51۔ 1 اور یہ نہیں سمجھتے کہ جو بغیر اجرت کے اور لالچ کے تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہے وہ تمہارا خیر خواہ ہے، آیت میں یَا قَوْمِ سے دعوت ایک طریقہ کار معلوم ہوتا ہے یعنی بجائے یہ کہنے کے اے کافرو اے مشرکو اے میری قوم سے مخاطب کیا گیا ہے۔
[٥٨] دعوت اور رسالت پر اجر :۔ ہر پیغمبر نے اپنی قوم سے یہ بات کہی ہے کہ میں بغیر کسی لالچ کے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور تم ہو کہ مجھے اپنا دشمن سمجھ کر مجھ سے دست و گریبان ہوتے ہو۔ میں نے اپنا عیش و آرام بھی چھوڑا ہے دنیا کمانے کی فکر بھی چھوڑ رکھی ہے تم سے بھی کسی معاوضہ کا مطالبہ نہیں کر رہا پھر تم سب کی دشمنی بھی مول لے رہا ہوں آخر تم خود بھی کچھ سوچو تو سہی کہ میرا اس میں کیا ذاتی فائدہ ہوسکتا ہے ایسے شخص کی بات اتنی بےوزن تو نہیں ہوسکتی کہ اسے بلا سوچے سمجھے رد کردیا جائے۔
يٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا۔۔ : ” فَطَرَ “ کا اصل معنی پھاڑنا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ ) [ الانفطار : ١ ] ” اور جب آسمان پھٹ جائے گا۔ “ ” فَطَرَنِيْ “ سے مراد مجھے کسی گزشتہ نمونے کے بغیر پیدا فرمایا۔ - اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم سمجھتے نہیں کہ جو شخص سچے دل سے دعوت و تبلیغ اور نصیحت کی مشقت اٹھا رہا ہے اور جسے صرف اپنے رب سے اجر لینا ہے، وہ تم سے کوئی اجرت یا دنیوی فائدہ کیوں چاہے گا ؟
وعظ و نصیحت اور دعوت دین پر اجرت :- قرآن کریم نے یہ بات تقریبا سب ہی انبیاء کی زبان سے نقل کی ہے کہ ہم تم سے اپنی دعوت و محنت کا کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کا اگر معاوضہ لیا جائے تو دعوت مؤ ثر نہیں رہتی، جس پر تجربہ شاہد ہے کہ وعظ و نصیحت پر اجرت لینے والوں کی بات سامعین پر اثر انداز نہیں ہوتی۔- تیسری بات یہ فرمائی کہ اپنی پچھلی زندگی میں جو کفر و گناہ کرچکے ہو، اللہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت مانگو اور اگلی زندگی میں ان سب گناہوں سے توبہ یعنی اس کا پختہ ارادہ اور معاہدہ کرو کہ اب ان کے پاس نہ جائیں گے، اگر تم نے یہ استغفار و توبہ کا عمل کرلیا تو اس کے نتیجہ میں آخرت کی دائمی فلاح تو ملے ہی گی، دنیا میں بھی اس کے بڑے فوائد کا مشاہدہ کرو گے، ایک یہ کہ توبہ و استغفار کرنے سے تمہاری قحط سالی دور ہوجائے گی، وقت پر خوب بارش ہوگی جس سے تمہارے رزق میں وسعت پیدا ہوگی، دوسرے یہ کہ تمہاری طاقت و قوت بڑھ جائے گی۔- یہاں طاقت و قوت کا لفظ عام ہے جس میں بدنی صحت وقت بھی داخل ہے اور وہ طاقت بھی جو مال اور اولاد کی بہتات سے انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ - اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں سے توبہ و استغفار کا خاصہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی رزق میں وسعت اور مال و اولاد میں برکت ہوتی ہے۔- حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی دعوت کا جواب وہی اپنی جاہلانہ روش سے یہ دیا کہ آپ نے ہمیں کوئی معجزہ تو دکھلایا نہیں صرف زبانی بات ہے اس لئے ہم آپ کے کہنے سے اپنے معبودوں کو نہ چھوڑیں گے اور آپ پر ایمان نہ لائیں گے، بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے معبود بتوں کو برا کہنے کی وجہ سے آپ کسی دماغی خرابی میں مبتلا ہوگئے اس لئے ایسی باتیں کرتے ہیں۔- اس کے جواب میں ہود (علیہ السلام) نے پیغمبرانہ جرأت کے ساتھ فرمایا کہ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو سن لو کہ میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں اللہ کے سوا تمہارے سب معبودوں سے بیزار ہوں اب تم اور تمہارے بت سب ملکر میرے خلاف جو کچھ داؤ گھات کرسکتے ہو کرلو اور اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو اور مجھے ذرا مہلت بھی نہ دو ۔- اور فرمایا کہ اتنی بڑی بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اللہ پر توکل اور بھروسہ کرلیا ہے جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی، جتنے روئے زمین پر چلنے والے ہیں سب کی چوٹی اس نے پکڑ رکھی ہے کسی کی مجال نہیں کہ اس کے اذن و مشیت کے بغیر کسی کو ذرہ برابر نقصان یا تکلیف پہنچا سکے، یقینا میرا رب صراط مستقیم پر ہے، یعنی جو صراط مستقیم پر چلتا ہے، رب اس کو ملتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے۔- پوری قوم کے مقابلہ میں ایسا بلند بانگ دعوی اور ان کو غیرت دلانا اور پھر پوری بہادر قوم میں سے کسی کی مجال نہ ہونا کہ ان کے مقاملہ میں کوئی حرکت کرے، یہ سب ایک مستقل معجزہ تھا ہود (علیہ السلام) کا، جس سے ان کی اس بات کا بھی جواب ہوگیا کہ آپ نے ہمیں کوئی معجزہ نہیں دکھلایا، اور اس کا بھی جواب ہوگیا کہ ہمارے بتوں نے آپ کو دماغی خرابی میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ اگر بتوں میں یہ طاقت ہوتی تو اس وقت ان کو زندہ نہ چھوڑتے۔- اس کے بعد فرمایا کہ اگر تم اسی طرح سے برگشتہ رہو گے تو سمجھ لو کہ جو پیغام دے کر مجھے بھیجا گیا ہے میں تمہارے سامنے پہنچا چکا ہوں تو اب اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہے کہ تم پر خدا کا قہر و غضب آجائے اور تم سب نیست و نابود ہوجاؤ اور میرا رب تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اس زمین پر آباد کردے، اور اس معاملہ میں جو کچھ کر رہے ہو اپنا ہی نقصان کر رہے ہو، اللہ تعالیٰ کا کچھ نقصان نہیں کر رہے، یقینا میرا رب ہر چیز کی نگہداشت کرتا ہے وہ تمہارے ہر کام اور خیال سے باخبر ہے۔- ان لوگوں نے ان باتوں میں سے کسی چیز پر کان نہ دھرا اور اپنی سرکشی پر قائم رہے تو خدا تعالیٰ کا عذاب ہوا کے طوفان کی صورت میں ان پر نازل ہوا جس نے مکانات اور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ دیا، آدمی اور جانور ہوا میں اڑ کر آسمانی فضا تک جاتے اور وہاں سے اوندھے گرتے تھے آسمان کی طرف سے انسانوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی، یہاں تک کہ یہ بیمثال قوت اور ڈیل ڈول رکھنے والی قوم پوری کی پوری ہلاک و برباد ہوگئی۔- جب اس قوم پر عذاب الہٰی کا حکم نافذ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سنت الہٰیہ کے مطابق اپنے پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو اس سخت عذاب سے بچا لیا کہ عذاب آنے سے پہلے ان کو اس جگہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔- قوم عاد کے واقعہ اور عذاب کا ذکر کرنے کے بعد دوسروں کو عبرت حاصل کرنے کی تلقین کرنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ یہ ہے وہ قوم عاد جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کو جھٹلایا اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کی اور ایسے لوگوں کے کہنے پر چلتے رہے جو ظالم اور ضدی تھے۔- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں بھی لعنت یعنی رحمت سے دوری ان کے ساتھ ساتھ لگی رہی اور قیامت میں بھی اسی طرح ساتھ لگی رہے گی۔- اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ قوم عاد پر ہوا کا طوفان مسلط ہوا تھا، مگر سورة مؤ منون میں یہ مذکور ہے کہ ان کو ایک سخت آواز کے ذریعہ ہلاک کیا گیا، ہوسکتا ہے کہ قوم ہود (علیہ السلام) پر دونوں قسم کے عذاب نازل ہوئے ہوں۔- قوم عاد اور ہود (علیہ السلام) کا واقعہ تمام ہوا۔
يٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَيْہِ اَجْرًا ٠ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي الَّذِيْ فَطَرَنِيْ ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ٥١- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- فطر - أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، يقال : فَطَرَ فلان کذا فَطْراً ، وأَفْطَرَ هو فُطُوراً ، وانْفَطَرَ انْفِطَاراً. قال تعالی: هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ، أي : اختلال ووهي فيه، وذلک قد يكون علی سبیل الفساد، وقد يكون علی سبیل الصّلاح قال : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل 18] . وفَطَرْتُ الشاة : حلبتها بإصبعین، وفَطَرْتُ العجین : إذا عجنته فخبزته من وقته، ومنه : الفِطْرَةُ. وفَطَرَ اللہ الخلق، وهو إيجاده الشیء وإبداعه علی هيئة مترشّحة لفعل من الأفعال، فقوله : فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم 30] ، فإشارة منه تعالیٰ إلى ما فَطَرَ. أي : أبدع ورکز في النّاس من معرفته تعالی، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] ، وقال : الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] ، وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه 72] ، أي : أبدعنا وأوجدنا . يصحّ أن يكون الِانْفِطَارُ في قوله : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل 18] ، إشارة إلى قبول ما أبدعها وأفاضه علینا منه . والفِطْرُ : ترک الصّوم . يقال : فَطَرْتُهُ ، وأَفْطَرْتُهُ ، وأَفْطَرَ هو وقیل للکمأة : فُطُرٌ ، من حيث إنّها تَفْطِرُ الأرض فتخرج منها .- ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فطر فلانا کذا فطرا کسی چیز کو پھاڑ ڈالنا ۔ افطر ھو فطورا روزہ افطار کرنا انفطر انفطار پھٹ جانا اور آیت کریمہ : ۔ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] بھلا تجھ کو کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں فطور کے معنی خلل اور شگاف کے ہیں اور یہ پھاڑ نا کبھی کیس چیز کو بگاڑنے اور کبھی مبنی بر مصلحت ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل 18]( اور ) جس سے آسمان پھٹ جائیگا یہ اس کا وعدہ ( پورا ) ہو کر رہے گا ۔ فطر ت الشاۃ : میں نے بکری کو دو انگلیوں سے دو ہا فطرت العجین : آٹا گوندھ کر فورا روتی پکانا ۔ ( اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ : ۔ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم 30] اور خدا کی فطرت کو، جس پر لوگوں کو پیدا کیا ( اختیار کئے رہو۔ میں اس معرفت الہی کی طرف اشارہ ہے جو تخلیق طور پر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے لہذا فطرۃ اللہ سے معرفت الہیٰ کی استعداد مراد ہے جو انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو بول اٹھیں گے خدا نے ۔ میں اسی قوت معرفت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه 72] اور جن نے ہم کو پیدا کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل 18] اور جس سے آسمان پھٹ جائے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ انفطار سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر فیضان ہوگا ۔ وہ اسے قبول کرلے گا الفطر روزہ افطار کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ فطر تہ وافطرتہ افطرھو یعنی لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور گما ۃ کھمبی ) کو فطر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہے - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(٥١) اور میں تم سے اس دعوت توحید پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا میرا معاوضہ تو اس اللہ کے ذمہ ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا پھر کیوں تم اس چیز کی تصدیق نہیں کرتے کیا تمہارے پاس دماغ نہیں۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :56 یہ نہایت بلیغ فقرہ ہے کہ جس میں ایک بڑا استدلال سمیٹ دیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری بات کو جس طرح سرسری طور پر تم نظر انداز کر رہے ہو اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ۔ ورنہ اگر تم عقل سے کام لینے والے ہوتے تو ضرور سوچتے کہ جو شخص اپنی کسی ذاتی غرض کے بغیر دعوت و تبلیغ اور تذکیر و نصیحت کی یہ سب مشقیں جھیل رہا ہے ، جس کی اس تگ و دو میں تم کسی شخصی یا خاندانی مفاد کا شائبہ تک نہیں پا سکتے ، وہ ضرور اپنے پاس یقین و اذعان کی کوئی ایسی بنیاد اور ضمیر کے اطمینان کی کوئی ایسی وجہ رکھتا ہے جس کی بنا پر اس نے اپنا عیش و آرام چھوڑ کر ، اپنی دنیا بنانے کی فکر سے بے پروا ہو کر ، اپنے آپ کو اس جو کھم میں ڈالا ہے کہ صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے عقائد ، رسوم اور طرز زندگی کے خلاف آواز اٹھائے اور اس کی بدولت دنیا بھر کی دشمنی مول لے لے ۔ ایسے شخص کی بات کم ازکم اتنی بے وزن تو نہیں ہو سکتی کہ بغیر سوچے سمجھے اسے یو نہیں ٹال دیا جائے اور اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ذرا سی تکلیف بھی ذہن کو نہ دی جائے ۔