Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قوم نوح کا مانگا ہوا عذاب اسے ملا قوم نوح نے جب عذابوں کی مانگ جلدی مچائی تو آپ نے اللہ سے دعا کی الٰہی زمین پر کسی کافر کو رہتا بستا نہ چھوڑ ۔ پرودرگار میں عاجز آگیا ہوں ، تو میری مدد کر ۔ اسی وقت وحی آئی کہ جو ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اور کوئی اب ایمان نہ لائے گا تو ان پر افسوس نہ کر نہ ان کا کوئی ایسا خاص خیال کر ۔ ہمارے دیکھتے ہی ہماری تعلیم کے مطابق ایک کشتی تیار کر اور اب ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر ، ہم ان کا ڈبو دینا مقرر کر چکے ہیں ۔ بعض سلف کہتے ہیں حکم ہوا کہ لکڑیاں کاٹ کر سکھا کر تختے بنالو ۔ اس میں ایک سو سال گزر گئے پھر مکمل تیاری میں سو سال اور نکل گئے ایک قول ہے چالیس سال لگے واللہ اعلم ۔ امام محمد بن اسحق توراۃ سے نقل کرتے ہیں کہ ساگ کی لکڑی کی یہ کشتی تیار ہوئی اس کا طول اسی ( 80 ) ہاتھ تھا اور عرض پچاس ( 50 ) ہاتھ کا تھا ۔ اندر باہر سے روغن کیا گیا تھا پانی کاٹنے کے پر پرزے بھی تھے قتادہ کا قول ہے کہ لمبائی تین سو ہاتھ کی تھی ۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ طول بارہ سو ہاتھ کا تھا اور چوڑائی چھ سو ہاتھ کی تھی ۔ کہا گیا ہے کہ طول دوہزار ہاتھ اور چوڑائی ایک سو ہاتھ کی تھی واللہ اعلم ۔ اس کی اندرونی اونچائی تیس ہاتھ کی تھی اس میں تین درجے تھے ہر درجہ دس ہاتھ اونچا تھا ۔ سب سے نیچے کے حصے میں چوپائے اور جنگلی جانور تھے ۔ درمیان کے حصے میں انسان تھے اور اوپر کے حصے میں پرندے تھے ۔ ان میں چھوٹا دروازہ تھا ، اوپر سے بالکل بند تھی ۔ ابن جریر نے ایک غریب اثر عبداللہ بن عباس سے ذکر کیا ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم سے درخواست کی کہ اگر آپ بحکم الٰہی کسی ایسے مردہ کو جلاتے جس نے کشتی نوح دیکھی ہو تو ہمیں اسے معلومات ہوتیں آپ انہیں لے کر ایک ٹیلے پر پہنچ کر وہاں کی مٹی اٹھائی اور فرمایا جانتے ہو یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ پنڈلی ہے حام بن نوح کی پھر آپ نے ایک لکڑی اس ٹیلے پر مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو اسی وقت ایک بڈھا سا آدمی اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو بڑھاپے میں مرا تھا ۔ اس نے کہا نہیں مرا تو تھا جوانی میں لیکن اب دل پر دہشت بیٹھی کہ قیامت قائم ہو گئی اس دہشت نے بوڑھا کر دیا ۔ آپ نے فرمایا اچھا حضرت نوح کی کشتی کی بابت اپنی معلومات بیان کرو ۔ اس نے کہا وہ بارہ سو ہاتھ لمبی اور چھ سو ہاتھ چوڑی تھی تین درجوں کی تھی ۔ ایک میں جانور اور چوپائے تھے ، دوسرے میں انسان ، تیسرے میں پرند ، جب جانوروں کا گوبر پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی طرف وحی بھیجی کے ہاتھی کی دم ہلاؤ ۔ آپ کے ہلاتے ہی اس سے خنزیر نر مادہ نکل آئے اور وہ میل کھانے لگے ۔ چوہوں نے جب اس کے تختے کترنے شروع کئے تو حکم ہوا کہ شیر کی پیشانی پر انگلی لگا ۔ اس سے بلی کا جوڑا نکلا اور چوہوں کی طرف لپکا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو شہروں کے غرقاب ہو نے کا علم کیسے ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کوے کو خبر لینے کے لیے بھیجا لیکن وہ ایک لاش پر بیٹھ گیا ، دیر تک وہ واپس نہ آیا تو آپ نے اس کے لیے ہمیشہ ڈرتے رہنے کی بد دعا کی ۔ اسی لیے وہ گھروں سے مانوس نہیں ہوتا ۔ پھر آپ نے کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کا پتہ لے کر آیا اور اپنے پنجوں میں خشک مٹی لایا اس سے معلوم ہو گیا کہ شہر ڈوب چکے ہیں ۔ آپ نے اس کی گردن میں خصرہ کا طوق ڈال دیا اور اس کے لیے امن وانس کی دعا کی پس وہ گھروں میں رہتا سہتا ہے ۔ حواریوں نے کہا اے رسول اللہ آپ انہیں ہمارے ہاں لے چلئے کہ ہم میں بیٹھ کر اور بھی باتیں ہمیں سنائیں ۔ آپ نے فرمایا یہ تمہارے ساتھ کیسے آسکتا ہے جب کہ اس کی روزی نہیں ۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم سے جیسا تھا ویسا ہی ہو جا ، وہ اسی وقت مٹی ہوگیا ۔ نوح علیہ السلام تو کشتی بنانے میں لگے اور کافروں کو ایک مذاق ہاتھ لگ گیا وہ چلتے پھرتے انہیں چھیڑتے اور باتیں بناتے اور طعنہ دیتے کیونکہ انہیں جھوٹا جانتے تھے اور عذاب کے وعدے پر انہیں یقین نہ تھا ۔ اس کے جواب میں حضرت نوح علیہ السلام فرماتے اچھا دل خوش کر لو وقت آرہا ہے کہ اس کا پورا بدلہ لے لیا جائے ۔ ابھی جان لو گے کہ کون اللہ کے عذاب سے دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور کس پر اخروی عذاب آچمٹتا ہے جو کبھی ٹالے نہ ٹلے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یہ اس وقت کہا گیا کہ جب قوم نوح (علیہ السلام) نے عذاب کا مطالبہ کیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ یا رب زمین پر ایک کافر بھی بسنے والا نہ رہنے دے۔ اللہ نے فرمایا، اب مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا، تو ان پر غم نہ کھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] عذاب صرف گندے عنصر پر آتا ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی دعوت اور قوم کے انکار کے نتیجہ میں عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو اور جب ایمان لانے والے ایمان لاچکتے ہیں اور باقی صرف گندہ عنصر ہی رہ جاتا ہے تو یہی عین عذاب کا وقت ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورة نوح میں سیدنا نوح (علیہ السلام) نے خود بھی دعا کرتے وقت کہا تھا کہ یا اللہ اب اس قوم کو غارت کردے کیونکہ اب ان لوگوں میں کسی کے ایمان لانے کی توقع نہیں رہی بلکہ جو اولاد یہ جنیں گے وہ بھی فاسق و فاجر ہی پیدا ہوگی لہذا ان میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ چھوڑ (٧١: ٢٦، ٢٧)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاُوْحِيَ اِلٰي نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ يُّؤْمِنَ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) سے متعلق قرآن مجید کی تمام آیات پر مجموعی نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے بےمثال صبر کے ساتھ مسلسل صدیوں دعوت دینے کے باوجود قوم نے ان کے انکار اور ایذا رسانی میں کوئی کمی نہ کی، بلکہ ہر نسل اپنی اولاد کو وصیت کرکے مرتی رہی کہ دیکھنا اپنے بتوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نوح (علیہ السلام) کی بات مت ماننا۔ (سورۂ نوح) اس کے باوجود نوح (علیہ السلام) پُر امید رہ کر نہایت استقامت کے ساتھ انھیں دعوت توحید دیتے رہے، مگر جب اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ اطلاع دی کہ اب آئندہ آپ کی قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا تو انھوں نے ان پر عذاب کے لیے بددعا کی۔ جس کا ذکر سورة قمر (١٠) میں ہے، فرمایا : (اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِر) ” بیشک میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔ “ اور سورة نوح میں ان کی دعا کے الفاظ ہیں : (رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا) ” اے میرے رب زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔ “ آیت (٢٦) سے آخر سورت تک ملاحظہ فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ( جب نصیحت کرتے ہوئے ایک زمانہ دراز گزر گیا اور کچھ اثر نہ ہوا تو) نوح (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی گئی کہ سوا ان کے جو ( اس وقت تک) ایمان