Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری دیکھ بھال میں اس آیت میں اللہ رب العزت کے لئے صفت عین کا اثبات ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور ہماری وحی سے کا مطلب، اس کے طول و عرض وغیرہ کی جو کیفیات ہم نے بتلائی ہیں، اس طرح اسے بنا۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے کشتی کے طول و عرض، اس کی منزلوں اور کس قسم کی لکڑی اور دیگر سامان اس میں استعمال کیا گیا، اس کی تفصیل بیان کی ہے، جو ظاہر بات ہے کہ کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہے۔ اس کی پوری تفصیل کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ 37۔ 2 بعض نے اس سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے اور اہلیہ کو لیا ہے جو مومن نہیں تھے اور غرق ہونے والوں میں سے تھے۔ بعض نے اس سے غرق ہونے والی پوری قوم مراد لی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی مہلت طلب مت کرنا کیونکہ اب ان کے ہلاک ہونے کا وقت آگیا ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں، وقت مقرر میں یہ سب غرق ہوجائیں گے، (فتح القدیر) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] جب یہ صورت حال پیدا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ اب ہماری ہدایات کے مطابق ایک بہت بڑی کشتی بنانا شروع کردو اور دیکھو جو لوگ اب تک ایمان نہیں لائے ان سب کو میں غرق کرنے والا ہوں لہذا ان میں سے کسی پر تمہیں ترس نہ آجائے کہ تم اس کی نجات کے لیے مجھ سے درخواست کرنے لگو۔ - تورات کی تصریح کے مطابق اس کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ، چوڑائی پچاس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ تھی اور اس کے تین درجے یا منزلیں تھیں اور اس میں روشندان اور دروازے اور کھڑکیاں اور کوٹھڑیاں تھیں اور اندر اور باہر رال لگادی گئی تھی گویا یہ موجودہ دور کے لحاظ سے بھی ایک درمیانہ درجہ کا بحری جہاز تھا جسے بنی نوع انسان کی تاریخ میں سیدنا نوح (علیہ السلام) نے غالباً پہلی بار بنایا تھا اور اس کے بنانے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے خود بذریعہ وحی سکھلایا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا : نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے کفار پر عذاب کے وعدے کے ساتھ نوح (علیہ السلام) کو دو باتوں کی تاکید فرمائی، پہلی تو یہ کہ پانی کے طوفان سے بچنے کے لیے ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق ایک بحری جہاز بناؤ۔ یاد رہے کہ ” الْفُلْكَ “ کا لفظ بڑی کشتی (بحری جہاز) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور واحد و جمع اور مذکر و مؤنث سبھی کے لیے ایک ہی لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں اور اس کی ہدایت کے مطابق بننے والی کشتی کتنی شان دار ہوگی، اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگوں نے اس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی بیان کی ہے، مگر ان تمام باتوں کی کوئی پختہ دلیل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب تم نے خود ہی دعا کی ہے کہ یا اللہ زمین پر رہنے والا ایک کافر بھی باقی نہ چھوڑ، تو اب عذاب آنے پر ظلم کرنے والوں (مشرکوں) کے بارے میں مجھ سے کوئی بات (سفارش) مت کرنا، کیونکہ ان کے غرق کیے جانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ - بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا : معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے آنکھوں کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے اس کی آنکھیں بھی ہیں۔ دوسری جگہ موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِی) [ طٰہٰ : ٣٩ ] ” اور تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔ “ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے آنکھیں ہونے سے انکار کرتے ہیں، ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ کی آنکھیں ماننے سے مخلوق کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے، یعنی وہ ہمارے جیسا بن جاتا ہے، کیونکہ ہماری بھی آنکھیں ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں۔ ان حضرات نے اسی بہانے سے اللہ تعالیٰ کی بیشمار صفات کا انکار کردیا اور کئی ایک کی تاویل کردی، مثلاً اللہ تعالیٰ کے چہرے، ہاتھ، پنڈلی، کان اور آنکھ کا، اس کے اترنے، چڑھنے، سننے، بولنے، دیکھنے، خوش ہونے اور ناراض ہونے کا انکار کردیا، یا اپنے پاس سے کوئی اور مطلب بیان کردیا، یا کہا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں اس کا معنی کیا ہے۔ ان بےچاروں نے غور نہیں کیا کہ جب آپ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لیے ” عَیْنٌ“ کا لفظ بول رہے ہیں تو اردو میں آنکھ کہنے سے آپ کو کیا پریشانی ہے۔ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ کیا ” ہماری نگرانی میں کشتی بنا۔ “ چلیے یہ بھی درست ہے، مگر اس کے لیے آنکھوں کے انکار کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ نگرانی بھی آنکھوں کے ساتھ ہی تھی۔ ” بِاَعْيُنِنَا “ کا ترجمہ نگرانی کریں، پھر بھی مشابہت والا اعتراض ختم نہیں ہوتا، کیونکہ انسان نگرانی بھی کرتا ہے، یہ بھی مشابہت ہوگئی۔ ان کو چاہیے تھا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس پر ایمان رکھتے اور اس مشکل کا حل جو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے اس کو تسلیم کرتے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْر) [ الشوریٰ : ١١ ] ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں “ کے باوجود وہ سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی، سمع و بصر بھی رکھتا ہے، مگر اس کا سننا، دیکھنا، ہنسنا، غصے ہونا، اترنا، چڑھنا، بولنا، اس کے کان، آنکھیں اور پنڈلی سب کچھ ہونے کے باوجود کوئی چیز مخلوق جیسی نہیں۔ اگر ہم اس حد تک چلے جائیں کہ مخلوق پر بولا جانے والا کوئی لفظ اللہ تعالیٰ پر بولا جا ہی نہیں سکتا تو پھر ہم اپنے اللہ تعالیٰ ہی کو گم کر بیٹھیں گے۔ کیونکہ ہم زندہ ہیں، موجود ہیں، علم رکھتے ہیں، اب اللہ تعالیٰ کے حق میں اس کا انکار کرکے دیکھو تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ موجود ہی نہیں۔ ایسے خبیث عقیدے سے اللہ کی پناہ۔ یقیناً ہم زندہ و موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی زندہ و موجود ہے، مگر ہماری زندگی اور وجود اللہ تعالیٰ کی زندگی اور وجود سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے۔ اس کی زندگی اور وجود اس کی شان کے لائق ہے، جو ازلی، ابدی اور لامحدود ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں اور ہمارا وجود اور زندگی فانی، محدود اور اللہ کے محتاج ہیں۔- یہ لوگ عجیب باتیں کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ عرش پر ہے نہ آسمان دنیا پر اترتا ہے اور نہ قیامت کے دن آئے گا، تو پھر وہ کہاں ہے ؟ کہتے ہیں یہ پوچھنا ہی منع ہے، وہ نہ مکان میں ہے نہ لا مکان میں۔ پھر کبھی کہتے ہیں - وہ ہر جگہ ہے، کبھی کہتے ہیں کہیں بھی نہیں۔ اللہ کے بندو جو کچھ تعارف اللہ تعالیٰ نے اپنا خود کروایا ہے وہ ہر صورت مانو، مگر یہ کہو کہ اس کی آنکھیں، کان، چہرہ، اترنا اور چڑھنا وغیرہ سب کچھ ہے مگر مخلوق میں سے کسی کی طرح نہیں، بلکہ وہ اسی طرح ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔ دراصل یہ لوگ اللہ کی صفات پر ایمان لانے سے اس لیے محروم ہوئے کہ انھوں نے اس کے چہرے، آنکھوں، ہاتھوں اور سننے و دیکھنے وغیرہ کو اپنے جیسا سمجھا، اس لیے انکار کردیا۔ اگر وہ اس حقیقت کو سمجھ لیتے اور اس پر ایمان رکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق جو جو الفاظ بولے ہیں، سب حق ہیں، مگر مخلوق میں سے کسی کے مشابہ نہیں تو وہ ایمان سے ہاتھ نہ دھوتے۔ - وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۔۔ : ” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ شرک سے بڑی ناانصافی کوئی نہیں۔ نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور ایک بیٹا مشرک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کے حق میں کسی بھی قسم کی بات کرنے سے منع فرما دیا، کیونکہ مشرک کی نجات کی کوئی صورت نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

