56۔ 1 یعنی جس ذات کے ہاتھ میں ہر چیز کا قبضہ و تصرف ہے، وہی ذات ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے میرا توکل اسی پر ہے۔ مقصد ان الفاظ سے حضرت ہود (علیہ السلام) کا یہ ہے کہ جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان پر بھی اللہ ہی کا قبضہ و تصرف ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ جو چاہے کرسکتا ہے، وہ کسی کا کچھ نہیں کرسکتے۔ 56۔ 2 یعنی وہ جو توحید کی دعوت دے رہا ہے یقیناً یہ دعوت ہی صراط مستقیم ہے اس پر چل کر نجات اور کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہو اور اس صراط مستقیم سے اعراض انحراف تباہی و بربادی کا باعث ہے۔
[٦٣] یعنی ہر جاندار کی ہر حرکت اور ہر فعل کی باگ ڈور اللہ کے قبضہ اختیار میں ہے۔ کوئی جاندار اللہ کے تصرف اور اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا وہ جب چاہے اسے سزا بھی دے سکتا ہے اور موت سے بھی دو چار کرسکتا ہے۔- [٦٤] رب کے صراط مستقیم کا مطلب :۔ اس بےپناہ تصرف کے باوجود اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے صراط مستقیم پر ہے کہ وہ کسی پر کبھی زیادتی اور ظلم نہیں کرتا۔ البتہ بسا اوقات اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف ضرور کردیتا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ پر گامزن ہیں اللہ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر آن ان کی حفاظت کرتا ہے۔
اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللّٰهِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ : یہ جرأت ہود (علیہ السلام) میں کیسے پیدا ہوئی ؟ وہ خود فرماتے ہیں کہ میرا بھروسا اللہ پر ہے، جو میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے۔ - مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا : ” نَاصِیَۃٌ“ پیشانی کے بالوں کو کہتے ہیں، اگر کسی کو یہاں سے اچھی طرح پکڑ لیا جائے تو وہ ہل نہیں سکتا، بلکہ پوری طرح پکڑنے والے کی گرفت میں ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( لَنَسْفَعًۢا بالنَّاصِيَةِ ) [ العلق : ١٥ ] ” تو ہم ضرور اسے پیشانی کے بالوں کے ساتھ گھسیٹیں گے۔ “ مجرموں کے متعلق فرمایا کہ وہ اپنی علامت کے ساتھ پہچانے جائیں گے : (فَيُؤْخَذُ بالنَّوَاصِيْ وَالْاَقْدَامِ ) [ الرحمٰن : ٤١ ] ” پھر (ان کو) پیشانی کے بالوں اور قدموں سے پکڑا جائے گا۔ “ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرعی عقیدے اور شرعی احکام میں تمہیں اختیار دیا ہے کہ مانو گے تو انعام پاؤ گے، نہ مانو گے تو مارے جاؤ گے۔ اس پر تم اکڑ گئے اور اپنے آپ کو ہر طرح مرضی کا مالک سمجھ لیا۔ سب سے پہلے تو شرعی احکام پر عمل میں اختیار دینے والے مالک کی غداری کرکے اس کی مخلوق کو اس کے شریک بنا بیٹھے، پھر اس کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، اس کے رسول کو جھٹلایا۔ یہ نہ سوچا کہ تھوڑا سا اختیار رکھنے کے باوجود صرف تم ہی نہیں بلکہ پوری مخلوق مکمل طور پر اس کی گرفت میں ہے اور اس کی پیشانی کے بال اس نے پکڑ رکھے ہیں، وہ اس کی مرضی کے بغیر ہل بھی نہیں سکتے۔ اب تم جس طرح شرعی احکام میں اپنا اختیار غلط استعمال کرتے ہوئے اکڑ کر کہتے ہو، ہم اللہ کو نہیں مانتے، ہمارا داتا فلاں اور دستگیر فلاں ہے، ہم رسول کو نہیں مانتے، ہمارا سائیں مرشد فلاں ہے، اگر واقعی تم ایسے ہی آزاد ہو تو ان احکام پر بھی اکڑ کر دکھاؤ جن میں وہ ” کُنْ “ کہتا ہے تو وہ فوراً واقع ہوجاتے ہیں۔ جب بیمار ہوتے ہو تو یہ کہہ کر دکھاؤ کہ کوئی ہمیں بیمار نہیں کرسکتا، کوئی ہمیں بوڑھا نہیں کرسکتا، کوئی ہمارے بال سفید نہیں کرسکتا۔ اگر تم اور تمہارے خدا ایسے ہی زبردست ہیں تو اللہ کے حکم سے دل کی حرکت رکنے پر اسے چالو کر کے دکھاؤ۔ اسی طرح موت کے وقت بھی اکڑ جاؤ کہ جاؤ ہم نہیں مرتے۔ یا تمہارے شریک کہیں ہم اپنے بندے کو مرنے نہیں دیں گے۔ معلوم ہوا کہ تم اس تھوڑے سے اختیار کے باوجود مکمل طور پر میرے رب کے مکمل قبضے میں ہو، پھر جب خود اس نے مجھے بھیجا ہے اور وہ میرا پشت پناہ ہے اور اسی پر میرا بھروسا ہے، تو مجھے تمہارا کیا ڈر ہے، جاؤ جو مرضی کرلو۔ - اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ” جو سیدھی راہ پر چلے وہ اس سے ملے۔ “ (موضح) سورة نحل میں فرمایا : (وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ) [ النحل : ٩ ] ” اور سیدھا راستہ اللہ ہی پر (جا پہنچتا ہے) اور ان میں سے کچھ (راستے) ٹیڑھے ہیں۔ “ دوسرا یہ کہ اگرچہ ہر جاندار پر اس کا قبضہ ہے اور وہ اس کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے کرسکتا ہے، مگر وہ صراط مستقیم پر ہے، کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (ابن کثیر)
اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ ٠ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا ٠ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ٥٦- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- نصي - النَّاصِيَةُ : قُصَاصُ الشَّعْر، ونَصَوْتُ فُلاناً وانْتَصَيْتُهُ ، ونَاصَيْتُهُ : أخذْتُ بِنَاصِيَتِهِ ، وقوله تعالی: ما مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها[هود 56] . أي : متمکِّنٌ منها . قال تعالی: لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ ناصِيَةٍ [ العلق 15- 16] . وحدیثُ عائشة رضي اللہ عنها ( ما لکم تَنْصُونَ ميِّتكم ؟ ) . أي : تَمُدُّونَ ناصیته . وفلان نَاصِيَةُ قومه . کقولهم : رأسُهُمْ وعَيْنُهُمْ ، وانْتَصَى الشَّعْرُ : طَالَ ، والنَّصْيُ : مَرْعًى مِنْ أفضل المَرَاعِي . وفلانٌ نَصْيَةُ قومٍ. أي : خِيارُهُمْ تشبيهاً بذلک المَرْعَى.- ( ن ص ی ) الناصیۃ کے معنی پیشانی کے بالوں کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ نصرت فلانا وانتصیتہ وناصیۃ میں نے ا سے پیشانی کے بالوں سے پکڑا اور آیت کریمہ : ۔ ما مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها[هود 56] جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اس کو چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے ۔ میں اخذ ناصیۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چلنے پھرنے والی چیز پر پوری قدر ت حاصل ہے لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ ناصِيَةٍ [ العلق 15- 16] تو ہم اس کے پیشانی کے بال پکڑے کو گھسیٹیں گے حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ۔ ما لکم تَنْصُونَ ميِّتكم ؟ ) تم میت کی ناصیۃ کیوں باندھتے ہو اور فلان راسھم وعینھم کی طرح فلان ناصیۃ قومہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سردار کے ہیں ۔ انتصی الشعر بالوں کا بڑھ جانا النصی ایک قسم کا عمدہ چارہ ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ کے طور کہا جاتا ہے : ۔ فلان نصیبۃ القوم کہ فلاں ان میں بہتر ہے ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
(٥٦) میں نے اپنے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ہے جو میرا بھی خالق ہے اور تمہارا بھی اور میرا بھی رازق ہے اور تمہارا بھی، جتنے روئے زمین پر چلنے والے ہیں سب کی دور اس کے ہاتھ میں ہے، وہی موت، وحیات دیتا ہے یا یہ کہ تمام چیزیں اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جو چاہتا ہے سو کرتا ہے یقیناً میرا رب صراط مستقیم پر چلنے سے ملتا ہے یا یہ کہ وہ مخلوق کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے جو اس کے نزدیک پسندیدہ راستہ ہے اور وہ دین اسلام ہے۔
(مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا )- یعنی ہر جاندار کی قسمت اور تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حضور سے بھی ایک مشہور دعا میں یہ الفاظ منقول ہیں : (فِیْ قَبْضَتِکَ ‘ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ) (١) یعنی اے اللہ میں تیرے ہی قبضۂ قدرت میں ہوں ‘ میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔- (اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ )- اگر اللہ تک رسائی حاصل کرنی ہے اگر اسے پانا ہے تو وہ توحید اور عدل و انصاف کی سیدھی راہ پر ہی ملے گا۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :62 یہ ان کے اس فقرے کا جواب ہے کہ ہمارے معبودوں کی تجھ پر مار پڑی ہے ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو یونس ، آیت ۷۱ ) ۔
33: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے سیدھا راستہ مقرر کردیا ہے، اور اسی پر چلنے سے خدا ملتا ہے۔