Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

میرا پیغام اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے آپ فرماتے ہیں میں صرف رسول اللہ ہوں ، اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور توحید کی طرف اس کے فرمان کے مطابق تم سب کو بلاتا ہوں ۔ اس سے میری مراد تم سے مال سمیٹنا نہیں ۔ ہر بڑے چھوٹے کے لیے میری دعوت عام ہے جو قبول کرے گا نجات پائے گا ۔ اللہ کے خزانوں کے ہیر پھیر کی مجھ میں قدرت نہیں ۔ میں غیب نہیں جانتا ہاں جو بات اللہ مجھے معلوم کرادے معلوم ہو جاتی ہے ۔ میں فرشتہ ہو نے کا دعویدار نہیں ہوں ۔ بلکہ ایک انسان ہوں جس کی تائید اللہ کی طرف سے معجزوں سے ہو رہی ہے ۔ جنہیں تم رذیل اور ذلیل سمجھ رہے ہو ۔ میں تو اس کا قائل نہیں کہ انہیں اللہ کے ہاں ان کی نیکیوں کا بدلہ نہیں ملے گا ۔ ان کے باطن کا حال بھی مجھے معلوم نہیں اللہ ہی کو اس کا علم ہے ۔ اگر ظاہر کی طرح باطن میں بھی ایماندار ہیں تو انہیں اللہ کے ہاں ضرور نیکیاں ملیں گی جو ان کے انجام کی برائی کو کہے اس نے ظلم کیا اور جہالت کی بات کہی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایمان کی صورت میں خیر عظیم عطا کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر وہ آخرت میں بھی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ چاہے گا، تو بلند مرتبے سے ہمکنار ہوں گے۔ گویا تمہارا ان کو حقیر سمجھنا ان کے لئے نقصان کا باعث نہیں، البتہ تم ہی عند اللہ مجرم ٹھہرو گے کہ اللہ کے نیک بندوں کو، جن کا اللہ کے ہاں بڑا مقام ہے، تم حقیر اور فرومایہ سمجھتے ہو۔ 31۔ 2 کیونکہ میں ان کی بابت ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں، صرف اللہ جانتا ہے، تو یہ ظلم ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨] جاہلانہ معیار صداقت کی تردید :۔ جاہل قسم کے منکرین حق کے نزدیک کسی نبی کی صداقت کے معیار عجیب قسم کے ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ اس سے خرق عادت واقعات یعنی معجزات کا اکثر صدور ہوتا ہو وہ مٹی پر نظر التفات کرے تو وہ سونا بن جائے وہ یہ بھی بتاسکے کہ فلاں چوری فلاں چور نے فلاں وقت کی تھی اسے طالب دنیا بھی نہ ہونا چاہیے کہ وہ عام لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہو اور نکاح وغیرہ بھی کرے بلکہ اسے دنیا سے دلچسپی نہ ہونا چاہیے۔ اس آیت میں اسی جاہلانہ معیار صداقت کی تردید کی گئی ہے۔ نوح (علیہ السلام) کی زبان سے کفار کے ایسے مطالبات کا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا گیا ہے کہ میرا ایسی باتوں کا ہرگز کچھ دعویٰ نہیں ہے میرے پاس اللہ کے خزانے نہیں کہ میں مٹی یا پتھر پر نظر کرم ڈالوں تو وہ سونا بن جائے میں غیب بھی نہیں جانتا کہ میں تمہیں بتلا سکوں کہ اس وقت تمہارے دل میں کیا خیال آرہا ہے یا فلاں چوری فلاں شخص نے فلاں وقت کی تھی اور اس طریقہ سے کی تھی اور اب چوری کا مال فلاں جگہ پر چھپایا ہوا ہے میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ میں فرشتہ ہوں کہ مجھے کھانے پینے کی احتیاج نہ ہو یا دوسرے بشری حوائج سے مبرا ہوں۔ نیز جن لوگوں کو تم حقیر سمجھ رہے ہو میں ان کے مستقبل کے متعلق بھی کچھ نہیں جانتا البتہ جس راہ پر یہ گامزن ہیں اس بات کی توقع ضرور رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انھیں علم و حکمت اور دوسری بھلائیوں سے نوازے گا مگر یہ بات میں دعویٰ کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں غیب کی باتیں نہیں جانتا۔