نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی دعا اور جواب یاد رہے کہ یہ دعا حضرت نوح علیہ السلام کی محض اس غرض سے تھی کہ آپ کو صحیح طور پر اپنے ڈوبے ہوئے لڑکے کا حال معلوم ہو جائے ۔ کہتے ہیں کہ پروردگار یہ بھی ظاہر ہے کہ میرا لڑکا میرے اہل میں سے تھا ۔ اور میری اہل کو بچانے کا تیرا وعدہ تھا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ تیرا وعدہ غلط ہو ۔ پھر یہ میرا بچہ کفار کے ساتھ کیسے غرق کر دیا گیا ؟ جواب ملا کہ تیری جس اہل کو نجات دینے کا میرا وعدہ تھا ان میں تیرا یہ بچہ داخل نہ تھا ، میرا یہ وعدہ ایمانداروں کی نجات کا تھا ۔ میں کہہ چکا تھا کہ ( وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۚ وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ 27 ) 23- المؤمنون:27 ) یعنی تیرے اہل کو بھی تو کشتی میں چڑھا لے مگر جس پر میری بات بڑھ چکی ہے وہ بوجہ اپنے کفر کے انہیں میں سے تھا جو میرے سابق علم میں کفر والے اور ڈوبنے والے مقرر ہو چکے تھے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض لوگوں نے کہا ہے یہ دراصل حضرت نوح علیہ السلام کا لڑکا تھا ہی نہیں کیونکہ آپ کے بطن سے نہ تھا ۔ بلکہ بدکاری سے تھا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی کا اگلے گھر کا لڑکا تھا ۔ یہ دونوں قول غلط ہیں بہت سے بزرگوں نے صاف لفظوں میں اسے غلط کہا ہے بلکہ ابن عباس اور بہت سے سلف سے منقول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا کاری نہیں کی ۔ پس یہاں اس فرمان سے کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں یہی مطلب ہے کہ تیرے جس اہل کی نجات کا میرا وعدہ ہے یہ ان میں سے نہیں ۔ یہی بات سچ ہے اور یہی قول اصلی ہے ۔ اس کے سوا اور طرف جانا محض غلطی ہے اور ظاہر خطا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ اپنے کسی نبی کے گھر میں زانیہ عورت دے ۔ خیال فرمائیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جنہوں نے بہتان بازی کی تھی ان پر اللہ تعالیٰ کس قدر غضبناک ہوا اس لڑکے کے اہل میں سے نکل جانے کی وجہ خود قرآن نے بیان فرما دی ہے کہ اس کے عمل نیک نہ تھے عکرمہ فرماتے ہیں ایک قرأت ( آیت انہ عمل عملا غیر صالح ) ہے مسند کی حدیث میں ہے حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ 46 ) 11-ھود:46 ) پڑھتے سنا ہے اور ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53 ) 39- الزمر:53 ) پڑھتے سنا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا کہ ( آیت فخانتا ھما ) کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا اس سے مراد زنا نہیں بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کی خیانت تو یہ تھی کہ لوگوں سے کہتی تھی یہ مجنون ہے ۔ اور حضرت لوط کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ جو مہمان آپ کے ہاں آتے اپنی قوم کو خبر کر دیتی ۔ پھر آپ نے فرمایا اللہ سچا ہے اس نے اسے حضرت نوح کا لڑکا فرمادیا ہے ۔ پس وہ یقیناً حضرت نوح کا ثابت النسب لڑکا ہی تھا ۔ دیکھو اللہ فرماتا ہے ( ونادی نوح نبنہ ) اور یہ بھی یاد رہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا کاری نہیں کی ایسا ہی حضرت مجاہد سے مروی ہے ۔ اور یہی ابن جریر کا پسندیدہ ہے ۔ اور فی الواقع ٹھیک اور صحیح بات بھی یہی ہے ۔
45۔ 1 حضرت نوح (علیہ السلام) نے غالبا شفقت پدری کے جذبے سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کی اور بعض کہتے ہیں کہ انھیں یہ خیال تھا کہ شاید یہ مسلمان ہوجائے گا، اس لئے اس کے بارے میں یہ استدعا کی۔
وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّهٗ ۔۔ : تمام کفار کے غرق ہونے کے بعد باپ کی شفقت نے جوش مارا تو نوح (علیہ السلام) نے بیٹے کے بارے میں دعا کی۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ نوح (علیہ السلام) کے اہل کو بچانے کا تھا، اس وعدے کے حوالے سے درخواست کی۔ وہ اہل سے نسبی اور رشتہ داری کے گھر والے سمجھ بیٹھے، جب کہ کافر اور مومن کے درمیان دوستی کا رشتہ باقی نہیں رہتا۔ ایمان لانے کے بعد سب مومن دوست اور سب کافر دشمن بن جاتے ہیں۔ دیکھیے سورة ممتحنہ (٤) بہرحال نوح (علیہ السلام) نے ادب ملحوظ رکھا اور صریح الفاظ میں بیٹے کو بچانے کی بات نہیں کی۔
خلاصہ تفسیر - اور ( جب) نوح ( علیہ السلام) نے کنعان کو ایمان لانے کے لئے فرمایا اور اس نے نہ مانا تو اس کے غرق ہونے کے قبل انہوں) نے ( اس امید پر کہ شاید حق تعالیٰ اپنی قدرت سے اس کے دل میں ایمان القاء فرما دے اور ایمان لے آوے) اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا کہ اے میرے رب میرا یہ بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور آپ کا ( یہ) وعدہ بالکل سچا ہے ( کہ گھر والوں میں جو ایمان والے ہیں ان کو بچا لوں گا) اور ( گویہ سر دست ایمان والا اور مستحق نجات نہیں ہے لیکن) آپ احکم الحاکمین ( اور بڑی قدرت والے) ہیں ( اگر آپ چاہیں تو اس کو مومن بنادیں تاکہ یہ بھی اس وعدہ حقہ کا محل بن جائے، خلاصہ معروض کا دعا تھی اس کے مومن ہوجانے کے لئے) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نوح یہ شخص ( ہمارے علم ازلی میں) تمہارے ( ان) گھر والوں میں نہیں ( جو ایمان لا کر نجات پاویں گے یعنی اس کی قسمت میں ایمان نہیں بلکہ) یہ ( خاتمہ تک) تباہ کر ( یعنی کافر رہنے والا) ہے سو مجھ سے ایسی چیز کی درخواست مت کرو جس کی تم کو خبر نہیں ( یعنی ایسے امر محتمل کی دعا مت کرو) میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم نادانوں میں داخل نہ ہوجاؤ، نوح نے عرض کیا کہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ( آئندہ) آپ سے ایسے امر کی درخواست کروں جس کی مجھ کو خبر نہ ہو اور ( گذشتہ معاف کردیجئے کیونکہ) اگر آپ میری مغفرت نہ فرماویں گے اور مجھ پر رحم نہ فرماویں گے تو میں تو بالکل تباہ ہی ہوجاوں گا ( جب جودی پر کشتی ٹھہرنے کے چند روز بعد پانی بالکل اتر گیا اس وقت نوح (علیہ السلام) سے) کہا گیا ( یعنی اللہ تعالیٰ نے خود یا کسی فرشتہ کے ذریعہ سے ارشاد فرمایا) کہ اے نوح ( اب جودی پر سے زمین پر) اترو ہماری طرف سے سلام اور برکتیں لے کر جو تم پر نازل ہوں گی اور ان جماعتوں پر کہ تمہارے ساتھ ہیں ( کیونکہ ساتھ والے سب مسلمان تھے اور اس علت کے اشتراک سے قیامت تک کے مسلمانوں پر بھی سلام و برکات کا نزول معلوم ہوگیا) اور ( چونکہ یہ کلام بعد والے مسلمانوں پر بھی برکات کے نازل ہونے پر دلالت کرتا ہے، اور بعد والوں میں بعضے کافر بھی ہوں گے اس لئے ان کا حال بھی بیان فرماتے ہیں کہ) بہت سی ایسی ہماری طرف سے سزا سخت واقع ہوگی، یہ قصہ ( آپ کے اعتبار سے) منجلمہ اخبار غیب کے ہے جس کو ہم وحی کے ذریعہ سے آپ کو پہنچاتے ہیں اس ( قصہ) کو اس ( ہمارے بتلانے) کے قبل نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم ( جانتی تھی، اس اعتبار سے غیب تھا اور بجز وحی کے دوسرے سب اسباب علم کے یقینا مفقود ہیں پس ثابت ہوگیا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے اور یہی نبوت ہے لیکن یہ لوگ بعد ثبوت نبوت کے