Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ان تمام آیتوں کی پوری تفسیر اور ثمودیوں کی ہلاکت کے اور اونٹنی کے مفصل واقعات سورہ اعراف میں بیان ہو چکے ہیں یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 یہ وہی اونٹنی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے کہنے پر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک پہاڑ یا ایک چٹان سے برآمد فرمائی اس لئے اسے (اللہ کی اونٹنی) کہا گیا ہے کیونکہ یہ خالص اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر مذکورہ خلاف عادت طریقے سے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کی بابت انھیں تاکید کردی گئی تھی کہ اسے ایذا نہ پہنچانا ورنہ تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] ناقۃ اللہ کا کھانا پینا :۔ اس قوم نے خود اس معجزہ کا مطالبہ کیا تھا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے کہ اس پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو پھر وہ ہمارے سامنے بچہ جنے۔ سیدنا صالح (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی پہاڑ میں یک لخت جنبش ہوئی پھر ایک شگاف سے ایک بہت دیو ہیکل اونٹنی برآمد ہوئی جس نے کچھ عرصہ بعد بچہ جنا اس طرح اس قوم کا منہ مانگا معجزہ کا مطالبہ پورا ہوا اسی وجہ سے اس اونٹنی کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔- اونٹنی کو تکلیف پہنچانے پر تنبیہ :۔ یہ دیو ہیکل اونٹنی اتنا پانی پیتی تھی جتنا اس بستی کے سارے جانور پیتے تھے اور اتنا ہی چارہ بھی کھا جاتی تھی۔ اس کی خوراک کے سلسلہ میں قوم کو ایک نئی تشویش لاحق ہوگئی تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ یہ فرما دیا کہ کنوئیں سے ایک دن تو اونٹنی پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن دوسرے سب جانور، اور چرنے چگنے میں اس اونٹنی کو مکمل آزادی حاصل ہوگی جہاں سے وہ چاہے چرتی پھرے۔ ساتھ ہی صالح (علیہ السلام) نے قوم کو متنبہ کردیا کہ اگر تم نے کسی برے ارادہ سے اس اونٹنی کو ہاتھ لگایا تو تمہیں سخت عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَــةُ اللّٰهِ : اس اونٹنی کی نسبت اللہ کی طرف اس کی عظمت کے بیان کے لیے ہے، ورنہ ہر اونٹنی اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ قرآن مجید میں اس کے اوصاف یہ آئے ہیں کہ قوم ثمود کے معجزہ طلب کرنے پر صالح (علیہ السلام) کو یہ اونٹنی ملی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے ان کے کنویں کا پانی پینے کی باری مقرر کی گئی کہ ایک دن صرف وہ پیے گی اور ایک دن دوسرے تمام لوگوں کے جانور پانی پییں گے۔ اپنی باری کے دن لوگ جتنا پانی چاہیں نکال کر رکھ لیں، مگر اونٹنی کی باری کے دن صرف وہی پیے گی۔ دیکھیے سورة شعراء (١٥٤ تا ١٥٦) وہ جہاں چاہے چرے، کوئی شخص اسے اپنے کھیت سے یا کسی بھی جگہ سے چرنے سے نہیں روکے گا اور یہ کہ اگر کسی نے اسے کوئی نقصان پہنچایا تو انھیں قریب ہی عذاب عظیم آپکڑے گا۔ (آیت زیر تفسیر) یہاں ” عَذَابٌ قَرِيْبٌ“ ہے جبکہ سورة شعراء (١٥٦) میں ” عَذَابٌ یَوْمٍ عَظِیْمْ “ ہے۔ - لَكُمْ اٰيَةً : اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اونٹنی ایک معجزہ تھی۔ ایک پورا دن اس کے پینے کے لیے باری مقرر کرنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ عام اونٹنی نہ تھی، مگر وہ کیسے وجود میں آئی ؟ قرآن و حدیث میں اس کا ذکر مجھے نہیں ملا۔ بہت سی تفاسیر کے مطالعے کے بعد کم ازکم میری تسلی تو شیخ عبد الرحمن بن ناصر بن سعدی (رض) کی تفسیر ” تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان “ کے کلام سے ہوئی، جو انھوں نے سورة اعراف میں قوم ثمود کی اونٹنی کے متعلق فرمایا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں : ” جان لو کہ اکثر مفسرین یہ قصہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے نکلی، جس طرح کی اونٹنی نکالنے کا انھوں نے صالح (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حاملہ ہو اور وہ ان کی آنکھوں کے سامنے حاملہ اونٹنی کی صورت میں نکلی۔ اسے حاملہ اونٹنیوں کی طرح ولادت کا درد ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کا ایک بچہ بھی پیدا ہوا۔ جس وقت انھوں نے اونٹنی کو کاٹا تو وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور تین دفعہ اونٹ کی طرح بلبلایا، چناچہ پہاڑ پھٹا اور وہ اس میں غائب ہوگیا اور یہ کہ صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تمہیں جو تین دن ملے ہیں ان میں سے پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ انھوں نے فرمایا تھا۔ “ شیخ سعدی (رض) فرماتے ہیں : ” یہ تمام باتیں اسرائیلیات سے ہیں، جنھیں اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں اور قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ان باتوں میں سے کسی ایک پر کسی طرح دلالت کرتی ہو، بلکہ اگر یہ باتیں صحیح ہوتیں تو اللہ تعالیٰ انھیں ضرور ذکر فرماتا، کیونکہ ان میں ایسی عجیب باتیں، عبرتیں اور نشانیاں ہیں جن کا ذکر ساتھ ہی ہونا تھا۔ اب اگر یہ ایسے لوگوں کی طرف سے آئیں جن پر اعتماد ہو ہی نہیں سکتا تو کیسے قبول ہوسکتی ہیں ؟ بلکہ ان میں سے بعض تو قرآن مجید کی تصریحات ہی سے درست معلوم نہیں ہوتی ہیں، مثلاً صالح (علیہ السلام) نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے پر ان سے فرمایا : (تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ ) تمتع خوب فائدہ اور لذت اٹھانے کو کہتے ہیں۔ وہ لوگ صالح (علیہ السلام) کو اور عذاب آنے کو جھٹلا رہے تھے بلکہ بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کر رہے تھے، اگر ان کے چہرے ہی زرد، سرخ اور سیاہ ہوگئے ہوں تو انھیں تین دن خوب فائدہ اور لذت اٹھانے کی مہلت کیا خاک ملی۔ یہ قرآن کے صاف خلاف نہیں تو کیا ہے ؟ ہدایت کے لیے تو قرآن کافی ہے، ہاں، اگر کوئی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہو، تو وہ کتاب اللہ سے نہیں ٹکرائے گی، وہ سر آنکھوں پر اور اسے ماننے کا قرآن نے حکم دیا ہے : (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ) [ الحشر : ٧ ] ” اور رسول تمہیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں روک دے تو رک جاؤ۔ “ اور پہلے گزر چکا ہے کہ قرآن کی تفسیر اسرائیلیات سے جائز نہیں، خواہ ان سے وہ بات نقل کرنا جائز بھی ہو، جس کا جھوٹا ہونا یقینی نہ ہو، مگر اللہ تعالیٰ کی کتاب کے معانی یقینی ہیں، ان کی تفسیر ایسی باتوں سے کرنا جن کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تُصَدِّقُوْا أَھْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُمْ ) [ بخاری، التفسیر، باب : (قولوا ٰامنا باللہ ۔۔ ): ٤٤٨٥] ” نہ انھیں سچا سمجھا جائے نہ جھوٹا۔ “ ایسا کام ہے جس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ “ - تمتع کے بارے میں ایک شعر ملاحظہ فرمائیے ؂- تَمَتَّعْ مِنْ شَمِیْمِ عَرَارِ نَجْدٍ- فَمَا بَعْدَ الْعَشِیَّۃِ مِنْ عَرَارِ- ” نجد کی ” عرار “ نامی بوٹی کی خوشبو سے خوب فائدہ اٹھا لو، کیونکہ آج سہ پہر کے بعد پھر ” عرار “ نہیں ملے گی۔ “ - (کیونکہ شاعر وہاں سے کوچ کر رہا تھا)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيٰقَوْمِ ہٰذِہٖ نَاقَــۃُ اللہِ لَكُمْ اٰيَۃً فَذَرُوْہَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللہِ وَلَا تَمَسُّوْہَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ۝ ٦٤- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجر ات 11] - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) اور اے قوم یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لیے دلیل بنا کر ظاہر کی گئی، اس کو حجر کی سرزمین میں چھوڑ دو تمہارے ذمہ اس کی کسی قسم کی کوئی رکھوالی نہیں اور اس کو تکلیف دینے کی نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا کہیں تمہیں فورا یعنی تین دن کے بعد عذاب آگھیرے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ)- وہ عذاب اب دور نہیں ہے اور اسے آتے کچھ دیر نہ لگے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani