قوم ہود کے مطالبات قوم ہود نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سن کر جواب دیا کہ آپ جس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل و حجت تو ہمارے پاس آپ لائے نہیں ۔ اور یہ ہم کرنے سے رہے کہ آپ کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دو اور ہم چھوڑ ہی دیں ۔ نہ وہ آپ کو سچا ماننے والے ہیں نہ آپ پر ایمان لانے والے ۔ بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ چونکہ تو ہمیں ہمارے ان معبودوں کی عبادت سے روک رہا ہے اور انہیں عیب لگاتا ہے ۔ اس لیے جھنجھلا کر ان میں سے کسی کی مار تجھ پر پڑی ہے تیری عقل چل گئی ہے ۔ یہ سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہی ہے تو سنو میں نہ صرف تمہیں ہی بلکہ اللہ کو بھی گواہ کر کے اعلان کرتا ہوں کہ میں اللہ کے سوا جس جس کی عبات ہو رہی ہے سب سے بری اور بیزار ہوں اب تم ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ اوروں کو بھی بلا لو اور اپنے ان سب جھوٹے معبودوں کو بھی ملا لو اور تم سے جو ہو سکے مجھے نقصان پہنچا دو ۔ مجھے کوئی مہلت نہ لینے دو ۔ نہ مجھ پر کوئی ترس کھاؤ ۔ جو نقصان تمہارے بس میں ہو مجھے پہنچانے میں کمی نہ کرو ۔ میرا توکل ذات رب پر ہے وہ میرا اور تمہارا سب کا مالک ہے ناممکن کہ اس کی منشاء بغیر میرا بگاڑ کوئی بھی کر سکے ۔ دنیا بھر کے جاندار اس کے قبضے میں اور اس کی ملکیت میں ہیں ۔ کوئی نہیں جو اس کے حکم سے باہر اس کی باشاہی سے الگ ہو ۔ وہ ظالم نہیں جو تمہارے منصوبے پورے ہو نے دے وہ صحیح راستے پر ہے ۔ بندوں کی چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ، مومن پر وہ اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جو مہربانی ماں باپ کو اولاد پر ہوتی ہے وہ کریم ہے اس کے کرم کی کوئی حد نہیں ۔ اسی وجہ سے بعض لوگ بہک جاتے ہیں اور غافل ہو جاتے ہیں ۔ حضرت ہود علیہ السلام کے اس فرمان پر دوبارہ غور کیجئے کہ آپ نے عادیوں کے لیے اپنے اس قول میں توحید ربانی کی بہت سے دلیلیں بیان کردیں ۔ بتا دیا کہ جب اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا جب اس کے سوا کسی چیز پر کسی کا قبضہ نہیں تو پھر وہی ایک مستحق عبادت ٹھہرا ۔ اور جن کی عبادت تم اس کے سوا کر رہے ہو وہ سب باطل ٹھہرے ۔ اللہ ان سے پاک ہے ملک تصرف قبضہ اختیار اسی کا ہے سب اسی کی ماتحتی میں ہیں ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
53۔ 1 ایک نبی دلائل وبراہین کی پوری قوت اپنے ساتھ رکھتا ہے لیکن شپرہ چشموں کو وہ نظر نہیں آتے قوم ہود (علیہ السلام) نے بھی اسی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بغیر دلیل کے محض تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو کس طرح چھوڑیں ؟
[٦٠] ویسے تو ہر نبی کو ایسے واضح دلائل دیئے جاتے ہیں جو ایمان لانے والوں کی تسلی اور تشفی کے لیے کافی ہوتے ہیں مگر ہٹ دھرم لوگ عموماً کسی ایسے حسی معجزے کے طالب ہوتے ہیں جو ان کی گردنیں پکڑ کر انھیں ایمان لانے پر مجبور کر دے اور وہ اس وقت تک ایمان لانے کو تیار نہیں، ہوتے جب تک ایسا معجزہ دیکھ نہ لیں۔ حالانکہ اس وقت ایمان لانے کا کچھ فائدہ بھی نہیں ہوتا اور ایسا معجزہ پیش کرنا ویسے بھی مشیئت الٰہی کے خلاف ہے۔
یہاں تک ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا اور اس مختصر سی تقریر میں تین دفعہ انھیں ” اے میری قوم “ کہہ کر پکارا، تاکہ شاید قرابت کے واسطے ہی سے ان کے دلوں تک رسائی حاصل کرسکیں۔ کیونکہ ہود (علیہ السلام) اسی قبیلے کے فرد ہو کر انھی کی بدخواہی نہیں کرسکتے تھے۔ - قَالُوْا يٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ۔۔ : یہ بات یقینی ہے کہ ہر پیغمبر اللہ کی طرف سے ایسے واضح دلائل اور یقینی آیات اور نشانیاں لے کر آتا ہے کہ سننے اور دیکھنے والوں کو اس کے نبی ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا، مگر یہ سب کچھ انھی کے لیے کار آمد ہوتا ہے جو دل کے کانوں اور آنکھوں سے سنتے اور دیکھتے ہیں۔ لیکن جب کوئی شخص یا قوم ضد اور عناد کی وجہ سے یہ طے کرلے کہ ہم نے ماننا ہی نہیں تو انھیں لاکھ دلیل سامنے ہونے کے باوجود ایک بھی نظر نہیں آتی اور ان کی حالت وہ ہوجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ (٦، ٧) میں بیان فرمائی ہے ۔
قَالُوْا يٰہُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَۃٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِكِيْٓ اٰلِہَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ ٥٣- هود - الْهَوْدُ : الرّجوع برفق، ومنه : التَّهْوِيدُ ، وهومشي کالدّبيب، وصار الْهَوْدُ في التّعارف التّوبة .- قال تعالی: إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف 156] أي : تبنا، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- ( ھ و د ) الھود - کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرن ا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے . : إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف 156] ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] - والقَوْلُ يستعمل علی أوجه :- أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا .- الثاني :- يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا .- الثالث :- للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة .- الرابع :- في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . - ( ق و ل ) القول - اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے - ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے - جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔- ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو - اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے - ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے - ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) - ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا - جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔
(٥٣) اور ان کے قوم نے کہا آپ نے اپنے دعوے پر ہمارے سامنے کوئی دلیل تو پیش نہیں کی اور ہم صرف آپ کے کہنے سے تو اپنے بتوں کی عبادت کو چھوڑنے والے نہیں اور ہم کسی طرح آپ کی رسالت کا یقین کرنے والے نہیں۔
آیت ٥٣ (قَالُوْا يٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ )- یعنی آپ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو اس کے ثبوت کے طور پر آپ کے پاس کوئی کھلی نشانی سند یا معجزہ نہیں ہے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :58 یعنی ایسی کوئی کھلی علامت یا ایسی کوئی واضح دلیل جس سے ہم غیر مشتبہ طور پر معلوم کرلیں کہ اللہ نے تجھے بھیجا ہے اور جو بات تو پیش کر رہا ہے وہ حق ہے ۔
31: روشن دلیل سے ان کی مراد ان کے فرمائشی معجزات تھے۔ عقلی اور نقلی دلائل تو حضرت ہود (علیہ السلام) نے ہر قسم کے پیش کردئیے تھے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ہم جس معجزے کی فرمائش کرتے جائیں وہ ہمیں دکھاتے جاؤ۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر کرشمے دکھانے کے لیے وقف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان کی یہ فرمائشیں پوری نہ ہوئیں تو انہوں کہہ دیا کہ تم کوئی روشن دلیل ہی ہمارے پاس نہیں لائے۔