آج کے ایٹم بم اس وقت کے پتھروں کی بارش سورج کے نکلنے کے وقت اللہ کا عذاب ان پر آگیا ۔ ان کی بستی سدوم نامی تہ و بالا ہو گئی ۔ عذاب نے اوپر تلے سے ڈھانک لیا ۔ آسمان سے پکی مٹی کے پتھر ان پر برسنے لگے ۔ جو سخت ، وزنی اور بہت بڑے بڑے تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے سجین سجیل دونوں ایک ہی ہیں ۔ منضود سے مراد پے بہ پے تہ بہ تہ ایک کے بعد ایک کے ہیں ۔ ان پتروں پر قدرتی طور پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے ۔ جس کے نام کا پتھر تھا اسی پر گرتا تھا ۔ وہ مثل طوق کے تھے جو سرخی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ یہ ان شہریوں پر بھی برسے اور یہاں کے جو لوگ اور گاؤں گوٹھ میں تھے ان پر بھی وہیں گرے ۔ ان میں سے جو جہاں تھا وہیں پتھر سے ہلاک کیا گیا ۔ کوئی کھڑا ہوا ، کسی جگہ کسی سے باتیں کر رہا ہے وہیں پتھر آسمان سے آیا اور اسے ہلاک کر گیا ۔ غرض ان میں سے ایک بھی نہ بچا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان سب کو جمع کر کے ان کے مکانات اور مویشیوں سمیت اونچا اٹھا لیا یہاں تک کہ ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آسمان کے فرشتوں نے سن لیں ۔ آپ اپنے داہنے پر کے کنارے پر ان کی بستی کو اٹھائے ہوئے تھے ۔ پھر انہیں زمین پر الٹ دیا ۔ ایک کو دوسرے سے ٹکرا دیا اور سب ایک ساتھ غارت ہوگئے اکے د کے جو رہ گئے تھے ان کے بھیجے آسمانی پتھروں نے پھوڑ دئیے اور محض بےنام و نشان کر دیئے گئے ۔ مذکور ہے کہ ان کی چار بستیاں تھیں ۔ ہربستی میں ایک لاکھ آدمیوں کی آبادی تھی ۔ ایک روایت میں ہے تین بستیاں تھیں ۔ بڑی بستی کا نام سدوم تھا ۔ یہاں کبھی کبھی خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی آکر وعظ نصیحت فرما جایا کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے یہ چیزیں کچھ ان سے دور نہ تھیں ۔ سنن کی حدیث میں ہے کسی اگر تم لواطت کرتا ہوا پاؤ تو اوپر والے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔
[٩٣] کیا قوم لوط پر عذاب آتش فشانی انفجار تھا ؟ یہ وہ عذاب الٰہی کا حکم تھا جس پر فرشتوں کو مامور کیا گیا تھا۔ جبریل نے شہر سدوم اور آس پاس کی بستیوں کو، جو ان بدکاروں کا مسکن تھا اس پورے خطہ زمین کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا پھر فضا میں بلندی پر لے جا کر اس خطہ کو الٹا کر زمین پر پٹخ دیا۔ پھر اس خطہ زمین پر اوپر سے لگاتار کھل کر پتھر برسائے گئے اور پتھر بھی عام پتھر نہ تھے بلکہ مخصوص علامت والے پتھر تھے اور یہ دوہرا عذاب انھیں غضب الٰہی کی شدت کی بنا پر دیا گیا۔- بعض لوگ اس عذاب الٰہی کی یہ عقلی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ یہ آتش فشانی انفجار تھا۔ زمین سے شدید قوت کے ساتھ لاوا پھوٹا جس نے اس خطہ زمین کو اوپر اٹھا لیا جو بعد میں نیچے گرگیا ۔ پھر اسی لاوا کا مائع مادہ فضا میں پہنچ کر منجمد ہو کر کھنگروں کی صورت میں اس خطہ زمین پر برسا تھا۔ یہ توجیہ ویسے تو دل لگتی ہے۔ مگر ہمیں اس توجیہ کو قبول کرنے میں تامل ہے یہ محض ایک طبعی واقعہ نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے خاص اسی مقصد کے لیے بھیجے تھے جس کی صراحت ان آیات میں موجود ہے البتہ دوسری قوموں پر جو عذاب آتے رہے انھیں طبعی اسباب کے تحت قرار دیاجا سکتا ہے اگرچہ وہ واقعات بھی اللہ کے حکم اور اس کی مشیئت کے تحت ہی واقع ہوئے تھے۔
فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا ۔۔ : یعنی جب ہمارے عذاب کا حکم آیا تو ہم نے اس بستی کے اوپر کا حصہ اس کا نیچے کا حصہ کردیا، یعنی پوری بستی الٹ دی۔ یہ عذاب ان کے فعل شنیع سے مناسبت رکھتا تھا کہ انھوں نے بھی فطرت کو بدل کر عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کو اپنی شہوت رانی کا ذریعہ بنا لیا۔ - سِجِّيْلٍ : سنگ و گِل (پتھر اور مٹی کے ملے ہوئے ڈھیلے) یا سنگ گِل (مٹی کے پتھر یعنی پختہ اینٹوں کے روڑے یا کھنگر) مزید عذاب کے طور پر بستی الٹنے کے بعد اس پر اینٹوں اور پتھروں کی ایسی مسلسل بارش برسائی کہ ان کی تہیں لگ گئیں۔
فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّيْلٍ ٠ۥۙ مَّنْضُوْدٍ ٨٢ۙ- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ، فقوله : ( علوّا) ليس بمصدر تعالی. كما أنّ قوله ( نباتا) في قوله : أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَباتاً [ نوح 17] ، و ( تبتیلا) في قوله : وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا [ المزمل 8] ، كذلك - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔- لَعالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ [يونس 83] اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور ( کبر وکفر میں ) حد سے بڑہا ہوا تھا فَاسْتَكْبَرُوا وَكانُوا قَوْماً عالِينَ [ المؤمنون 46] ، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سر کش لوگ تھے ۔ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعالِينَ [ ص 75] کیا تو غرور میں آگیا اور نچے درجے والوں میں تھا۔ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ [ القصص 83] جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارداہ نہیں رکھتے ۔ وَلَعَلا بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ المؤمنون 91] اور ایک دوسرے پر غالب آجاتا ۔ اور مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 4 اور بڑی سر کشی کرو گے ۔ وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوًّا [ النمل 14] اور بےانصابی اور غرور سے ( ان کا انکار کیا) کہ ان کے دل ان کو مان چکے تھے - سفل - السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی،- ( س ف ل ) السفل - یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74]- مطر - المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في العذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء 173] - ( م ط ر ) المطر - کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔- حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ - حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ - نضد - يقال : نَضَدْتُ المتاعَ بعضه علی بعض : أَلْقَيْتُهُ ، فهو مَنْضُودٌ ونَضِيدٌ ، والنَّضَدُ : السَّريرُ الذي يُنَضِّدُ عليه المتاعُ ، ومنه اسْتُعِيرَ : طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] ، وقال تعالی: وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ [ الواقعة 29] ، وبه شُبِّهَ السَّحابُ المتراکم فقیل له : النَّضَدُ ، وأَنْضَادُ القومِ : جماعاتُهْم، ونَضَدُ الرَّجُلِ : مَنْ يَتَقَوَّى به من أَعْمامِهِ وأَخْوالِهِ.