- واضح رہے کہ کچھ اسی قسم کے معیار ہم نے بھی بزرگان دین سے متعلق وابستہ کر رکھے ہیں حالانکہ جو لوگ دعویٰ کے ساتھ انھیں دکھلاتے ہیں وہ شعبدہ باز تو ہوسکتے ہیں اللہ کے ولی نہیں ہوسکتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ۔۔ : یہ اس بات کا جواب ہے جو ان لوگوں نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم اپنے جیسے ایک انسان نظر آتے ہو اور یہ کہ ہم تم کو کسی بات میں اپنے سے برتر نہیں پاتے۔ اس پر نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ہاں میں واقعی تم ہی جیسا ایک بشر ہوں، نہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں، یعنی اس قسم کی کوئی فوقیت مجھ میں نہیں ہے۔ میرا جو بھی دعویٰ ہے وہ صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس نے مجھے سیدھے راستے کی ہدایت بخشی ہے۔ میرا یہ دعویٰ ناقابل تردید ہے، اس کی تم جس طرح چاہو آزمائش کرلو۔ - وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ ۔۔ : ” تَزْدَرِيْٓ“ اس کا مادہ ” زری “ ہے، ” زَرَیْتُ عَلَیْہِ “ میں نے اس پر عیب لگایا۔ باب افتعال میں جا کر افتعال کی تاء کو دال کے ساتھ بدلنے سے ” اِزْدَرَی یَزْدَرِیْ اِزْدِرَاءً “ بن گیا، جس کا معنی حقیر جاننا ہے۔ (قاموس) یعنی مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ محض تمہیں خوش کرنے کے لیے ان لوگوں کے بارے میں اس قسم کی جاہلانہ بات کہوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ چیزیں (اللہ کے خزانوں کا مالک ہونا، عالم الغیب ہونا، فرشتہ ہونا) نبوت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں کہ ان کے بغیر نبوت نہیں مل سکتی اور نہ ان چیزوں کے کسی شخص کے پاس نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر خیر سے خالی ہے اور جو شخص مال دار نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خیر بھی حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ناتوانوں کو عزت دیتا ہے اور عزت والوں کو دم بھر میں ذلیل کردیتا ہے۔ اس وقت بھی یہ لوگ اپنے رب پر ایمان اور اس کے رسول کی پیروی کی بدولت تم سے زیادہ باعزت اور شریف ہیں۔ (روح المعانی)- اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اگر ان کے دلوں میں ایمان اور اخلاص ہے تو اللہ کے ہاں ضرور اجر پائیں گے، تم اور میں مل کر بھی انھیں اس اجر سے محروم نہیں کرسکتے۔ - اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : یعنی اگر میں انھیں خواہ مخواہ ذلیل قرار دوں۔ یہ اشارہ ہے کہ تم انھیں رذالے کہنے میں ظالم ہو، یا یہ کہ اگر میں خزائنِ الٰہی کو جمع کرنے یا غیب کے جاننے اور فرشتہ ہونے کا دعویٰ کروں تو میں ظالموں میں سے ہوں گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پانچویں آیت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ تقریر نقل کی گئی ہے جو انہوں نے اپنی قوم کے سب اعتراضات سننے کے بعد ان کو کچھ اصول ہدایات دینے کے لئے ارشاد فرمائی، جس میں بتلایا گیا ہے کہ نبوت و رسالت کیلئے وہ چیزیں ضروری نہیں جو تم نے سمجھ رکھی ہیں۔- مثلاً پہلے فرمایا (آیت) وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ، یعنی میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اللہ کے خزانے میرے ہاتھ میں ہیں، اس میں ان لوگوں کے اس خیال کی تردید ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہو کر آئے ہیں تو ان کے ہاتھ میں خزانے ہونے چاہئیں جن سے لوگوں کو داد و دہش کرتے رہیں، نوح (علیہ السلام) نے بتلایا کہ انبیاء کی بعثت کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کو متاع دنیا میں الجھائیں، اس لئے خزانوں سے ان کا کیا کام۔- اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں ان لوگوں کے اس خیال کی تردید ہو جو بعض لوگ سمجھا کرتے ہیں کہ اللہ نے انبیاء کو بلکہ اولیاء کو بھی مکمل اختیارات دے دیئے ہیں، اللہ کی قدرت کے خزانے ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جس کو چاہیں دیں جس کو چاہیں نہ دیں تو نوح (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے خزانوں کا مکمل اختیار کسی نبی کو بھی سپرد نہیں کیا، اولیاء کا تو کیا ذکر ہے، البتہ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں اور خواہشیں اپنی قدرت سے پوری فرماتے ہیں۔- دوسرے فرمایا (آیت) وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ، ان جاہلوں کا یہ بھی خیال تھا کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا رسول ہو وہ عالم الغیب بھی ہونا چاہئے، اس جملہ میں واضح کردیا کہ نبوت و رسالت علم غیب کی مقتضی نہیں اور کیسے ہوتی جبکہ علم غیب حق تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے جس میں کوئی نبی یا فرشتہ شریک نہیں ہوسکتا، ہاں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں غیب کے اسرار پر مطلع کردیتے ہیں مگر اس کی وجہ سے ان کو عالم الغیب کہنا درست نہیں ہوتا کیونکہ ان کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ جس غیب کو چاہیں معلوم کرلیں۔- تیسری بات یہ فرمائی (آیت) وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ، یعنی میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں، اس میں ان کے اس خیال کی تردید ہوگئی کہ رسول کوئی فرشتہ ہونا چاہئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَہُمُ اللہُ خَيْرًا۝ ٠ۭ اَللہُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ۝ ٠ۚۖ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٣١- خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - زری - زَرَيْتُ عليه : عبته، وأَزْرَيْتُ به : قصّرت به، وکذلک ازْدَرَيْتُ ، وأصله : افتعلت قال : وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، أي : تستقلّهم، تقدیره : تَزْدَرِيهِمْ أعينكم، أي : تستقلّهم وتستهين بهم .- ( ز ر ی ) زریت - علیہ کے معنی کسی پر عیب لگانے کے ہیں اور ازریت بہ وازدریت ( افتعال ) کے معنی ہیں کسی کو حقیر اور بےوقعت گرد اننا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31]( جنہیں ) تمہاری نظریں حقیر دیکھتی ہیں ۔ یہ اصل میں تذدریھم اعنکم ہے یعنی اس کا مفعول محذوف ہے اور معنی یہ ہے کہ تم انہیں نظر حقارت سے دیکھتے ہو ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣١) اور میں اس بات کا بھی دعوی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کے رزق کے تمام خزانوں کی چابیاں میری پاس ہیں، اور نہ غیب کی باتیں جاننے کا میں دعوے دار ہوں کہ کب عذاب نازل ہوگا اور نہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔- اور جو لوگ تمہاری نگاہوں میں کم تر ہیں اور تمہیں وہ جچتے نہیں میں ان کی بابت یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ تصدیق ایمان کے بدلے میں ان کو عزت واکرام نہ دے گا، ان کے دلوں میں جو تصدیق ہے اس کو اللہ تعالیٰ ہی اچھی طرح جاتنا ہے تو اگر میں ان کو اپنے سے دور کردوں تو خود کو بہت ہی نقصان پہنچاؤں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ) - میں نے کب دعویٰ کیا ہے کہ اللہ کے خزانوں پر میرا اختیار ہے۔ یہ وہی بات ہے جو ہم سورة الانعام آیت ٥٠ میں محمد رسول اللہ کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں۔