنَا) - انہوں نے کہا کہ آپ تو بالکل ہمارے جیسے انسان ہیں۔ آپ میں ہمیں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی کہ ہم آپ کو اللہ کا فرستادہ مان لیں۔- (وَمَا نَرٰٹکَ اتَّبَعَکَ الاَّ الَّذِیْنَ ہُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ )- ہمیں بلا تامل نظر آ رہا ہے کہ چند مفلس ‘ نادار اور نچلے طبقے کے لوگ آپ کے گرد اکٹھے ہوگئے ہیں ‘ جبکہ ہمارے معاشرے کا کوئی بھی معزز اور معقول آدمی آپ سے متاثر نہیں ہوا۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :31 وہی جاہلانہ اعتراض جو مکہ کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں پیش کرتے تھے کہ جو شخص ہماری ہی طرح کا ایک معمولی انسان ہے ، کھاتا پیتا ہے ، چلتا پھرتا ہے ، سوتا اور جاگتا ہے ، بال بچے رکھتا ہے ، آخر ہم کیسے مان لیں کہ وہ خدا کی طرف سے پیغمبر مقرر ہو کر آیا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ یٰس ، حاشیہ نمبر ۱۱ ) ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :32 یہ بھی وہی بات ہے جو مکہ کے بڑے لوگ اور اونچے طبقے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے تھے کہ ان کے ساتھ ہے کون؟ یا تو چند سر پھرے لڑکے ہیں جنہیں دنیا کا کچھ تجربہ نہیں ، یا کچھ غلام اور ادنی طبقہ کے عوام ہیں جو عقل سے کورے اور ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ انعام ، حواشی نمبر ۳٤ تا ۳۷ و سورہ یونس ، حاشیہ نمبر ۷۸ ) ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :33 یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ ہم پر خدا کا فضل ہے اور اس کی رحمت ہے اور وہ لوگ خدا کے غضب میں مبتلا ہیں جنہوں نے ہمارا راستہ اختیار نہیں کیا ہے ، تو اس کی کوئی علامت ہمیں نظر نہیں آتی ۔ فضل اگر ہے تو ہم پر ہے کہ مال و دولت اور خدم و حشم رکھتے ہیں اور ایک دنیا ہماری سرداری مان رہی ہے ۔ تم ٹٹ پونجیے لوگ آخر کس چیز میں ہم سے بڑھے ہوئے ہو کہ تمہیں خدا کا چہیتا سمجھا جائے ۔