بھی آپ کی مخالفت کرتے ہیں) سو صبر کیجئے (جیسا اس قصہ میں نوح (علیہ السلام) کا صبر آپ کو معلوم ہوا ہے) یقینا نیک انجامی متقیوں ہی کے لئے ہے ( جیسا نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں معلوم ہوا کہ کفار کا انجام برا اور مسلمانوں کا انجام اچھا ہوا اسی طرح ان کفار کا چند روزہ زور شور ہے پھر اخیر میں غلبہ حق ہی کو ہوگا )- معارف و مسائل - سورة ہود کی مذکورہ پانچ آیتوں میں طوفان نوح (علیہ السلام) کا باقی قصہ اور اس سے متعلق ہدایات مذکور ہیں۔- حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا کنعان جب والد بزرگوار کی نصیحت اور دعوت کے بادجود کشتی میں سوار نہ ہوا تو اس کو موج طوفان میں مبتلا دیکھ کر شفقت پدری نے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے گھر والوں کو طوفان سے بچائیں گے اور بلاشبہ آپ کا وعدہ حق و صحیح ہے، مگر صورت حال یہ ہے کہ میرا بیٹا جو میرے گھر والوں میں داخل ہے وہ طوفان کی نذر ہو رہا ہے اور آپ تو احکم الحاکمین ہیں ہر چیز آپ کی قدرت میں ہے، اب بھی اس کو طوفان سے بچا سکتے ہیں۔
وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَہْلِيْ وَاِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِيْنَ ٤٥- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔
ابن نوح (علیہ السلام) کا مفہوم - قول باری ہے ونادی نوح ربہ فقال رب ان ابنبی من اھلی ۔ نوح نے اپنے رب کا پکارا ۔ کہا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے۔ حضرت (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو اپنے اہل میں شمار کیا یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اپنے اہل کے لیے تہائی مال کی وصیت کر جائے، یہ تہائی مال ان تمام افراد کو مل جائے گا جو اس کے عیال میں شامل ہوں گے خواہ وہ اس کا بیٹا ہو، یا بھائی یا بیوی یا کوئی غیر رشتہ دار اجنبی ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے جب کہ قیاس کا تقاضا تھا کہ یہ وصیت صرف اس کی بیوی کے لیے خاص ہوجاتی لیکن یہاں استحسان کی صورت اختیار کر کے اس وصیت کو ان تمام افراد کے لی جاری کردیا گیا جو وصیت کرنے والے کے مکان میں رہتے ہوں اور اس کے عیال میں داخل ہوں ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا قول اس پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمایا ہے ولقد نادانا نوح فلنعم المجیبون ونجیناہ واھلہ من الکوب العظیم اور ہم کو نوح (علیہ السلام) نے پکارا اور ہم خوب فریاد سننے والے ہیں اور ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو بڑے بھاری غم سے نجات دی ۔ اس طرح ان تمام افراد کو جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے مکان میں رہتے تھے اور ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ان کے اہل کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ کہنا کہ ” میرابیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے “ اس پر مبنی تھا کہ تو نے میرے گھر والوں کو بچا لینے کا وعدہ فرمایا تھا اس میں میرا بیٹا بھی شامل تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ کیا کہ تمہارا یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں تھا جنہیں بچا لینے کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔- قول باری ہے انہ عمل غیر صالح وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ۔ آیت کے معنی کے سلسلے میں ایک قول ہے ذو عمل غیر صالح وہ غیر صالح عمل والا تھا یہ اندازہ کلام صفت میں مبالغہ پر محمول ہوتا ہے جس طرح خنساء کا یہ شعر ہے۔