- ( ن ض د ) نضد - ت المتاع بعضہ علیٰ بعض کے منعی سامان کو قرضے سے اوپر نیچے رکھنے کے ہیں اور قرینے سے رکھے ہوئے سامان کو منضود یا نضید کہا جاتا ہے اور جس تخت پر سامان جوڑ کر رکھا جائے اسے بھی نضید کہتے ہیں ۔۔۔ ، اسی سے استعارہ فرمایا : ۔ طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] اور دوسرے مقام پر فرمایا : وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ [ الواقعة 29] اور تہ بہ تہ کیلوں ۔ اور مجازا گہرے بادل کو بھی نضد کہا جاتا ہے ۔ اور انضاد القوم کے معنی لوگوں کی مختلف آدمی کے اعمام واخوال کے ہیں جن کی مدد سے وہ مضبوط ہوتا ہے ۔
(٨٢) سو جب ہمارا عذاب انکے ہلاک کرنے کے لیے آپہنچا تو ہم نے اس زمین کو الٹ کر اوپر کا تختہ نیچے اور نیچے کا تختہ اوپر کردیا، اور ان کے مسافروں اور بکھرے ہوئے لوگوں پرکھنگر کے پتھر برسانا شروع کیے جو مسلسل گر رہے تھے جن پر سیاہی، سفیدی اور سرخی کی لکیریں تھیں یا یہ کہ ہر ایک پتھر پر ہلاک ہونیوالے گا نام لکھا ہوا تھا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ پتھر ان لوگوں پر آپ کے پروردگار کی طرف سے برس رہے تھے۔
آیت ٨٢ (فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا)- یعنی ان بستیوں کو تلپٹ کردیا گیا۔ جب عمارتیں تباہ ہوتی ہیں تو چھت زمین بوس ہوجاتی ہے اور دیواریں اس کے اوپر گرتی ہیں بنیادیں بھی اوپر آجاتی ہیں۔ - (وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ )- سِجِّیل اصل میں فارسی لفظ ہے۔ فارسی میں یہ ” سنگ گل “ تھا جو عربی میں آکر سِجِّیل کا تلفظ اختیار کرگیا۔ سنگ کے معنی پتھر اور گل کے معنی مٹی کے ہیں۔ یعنی مٹی کے پتھر جو گیلی مٹی کے دھوپ میں گرم ہو کر پختہ ہوجانے کے بعد بنتے ہیں جیسے اینٹوں کو بھٹے میں پکایا جاتا ہے۔ ان بستیوں پر عذاب دو صورتوں میں آیا ایک زمین کے اندر کوئی زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں زبردست زلزلہ آیا اور یہ بستیاں الٹ پلٹ ہوگئیں۔ پھر اوپر سے کنکریوں کی بارش ہوئی اور اس طرح انہیں ان پتھروں کے اندر دفن کردیا گیا۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :91 بائیبل میں اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے ، مگر تلمود میں تصریح ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون نے کہا”میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں“ ۔
48: روایات میں ہے کہ یہ کل چار بستیاں تھیں جن میں یہ بد قماش لوگ بستے تھے۔ ان ساری بستیوں کو فرشتوں نے جوں کا توں اوپر اُٹھاکر زمین پر اوندھا پٹخ دیا، اور ان کا نام ونشان مٹ گیا۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ بحر میت ( ) جسے ’’بحرِ مردار‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ان بستیوں کے اُلٹنے سے پیدا ہوا ہے، ورنہ کسی بڑے سمندر سے اس کا رابطہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جس مقام پر یہ بستیاں واقع تھیں، یعنی بحرِ مردار کے آس پاس کا علاقہ، اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ پورے کرہ زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے، یعنی زمین کا کوئی اور حصہ سطح سمندر سے اتنا نیچا نہیں ہے جتنا نیچا یہ ہے۔ قرآنِ کریم نے جو فرمایا ہے کہ ’’ہم نے اس زمین کے اُوپر والے حصے کو نیچے والے حصے میں تبدیل کردیا‘‘، کچھ بعید نہیں کہ ان الفاظ میں اس جغرافیائی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہو، اور ان کی انتہائی نچلی حرکتوں کو یہ محسوس شکل دے دی گئی ہو۔