Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 مثلا کہتے، نوح نبی بنتے بنتے اب بڑھئی بن گئے ہو ؟ یا اے نوح خشکی میں کشتی کس لئے تیار کر رہے ہو ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] کشتی بنانے پر قوم کا مذاق اڑانا :۔ وہ مذاق یہ کرتے تھے کہ جہاز جتنی بڑی کشتی جو تم بنا رہے ہو اسے کیا خشکی پر چلاؤ گے ؟ یہاں نہ تو نزدیک کوئی دریا ہے جس میں اسے چلا سکو۔ بارشوں کو ہم ترس رہے ہیں خشک سالی بھی ہے اور کسی دریا وغیرہ میں سیلاب کا خطرہ بھی نہیں تو پھر اسے بنا کر کیا کرو گے ؟ وہ تو نوح (علیہ السلام) کو دیوانہ سمجھ رہے تھے اور نوح (علیہ السلام) انھیں دیوانہ سمجھ رہے تھے کیونکہ انہوں نے قوم کو خبردار کردیا تھا کہ تم پر سیلاب کا عذاب آنے والا ہے وہ اپنی قوم پر اس بات سے حیران تھے کہ عنقریب ان لوگوں کی تباہی ہونے والی ہے اور انھیں اپنی ذرا بھی فکر نہیں الٹا مجھے دیوانہ سمجھ کر مذاق اڑا رہے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) نے انھیں جواب دیا، کوئی بات نہیں آج تم ہمارا مذاق اڑا لو، جلد ہی ایسا وقت آنے والا ہے جب ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے اس وقت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر نازل ہوتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ : ماضی کے ایک واقعہ کو مضارع کے صیغے سے بیان فرمایا۔ اس سے ان کا مسلسل کئی دنوں تک اس بڑی کشتی کو بناتے رہنا ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ ” کَانَ “ کا صیغہ جو ماضی ہے، مضارع پر آجائے تو اس سے مراد ماضی میں استمرار ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” اور وہ کشتی بناتا رہا۔ “ بعض اہل علم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مضارع کا لفظ حکایت حال، یعنی وہ نقشہ سامنے لانے کے لیے استعمال فرمایا، گویا ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے ہیں اور قوم کے لوگ انھیں مذاق کر رہے ہیں، یہ معنی بھی جید ہے۔ - وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ ۔۔ : وہ اس پر مذاق کرتے کہ بڑے میاں ترکھان کب سے بن گئے اور اب اس حد تک دماغ میں خلل آگیا کہ خشک زمین پر پانی میں غرق ہونے سے بچاؤ کا بندوبست کر رہے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) اس پر ہنستے کہ یہ لوگ بجائے اس کے کہ ایمان اور اطاعت کے ذریعے سے عذاب الٰہی سے بچاؤ حاصل کریں، الٹا کفر اور نافرمانی پر اصرار کرکے اور اللہ کے نشانات کا مذاق اڑا کر عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا ہو کہ جیسے تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو، وہ وقت بالکل قریب ہے جب تم غوطے کھا رہے ہو گے اور ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے، جیسا کہ تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یہ ( نوح (علیہ السلام ) ہنستے اس پر کہ موت سر پر کھڑی ہے اور یہ ہنستے ہیں۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں سفینہ سازی کے زمانہ میں قوم نوح (علیہ السلام) کی غفلت اور انجام بد سے بےفکری کا حال ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) بحکم خداوندی کشتی بنانے میں مشغول تھے ان کی قوم کے سردار جب ان کو دیکھتے اور پوچھتے کہ کیا کر رہے ہو ؟ تو یہ فرماتے کہ طوفان آنے والا ہے اس لئے کشتی تیار کر رہا ہوں ان کی قوم ان کا مذاق اڑاتی اور استہزاء کرتی تھی کہ یہاں پینے کے لئے تو پانی کا قحط ہے، یہ بزرگ اس خشکی میں کشتی چلانے کی فکر میں ہیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے جواب میں فرمایا کہ اگر آج تم ہم سے استہزاء کرتے ہو تو یاد رکھو کہ ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جس میں ہم تم سے استہزاء کریں گے، مراد یہ ہے کہ حالات ایسے پیش آئیں گے جو خود تمہارے استہزاء نہیں بلکہ حرام ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ ، یعنی کوئی کسی کے ساتھ استہزاء نہ کرے، ہوسکتا ہے کہ وہ اس استہزاء کرنے والے سے بہتر ہو، اس لیے یہاں استہزاء سے مراد ان کے استہزاء کا عملی جواب ہے کہ جب تم عذاب میں گرفتار ہوگے تو ہم تمہیں بتلائیں گے کہ یہ ہے تمہارے استہزاء کا انجام، جیسا کہ اس کے بعد چوتھی آیت میں فرمایا ہے کہ ” عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو اس کو رسوا کردے گا، اور کس پر دائمی عذاب ہوتا ہے۔ “ پہلے عذاب سے دنیا کا اور عذاب مقیم سے آخرت کا دائمی عذاب مراد ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ۝ ٠ ۣ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْہِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِہٖ سَخِرُوْا مِنْہُ۝ ٠ ۭ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَـمَا تَسْخَرُوْنَ۝ ٣٨ ۭ- فلك - الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر .- قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع .- ( ف ل ک ) الفلک - کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔- مرر - المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ- [ المطففین 30] ، وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] تنبيها أنّهم إذا دفعوا إلى التّفوّه باللغو کنّوا عنه، وإذا سمعوه تصامموا عنه، وإذا شاهدوه أعرضوا عنه، وقوله : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا - [يونس 12] فقوله : مَرَّ هاهنا کقوله : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] وأمْرَرْتُ الحبلَ : إذا فتلته، والمَرِيرُ والمُمَرُّ :- المفتولُ ، ومنه : فلان ذو مِرَّةٍ ، كأنه محکم الفتل . قال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى- [ النجم 6] . ويقال : مَرَّ الشیءُ ، وأَمَرَّ : إذا صار مُرّاً ، ومنه - ( م ر ر ) المرور - ( م ر ر ) المرور کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے ۔ وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفانہ انداز سے گزرجاتے ہیں ۔ نیز آیت کریمہ میں اس بات پر بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں بیہودہ بات کہنے پر مجبوری بھی کیا جائے تو کنایہ سے بات کرتے ہیں اور لغوبات سن کر اس سے بہرے بن جاتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں تو اعراض کرلیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا[يونس 12] پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں ( تو بےلحاظ ہوجاتا اور ) اس طرح گزرجاتا ہے کہ گویا تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا ۔ میں مربمعنی اعرض ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگردان ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ امررت الحبل کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو مریر یاممر کہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرکہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی طاقت ور اور توانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] طاقتور نے ۔ مرالشئی وامر کسی چیز کا تلخ ہونا ۔ اسی سے محاورہ ہے۔ فلان مایمر سو مایحلی کہ فلاں نہ تو کڑوا ہے اور نہ میٹھا ۔ یعنی نہ تو اس سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ اور آیت کریمہ حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً فَمَرَّتْ بِهِ [ الأعراف 189]( تو ) اسے ہلکا ساحمل رہ جاتا ہے ۔ اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے ۔ میں مرت بمعنی استمرت ہے ۔ یعنی وہ اسے اٹھائے چلتی پھرتی رہتی ہے ۔ مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] - ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ - سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے فانا نسخر منکم کما تسخرون ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں جس طرح تم ہم پر ہنس رہے ہو ۔ یہاں یہ بات مجاز کے طور پر کہی گئی ہے ، اس کا اطلاق اس لیے کیا گیا ہے کہ مذاق اڑانے اور ہنسنے کی مذمت کر کے اس کا بدلہ اتنی مقدار میں چکایا گیا ہے جتنی مقدار کے یہ لوگ مستحق تھے ، جس طرح یہ قول باری ہے وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا۔ برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے ، نیز ارشاد باری ہے قالو انما نحن مستھزون اللہ یستھزی بھم ہم تو صرف مذاق اڑا رہے تھے ، اللہ تعالیٰ ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ بعض کے نزدیک آیت زیر بحث کا مفہوم ہے کہ ہم بھی اس طرح تمہیں جاہل سمجھتے ہیں جس طرح تم ہمیں جاہل سمجھتے ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨) چناچہ نوح (علیہ السلام) کشتی تیار کرنے لگے اس دوران جب کسی سردار گروہ کا ان پر سے گزر ہوتا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بناتا ہوا دیکھ کر ان پر ہنستے تو آپ فرماتے کہ اگر آج تم ہم پر ہنس رہے ہو تو آج کے بعد ہم تم پر ہنسیں گے جیسے آج کے دن تم ہم پر ہنستے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ ۣ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ )- حضرت نوح اور آپ کے اہل ایمان ساتھی جس جگہ اور جس علاقے میں یہ کشتی بنار ہے تھے ظاہر ہے کہ وہاں ہر طرف خشکی ہی خشکی تھی ‘ سمندر یا دریا کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ان حالات میں تصور کریں کہ کیا کیا باتیں اور کیسے کیسے تمسخر آمیز فقرے کہے جاتے ہوں گے کہ اب تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بالکل ہی مت ماری گئی ہے کہ خشکی پر کشتی چلانے کا ارادہ ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: وہ مذاق اس بات کا اُڑاتے تھے کہ انہوں نے دوسرے کام چھوڑ کر کشتی بنانی شروع کردی ہے، حالانکہ پانی کا کہیں دُور دُور پتہ نہیں ہے۔ 20:: یعنی ہمیں اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ عذاب تمہارے سرپر آچکا ہے، اور تمہیں دِل لگی سوجھی ہے۔