54۔ 1 یعنی تو جو ہمارے معبودوں کی توہین اور گستاخی کرتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کرسکتے، معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معبودوں نے تیری اس گستاخی پر تجھے کچھ کہہ دیا ہے اور تیرا دماغ ماؤف ہوگیا ہے۔ جیسے آج کل کے نام نہاد مسلمان بھی اس قسم کے توہمات کا شکار ہیں جب انھیں کہا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ اشخاص اور بزرگ کچھ نہیں کرسکتے، تو کہتے ہیں کہ ان کی شان میں گستاخی ہے اور خطرہ ہے کہ اس طرح کی گستاخی کرنے والوں کا وہ بیڑا غرق کردیں۔ نعوذ باللہ من الخرافات والاکاذیب۔ 45۔ 2 یعنی ان تمام بتوں اور معبودوں سے بیزار ہوں اور تمہارا یہ عقیدہ کہ انہوں نے مجھے کچھ کردیا ہے، بالکل غلط ہے، ان کے اندر یہ قدرت ہی نہیں کہ کسی کا مافوق الا سباب طریقے سے نفع یا نقصان پہنچا سکیں۔
[٦١] معبودوں اور بزرگوں کی گستاخی کا انجام :۔ کوئی بھی نبی جب اپنی دعوت پیش کرتا ہے تو اس پر ایمان لانے والے تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں اور کثیر طبقہ ایسا ہوتا ہے جو اس کی مخالفت پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور نبی اور ابتدائی معدودے چند مسلمانوں کو پریشان کرنے اور اسے ایذائیں دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے اسی کیفیت کو دیکھ کر قوم عاد نے ہود سے کہا کہ تمہاری اس پریشان حالی کا سبب ہمیں تو صرف یہ نظر آتا ہے کہ تم جو ہمارے معبودوں کی توہین اور ان کے حق میں گستاخی کرتے ہو تو انہوں نے اپنی اس توہین کی تمہیں یہ سزا دی ہے جیسا کہ پرستاران باطل کے عقائد میں عموماً یہ بات بھی شامل ہوتی ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے افسانے اور حکایتیں بھی تراشی جاتی ہیں اور یہ صرف اس دور کی بات نہیں آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے البتہ آج پتھر کے بتوں کی جگہ فوت شدہ بزرگوں نے لے لی ہے۔ مزاروں آستانوں کے متعلق اسی قسم کی حکایتیں آپ کو آج بھی اولیاء اللہ کے تذکروں سے مل سکتی ہیں۔
یہاں چار جملوں میں ہود (علیہ السلام) کی قوم نے سخت ترین لفظوں میں انھیں جھٹلا کر ان پر ایمان لانے سے صاف انکار کردیا۔ پہلے جملے میں ان پر نبوت کی ایک بھی دلیل پیش نہ کرنے کا بہتان لگایا۔ دوسرے اور تیسرے جملے میں ” مَا “ نافیہ کی تاکید باء کے ساتھ کرکے کچھ بھی ہوجائے اپنے معبودوں کو چھوڑنے اور ہود (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ - اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْۗءٍ : یہ چوتھی بات ہے جو انھوں نے ہود (علیہ السلام) کو جھٹلانے کے ساتھ مزید توہین اور مذاق کے لیے کہی۔ ” عَرَا یَعْرُوْ “ اور ” اِعْتَرٰی یَعْتَرِیْ “ پیش آنا، پہنچنا، باء کے ساتھ متعدی ہو کر پہنچانا کے معنی میں ہوگیا، یعنی ہمارے کسی ایک آدھ معبود نے تجھے کوئی آفت پہنچا دی ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے، اگر سب کی مار پڑجاتی تو معلوم نہیں تیرا کیا بنتا۔ افسوس یہی کسی بزرگ کی مار کا تصور آج مسلمانوں میں بھی آگیا ہے، حالانکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی زندہ یا مردہ ہستی کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکتی ہے نہ بنا سکتی ہے۔- قَالَ اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللّٰهَ ۔۔ : یعنی میرا تمہارے ان بتوں سے اور اللہ کے سوا کسی معبود سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ میں ہر آن ان کا انکار اور ان سے اظہار براءت کرتا ہوں۔- فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ : یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ تم پر ہمارے کسی معبود کی مار پڑگئی ہے تو ایک آدھ کے بجائے اگر تم اور تمہارے یہ سب معبود مل کر بھی میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں تو بگاڑ لیں اور مجھے ذرا مہلت نہ دیں، ورنہ جان لو کہ تم بھی جھوٹے اور تمہارے یہ معبود بھی غلط۔ - ہود (علیہ السلام) کا یہ کلام ان کی قوم کی دوسری فضول باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی جواب ہے کہ تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل، یعنی معجزہ نہیں لایا۔ معجزہ اور نشانی کیا چیز ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر معجزہ کی روح وہ چیلنج ہوتا ہے جو صاحب معجزہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ مثلاً صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی، ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ ان کے لیے آگ کا گلزار بن جانا، مگر یہ معجزہ بھی کیا کم ہے کہ اکیلا شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے کہ میں تم سب کو اور تمہارے خداؤں کو کچھ نہیں سمجھتا۔ تم سب مل کر میرا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو اور اس قوم کو للکار رہا ہے جو نہایت سخت گیر اور رحم سے نا آشنا تھے، جن کے بارے میں آتا ہے : (وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ ) [ الشعراء : ١٣٠] ” اور جب تم پکڑتے ہو تو بہت بےرحم ہو کر پکڑتے ہو۔ “ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اتنی قوت والے تھے کہ ان کے بعد ویسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی، فرمایا : (۽الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ) [ الفجر : ٨ ] ” وہ کہ ان جیسا کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔ “ جب طوفان سے ہلاک ہوئے تو : (كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ) [ الحاقۃ : ٧ ] ” گویا وہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے تھے۔ “ صرف ایک شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے، جو اس کے خون کی پیاسی ہے، جس کے معبودوں کو اور پوری قوم کو اس نے جاہل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کرلو اور پوری قوم باتیں تو بناتی ہے، مگر اس کا کچھ بگاڑ نہ سکی، یہ کھلا معجزہ نہیں تو کیا ہے ؟
اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوْۗءٍ ٠ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اُشْہِدُ اللہَ وَاشْہَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ٥٤ۙ- ( اعتراک) ، فيه إعلال بالقلب، أصله اعتري، جاءت الیاء متحرّكة بعد فتح قلبت ألفا فأصبح اعتری- بألف أخيرة۔ وزنه افتعل، والیاء التي هي لام الکلمة منقلبة عن واو مجرّده عرا يعرو، والمصدر عروة .- ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] - ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
(٥٤) اور آپ جن باتوں سے روکتے ہیں ہمارا تو خیال یہ ہے کہ ہمارے معبودوں نے آپ کے دماغ پر کچھ اثر ڈال دیا ہے اسی وجہ سے ان بتوں کو آپ برا کہتے ہیں۔- حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا میں میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے بتوں سے اور جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بیزار ہوں۔
آیت ٥٤ (اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْۗءٍ )- یعنی ہمارا خیال تو یہی ہے کہ آپ جو ہمارے معبودوں کا انکار کرتے ہیں اور ان کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں اس کی وجہ سے آپ کو ان کی طرف سے سزا ملی ہے اور آپ کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔ اسی لیے آپ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔- (قَالَ اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَاشْهَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ )- میں تمہارے ان جھوٹے معبودوں اور تمہارے شرک کے اس جرم سے بالکل بری اور بیزار ہوں۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت ابراہیم نے اپنی قوم سے فرمائی تھی۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :59 یعنی تو نے کسی دیوی یا دیوتا یا کسی حضرت کے آستانے پر کچھ گستاخی کی ہوگی ، اسی کا خمیازہ ہے جو تو بھگت رہا ہے کہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے اور وہی بستیاں جن میں کل تو عزت کے ساتھ رہتا تھا آج وہاں گالیوں اور پتھروں سے تیری تواضع ہو رہی ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :60 یعنی تم کہتے ہو کہ میں کوئی شہادت لے کہ نہیں آیا ، حالانکہ چھوٹی چھوٹی شہادتیں پیش کرنے کے بجائے میں تو سب سے بڑی شہادت اس خدائی کی پیش کر رہا ہوں جو اپنی ساری خدائی کے ساتھ کائنات ہستی کے ہر گوشے اور ہر جلوے میں اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جو حقیقتیں میں نے تم سے بیان کی ہیں وہ سراسر حق ہیں ، ان میں جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں اور جو تصورات تم نے قائم کر رکھے ہیں وہ بالکل افترا ہیں ، سچائی ان میں ذرہ برابر بھی نہیں ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :61 یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں ۔ فرمایا میرا بھی یہ فیصلہ سن رکھو کہ تمہارے ان معبودوں سے میں قطعی بیزار ہوں ۔
32: یعنی تم ہمارے جن بتوں کی خدائی کا اِنکار کرتے ہو، ان میں سے کسی نے تم سے ناراض ہو کر تم پر آسیب مسلط کردیا ہے جس کے نتیجے میں تم (معاذاللہ) ہوش کھو بیٹھے ہو۔