لاچکے ہیں اور کوئی ( نیا) شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہ لاوے گا سو جو کچھ یہ لوگ ( کفر و ایذاء و استہزاء) کر رہے ہیں اس پر کچھ غم نہ کرو ( کیونکہ غم تو خلاف توقع سے ہوتا ہے جب ان سے مخالفت کے سوا کوئی اور توقع ہی نہیں پھر کیوں غم کیا جاوے) اور ( چونکہ ہمارا ارادہ اب ان کو غرق کرنے کا اور اس لئے طوفان آنے کو ہے پس) تم ( اس طوفان سے بچنے کے لئے) ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی تیار کرلو ( کہ اس کے ذریعہ سے طوفان سے تم اور مؤمنین محفوظ رہو گے) اور ( مجھ سے کافروں ( کی نجات) کے بارے میں کچھ گفتگو مت کرنا ( کیونکہ) وہ سب غرق کئے جاویں گے ( ان کے لئے یہ قطعی طور پر تجویز ہوچکا ہے تو ان کی سفارش بےکار ہوگی غرض نوح (علیہ السلام) نے سامان کشتی کا جمع کیا) اور وہ کشتی تیار کرنے لگے ( خواہ خود یا دوسرے کاریگروں کے ذریعہ سے) اور ( اثنائے تیاری میں) جب کبھی ان کی قوم میں کسی رئیس گروہ کا ان پر گزر ہوتا تو ( ان کو کشتی بناتا دیکھ کر اور یہ سن کر کہ طوفان آنے والا ہے) ان سے ہنسی کرتے ( کہ دیکھو پانی کا کہیں نام و نشان نہیں مفت مصیبت جھیل رہے ہیں) آپ فرماتے کہ اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم تم پر ہنستے ہیں جیسا تم ہم پر ہنستے ہو ( کہ عذاب ایسا نزدیک آپہنچا ہے اور تم کو ہنسی سوجھ رہی ہے ہم اس پر ہنستے ہیں) سو ابھی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر (دنیا میں) ایسا عذاب آیا جاتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا اور ( بعد مرگ) اس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے ( غرض اسی طرح کے مکالمات اور معاملات ہوا کرتے) یہاں تک کہ جب ہمارا حکم ( عذاب کا قریب) آپہنچا اور زمین سے پانی ابلنا شروع ہوا ( اور یہ علامت تھی طوفان شروع ہوجانے کی اور اوپر سے پانی برسنا شروع ہوا اس وقت) ہم نے ( نوح (علیہ السلام) سے) فرمایا کہ ہر قسم ( کے جانوروں) میں سے ( جو کہ انسان کے لئے کارآمد ہیں اور پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے) ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ یعنی دو عدد اس ( کشتی) میں چڑھا لو اور اپنے گھر والوں کو بھی ( چڑھا لو) باستثناء اس کے جس پر ( غرق ہونے کا) حکم نافذ ہوچکا ہے (یعنی ان میں جو کافر ہو جن کی نسبت اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ کہہ دیا گیا ہے، اس کو سوار مت کرنا اور گھر والوں کے علاوہ) دوسرے ایمان والوں کو بھی ( سوار کرلو) اور بجز قلیل آدمیوں کے ان کے ساتھ کوئی ایمان نہ لایا تھا ( بس ان ہی کے سوار کرنے کا حکم ہوگیا ) ۔- معارف و مسائل - حضرت نوح (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے تقر یبا ایک ہزار سال کی عمر دراز عطا فرمائی، اس کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دینے اور قوم کی اصلاح کرنے کی فکر اور پیغمبرانہ جدوجہد کا بھی یہ درجہ عطا فرمایا کہ اس طویل مدت عمر میں ہمیشہ اپنی قوم کو دین حق اور کلمہ توحید کی دعوت دیتے رہے، قوم کی طرف سے سخت سخت ایذاؤں کا سامنا کرنا پڑا ان کی قوم ان پر پتھراؤ کرتی یہاں تک کہ بےہوش ہوجاتے پھر جب ہوش آتا دعا کرتے کہ یا اللہ میری قوم کو معاف کردے یہ بیوقوف جاہل جانتے نہیں، قوم کی ایک نسل کے بعد دوسری کو دوسری کے بعد تیسری کو اس امید پر دعوت دیتے کہ شاید یہ حق کو قبول کرلیں۔- جب اس عمل پر صدیاں گزر گئیں تو رب العزت کے سامنے ان کی حالت زار کی شکایت کی جو سورة نوح میں مذکور ہے (آیت) رَبِّ اِنِّىْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّنَهَارًا، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاۗءِيْٓ اِلَّا فِرَارًا، اور اتنے طویل مصائب کے بعد اس مرد خدا کی زبان پر یہ دعا آئی (آیت) رَبِّ انْــصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ ، یعنی اے میرے پروردگار ان کی تکذیب کے بالمقابل آپ میری مدد کیجئے۔