نوح (علیہ السلام) کو کشتی سازی کی تعلیم : - حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب کشتی بنانے کا حکم ملا اس وقت وہ نہ کشتی کو جانتے تھے نہ اس کے بنانے کو، اس لئے دوسری آیت میں ان کی سفینہ سازی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا (آیت) وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا، یعنی آپ کشتی بنائیں ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق۔- روایات حدیث میں ہے کہ جبرئیل امین نے بذریعہ وحی الہٰی حضرت نوح (علیہ السلام) کو سفینہ سازی کی تمام ضروریات اور اس کا طریقہ بتلایا، انہوں نے سال کی لکڑی سے یہ کشتی تیار کی۔- بعض تاریخی روایات میں اس کی پیمائش یہ بتلائی گئی ہے کہ یہ تین سو گز لابنا، پچاس گز چوڑا، تیس گز اونچا، سہ منزلہ جہاز تھا اور روشن دان مروجہ طریق کے مطابق دائیں بائیں کھلتے تھے اس طرح یہ جہاز سازی کی صنعت وحی خداوندی کے ذریعہ سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کے ہاتھوں شروع ہوئی، پھر اس میں ترقیات ہوتی رہیں۔- تمام ضروری صنعتوں کی ابتداء وحی کے ذریعہ ہوئی :- حافظ شمس الدین ذہبی کی الطب النبوی میں بعض سلف سے نقل کیا گیا ہے انسان کے لئے جتنی صنعتوں کی ضرورت ہے ان سب کی ابتدا بذریعہ وحی الہٰی کسی پیغمبر کے ذریعہ عمل میں آئی ہے پھر حسب ضرورت اس میں اضافے اور سہولتیں مختلف زمانوں میں ہوتی رہیں، سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف جو وحی آئی ہے اس کا پیشتر حصہ زمین کی آباد کاری اور مختلف صنعتوں سے متعلق ہے، بوجھ اٹھانے کے لئے پہیوں کے ذریعہ چلنے والی گاڑی کی ایجاد بھی اسی سلسلہ کی ایجادات میں سے ہے۔- سرسید صاحب بانی علی گڑھ کالج نے خوب فرمایا ہے کہ زمانے نے طرح طرح کی گاڑیاں ایجاد کرلیں لیکن مدار کار ہر قسم کی گاڑیوں کا دھری اور پہیے پر ہی رہا، وہ بیل گاڑی اور گدھا گاڑی سے لے کر ریلوں اور بہترین قسم کی موٹر گاڑیوں تک سب میں مشترک ہے اس لئے سب سے بڑا موجد گاڑیوں کا وہ شخص ہے جس نے پہیہ ایجاد کیا کہ دنیا بھر کی ساری مشینری کی روح پہیہ ہی ہے اور معلوم ہوچکا کہ یہ ایجاد پیغمبر اول حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں بذریعہ وحی الہٰی عمل میں آئی ہے۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اشیاء ضرروت کی صنعت کاری اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ بطور وحی انبیاء (علیہم السلام) کو سکھائی گئی ہے۔- حضرت نوح (علیہ السلام) کو سفینہ سازی کی ہدایت دینے کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ آپ کی قوم پر طوفان آئے گا، وہ غرق ہوں گے، اس وقت آپ اپنی شفقت کی بناء پر ان کے بارے میں کوئی سفارش نہ کریں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۝ ٠ ۚ اِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ۝ ٣٧- صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔- عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- خطب - الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، ومنه : الخُطْبَة والخِطْبَة لکن الخطبة تختصّ بالموعظة، والخطبة بطلب المرأة قال تعالی: وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة 235] ، وأصل الخطبة : الحالة التي عليها الإنسان إذا خطب نحو الجلسة والقعدة، ويقال من الخُطْبَة : خاطب وخطیب، ومن الخِطْبَة خاطب لا غير، والفعل منهما خَطَبَ. والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] ، وفصل الخِطَاب : ما ينفصل به الأمر من الخطاب .- ( خ ط ب ) الخطب - والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا اسی سے خطبۃ اور خطبۃ کا لفظ ہے لیکن خطبۃ وعظ و نصیحت کے معنی میں آتا ہے اور خطبۃ کے معنی ہیں نکاح کا پیغام ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة 235] اگر تم کنایہ کہ باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو ۔۔ ۔ تم تم پر کچھ گناہ نہیں ۔ اصل میں خطبۃ اسی حالت کو کہتے ہیں جو بات کرتے وقت ہوتی ہے جیسا کہ جلسۃ اور قعدۃ پھر خطبۃ سے تو خاطب اور خطیب ( دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں مگر خطبۃ سے صرف خاطب کا لفظ ہی بولا جاتا ہے ۔ اور خطب فعل دونوں معنی کے لئے آتا ہے ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔ فصل الخطاب دو ٹوک بات ، فیصلہ کن بات جس سے نزاع ختم ہوجائے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - غرق - الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ،- ( غ ر ق ) الغرق - پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے واصنع الفلک با عیننا ودحینا اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کردو یعنی اس طریقے سے کہ وہ ہماری نظروں میں ہو گویا وہ آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہو، یہ اسلوب بیان مبالغہ پر محمول ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کشتی ہماری نگرانی امورحفاظت میں بنائو ایسی ذات کی حفاظت میں جو تمہیں دیکھ بھی رہی ہو اور تم سے مضرت کو دور کرنے کی بھی مالک ہو۔ ایک قول کے مطابق ہمارے اولیاء یعنی ان فرشتوں کی نگرانی میں کشتی تیار کرو جنہیں تم پر مقرر کیا گیا ہے۔ قول باری ووحینا کا مفہوم ہے کہ ہم نے اس کشتی کی خصوصیت اور کیفیت کے بارے تمہیں جو وحی بھیجی ہے اس کے مطابق اس کے مطابق اسے تیار کرو۔ یہ مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے کہ ہماری اس وحی کے تحت کشتی تیار کرو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) تم ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی تیار کرو اور مجھ سے ان کافرون کی نجات کے متعلق کچھ ذکر نہ کرنا کیوں کہ یہ سب طوفان کے ذریعے غرق کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا) - اس حکم سے یوں لگتا ہے کہ کشتی کی تیاری کے ہر مرحلے پر حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات مل رہی تھیں ‘ مثلاً لمبائی اتنی ہو ‘ چوڑائی اتنی ہو ‘ لکڑیاں یوں تیار کرو ‘ وغیرہ۔ - (وَلاَ تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا)- اب ان منکرین میں سے کسی کے بارے میں کوئی درخواست ‘ دعا یا سفارش وغیرہ آپ کی طرف سے نہ آئے ‘ اب اس کا وقت گزر چکا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :40 اس سے معلوم ہوا کہ جب نبی کا پیغام کسی قوم کو پہنچ جائے تو اسے صرف اس وقت تک مہلت ملتی ہے جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو ۔ مگر جب اس کے صالح اجزاء سب نکل چکتے ہیں اور وہ صرف فاسد عناصر ہی کا مجموعہ رہ جاتی ہے تو اللہ اس قوم کو پھر کوئی مہلت نہیں دیتا اور اس کی رحمت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ سڑے ہوئے پھلوں کے اس ٹوکرے کو دور پھینک دیا جائے تاکہ وہ اچھے پھلوں کو بھی خراب نہ کر دے ۔ پھر اس پر رحم کھانا ساری دنیا کے ساتھ اور آنے والی نسلوں کے ساتھ بے رحمی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: حضرت نوح (علیہ السلام) نے تقریباً ایک ہزار سال عمر پائی اور صدیوں تک اپنی قوم کو نہایت دردمندی سے تبلیغ فرماتے رہے اور اس کے بدلے سخت اذیتیں برداشت کیں، مگر بہت تھوڑے لوگوں کے سوا باقی سب لوگ اپنے کفر اور بداعمالیوں پر قائم رہے، آخر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں بتادیا کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں، اور اب ان پر طوفان کا عذاب آئے گا، اس لئے آپ کو کشتی بنانے کا حکم دیا تاکہ آپ اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والے اس میں سوار ہو کر طوفان کی تباہی سے بچ سکیں، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ کشتی سازی کی صنعت سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) نے وحی کے ذریعے شروع فرمائی تھی اور پہلی بار تین منزلہ جہاز تیار کیا تھا۔