Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 حضرت نوح (علیہ السلام) نے قرابت نسبی کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اپنا بیٹا قرار دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کی بنیاد پر قرابت دین کے اعتبار سے اس بات کی نفی فرمائی کہ وہ تیرے گھرانے سے ہے۔ اس لئے کہ ایک نبی کا اصل گھرانہ تو وہی ہے جو اس پر ایمان لائے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اور اگر کوئی ایمان نہ لائے تو چاہے وہ نبی کا باپ ہو، بیٹا ہو یا بیوی، وہ نبی کے گھرانے کا فرد نہیں۔ 46۔ 2 یہ اللہ تعالیٰ نے اس کی علت بیان فرما دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس ایمان اور عمل صا لح نہیں ہوگا، اسے اللہ کے عذاب سے اللہ کا پیغمبر بھی بچانے پر قادر نہیں۔ آج کل لوگ پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں سے وابستگی کو ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور عمل صالح کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے حالانکہ جب عمل صالح کے بغیر نبی سے نسبی قرابت بھی کام نہیں آتی، تو یہ وابستگیاں کیا کام آسکتی ہیں۔ 46۔ 3 اس سے معلوم ہوا کہ نبی عالم الغیب نہیں ہوتا، اس کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے۔ اگر حضرت نوح (علیہ السلام) کو پہلے سے علم ہوتا کہ ان کی درخواست قبول نہیں ہوگی تو یقینا وہ اس سے پرہیز فرماتے۔ 46۔ 4 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوح (علیہ السلام) کو نصیحت ہے، جس کا مقصد ان کو اس مقام بلند پر فائز کرنا ہے جو علمائے عالمین کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥١] بدکردار بیٹا بھی نبی کا اہل نہیں ہوسکتا :۔ جب دیکھتے ہی دیکھتے سیدنا نوح کے سامنے ان کا بیٹا غرق ہوگیا تو ملول ہوگئے اور اللہ سے اس انداز میں التجا کی کہ یا اللہ تیرا وعدہ تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا اور وعدہ بھی سچا اور تیرا فیصلہ بھی سب حاکموں سے بہتر اور آخری جس کی کوئی اپیل بھی نہیں اور یہ غرق ہونے والا بیٹا بھی تو میرے اہل میں سے ہی تھا۔ پھر اسے غرق کرنے میں کیا حکمت تھی ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ایک بدکردار آدمی نبی کے اہل میں سے کیسے ہوسکتا ہے وہ ہرگز تمہارے اہل میں سے نہیں تھا خواہ وہ تمہارا صلبی بیٹا ہی تھا اور دیکھو آئندہ مجھ سے ایسا جاہلانہ سوال کبھی نہ کرنا - نبوت زادگی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی :۔ اس سوال و جواب سے ایک نہایت اہم سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف ایمان اور عمل صالح ہی کی قدر و قیمت ہے صرف یہی نہیں کہ کنعان کی نبوت زادگی اس کے کچھ کام نہ آسکی بلکہ ایک اولوالعزم نبی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی التجا کر رہا ہے تو الٹا اس پر ہی عتاب نازل ہوتا ہے اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جنہوں نے سستی نجات کے لیے طرح طرح کے عقیدے وضع کر رکھے ہیں کسی شخص کا سید ہونا یا کسی بزرگ کا دامن پکڑنا اللہ کے ہاں کچھ وقعت نہیں رکھتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ : فرمایا اے نوح یہ تیرے اہل میں سے نہیں، بلکہ ” اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ “ کے تحت کفر کی وجہ سے تمہارا اہل ہونے کے شرف سے محروم ہے اور ان لوگوں میں شامل ہوگیا ہے جن کے غرق کیے جانے کا پہلے فیصلہ ہوچکا ہے۔ ِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ : عام طور پر اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ” اس کے عمل اچھے نہیں ہیں۔ “ یہ معنی اس صورت میں درست ہوسکتا ہے کہ ” عمل “ مصدر کو مبالغہ کے لیے اسم فاعل ( عَامِلٌ ) کے معنی میں مانا جائے، جیسے : ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ کو ” زَیْدٌ عَادِلٌ“ کے معنی میں لیا جاتا ہے، یعنی یہ غیر صالح عمل کرنے والا ہے۔ مگر امام المفسرین طبری (رض) کے مطابق ” عَمَلٌ“ کی ضمیر نوح (علیہ السلام) کی دعا کی طر ف جاتی ہے کہ آپ نے اپنے مشرک بیٹے کے حق میں جو سفارش کی ہے، یہ کام اچھا نہیں ہے۔ - فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ : یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوال تو اسی چیز کا ہوتا ہے جس کا علم نہ ہو، جس چیز کا علم ہو اس کے سوال کی تو ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اس کے دو جواب ہیں، دراصل عربی میں سوال کا لفظ مانگنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور پوچھنے کے بارے میں بھی۔ سو پہلا جو اب یہ ہے کہ صرف وہی چیز مانگنی چاہیے جس کے متعلق اچھی طرح معلوم ہو کہ جس سے مانگ رہے ہیں وہ یہ چیز مانگنے پر ناراض نہیں ہوگا۔ جس کے متعلق یہ علم نہ ہو بلکہ اس کے ناراض ہونے کا بھی خطرہ ہو، وہ ہرگز نہیں مانگنی چاہیے۔ اب نوح (علیہ السلام) کے سامنے اللہ تعالیٰ کے وہ فرمان موجود تھے : (وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِیْ الَّذِیْنَ ظَلَمْوْا) اور (وَ اَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ) پھر بھی انھیں اس کا علم نہیں ہوسکا کہ اس درخواست پر اللہ تعالیٰ کس قدر ناراض ہوں گے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی درخواست کا جواب تو ” اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ “ کہہ کر دے دیا تھا، اب اس سے آگے امکان تھا کہ نوح (علیہ السلام) بیٹے کے نجات نہ پانے اور کفر پر مستحکم رہنے کے متعلق سوال کرتے کہ اس میں کیا حکمت ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اس سے روک دیا کہ میری حکمتوں تک تمہارے علم کی رسائی نہیں ہوسکتی، اس لیے مجھ سے ایسی بات مت پوچھنا۔ (الوسیط للطنطاوی) یعنی پوچھنی بھی وہی بات چاہیے جس کے متعلق علم ہو کہ جس سے پوچھ رہے ہیں وہ اس سوال پر ناراض نہیں ہوگا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” آدمی پوچھتا وہی ہے جو معلوم نہ ہو، لیکن مرضی معلوم ہونی چاہیے۔ یہ کام ہے جاہل کا کہ اگلے کی مرضی نہ دیکھے پوچھنے کی، پھر پوچھے۔ “ (موضح)- اِنِّىْٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ : مطلب یہ ہے کہ اس حقیقت کو جاننے کے بعد اگر ایسا سوال کرو گے تو جاہل بن کر رہ جاؤ گے۔ (روح المعانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں حق تعالیٰ کی طرف سے اس کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو تنبیہ کی گئی کہ یہ لڑکا آپ کو نہیں چاہئے کہ اس حقیقت حال سے بیخبر رہ کر مجھ سے کوئی سوال کریں ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ نادانوں میں داخل نہ ہوجاؤ۔- حق تعالیٰ کے اس ارشاد سے دو باتیں معلوم ہوئیں، اول یہ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس بیٹے کے کفر کا پورا حال معلوم نہ تھا اس کے نفاق کی وجہ سے وہ اس کو مسلمان ہی جانتے تھے، اسی لئے اس کو اپنے اہل کا ایک فرد قرار دے کر طوفان سے بچانے کی دعا کر بیٹھے ورنہ اگر ان کو حقیقت حال معلوم ہوتی تو ایسی دعا نہ کرتے، کیونکہ ان کو صریح طور پر پہلے ہی یہ ہدایت دے دی گئی تھی کہ جب طوفان آجائے تو پھر آپ ان سرکشوں میں سے کسی کے متعلق کوئی سفارش کی گفتگو نہ فرمائیں، جیسا کہ پچھلی آیات میں گزر چکا ہے، (آیت) وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ ، اس صاف وصریح حکم کے بعد ناممکن تھا کہ پیغمبر خدا اس کی خلاف ورزی کی جرأت کرتے، بجز اس احتمال کے جس کو اوپر خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ اس دعا کا حاصل اس بیٹے کے مومن ہوجانے کی دعا ہے یہ نہیں کہ اس کے موجودہ حال میں اس کو طوفان سے بچایا جائے لیکن حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس کے کفر سے لا علمی اور اس کی بناء پر دعا نجات کو بھی حق تعالیٰ نے عذر صحیح قرار نہیں دیا اور اسی لئے تنبیہ کی گئی کہ بغیر علم کے ایسی دعا کیوں کی، اور یہ پیغمبرانہ شان کی ایک ایسی لغزش ہے جس کو حضرت نوح (علیہ السلام) اس وقت بھی اپنے عذر میں پیش کریں گے جب محشر میں پوری مخلوق خدا آپ سے شفاعت کرنے کی درخواست کرے گی تو وہ فرمائیں گے کہ مجھ سے ایسی لغزش ہوچکی ہے اس لئے میں شفاعت کی جرأت نہیں کرسکتا۔- کافر اور ظالم کے لئے دعا جائز نہیں : - اس سے ایک مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ دعا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ دعا کرنے والا پہلے یہ معلوم کرلے کہ جس کام کی دعا کر رہا ہے وہ جائز و حلال ہے یا نہیں، مشتبہ حالت میں دعا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، تفسیر روح المعانی میں بحوالہ قاضی بیضاوی نقل کیا ہے کہ جب اس آیت سے مشتبہ الحال کے لئے دعا کرنے کی ممانعت معلوم ہوئی تو جس معاملہ کا ناجائز و حرام ہونا معلوم ہو اس کے لئے دعا کا ناجائز ہونا بدرجہ اولی ثابت ہوگیا۔