- قوم نوح کا ظلم و جور سے گزر جانے کے بعد حق تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان آیات سے خطاب فرمایا جو اوپر مذکور ہیں ( بغوی، مظہری ) ۔- ان میں اول تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو یہ بتلایا گیا کہ آپ کی قوم میں جن کو ایمان لانا تھا، لے آئے اب کوئی اور شخص ایمان قبول نہ کرے گا ان کے دلوں پر ان کی ہٹ دھرمی اور سرکشی کی بناء پر مہر لگ چکی ہے اس لئے اب آپ اس قوم کا غم نہ کھائیں اور ان کے ایمان قبول نہ کرنے سے پریشان نہ ہوں۔- دوسری بات یہ بتلائی گئی کہ اب ہم اس قوم پر عذاب پانی کے طوفان کا بھیجنے والے ہیں اس لئے آپ ایک کشتی تیار کریں جس میں آپ کے اہل و عیال اور جتنے مسلمان ہیں مع اپنی ضروریات کے سما سکیں تاکہ طوفان کے وقت یہ سب اس میں سوار ہو کر نجات پاسکیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق کشتی بنائی، پھر جب طوفان کی ابتداء کی علامات سامنے آگئیں کہ زمین سے پانی ابلنے لگا تو نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ خود مع اپنے اہل و عیال کے اور ان لوگوں کے جو آپ پر ایمان لائے ہیں اس کشتی میں سوار ہوجائیں، اور انسانوں کی ضروریات جن جانوروں سے متعلق ہیں جیسے گائے، بیل، بکری، گھوڑا، گدھا وغیرہ ان کا بھی ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق سب کو سوار کرلیا۔- آخر میں فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور کشتی میں سوار ہونے والے مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔- یہ خلاصہ مضمون ہے آیات متذکرہ کا، اب ہر ایک آیت کے مفہوم کی تشریح اور ان سے متعلقہ مضامین و مسائل دیکھئے۔- پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) پر یہ وحی بھجی گئی کہ ان کی قوم میں سے جو ایمان لانے والے تھے لاچکے ہیں آئندہ اور کوئی ایمان نہ لائے گا اس لئے یہ لوگ جو کچھ معاملہ آپ کے ساتھ کرتے ہیں اس سے آپ غمگین و پریشان نہ ہوں، کیونکہ غم و پریشانی عموماً جب ہوتی ہے جب کسی سے صلاح و فلاح کی امید وابستہ ہو، مایوسی بھی ایک قسم کی راحت ہوتی ہے آپ ان سے مایوس ہوجائیے، اور جو تکلیف و صدمہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی ایذاؤں سے پہنچ رہا تھا اس کے انتظام کی طرف دوسری آیت میں اشارہ کیا گیا کہ ان کو پانی کے طوفان میں غرق کردیا جائے گا، انہیں حالات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان پر اپنی قوم کے لئے وہ بددعا آئی تھی جس کا ذکر سورة نوح میں کیا گیا ہے :- (آیت) رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا، اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا، - یعنی اے میرے پروردگار اب ان کافروں میں سے کوئی زمین بر بسنے والا نہ چھوڑئیے، کیونکہ اگر یہ رہے تو ان کی آئندہ نسل بھی ایسی ہی سرکشی اور فاجر و کافر ہوگی۔- یہی دعا قبول ہو کر پوری قوم نوح طوفان میں غرق کی گئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاُوْحِيَ اِلٰي نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ يُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۝ ٣٦ ۚۖ- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٦) اور نوح (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی گئی کہ اب تک جو ایمان لاچکے ہیں ان کے علاوہ اور کوئی ایمان نہیں لائے گا، لہذا ان کے برے اعمال اور ان کی ہلاکت پر کچھ غم نہ کیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani