Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہود علیہ السلام کا قوم کو جواب حضرت ہود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اپنا کام تو میں پورا کر چکا ، اللہ کی رسالت تمہیں پہنچا چکا ، اب اگر تم منہ موڑ لو اور نہ مانو تو تمہارا وبال تم پر ہی ہے نہ کہ مجھ پر ۔ اللہ کو قدرت ہے کہ وہ تمہاری جگہ انہیں دے جو اس کی توحید کو مانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں ۔ اسے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ، تمہارا کفر اسے کوئی نقصان نہیں دینے کا بلکہ اس کا وبال تم پر ہی ہے ۔ میرا رب بندوں پر شاہد ہے ۔ ان کے اقوال افعال اس کی نگاہ میں ہیں ۔ آخر ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا ۔ خیر و برکت سے خالی ، عذاب و سزا سے بھری ہوئی آندھیاں چلنے لگیں ۔ اس وقت حضرت ہود علیہ السلام اور آپ کی جماعت مسلمین اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے نجات پا گئے ۔ سزاؤں سے بچ گئے ، سخت عذاب ان پر سے ہٹا لئے گئے ۔ یہ تھے عادی جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ، اللہ کے پیغمبروں کی مان کر نہ دی ۔ یہ یاد رہے کہ ایک نبی کا نافرمان کل نبیوں کا نافرمان ہے ۔ یہ انہیں کی مانتے رہے جو ان میں ضدی اور سرکش تھے ۔ اللہ کی اور اس کے مومن بندوں کی لعنت ان پر برس پڑی ۔ اس دنیا میں بھی ان کا ذکر لعنت سے ہو نے لگا اور قیامت کے دن بھی میدان محشر میں سب کے سامنے ان پر اللہ کی لعنت ہوگی ۔ اور پکار دیا جائے گا کہ عادی اللہ کے منکر ہیں ۔ حضرت سدی کا قول ہے کہ ان کے بعد جتنے نبی آئے سب ان پر لعنت ہی کرتے آئے ان کی زبانی اللہ کی لعنتیں بھی ان پر ہوتی رہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی اس کے بعد میری ذمہ داری ختم اور تم پر حجت تمام ہوگی۔ 57۔ 2 یعنی تمہیں تباہ کر کے تمہاری زمینوں اور املاک کا وہ دوسروں کو مالک بنا دے، تو وہ ایسا کرنے پر قادر ہے اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے بلکہ وہ اپنی مشیت و حکمت کے مطابق ایسا کرتا رہتا ہے۔ 57۔ 3 یقیناً وہ مجھے تمہارے مکرو فریب اور سازشوں سے بھی محفوظ رکھے گا اور شیطانی چالوں سے بھی بچائے گا، علاوہ ازیں ہر نیک بد کو ان کے اعمال کے مطابق اچھی اور بری جزا دے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] ان سب باتوں کے باوجود بھی اگر تم اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر جمے رہو گے تو اللہ عذاب بھیج کر تمہیں تباہ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے وہ اس کے بعد تمہاری سر زمین پر کوئی دوسرے لوگ لا کر آباد کر دے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے لہذا تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ اللہ پر ایمان لے آؤ اور شرک کے کام چھوڑ دو ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِهٖٓ اِلَيْكُمْ ۔۔ : ” تَوَلَّوْا “ اصل میں ” تَتَوَلَّوْا “ تھا، لغت عرب میں کسی فعل کے شروع میں اگر دو ” تاء “ ہوں تو عموماً ایک کو حذف کردیتے ہیں۔ یعنی رسولوں کے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھ تک اللہ کا پیغام نہیں پہنچا، اس لیے میں معذور ہوں، اب اگر تم نہ مانو تو بیشک نہ مانو، مگر میرا فریضہ پورا ہوگیا اور تمہارا عذر ختم ہوگیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ کہ ” وہ پیغام پہنچائے بغیر عذاب نہیں دیتا “ تمہارے لیے بہانہ نہیں بن سکتا۔ تمہارے نہ ماننے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ تمہیں ختم کرکے تمہاری جگہ اور لوگ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نقصان نہ کرسکو گے۔ آگے اس کی مرضی ہے کہ تمہاری جگہ اچھے لوگ لائے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ ) [ محمد : ٣٨ ] ” اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمہاری جگہ تمہارے سوا اور لوگ لے آئے گا، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔ “ اور یہ بھی اس کی مرضی ہے کہ چاہے تو مزید برے لوگ لے آئے، جیسا کہ بنی اسرائیل نے جب ارض مقدس میں فساد شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں سزا دینے کے لیے ان سے بھی برے بندے ان پر مسلط کردیے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٥ تا ٧) ۔- اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ: یعنی جس طرح بعض جاہل فلسفی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا اور اس کے قوانین بنا دیے، اب وہ ان قوانین کے مطابق خود بخود چل رہی ہے، یہ بات بالکل غلط ہے۔ میرے رب نے کائنات کو پیدا کیا، پھر ” رب “ کا معنی ہی یہ ہے کہ تربیت اور پرورش بھی وہی کر رہا ہے۔ پھر حفیظ بھی وہی ہے۔ ہر چیز اس کی نگرانی میں چل رہی ہے۔ اس سے ان مشرکوں اور جاہل صوفیوں کا بھی رد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرکے اس کا انتظام قطبوں، غوثوں اور اس قسم کے خود ساختہ ناموں والے ولیوں اور بزرگوں کے حوالے کردیا ہے، جو اس کو چلا رہے ہیں اور اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اب فارغ ہے، اختیار اس نے اپنے پیاروں کو دے دیے ہیں۔ اللہ اکبر پہلی امتوں کے مشرکوں اور ہماری امت کے مشرکوں میں کس قدر مشابہت اور یک رنگی پائی جاتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِہٖٓ اِلَيْكُمْ۝ ٠ۭ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّيْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ۝ ٠ۚ وَلَا تَضُرُّوْنَہٗ شَـيْـــًٔـا۝ ٠ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ۝ ٥٧- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) پھر بھی اگر تم ایمان اور توبہ سے منہ پھیرتے ہو تو رسالت اور تمہاری ہلاکت کا پیغام جو مجھے دے کر بھیجا گیا تھا وہ میں تمہیں پہنچا چکا ہوں اور تمہاری جگہ میرا رب تم سے بہترین اور اطاعت گزار لوگوں کو آباد کرے گا اور اپنی ہلاکت سے اللہ تعالیٰ کا تم کچھ نقصان نہیں کررہے ہو میرا پروردگار تمہارے تمام اعمال کی نگرانی کرتا ہے اور وہ اس سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :64 یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani