52۔ 1 حضرت ہود (علیہ السلام) نے توبہ و استغفار کی تلقین اپنی امت یعنی اپنی قوم کو کی اور اس کے دو فوائد بیان فرمائے جو توبہ اور استغفار کرنے والی قوم کو حاصل ہوتے ہیں۔ جس طرح قرآن کریم اور بھی بعض مقامات پر یہ فوائد بیان کئے گئے ہیں (ملاحظہ سورت نوح ا۔ 11) اور نبی کا بھی فرمان ہے من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ھم فرجا، ومن کل ضیق مخرجا ورزقہ من حیث لا یحتسب (ابوداود) جو پابندی سے استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر فکر سے کشادگی، اور ہر تنگی سے راستہ بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ 52۔ 2 یعنی میں تمہیں جو دعوت دے رہا ہوں، اس سے اعراض اور اپنے کفر پر اصرار مت کرو۔ ایسا کرو گے تو اللہ کی بارگاہ میں مجرم اور گناہ گار بن کر پیش ہو گے۔
[٥٩] توبہ واستغفار سے رزق میں فراوانی :۔ قوم عاد کو کھیتی باڑی سے بڑی دلچسپی تھی اور زیادہ تر زراعت ہی ان کا ذریعہ معاش تھا وہ تین سال سے خشک سالی کی مصیبت میں گرفتار تھے اور بارش نہیں ہو رہی تھی۔ اس مصیبت کے دفعیہ کے لیے ہود نے انھیں اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنے کی تلقین فرمائی اور انھیں یقین دلایا کہ اگر تم ایک اللہ کی طرف رجوع کرکے اپنے سابقہ گناہوں کی سچے دل سے معافی طلب کرو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر آسمان سے بارش برسا کر رزق کے دروازے کھول دے گا جس سے تمہاری مالی اور بدنی قوت دونوں میں اضافہ ہوگا نیز خوش حالی کا دور دورہ ہوجائے گا اس بات کا تو قوم نے کوئی جواب نہ دیا البتہ کسی صریح معجزہ کا مطالبہ کردیا۔
وَيٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ۔۔ : ” السَّمَاۗءَ “ آسمان کے علاوہ ہر بلند چیز کو بھی ” سَمَاءٌ“ کہہ لیتے ہیں۔ کیونکہ ” سَمَا یَسْمُوْ “ کا معنی بلند ہونا ہے، یہاں ” السَّمَاۗءَ “ سے مراد بادل یا بارش ہے۔ ” مِّدْرَارًا “ یہ ” دَرٌّ“ سے مبالغے کا صیغہ ہے، جس کا معنی دودھ کا بہنا اور زیادہ ہونا ہے، پھر بہت برسنے والی بارش کے لیے بطور استعارہ استعمال ہونے لگا۔ ” دَرَّتِ السَّمَاء بالْمَطَرِ دَرًّا، وَ تَدِرُّ دَرًّا “ جب آسمان سے بارش بہت برسے۔ ان آیات سے اور دوسرے مقامات مثلاً الاحقاف (٢٤) سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فخر و غرور اور اپنے رسول ہود (علیہ السلام) کو جھٹلانے کی وجہ سے کافی عرصہ تک ان سے بارش روک لی گئی، جس کے نتیجے میں قحط کی وجہ سے ہر طرف دھول اڑنے لگی اور باوجود زبردست جسمانی ڈیل ڈول اور قوت کے سب لوگوں میں کمزوری نمایاں ہونے لگی تو ہود (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ سب سے پہلے تو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو شرک اور اس کی نافرمانی کی ہے، اس کی معافی مانگو۔ بہت سے مفسرین نے یہاں ” اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ “ سے شرک چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لانا مراد لیا ہے۔ ” ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ “ پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، یعنی آئندہ اس کی ہر نافرمانی ترک کرنے اور ہر حکم بجا لانے کا پختہ عزم کرو، تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تم پر ایسا بادل بھیجے گا جو خوب برسنے والا ہوگا اور تمہاری قوت کی کمی دور کرکے پہلے سے بھی زیادہ قوت عطا فرمائے گا۔ معلوم ہوا کہ استغفار اور توبہ سے قحط دور ہوتا ہے اور جسمانی، ذہنی اور مالی ہر قسم کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مزید فوائد کے لیے دیکھیے سورة ہود (٣) اور سورة نوح (١٠ تا ١٢) ۔- وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ : یعنی میری اطاعت سے منہ نہ موڑو، ورنہ تم مجرم قرار پاؤ گے۔
اس کے بعد آٹھ آیتوں میں حضرت صالح (علیہ السلام) کا قصہ مذکور ہے جو قوم عاد کی دوسری شاخ یعنی قوم ثمود کی طرف معبوث ہوئے تھے، انہوں نے بھی اپنی قوم کو سب سے پہلے توحید کی دعوت دی، قوم نے حسب عادت ان کو جھٹلایا اور یہ ضد کی کہ آپ کا نبی برحق ہونا ہم جب تسلیم کریں جب کہ ہمارے سامنے اس پہاڑ کی چٹان میں سے ایک اونٹنی ایسی ایسی نکل آئے۔- صالح (علیہ السلام) نے ان کو ڈرایا کہ تمہارا منہ مانگا معجزہ اگر اللہ تعالیٰ نے ظاہر کردیا اور پھر بھی تم نے ایمان لانے میں کوئی کوتاہی کی تو عادۃ اللہ کے مطابق تم پر عذاب آجائے گا اور سب ہلاک و برباد ہوجاؤ گے، مگر وہ اپنی ضد سے باز نہ آئے اللہ تعالیٰ نے ان کا مطلوبہ معجزہ اپنی قدرت کاملہ سے ظاہر فرما دیا، پہاڑ کی چٹان شق ہو کر ان کے بتائے ہوئے اوصاف کی اونٹنی برآمد ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس اونٹنی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائیں ورنہ تم پر عذاب آجائے گا مگر وہ اس پر بھی قائم نہ رہے، اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا، بالآخر خدا تعالیٰ نے ان کو پکڑ لیا، حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے مومن ساتھی عذاب سے بچا لئے گئے باقی پوری قوم ایک سخت ہیبت ناک آواز کے ذریعہ ہلاک کردی گئی۔
وَيٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّيَزِدْكُمْ قُوَّۃً اِلٰي قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ ٥٢- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- در - قال تعالی: وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، يُرْسِلِ السَّماءَ عَلَيْكُمْ مِدْراراً [ نوح 11] ، وأصله من الدَّرِّ والدِّرَّة، أي : اللّبن، ويستعار ذلک للمطر استعارة۔- ( د ر ر ) المدرار - ( صیغہ مبالغہ ) بہت برسنے والا قرآن میں ہے : ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ان پر آسمان سے لگاتار مینہ بر سایا ۔ يُرْسِلِ السَّماءَ عَلَيْكُمْ مِدْراراً [ نوح 11] وہ تم پر آسمان سے لگا تا ر مینہ برسائے گا اصل میں مدرار در اور درۃ سے ہے جس کے معنی دودھ کے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ بارش کے لئے استعمال ہونے لگا ہے - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمارل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم .- واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔
(٥٢) اے میری قوم اپنے پروردگار کی توحید کے قائل ہوجاؤ اور اسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو تو بہ اور اخلاص کے ساتھ اس کے سامنے جھک جاؤ وہ تم پر جب بھی تمہیں ضرورت پیش آئے گی ہمیشہ خوب بارشیں برسائے گا اور تمہیں بادشاہت اور اولاد کے ذریعے تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا، اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرکے توبہ اور ایمان منہ مت پھیرو۔
آیت ٥٢ (وَیٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ) - شرک ‘ بت پرستی کو چھوڑ دو اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگو۔- (یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ )- قرآن حکیم کے کئی مقامات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف اپنا رسول اپنے پیغام کے ساتھ بھیجتا ہے تو اب اس قوم کی قسمت اس پیغام کے ساتھ معلق ہوجاتی ہے۔ اگر وہ قوم رسول پر ایمان لے آتی ہے اور اس پیغام کو قبول کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے بصورت دیگر اسے تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :57 یہ وہی بات ہے جو پہلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوائی گئی تھی کہ ” اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تم کو اچھا سامان زندگی دے گا “ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھاؤ اخلاقی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرمانروائی کر رہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ ان طبعی اصولوں پر جو اخلاقی خیر و شر کے امتیاز سے خالی ہوں ۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت اس پیغام کے ساتھ معلق ہو جاتی ہے ۔ اگر وہ اسے قبول کر لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ اگر رد کر دیتی ہے تو اسے تباہ کر ڈالا جاتا ہے ۔ یہ گویا ایک دفعہ ہے اس اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے ۔ اسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی سے فریب کھا کر ظلم و معصیت کی راہوں پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے ۔ لیکن عین اس وقت جبکہ وہ اپنے اس برے انجام کی طرف بگ ٹُٹ چلی جا رہی ہو ، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کر لے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے ، اس کی مہلت عمل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے لیے عذاب کے بجائے انعام ، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے ۔
30: شروع میں اللہ تعالیٰ نے انہیں قحط میں مبتلا فرمادیا تھا ؛ تاکہ وہ اپنی غفلت سے کچھ ہوش میں آئیں، اس موقع پر حضرت ہود (علیہ السلام) نے انہیں یاد دلایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تازیانہ ہے اور اگر اب بھی تم بت پرستی سے باز آجاؤ تو یہ قحط تم سے دور ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں بارشوں سے نہال کرسکتا ہے۔