Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

باپ دادا کے معبود ہی ہم کو پیارے ہیں حضرت صالح علیہ السلام اور آپ کی قوم کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس کا بیان ہو رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ تو یہ بات زبان سے نکال ۔ اس سے پہلے تو ہماری بہت کچھ اُمیدیں تجھ سے وابستہ تھیں ، لیکن تو نے ان سے سب پر پانی پھر دیا ۔ ہمیں پرانی روش اور باپ دادا کے طریقے اور پوجا پاٹ سے ہٹانے لگا ۔ ہمیں تو تیری اس نئی رہبری میں بہت بڑا شک شبہ ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو میں اعلیٰ دلیل پر ہوں ۔ میرے پاس رب کی نشانی ہے ، مجھے اپنی سچائی پر دلی اطمینان ہے میرے پاس اللہ کی رسالت کی رحمت ہے ۔ اب اگر میں تمہیں اس کی دعوت نہ دوں اور اللہ کی نافرمانی کرو اور اس کی عبادت کی طرف تمہیں نہ بلاؤں تو کون ہے جو میری مدد کر سکے اور اللہ کے عذاب سے مجھے بچا سکے؟ میرا ایمان ہے کہ مخلوق میرے کام نہیں آسکتی تم میرے لیے محض بےسود ہو ۔ سوائے میرے نقصان کے تم مجھے اور کیا دے سکتے ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یعنی پیغمبر اپنی قوم میں چونکہ اخلاق و کردار اور امانت و دیانت میں ممتاز ہوتا ہے اس لئے قوم کی اس سے اچھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی ان سے یہ کہا۔ لیکن دعوت توحید دیتے ہی ان کی امیدوں کا یہ مرکز، ان کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا اور اس دین میں شک کا اظہار کیا جس طرف حضرت صالح (علیہ السلام) انھیں بلا رہے تھے یعنی دین توحید

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٣] یعنی تمہیں عقل مند، ہونہار اور دیانتدار سمجھ کر ہم نے تم سے اپنی بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ تم باپ دادا کا نام روشن کرو گے تم نے تو الٹا باپ دادا کے دین سے سرکشی اختیار کرلی ہے۔ بلکہ ہمیں بھی اس سے روک رہے ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اور ہمارے آباؤ اجداد سب کے سب غلط کار ہی تھے۔- [٧٤] نبی کی دعوت سے کافروں میں خلجان کی وجہ :۔ انبیاء کی دعوت کے ان کی قوم کے افراد پر دوگونہ اثرات مترتب ہوتے ہیں جو لوگ ان پر ایمان لے آتے ہیں ان میں قلبی اطمینان و سکون پیدا ہوجاتا ہے اور یہی قلبی سکون ہی ان میں مخالفین کے شدائد کو برداشت کرنے کی جرأت پیدا کردیتا ہے اور منکروں میں یہی دعوت خلجان اور قلبی اضطراب کا باعث بن جاتی ہے وجہ یہ ہوتی ہے کہ نبی جو دعوت پیش کرتا ہے دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اس کی اپنی سابقہ زندگی اس دعوت کا بڑا ثبوت ہوتی ہے لیکن منکرین کے پاس تقلید آباء کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہوتی اور اس دلیل میں جتنا وزن ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ ان کے کسی بزرگ نے ایک غلط رسم ڈالی جو اس کی اولاد میں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی گئی جسے بعد میں آنے والوں نے عصبیت کی بنا پر مذہب کا لبادہ پہنا دیا۔ لہذا ایسے لوگوں کا خلجان آہستہ آہستہ بڑھتاہی چلا جاتا ہے۔- اس خلجان کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ کافروں کے کسی گھرانا سے اگر ایک شخص مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کے لواحقین اسے دکھ دیتے اور اس سے برسرپیکار ہوجاتے ہیں۔ اسلام لانے والے کو تو ان کے شدائد سہنے کے باوجود قلبی اطمینان میسر آتا ہے لیکن تشدد کرنے والے تشدد کرنے کے باوجود پریشان اور سخت مضطرب رہتے ہیں اور چونکہ اسلام لانے والا بھی ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد ہوتے ہیں لہذا کافروں کے سب گھرانوں میں ایک عام اضطراب اور بےچینی کی فضا طاری رہتی ہے جو انھیں مزید تشدد پر برانگیختہ کئے رکھتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ ۔۔ : یعنی ہم تو تمہاری ذہانت اور عقل مندی سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے۔ کیوں نہ کرتے، نبی نبوت ملنے سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی زیر نگرانی نہایت امین، صادق، عفیف، باوقار، حلیم اور تمام اوصاف حسنہ سے متصف ہوتا ہے۔ مگر جوں ہی اس شخص نے جس کے اوصاف حسنہ سب کے نزدیک مانے ہوئے تھے، ان کی خواہش نفس اور جاہلی عقائد و رواج کے خلاف بات کی تو ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور وہی دانا شخص ان کے نزدیک عقل و فکر سے خالی ٹھہرا اور ان کے پاس کفر و شرک کے درست ہونے کی اور صالح (علیہ السلام) سے امیدیں ٹوٹنے کی دلیل کیا تھی ؟ صرف یہ کہ ہمارے آبا و اجداد جن کی عبادت کرتے تھے، یہ ان کی عبادت سے منع کرتا ہے۔ تمام گمراہ اقوام کی دلیل یہی تقلید رہی ہے، کیونکہ یہ بلا نہ کسی کی بات سننے دیتی ہے، خواہ کتنی صحیح ہو اور نہ خود سوچنے سمجھنے کی طرف آنے دیتی ہے۔ دیکھیے سورة ملک (١٠) ۔- وَاِنَّنَا لَفِيْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ مُرِيْبٍ : ” شک “ ذہن کی وہ کیفیت ہے جس میں آدمی دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو ترجیح نہ دے سکے۔ ” مُرِيْبٍ “ ” أَرَابَ یُرِیْبُ إِرَابَۃً “ ( رَیْبٌ سے باب افعال ) بےچین کردینا، بےقرار رکھنا۔ ” مُرِيْبٍ “ بےچین رکھنے والا۔ یہاں انھوں نے اپنی حقیقی حالت بیان کی ہے۔ صالح (علیہ السلام) کی دلیل اور حجت پر مبنی دعوت نے ان کے دل و دماغ میں ہلچل مچا دی تھی اور اگرچہ انھوں نے اسے نہیں مانا مگر اس دعوت نے انھیں اپنے بارے میں ایک بےچین رکھنے والے شک میں مبتلا کردیا تھا۔ اگر تقلید آباء کی شامت نہ ہوتی تو وہ لوگ چند لمحوں میں ہر طرح کے شک اور بےچینی سے نکل کر ایمان و یقین کی ٹھنڈک اور اطمینان سے سرفراز ہوچکے ہوتے۔ مگر دیکھیے کتنی بڑی حماقت تھی کہ شرک پر نہ تو مطمئن تھے اور نہ ان کے پاس اس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہی تھی، مگر پھر بھی آبائی تقلید کی وجہ سے شرک کو چھوڑ کر توحید کی راہ اختیار کرنے کو تیار نہ تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس واقعہ میں حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے ان سے کہا (آیت) قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ، یعنی آپ کے دعوائے نبوت اور بت پرستی کو منع کرنے سے پہلے ہم کو آپ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ آپ ہماری قوم کے لئے بڑے مصلح اور رہنما ثابت ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے انبیاء کی پرورش بچپن ہی سے نہایت پاکیزہ اخلاق و عادات میں کرتے ہیں جس کو دیکھ کر سبھی ان سے محبت کرتے اور عظمت سے پیش آتے ہیں جیسا کہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اعلان نبوت سے پہلے سارا عرب امین کا خطاب دیتا اور سچا اور صالح اعتقاد رکھتا تھا، نبوت کے دعوی اور بت پرستی سے ممانعت کرنے پر یہ سب مخالف ہوگئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْہٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِيْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْہِ مُرِيْبٍ۝ ٦٢- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عواملووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، - اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ - نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - شكك - الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما،- والشَّكُّ :- ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] - ( ش ک ک ) الشک - کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔- الشک :- شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ - ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) قوم ثمود کہنے لگی اے صالح تم تو ہمارے آباء کے دین کے علاوہ دوسرے دین کی دعوت دینے سے پیشتر ہم میں سے ہونہار اور لیاقت والے تھے کیا تم ہمیں ان بتوں کی پوجا سے روکتے ہو ہم تو تمہارے دین کے متعلق بہت مشکوک ہیں جس نے ہمیں تردد میں ڈال رکھا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ہٰذَآ) - یعنی آپ تو اپنے اخلاق و کردار کی وجہ سے پوری قوم کی امیدوں کا مرکز تھے۔ ہمیں تو توقع تھی کہ آپ اپنی صلاحیتوں کے سبب اپنے آباء و اَجداد اور پوری قوم کا نام روشن کریں گے ‘ مگر آپ نے یہ کیا کیا ؟ آپ نے تو اپنے باپ دادا کے دین اور ان کے طور طریقوں پر ہی تنقید شروع کردی۔ آپ کی ان باتوں سے تو پوری قوم کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔- (اَتَنْهٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِيْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ مُرِيْبٍ )- آپ کی اس دعوت توحید کے بارے میں ہمیں سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال دیا ہے۔ ہمارا دل آپ کی اس دعوت پر مطمئن نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :70 یعنی تمہاری ہوشمندی ، ذکاوت ، فراست ، سنجیدگی و متانت اور پروقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بڑے آدمی بنو گے ۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤ گے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا ۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخرت کا نیا راگ چھیڑ کر تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔ یاد رہے کہ ایسے ہی کچھ خیالات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آپ کے ہم قوموں میں پائے جاتے تھے ۔ وہ بھی نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین قابلیتوں کے معترف تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص ایک بہت بڑا تاجر بنے گا اور اس کی بدار مغزی سے ہم کو بھی بہت کچھ فائدہ پہنچے گا ۔ مگر جب ان کی توقعات کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید وآخرت اور مکارم اخلاق کی دعوت دینی شروع کی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف مایوس ، بلکہ بیزار ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا خاصا کام کا آدمی تھا ، خدا جانے اسے کیا جنون لاحق ہو گیا کہ اپنی زندگی بھی برباد کی اور ہماری امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :71 یہ گویا دلیل ہے اس امر کی کہ یہ معبود کیوں عبادت کے مسحق ہیں اور ان کی پوجا کس لیے ہوتی رہنی چاہیے ۔ یہاں جاہلیت اور اسلام کے طرز استدلال کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے ، اور اس پر دلیل یہ دی تھی کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا ہے ۔ اس کے جواب میں ان کی مشرک قوم کہتی ہے کہ ہمارے یہ معبود بھی مستحق عبادت ہیں اور ان کی عبادت ترک نہیں کی جا سکتی کیونکہ باپ دادا کے وقتوں سے ان کی عبادت ہوتی چلی آرہی ہے ۔ یعنی مکھی پر مکھی صرف اس لیے ماری جاتی رہنی چاہیے کہ ابتدا میں کسی بے وقوف نے اس جگہ مکھی مار دی تھی اور اب اس مقام پر مکھی مارتے رہنے کے لیے اس کے سوا کسی معقول وجہ کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہاں مدتوں سے مکھی ماری جا رہی ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :72 یہ شبہہ اور یہ خلجان کس امر میں تھا ؟ اس کی کوئی تصریح یہاں نہیں کی گئی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلجان میں تو سب پڑ گئےتھے ، مگر ہی ایک خلجان الگ نوعیت کا تھا ۔ یہ دعوت حق کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو لوگوں کا اطمینان قلب رخصت ہو جاتا ہے اور ایک عام بےکلی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اگر چہ ہر ایک کے احساسات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اس بےکلی میں سے سب کو کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل کر رہتا ہے ۔ اس سے پہلے جس اطمینان کے ساتھ لوگ اپنی ضلالتوں میں منہمک رہتے تھے اور کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کرتے تھے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، وہ اطمینان اس دعوت کے اٹھنے کے بعد باقی نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا ۔ نظام جاہلیت کی کمزوریوں پر داعی حق کی بے رحم تنقید ، اثبات حق کے لے اس کے پرزور اور دل لگتے دلائل ، پھر اس کے بلند اخلاق ، اس کا عزم ، اس کا حلم ، اس کی شرافت نفس ، اس کا نہایت کھرا اور راستبازانہ رویہ اور اس کی وہ زبردست حکیمانہ شان جس کا سکہ بڑے سے بڑے ہٹ دھرم مخالف کے دل پر بھی بیٹھ جاتا ہے ، پھر وقت کی سوسائٹی میں سے بہترین عناصر کا اس سے متاثر ہوتے چلے جانا اور ان کی زندگیوں میں دعوت حق کی تاثیر سے غیر معمولی انقلاب رونما ہونا ، یہ ساری چیزیں مل جل کر ان سب لوگوں کے دلوں کو بے چین کر ڈالتی ہیں جو حق آجا نے کے بعد بھی پرانی جاہلیت کا بول بالا رکھنا چاہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: اس سے صاف واضح ہے کہ نبوت کے اعلان سے پہلے حضرت صالح علیہ السلام کو پوری قوم بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم نے انہیں اپنا سردار یا بادشاہ بنانے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