- اس سے معلوم ہوا کہ آجکل کے مشائخ میں جو یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ جو شخص کسی دعا کے لئے آیا اس کے واسطے ہاتھ اٹھا دیئے اور دعا کردی حالانکہ اکثر ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس مقدمہ کے لئے یہ دعا کرا رہا ہے اس میں یہ خود ناحق پر ہے یا ظالم ہے، یا کسی ایسے مقصد کے لئے دعا کرا رہا ہے جو اس کے لئے حلال نہیں، کوئی ایسی ملازمت اور منصب ہے جس میں یہ حرام میں مبتلا ہوگا یا کسی کی حق تلفی کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے گا۔- ایسی دعائیں حالت معلوم ہونے کی صورت میں تو حرام و ناجائز ہیں ہی اگر حالت اشتباہ کی حالت بھی ہو تو حقیقت حال اور معاملہ کے جائز ہونے کا علم حاصل کئے بغیر دعا کیلئے اقدام کرنا بھی مناسب نہیں۔- مؤ من و کافر میں رشتہ اخوت نہیں ہوسکتا وطنی یا نسبی بنیاد پر قومیت کی تعمیر اصول اسلام سے بغاوت ہے :- دوسرا مسئلہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مومن اور کافر کے درمیان اگرچہ رشتہ قرابت کا ہو، مگر دینی اور اجتماعی معاملات میں اس رشتہ داری کا کوئی اثر نہیں ہوگا، کوئی شخص کتنا ہی عالی نسب ہو، کتنے ہی بڑے بزرگ کی اولاد ہو یہاں تک کہ سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد میں داخل ہونے کا شرف رکھتا ہو، اگر وہ مومن نہیں ہے تو دینی معاملات میں اس کے اس نسب عالی اور قرابت نبوی کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا، تمام دینی معاملات میں تو مدار کار ایمان اور صلاح وتقوی پر ہے، جو صالح و متقی ہے وہ اپنا ہے جو ایسا نہیں وہ بیگانہ ہے،- ہزار خویشی کہ بیگانہ از خدا باشد فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد - اگر دینی معاملات میں بھی ان رشتہ داریوں کی رعایت ہوتی تو بدر و احد کے میدانوں میں بھائی کی تلوار بھائی پر نہ چلتی، بدر و احد اور احزاب کے معرکے تو سب کے سب ایک ہی خاندانوں کے افراد کے درمیان پیش آئے ہیں، جس نے واضح کردیا کہ اسلامی قومیت اور برادری نسبی تعلقات یا وطنی اور لسانی وحدتوں پر دائر نہیں ہوتی بلکہ ایمان و عمل پر دائر ہے، ایمان والے خواہ کسی ملک کے باشندے اور کسی خاندان کے افراد اور کوئی زبان بولنے والے ہوں سب ایک قوم اور ایک برادری ہیں (آیت) انما المومنون اخوۃ کا یہی مطلب ہے، اور جو ایمان و عمل صالح سے محروم ہیں وہ اسلامی برادری کے فرد نہیں، قرآن کریم نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی زبانی اس حقیقت کو بہت واضح الفاظ میں بیان کردیا ہے (آیت) اِنَّا بُرَءٰۗؤ ُ ا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ، یعنی ہم تم سے بھی بری ہیں اور تمہارے معبودوں سے بھی۔- اس مسئلہ میں احقر نے دینی معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ دنیوی معاملات میں حسن معاشرت، حسن اخلاق اور احسان و کرم کا سلوک کرنا الگ چیز ہے وہ غیر صالح سے بھی جائز بلکہ مستحسن اور ثواب ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا تعامل اور غیر مسلموں کے ساتھ احسان و سلوک کے بیشمار واقعات اس پر شاہد ہیں۔- آج کل جو وطنی اور لسانی یا لونی بنیادوں پر قومیت کی تعمیر کی جاتی ہے، عرب برادری ایک قوم، ہندی، سندھی دوسری قوم قرار دی جاتی ہے، یہ قرآن و سنت کے خلاف اور رسول کریم اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصول سیاست سے بغاوت کے مرادف ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَيْسَ مِنْ اَہْلِكَ۝ ٠ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ۝ ٠ ۡ ۤۖ فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝ ٠ ۭ اِنِّىْٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِيْنَ۝ ٤٦- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٦) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح (علیہ السلام) یہ تمہارے ان گھر والوں میں سے نہیں ہے جن کے بچانے کا ہم نے وعدہ فرمایا ہے یہ غیر پسندیدہ کام یعنی شرک میں مبتلا ہے اس کی نجات کے بارے میں آپ کی دعا میری مرضی کے خلاف ہے سو مجھے ایسے لوگوں کی نجات کی درخواست مت کرو جن کی آپ کو خبر نہیں کہ یہ اہل نجات سے ہیں یا نہیں۔- میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی چیزوں کی درخواست کرکے جنھیں تم نہیں جانتے کہ کہیں تو نادان نہ بن جاؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ )- اس کے نظریات اس کے عقائد ‘ اس کا کردار سب کافرانہ تھے۔ وہ آپ کے اہل میں کیسے شمار ہوسکتا ہے ؟ نبی کا گھرانا صرف نسب سے نہیں بنتا بلکہ ایمان و عمل صالح سے بنتا ہے۔ چناچہ وہ آپ کے نسبی خاندان کا ایک رکن ہونے کے علی الرغم آپ کے ایمانی و اخلاقی خاندان کا فرد نہیں تھا۔ - (اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ )- یہ بہت سخت انداز ہے۔ یاد کیجیے کہ سورة الانعام کی آیت ٣٥ میں محمد رسول اللہ سے بھی اس طرح کے الفاظ فرمائے گئے ہیں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :49 یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کے جسم کا کوئی عضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اس کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو ۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا ایک حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو ۔ اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تمہارے جسم کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ یہ سڑ چکا ہے ۔ اس جواب کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ فی الواقع وہ سڑا ہوا عضو جسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارے جسم کے لیے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کارآمد اعضاء ہیں نہ کہ سڑے ہوئے اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہ ہوں اور باقی جسم کو بھی خراب کر دینے والے ہوں ۔ لہٰذا جو عضو بگڑ چکا ہے وہ اب اس مقصد کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لیے اعضاء سے جسم کا تعلق مطلوب ہوتا ہے ۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ سے یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلا ق وعمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے ، یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کے بیٹا ہونے کی نفی کی جا رہی ہے ، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نیہں ہے ۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کا ایک رکن ہو تو ہوا کرے مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ۔ اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی یا قومی نزاع کا نہیں ہے کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نسل والے غارت کر دیے جائیں ، بلکہ یہ کفروایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صرف صالح بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دیے جائیں گے ۔ بیٹے کو بگڑا ہوا کام کہہ کر ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے ۔ ظاہر بین آدمی اولاد کو صرف اس لیے پرورش کرتا ہے اور اسے محبوب رکھتا ہے کہ وہ اس کی صلب سے یا اس کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ صالح ہو یا غیر صالح ، لیکن مومن کی نگاہ تو حقیقت پر ہونی چاہیے ۔ اسے تو اولاد کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ چند انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فطری طریقہ سے میرے سپرد کیا ہے تاکہ ان کو پال پوس کر اور تربیت دے کر اس مقصد کے لیے تیار کروں جس کے لیے اللہ نے دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے ۔ اب اگر اس کی تمام کوششوں اور محنتوں کے باوجود کوئی شخص جو اس کے گھر پیدا ہوا تھا ۔ اس مقصد کے لیے تیار نہ ہو سکا اور اپنے اس رب ہی کا وفادار خادم نہ بنا جس نے اس کو مومن باپ کے حوالے کیا تھا ، تو اس باپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری محنت و کوشش ضائع ہو گئی ، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسی اولاد کے ساتھ اسے کوئی دل بستگی ہو ۔ پھر جب یہ معاملہ اولاد جیسی عزیز ترین چیز کے ساتھ ہے تو دوسرے رشتہ دارں کے متعلق مومن کا نقطہ نظر جو کچھ ہو سکتا ہے ہو ظاہر ہے ۔ ایمان ایک فکری و اخلاقی صفت ہے ۔ مومن اسی صفت کے لحاظ سے مومن کہلاتا ہے ۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی رشتہ بجز اخلاقی و ایمانی رشتہ کے نہیں ہے ۔ گوشت پوست کے رشتہ دار اگر اس صفت میں اس کے ساتھ شریک ہیں تو یقینا وہ اس کے رشتہ دار ہیں ، لیکن اگر وہ اس صفت سے خالی ہیں تو مومن محض گوشت پوست کی حد تک ان سے تعلق رکھے گا ، اس کا قلبی و روحی تعلق ان سے نہیں ہو سکتا ۔ اور اگر ایمان و کفر کی نزاع میں وہ مومن کے مد مقابل آئیں تو اس کے لیے وہ اور اجنبی کافر یکساں ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani