طوفان نوح علیہ السلام کی روداد روئے زمین کے سب لوگ اس طوفان میں جو درحقیقت غضب الٰہی اور مظلوم پیغمبر کی بد دعا کا عذاب تھا غرق ہوگئے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ عزوجل نے زمین کو اس پانی کے نگل لینے کا حکم دیا جو اس کا اگلا ہوا اور آسمان کا برسایا ہوا تھا ۔ ساتھ ہی آسمان کو بھی پانی برسانے سے رک جانے کا حکم ہوگیا ۔ پانی گھٹنے لگا اور کام پورا ہوگیا یعنی تمام کافر نابود ہوگئے ، صرف کشتی والے مومن ہی بچے ۔ کشتی بحکم ربی جو دی پر رکی ۔ مجاہد کہتے ہیں یہ جزیرہ میں ایک پہاڑ ہے سب پہاڑ ڈبو دیئے گئے تھے اور یہ پہاڑ بوجہ اپنی عاجزی اور تواضع کے غرق ہو نے سے بچ رہا تھا یہیں کشتی نوح لنگر انداز ہوئی ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مہینے بھر تک یہیں لگی رہی اور سب اتر گئے اور کشتی لوگوں کی عبرت کے لیے یہیں ثابت و سالم رکھی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اول لوگوں نے بھی اسے دیکھ لیا ۔ حالانکہ اس کے بعد کی بہترین اور مضبوط سینکڑوں کشتیاں بنیں بگڑیں بلکہ راکھ اور خاک ہو گئیں ۔ ضحاک فرماتے ہیں جودی نام کا پہاڑ موصل میں ہے ۔ بعض کہتے ہیں طور پہاڑ کو ہی جودی بھی کہتے ہیں ۔ زربن حبیش کو ابو اب کندہ سے داخل ہو کر دائیں طرف کے زاویہ میں نماز بکثرت پڑھتے ہوئے دیکھ کر نوبہ بن سالم نے پوچھا کہ آپ جو جمعہ کے دن برابر یہاں اکثر نماز پڑھا کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کشتی نوح یہیں لگی تھی ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں بال بچوں سمیت کل اسی ( 80 ) آدمی تھے ۔ ایک سو پچاس دن تک وہ سب کشتی میں ہی رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کشتی کا منہ مکہ شریف کی طرف کر دیا ۔ یہاں وہ چالیس دن تک بیت اللہ شریف کا طواف کرتی رہی ۔ پھر اسے اللہ تعالیٰ نے جودی کی طرف روانہ کر دیا ، وہاں وہ ٹھہر گئی ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کوے کو بھیجا کہ وہ خشکی کی خبر لائے ۔ وہ ایک مردار کے کھانے میں لگ گیا اور دیر لگا دی ۔ آپ نے ایک کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتوں کے درخت کا پتہ اور پنجوں میں مٹی لے کر واپس آیا ۔ اس سے حضرت نوح علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ پانی سوکھ گیا ہے اور زمین ظاہر ہو گئی ہے ۔ پس آپ جودی کے نیچے اترے اور وہیں ایک بستی کی بنا ڈال دی جسے ثمانین کہتے ہیں ۔ ایک دن صبح کو جب لوگ جاتے تو ہر ایک کی زبان بدلی ہوئی تھی ۔ ایسی زبانیں بولنے لگے جن میں سب سے اعلیٰ اور بہترین عربی زبان تھی ۔ ایک کو دوسرے کا کلام سمجھنا محال ہو گیا ۔ نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سب زبانیں معلوم کرا دیں ، آپ ان سب کے درمیان مترجم تھے ۔ ایک کا مطلب دوسرے کو سمجھا دیتے تھے ۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ کشتی نوح مشرق مغرب کے درمیان چل پھر رہی تھی پھر جودی پر ٹھہر گئی ۔ حضرت قتادہ وغیرہ فرماتے ہیں رجب کی دسویں تاریخ مسلمان اس میں سوار ہوئے تھے پانچ ماہ تک اسی میں رہے انہیں لے کر کشتی جودی پر مہینے بھر تک ٹھہری رہی ۔ آخر محرم کے عاشورے کے دن وہ سب اس میں سے اترے ۔ اسی قسم کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن جریر میں ہے ، انہوں نے اس دن روزہ بھی رکھا ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ و علیہ وسلم نے چند یہودیوں کو عاشوررے کے دن روزہ رکھے ہوئے دیکھ کر ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتارا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا تھا ۔ اور اسی دن کشتی نوح جودی پر لگی تھی ۔ پس ان دونوں پیغمبروں نے شکر الٰہی کا روزہ اس دن رکھا تھا ۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کا سب سے زیادہ حق دار میں ہوں اور اس دن کے روزے کا میں زیادہ مستحق ہوں ۔ پس آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے جو آج روزے سے ہو وہ تو اپنا روزہ پورا کرے اور جو ناشتہ کر چکا ہو وہ بھی باقی دن کچھ نہ کھائے ۔ یہ روایت اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض حصے کے شاہد صحیح حدیث میں بھی موجود ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ظالموں کو خسارہ ، ہلاکت اور رحمت حق سے دوری ہوئی ۔ وہ سب ہلاک ہوئے ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا ۔ تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ قوم نوح میں سے کسی پر بھی رحم کرنے والا ہوتا تو اس بچے کی ماں پر رحم کرتا ۔ حضرت نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک ٹھہرے آپ نے ایک درخت بویا تھا جو سو سال تک بڑھتا اور بڑا ہوتا رہا پھر اسے کاٹ کر تختے بنا کر کشتی بنانی شروع کی ۔ کافر لوگ مذاق اڑاتے کہ یہ اس خشکی میں کشتی کیسے چلائیں گے؟ آپ جواب دیتے تھے کہ عنقریب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے جب آپ بنا چکے اور پانی زمین سے ابلنے اور آسمان سے برسنے لگا اور گلیاں اور راستے پانی سے ڈوبنے لگے تو اس بچے کی ماں جسے اپنے اس بچے سے غایت درجے کی محبت کی تھی وہ اسے لے کر پہاڑ کی طرف چلی گئی اور جلدی جلدی اس پر چڑھنا شروع کیا ، تہائی حصے پر چڑھ گئی لیکن جب اس نے دیکھا کہ پانی وہاں بھی پہنچا تو اور اوپر کو چڑھی ۔ دو تہائی کو پہنچی جب پانی وہاں بھی پہنچا تو اس نے چوٹی پر جا کر دم لیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچ گیا جب گردن گردن پانی چڑھ گیا تو اس نے اپنے بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اونچا اٹھالیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچا اور ماں بچہ دنوں غرق ہوگئے ۔ پس اگر اس دن کوئی کافر بھی بچنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس بچے کی ماں پر رحم کرتا ۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے کہ کعب احبار ، مجاہد اور ابن جبیر سے بھی اس بچے اور اس کی ماں کا یہی قصہ مروی ہے ۔
44۔ 1 نگلنا، کا استعمال جانور کے لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ کی خوراک کو نگل جاتا ہے۔ یہاں پانی کے خشک ہونے کو نگل جانے سے تعبیر کرنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ پانی بتدریخ خشک نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ کے حکم سے زمین نے سارا پانی دفعتا اس طرح اپنے اندر نگل لیا جس طرح جانور لقمہ نگل جاتا ہے۔ 44۔ 2 یعنی تمام کافروں کو غرق آب کردیا گیا۔ 44۔ 3 جودی، پہاڑ کا نام ہے جو بقول بعض موصل کے قریب ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی اسی کے قریب آباد تھی۔ 44۔ 4 بُعْدً ، یہ ہلاکت اور لعنت الٰہی کے معنی میں ہے اور قرآن کریم بطور خاص غضب الٰہی کی مستحق بننے والی قوموں کے لئے اسے کئی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔
[٥٠] طوفان کا خاتمہ :۔ چھ ماہ تک پانی کی سطح بلند ہوتی رہی پہاڑ تک اس میں ڈوب گئے مجرمین اپنے انجام کو پہنچ گئے اور ان میں سے کوئی بھی اس عذاب سے بچ نہ سکا تو اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اپنا پانی پھر سے اپنے اندر جذب کرلے اور اللہ کے حکم سے بارش بھی رک گئی۔ کچھ پانی ہواؤں نے خشک کیا اور کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹک گئی۔ یہ پہاڑ عراق میں موصل شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے اور آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔- سیلاب دنیا کے کتنے حصے میں آیا :۔ طوفان نوح کے متعلق دو باتیں ہنوز قابل تحقیق ہیں ایک یہ کہ آیا یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا یا صرف قوم نوح کے علاقہ میں آیا تھا۔ اکثر مورخین کا خیال ہے کہ یہ تمام روئے زمین پر آیا تھا اور اس کی دلیل یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی سب اقوام کی قدیم تاریخ میں طوفان نوح کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن اس بارے میں خاموش ہے اور عقلی لحاظ سے یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طوفان صرف اس علاقہ میں ہی آیا ہو جہاں کے مجرموں کو سزا دینا مقصود تھا اور جہاں عذاب الٰہی کے لئے اتمام حجت ہوچکی تھی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس دور میں زمین کا صرف یہی خطہ آباد ہو۔ رہا سب اقوام کی قدیم تاریخ میں طوفان نوح کے ذکر کا مسئلہ تو یہ دونوں صورتوں میں ممکن ہے۔- کیا نوح کے آدم ثانی ہونے کا نظریہ درست ہے ؟:۔ اور دوسری قابل تحقیق بات یہ ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی صرف نوح کی اولاد سے ہی پھیلی تھی یا یہ ان تمام لوگوں کی اولاد سے ہے جو کشتی میں سوار تھے ؟ عام مورخین کا خیال ہے کہ اس طوفان کے بعد صرف نوح کے تین بیٹوں حام، سام، یافث سے ہی پھیلی ہے اور اس خیال کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ ( وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ 77ڮ) 37 ۔ الصافات :77) اور ہم نے دنیا میں نوح کی اولاد کو ہی باقی رکھا) اسی لحاظ سے نوح (علیہ السلام) کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔- لیکن قرآن کریم کی ہی دو آیات ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی ان تمام لوگوں کی اولاد سے چلی جو اس کشتی میں سوار تھے مثلاً (١) ( ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا ) 17 ۔ الإسراء :3) تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کرلیا تھا۔ اور (٢) (مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ 58۞ السجدہ ) 19 ۔ مریم :58) آدم کی اولاد سے اور ان لوگوں کی اولاد سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کرلیا تھا۔ اس دوسری آیت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح پوری دنیا پر نہیں آیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب - زیادہ قرین قیاس بات یہی ہے کہ اس طوفان کے بعد نسل انسانی ان تمام لوگوں سے چلی جو کشتی میں سوار تھے۔
وَقِيْلَ يٰٓاَرْضُ ابْلَعِيْ مَاۗءَكِ ۔۔ : ” بَلَعَ یَبْلَعُ “ (ف) نگلنے کو کہتے ہیں اور انسان یا کوئی بھی جانور عموماً پورا لقمہ اکٹھا ہی نگلتا ہے۔ یہ لفظ استعمال کرنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ زمین نے پانی آہستہ آہستہ نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ لقمے کی طرح اپنے اندر نگل لیا تھا۔ ادھر آسمان کو حکم ہوا کہ تھم جا، چناچہ بارش رک گئی۔ سارا پانی زمین کے نیچے اتار دیا گیا اور تمام مشرکوں کو نیست و نابود کرنے کا کام، جس کے لیے طوفان آیا تھا، پورا ہوگیا۔ - وَاسْـتَوَتْ عَلَي الْجُوْدِيِّ : جودی پہاڑ عراق اور ترکی کے درمیانی علاقے میں (جسے کردستان کہتے ہیں) موصل کی جانب واقع ہے۔ تورات میں نوح (علیہ السلام) کی کشتی ٹھہرنے کی جگہ ” ارارات “ بتائی گئی ہے، جو ارمینیا کے پہاڑی سلسلے کا نام ہے اور آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ چند سال ہوئے مغربی سیاحوں نے اس پہاڑ پر ایک بڑی کشتی کے ٹوٹے ہوئے تختے بھی دریافت کیے ہیں، اگرچہ ان کے متعلق قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہی کے تختے ہیں یا کسی اور کشتی کے۔ واضح رہے کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم دجلہ اور فرات کی وادی ہی میں آباد تھی، جو بعد میں عراق کے نام سے مشہور ہوئی۔ - وَقِيْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ” بُعْدًا “ کا لفظ دوری، ہلاکت اور لعنت کے معنی میں آتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ سب ظالم ہلاک کردیے گئے۔ بائبل (پیدائش : ١٨ : ٢٤) کے بیان پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان روئے زمین میں آیا تھا، مگر بعض علماء کا کہنا ہے کہ طوفان اسی علاقے میں آیا تھا جہاں نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ گو قرآن و حدیث میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ طوفان کے زمانے میں دنیا میں دجلہ و فرات کی وادی کے علاوہ کسی اور جگہ آبادی ہی نہ ہو۔
چوتھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ زمین و آسمان نے احکام کی تعمیل کی تو طوفان کا قصہ ختم ہوگیا، اور سفینہ نوح (علیہ السلام) جودی پہاڑ پر ٹھہر گیا، اور ظالموں کو ہمیشہ کے لئے " رحمت سے دور " کہہ دیا گیا۔- جودی پہاڑی آج بھی اس نام سے قائم ہے اس کا محل وقوع حضرت نوح (علیہ السلام) کے وطن اصلی عراق، موصل کے شمال میں جزیرہ ابن عمر کے قریب آرمینیہ کی سرحد پر ہے، یہ ایک کوہستانی سلسلہ ہے جس کے ایک حصہ کا نام جودی ہے، اسی کے ایک حصہ کو اراراط کہا جاتا ہے، موجودہ تورات میں کشتی ٹھہرنے کا مقام کوہ اراراط کو بتلایا ہے، ان دونوں روایتوں میں کوئی ایسا تضاد نہیں، مگر مشہور قدیم تاریخوں میں بھی یہی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ پر آکر ٹھہری تھی۔- قدیم تاریخوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ عراق کے بہت سے مقامات میں اس کشتی کے ٹکڑے اب تک موجود ہیں جن کو تبرک کے طور پر رکھا اور استعمال کیا جاتا ہے۔- تفسیر طبری اور بغوی میں ہے کہ نوح (علیہ السلام) دس (١٠) ماہ رجب کو کشتی میں سوار ہوئے تھے، چھ مہینہ تک یہ کشتی طوفان کے اوپر چلتی رہی، جب بیت اللہ شریف کے مقام پر پہنچی تو سات مرتبہ طواف کیا، اللہ تعالیٰ نے اپنے بیت کو بلند کرکے غرق سے بچا لیا تھا، پھر دس (١٠) محرم یوم عاشورا میں طوفان ختم ہو کر کشتی جبل جودی پر ٹھہری، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس روز شکرانہ کے طور پر روزہ رکھا اور کشتی میں جتنے آدمی ساتھ تھے سب کو روزہ رکھنے کا حکم دیا، ( مظہری و قرطبی )- روز عاشورا یعنی محرم کی دسویں تاریخ کی اہمیت تمام شرائع انبیاء میں قدیم چلی آتی ہے ابتداء اسلام میں رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا، رمضان کی فرضیت نازل ہونے کے بعد فرض نہیں، مگر سنت اور ثواب عظیم ہمیشہ کے لئے ہے۔
وَقِيْلَ يٰٓاَرْضُ ابْلَعِيْ مَاۗءَكِ وَيٰسَمَاۗءُ اَقْلِـعِيْ وَغِيْضَ الْمَاۗءُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ وَاسْـتَوَتْ عَلَي الْجُوْدِيِّ وَقِيْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ ٤٤- بلع - قال عزّ وجلّ : يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ [هود 44] ، من قولهم : بَلَعْتُ الشیء وابْتَلَعْتُهُ ، ومنه : البَلُوعة . وسعد بُلَع نجم، وبَلَّعَ الشیب في رأسه : أول ما يظهر .- ( ب ل ع )- بلعت رف الشی وابتلعتہ کے معنی کسی چیز کو نگل لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : - يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ [هود 44] کہ اسے زمین اپنا پانی نگل جا ۔ اسی سے بلوعۃ ہے جس کے معنی بدر و اور گندی نالی یا چوبچہ کے ہیں ۔ سعد بلع ایک ستاری کا نام بلع الشیب فی راسہ سر میں بڑھا پہ کے آثار ظاہر ہونا ۔ - قلع - وَفِي التَّهْذِيبِ : القَلُوعُ القَوْسُ الَّتِي إِذا نُزِعَ فِيهَا انْقَلَبَتْ. قَالَ أَبو سَعِيدٍ : الأَغراض الَّتِي تُرْمى أَوّلُها غَرَضُ المُقالعةِ ، وَهُوَ الَّذِي يَقْرُب مِنَ الأَرض فَلَا يحتاجُ الرَّامي أَنْ يَمُدّ بِهِ الیدَ مَدًّا شَدِيدًا، ثُمَّ غَرَضُ الفُقْرةِ. والإِقْلاعُ عَنِ الأَمر : الكَفُّ عَنْهُ. يُقَالُ : أَقْلَعَ فُلَانٌ عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ أَي كفَّ عَنْهُ. وَفِي حَدِيثِ المَزادَتَيْن : لَقَدْ أَقْلَعَ عَنْهَاأَي كَفَّ وتَرَكَ. وأَقْلَع الشیءُ : انْجَلَى، وأَقْلَعَ السحابُ كَذَلِكَ. وَفِي التَّنْزِيلِ : وَيا سَماءُ أَقْلِعِي؛ أَي أَمْسِكي عَنِ الْمَطَرِ ؛ وَقَالَ خَالِدُ بْنُ زُهَيْرٍ :- فأَقْصِرْ ، وَلَمْ تأْخُذْكَ مِنِّي سَحابة، ... يُنَفِّرُ شاءَ المُقْلَعِينَ خَواتُها قِيلَ : عَنَى بالمُقْلَعِينَ الَّذِينَ لَمْ تُصِبْهُم السحابةُ ، كَذَلِكَ فَسَّرَهُ السُّكَّرِيُّ ، وأَقْلَعَتْ عَنْهُ الحُمَّى كَذَلِكَ ، والقَلَعُ حِينُ إِقْلاعِها . يُقَالُ : تَرَكْتُ فُلَانًا فِي قَلَعٍ وقَلْعٍ مِنْ حُمّاه، يُسَكَّنُ وَيُحَرَّكُ ، أَي فِي إِقْلاعٍ مِنْ حُمّاه . الأَصمعي : القَلَعُ الوقتُ الَّذِي تُقْلِعُ فِيهِ الحُمَّى، والقُلُوعُ اسْمٌ مِنَ القُلاع؛ وَمِنْهُ قَوْلُ الشَّاعِرِ :- كأَنَّ نَطاةَ خَيْبَرَ زَوَّدَتْه ... بُكُورَ الوِرْدِ رَيِّثَةَ القُلُوعِ ( لسان العرب)- غيض - غَاضَ الشیء، وغَاضَهُ غيره «1» . نحو : نقص ونقصه غيره . قال تعالی: وَغِيضَ الْماءُ [هود 44] ، وَما تَغِيضُ الْأَرْحامُ [ الرعد 8] ، أي : تفسده الأرحام، فتجعله کالماء الذي تبتلعه الأرض، والغَيْضَةُ : المکان الذي يقف فيه الماء فيبتلعه، ولیلة غَائِضَةٌ أي : مظلمة .- ( غ ی ض ) غاض - ( ض ) الشئی غیضا وغاضہ غیرہ یہ نقص کی طرح لازم ومتعدی دونوں طرح آتا ہے ۔ لہذا اس کے معنی کسی چیز کو کم کرنے یا اس کے ازخود کم ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَغِيضَ الْماءُ [هود 44] تو پانی خشک ہوگیا ۔ وَما تَغِيضُ الْأَرْحامُ [ الرعد 8]- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - جود - قال تعالی: وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِ [هود 44] ، قيل : هو اسم جبل بين الموصل والجزیرة، وهو في الأصل منسوب إلى الجود، والجود : بذل المقتنیات مالا کان أو علما، ويقال : رجل جَوَاد، وفرس جواد، يجود بمدّخر عدوه، والجمع : الجِيَاد، قال تعالی: بِالْعَشِيِّ الصَّافِناتُ الْجِيادُ [ ص 31 - ( ج و د ) الجودی - ۔ اس پہاڑی کا نام ہے جو موصل اور جزیرہ کے درمیان واقع ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِ [هود 44] اور کشتی کوہ جودی پر جاٹہری ۔ یہ دراصل الجود کے معنی مقتنیات ( بیضائر ) کو صرف اور خرچ کرنے کے ہیں عام اس سے کہ وہ ذخیرہ علم ہو یا ذخیرہ مال کا ہو ۔ رجل جواد ۔ سخی آدمی فرس جواد ( تیز رفتار عمدہ گھوڑا ) جو دوڑنے میں اپنی پوری طاقت صرف کردے اس کی جمع الجباد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بِالْعَشِيِّ الصَّافِناتُ الْجِيادُ [ ص 31]( جب ان کے سامنے ) شام کو خاصے کے گھوڑے ( پیش کئے گئے ) - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٤٤) اور جب کفار سب غرق ہوچکے تو حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا سارا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی گھٹ گیا اور قوم کی ہلاکت سے فراغت ہوئی جس کی قسمت میں ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوگیا اور جسے پچنا تھا وہ بچ گیا اور کشتی کوہ جودی پر آٹھہری اور یہ موصل کے قریب نصیبین میں ایک پہاڑ ہے اور کہہ دیا گیا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم میں سے مشرکین رحمت خداوندی سے دور
آیت ٤٤ (وَقِيْلَ يٰٓاَرْضُ ابْلَعِيْ مَاۗءَكِ )- زمین کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ تو اپنے اس پانی کو اپنے اندر جذب کرلے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس عمل میں کتنا وقت لگا ہوگا۔ بہر حال حکم الٰہی کے مطابق پانی زمین میں جذب ہوگیا۔ - (وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ ) - کوہ ارارات میں ” جودی “ ایک چوٹی کا نام ہے۔ یہ دشوار گزار پہاڑی سلسلہ آذر بائیجان کے علاقے اور ترکی کی سرحد کے قریب ہے۔ کسی زمانے میں ایک ایسی خبر بھی مشہور ہوئی تھی کہ اس پہاڑی سلسلہ کی ایک چوٹی پر کسی جہاز کے پائیلٹ نے کوئی کشتی نما چیز دیکھی تھی۔ بہر حال قرآن کا فرمان ہے کہ ہم اس کشتی کو محفوظ رکھیں گے اور ایک زمانے میں یہ نشانی بن کر دنیا کے سامنے آئے گی (العنکبوت : ١٥) ۔ چناچہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کشتی اب بھی کوہ جودی کی چوٹی پر موجود ہے اور ایک وقت آئے گا جب انسان اس تک رسائی حاصل کرلے گا۔- (وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ )- یعنی اس قوم کا نام و نشان مٹا کر ہمیشہ کے لیے اسے نسیاً منسیاً کردیا گیا۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :46 جودی پہاڑ کردستان کے علاقہ میں جزیرہ ابن عمر کے شمالی مشرقی جانب واقع ہے ۔ بائیبل میں اس کشتی کے ٹھیرنے کی جگہ اراراط بتائی گئی ہے جو ارمینیا کے ایک پہاڑ کا نام بھی ہے اور ایک سلسلہ کوہستان کے نام بھی ۔ سلسلہ کوہستان کے معنی میں جس کو اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے ۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھیرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے ۔ چنانچہ مسیح علیہ السلام سے ڈھائی سو برس پہلے بابل کے ایک مذہبی پیشوا بیراسس ( ) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر اپنے ملک کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھیرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے ۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈنیوس بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے ۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں ۔ یہ طوفان جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے ، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم آباد تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا ۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا ( پدائش 7:18-24 ) مگر قرآن میں یہ بات کہیں نہیں کہی گئی ہے ۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفان نوح سے بچالیے گئے تھے ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو ، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہوسکتی ہے کہ اس وقت بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا ، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں ۔ اس نظریہ کی تائید دو چیزوں سے ہوتی ہے ایک یہ کہ دجلہ وفرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثوبت تاریخی روایات سے آثار قدیمہ سے اور طبقات الارض سے ملتا ہے ۔ لیکن روئے زمیں کے تمام خطوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جاسکے ۔ دوسرے یہ کہ روئے زمین کی اکثر وبیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں ، حتی کہ آسٹریلیا ، امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباؤ واجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا ۔ اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ اعراف حاشیہ نمبر47 )
24: یعنی قوم کے تمام افراد طوفان میں غرق کر دئیے گئے۔ 25: یہ اس پہاڑ کا نام ہے جو شمالی عراق میں واقع ہے، اور اس پہاڑ سلسلے کا ایک حصہ ہے جو کردستان سے آرمینیا تک پھیلا ہوا ہے۔ بائبل میں اس پہاڑ کا نام ارارات مذکور ہے۔