- (وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيْرًا)- کیا معلوم اللہ کے ہاں وہ بہت محبوب ہوں ‘ اللہ انہیں بہت بلند مراتب عطا کرے اور اخروی زندگی میں (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ) (الواقعہ ) کا مستحق ٹھہرائے۔ - (اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ښ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ )- یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اپنے ایمان کے دعوے میں کتنا مخلص ہے اور کس کے دل میں اللہ کے لیے کتنی محبت ہے۔ اگر میں تمہارے طعنوں سے تنگ آکر ان اہل ایمان کو اپنے پاس سے اٹھا دوں تو میرا شمار ظالموں میں ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :37 یہ اس بات کا جواب ہے کہ جو مخالفین نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم بس اپنے ہی جیسے ایک انسان نظر آتے ہو ۔ اس پر حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ واقعی میں ایک انسان ہی ہوں ، میں نے انسان کے سوا کچھ اور ہونے کا دعویٰ کب کیا تھا کہ تم مجھ پر یہ اعتراض کر تے ہو ۔ میرا دعویٰ جو کچھ ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ خدا نے مجھے علم و عمل کا سیدھا راستہ دکھایا ہے ۔ اس کی آزمائش تم جس طرح چاہو کر لو ۔ مگر اس دعوے کی آزمائش کا آخر یہ کونسا طریقہ ہے کہ کبھی تم مجھ سے غیب کی خبریں پوچھتے ہو ، اور کبھی ایسے ایسے عجیب مطالبے کرتے ہو گویا خدا کے خزانوں کی ساری کنجیاں میرے پاس ہیں ، اور کبھی اس بات پر اعتراض کرتے ہو کہ میں انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہوں ، گویا میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ جس آدمی نے عقائد ، اخلاق اور تمدن میں صحیح رہبری کا دعویٰ کیا ہے اس سے ان چیزوں کے متعلق جو چاہو پوچھو ، مگر تم عجیب لوگ ہو جو اس سے پوچھتے ہو کہ فلاں شخص کی بھینس کٹڑا جنے گی یا پڑیا ۔ گویا انسانی زندگی کے لیے صحیح اصول اخلاق و تمدن بتانے کا کوئی تعلق بھینس کے حمل سے بھی ہے ( ملاحظہ ہو سورہ انعام ، حاشیہ نمبر ۳۱ ، ۳۲ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: یہ اس جاہلانہ خیال کی تردید ہے کہ اللہ کے کسی پیغمبر یا مقرب بندے کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہونے چاہئیں، اور اسے غیب کی ساری باتوں کا علم ہونا چاہئے، یا اُسے اِنسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہئے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے واضح فرما دیا کہ کسی نبی یا اللہ کے کسی ولی کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ دُنیا کے خزانے لوگوں میں تقسیم کرے، یا غیب کی ہر بات بتائے۔ اس کا مقصد تو لوگوں کے عقائد اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہوتا ہے۔ اُس کی ساری تعلیمات اسی مقصد کے گرد گھومتی ہیں، لہٰذا اس سے اس قسم کی توقعات رکھنا نری جہالت ہے۔ اس طرح اس آیت میں اُن لوگوں کی ہدایت کا بڑا سامان ہے جو بزرگوں کے پاس اپنے دُنیوی مقاصد کے لئے جاتے ہیں، اور انہیں دُنیوی اور تکوینی اُمور میں اپنا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں، اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انہیں مستقبل کی ہر بات بتا دیا کریں گے۔ جب اﷲ تعالیٰ کا اتنا برگزیدہ پیغمبر ان باتوں کو اپنے اختیار سے باہر قرار دے رہا ہے تو کون ہے جو ان اختیارات کا دعویٰ کرسکے؟ اور حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھیوں کے بارے میں کافروں نے جو کہا تھا کہ یہ حقیر لوگ ہیں، اور دِل سے ایمان نہیں لائے، اُس کا آگے یہ جواب دیا ہے کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ دِل سے ایمان نہیں لائے اور اﷲ تعالیٰ انہیں کوئی بھلائی یعنی ثواب نہیں دے گا۔