Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 یہ عذاب صَیْحَۃً (چیخ زور کی کڑک) کی صورت میں آیا، بعض کے نزدیک یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی چیخ تھی اور بعض کے نزدیک آسمان سے آئی تھی۔ جس سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقعہ ہوگئی، اس کے بعد یا اس کے ساتھ ہی بھونچال رجفہ بھی آیا، جس نے سب کچھ تہ بالا کردیا۔ جیسا کہ سورة اعراف 78 (فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ ) میں فاخذتھم الرجفہ کے الفاظ ہیں 67۔ 2 جس طرح پرندہ مرنے کے بعد زمین پر مٹی کے ساتھ پڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ موت سے ہم کنار ہو کر منہ کے بل زمین پر پڑے رہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٩] قوم ثمود پر عذاب کی نوعیت :۔ اس قوم پر ایک تو دھماکہ کا عذاب آیا دوسرے اسی وقت شدید زلزلہ کے جھٹکے لگنا شروع ہوگئے اور ممکن ہے کہ دھماکے کی آواز بھی زمین کے پھٹنے اور زلزلے سے پیدا ہوئی ہو اس دوہرے عذاب سے وہ اپنے گھروں میں ہی مر کھپ گئے اور یہ بستی ایسے ویران اور برباد ہوگئی جیسے یہاں کوئی کبھی انسان آباد ہی نہ ہوا تھا اور ان کا یہ عبرت ناک انجام اس لیے ہوا کہ انہوں نے اپنے خالق حقیقی کو چھوڑ کر بتوں وغیرہ کو ہی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ رکھا تھا جو ان کے اس آڑے وقت میں ان کے کسی کام نہ آسکے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تفسیر قرطبی میں ہے کہ یہ تین روز جمعرات، جمعہ اور ہفتہ تھے، اتوار کے روز ان پر عذاب نازل ہوا (آیت) وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ ، یعنی ان ظالموں کو پکڑ لیا ایک سخت آواز نے، یہ سخت آواز حضرت جبریل (علیہ السلام) کی تھی جس میں ساری دنیا کی بجلیوں کی کڑک سے زیادہ ہیبت ناک آواز تھی جس کو انسانی قلب و دماغ برداشت نہیں کرسکا، ہیبت سے سب کے دل پھٹ گئے اور سب کے سب ہلاک ہوئے۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ قوم صالح سخت آواز کے ذریعہ ہلاک کی گئی ہے لیکن سورة اعراف میں ان کے متعلق یہ آیا ہے (آیت) فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ، یعنی پکڑ لیا ان کو زلزلہ نے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر عذاب زلزلہ کا آیا تھا، قرطبی نے فرمایا کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، ہوسکتا ہے کہ پہلے زلزلہ آیا ہو پھر سخت آواز سے سب ہلاک کردیئے گئے ہوں۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِہِمْ جٰثِمِيْنَ۝ ٦٧ۙ- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - صاح - الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29]- ( ص ی ح ) الصیحۃ - کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔- جثم - فَأَصْبَحُوا فِي دارِهِمْ جاثِمِينَ [ الأعراف 78] ، استعارة للمقیمین، من قولهم : جَثَمَ الطائرُ إذا قعد ولطئ بالأرض، والجُثْمَان : شخص الإنسان قاعدا،.- ( ج ث م ) جثم - ( ض ن ) جثما وجثوما ۔ الطائر پرندے کا زمین پر سینہ کے بل بیٹھنا اور اس کے ساتھ چمٹ جانا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر فرمایا : ۔ فَأَصْبَحُوا فِي دارِهِمْ جاثِمِينَ [ الأعراف 78] اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔ الجثمان بیٹھے ہوئے انسان کا شخص ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧۔ ٦٨) اور ان مشرکین کو عذاب نے پکڑا جس سے وہ مردہ بےحس و حرکت اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے اور ایسے فنا ہوئے جیسا کہ وہ زمین پر کبھی تھے ہی نہیں، قوم صالح (علیہ السلام) نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صالح (علیہ السلام) کی قوم اللہ کی رحمت سے دور ہوگئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38: اس عذاب کا تفصیلی واقعہ سورۃ اعراف آیت نمبر 73 کے تحت حاشیہ 39 میں گزر چکا ہے۔