- ؎ ترقع ما رتعت حتی اذا ادکوت فانماھی اقبال وادبار - یہ چرتی رہتی ہے جب تک چاہتی ہے یہاں تک کہ جب اسے یاد آ جاتا ہے تو پھر یہ اقبال و ادبار یعنی سامنے سے نمودار ہونے اور پھر مڑ جانے کی صورت اختیار کرلیتی ہے یعنی پھر یہ سامنے سے آنے وای اور مڑ کر واپس جانے والی یا دوسرے الفاظ میں مقبلہ اور مدبرہ بن جاتی ہے اس کی رفتار اور حرکت انتہائی تیز ہوجاتی ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور ابراہیم سے مروی ہے کہ سوالک ھذا عمل غیر صالح تمہارا یہ سوال ایک غیر صالح فعل ہے۔ کسائی نے اس کی قرأت عمل غیر صالح کی صورت میں کی ہے یعنی عمل کے لفظ کو فعل کی صورت میں اور غیر کے لفظ کو زبر کے ساتھ۔- حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر اور ضحاک سے مروی ہے کہ یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا سگا بیٹا تھا اس لیے کہ قول باری ہے ونادی نوح ابنہ اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو آواز دی ۔ انہوں نے قول باری انہ لیس من اھلک کی تفسیر میں فرمایا۔ انہ لیس من اھل دینک وہ تمہارے اہل دین میں سے نہیں تھا۔ حسن اور مجاہد سے مروی ہے کہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا صلبی بیٹا تھا۔ وہ حرام زادہ تھا ۔ حسن کا قول ہے کہ وہ منافق تھا زبان سے ایمان کا اظہار کرتا تھا لیکن دل میں کفرچھپائے ہوئے تھا۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا بیٹا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کشتی میں سوارہو جانے کے لیے کہتے رہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرما دیا تھا کہ اس میں کوئی کافر سوار ہونے نہ پائے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا یہ بیٹا تھا تو منافق لیکن زبان سے ایمان کا اظہار کرتا تھا۔ ایک قول کے مطابق آپ نے اسے ایمان لانے کی شرط پر کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی تھی گویا یوں فرمایا تھا ۔ ایمان لے آئو اور پھر ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجائو۔
(٤٥) اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو پکارا اے میرے رب میرا بیٹا کنعان میرے گھر والوں میں سے ہے جن کو نجات دینے کا آپ نے وعدہ فرمایا اور آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے اور آپ احکم الحاکمین ہیں (کیوں کہ یہ فی الحال ایمان دار نہیں، آپ ایمان کی توفیق عطا فرما سکتے ہیں) آپ نے مجھے بچانے اور میرے گھر والوں میں سے جو مومن ہوں ان کے بچانے کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے۔
(وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ )- پروردگار تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو میرے اہل کو بچا لے گا جبکہ میرا بیٹا تو میری آنکھوں کے سامنے ڈوب گیا۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :47 یعنی تو نے وعدہ کیا تھا کہ میرے گھر والوں کو اس تباہی سے بچا لے گا ، تو میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں ہی میں سے ہے ، لہٰذا اسے بھی بچالے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :48 یعنی تیرا فیصلہ آخری فیصلہ ہے جس کا کوئی اپیل نہیں ۔ اور تو جو فیصلہ بھی کرتا ہے خالص علم اور کام انصاف کے ساتھ کرتا ہے ۔
26: یعنی آپ کو ہر چیز پر قدرت ہے، اگر چاہیں تو اسے ایمان کی توفیق دے دیں، اور پھر ایمان والوں کے حق میں آپ کا جو وعدہ ہے وہ اس کے حق میں بھی پورا ہوجائے۔