Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 اس آیت میں ھی کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک وہ نشان زدہ کنکریلے پتھر ہیں جو ان پر برسائے گئے اور بعض کے نزدیک اس کا مرجع وہ بستیاں ہیں جو ہلاک کی گئیں اور جو شام اور مدینہ کے درمیان تھیں اور ظالمین سے مراد مشرکین مکہ اور دیگر منکرین ہیں۔ مقصد ان کو ڈرانا ہے کہ تمہارا حشر بھی ویسا ہہی ہوسکتا ہے جس سے گزشتہ قومیں دو چار ہوئیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٤] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک کی تو ترجمہ میں ہی قوسین کے ذریعہ وضاحت کردی گئی ہے اس صورت میں خطہ سے مراد قوم لوط کا تباہ شدہ خطہ اور ظالموں سے مراد دور نبوی کے منکرین حق ہیں یعنی یہ برباد شدہ علاقہ ان ظالموں سے کچھ دور نہیں یہ سب کچھ وہ بچشم خود ملاحظہ کرسکتے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایسا عذاب کچھ قوم لوط سے ہی مخصوص نہیں بلکہ ظالموں اور منکرین حق اور بدکرداروں کو آج بھی ایسا عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ پوری قدرت رکھتا ہے اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ : ” نشان لگے ہوئے “ یعنی ان میں سے ہر پتھر پر کوئی علامت بنائی گئی تھی کہ اس سے کس کو ہلا ک کرنا ہے۔ (ابن کثیر)- وَمَا ھِيَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ بِبَعِيْدٍ : اس کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ جو لوگ بھی ظلم کی روش پر چلیں گے (مثلاً مغربی اقوام اور ان کے پرستار جو دھڑلے سے اس فعل بد کا ارتکاب اور اس کی اشاعت کر رہے ہیں) ان پر بھی یہ عذاب آنا کچھ دور نہیں، یا الف لام عہد کا ہو تو ان ظالموں (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے کافروں) پر بھی نزول عذاب بعید از قیاس نہیں۔ اگر قوم لوط پر عذاب آسکتا ہے تو ان پر بھی آسکتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ الٹی ہوئی بستیاں ان مکہ کے ظالموں سے کچھ دور نہیں، بلکہ ملک شام کو جاتے ہوئے دائمی آباد راستے میں ہیں، جن کی بےمثال بربادی یہ لوگ صبح و شام آتے جاتے دیکھتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورة حجر (٧٦) اور صافات (١٣٧، ١٣٨) کے حواشی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخر آیت میں قوم لوط کا عذاب ذکر کرنے کے بعد موجودہ اقوام دنیا کو متنبہ کرنے کے لئے ارشاد فرمایا (آیت) وَمَا ھِيَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ بِبَعِيْدٍ ، یعنی پتھراؤ کا عذاب آج بھی ظالموں سے کچھ دور نہیں، جو لوگ اس قوم کی طرح ظلم و بےحیائی پر جمے رہیں وہ اپنے آپ کو اس عذاب سے دور نہ سمجھیں آج بھی یہ عذاب آسکتا ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں بھی کچھ لوگ وہ عمل کریں گے جو قوم لوط کرتی تھی، جب ایسا ہونے لگے تو انتظار کرو کہ ان پر بھی وہی عذاب آئے گا جو قوم لوط پر آیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّكَ۝ ٠ۭ وَمَا ہِيَ مِنَ الظّٰلِـمِيْنَ بِبَعِيْدٍ۝ ٨٣ ۧ- سام - السَّوْمُ أصله : الذّهاب في ابتغاء الشیء، فهو لفظ لمعنی مركّب من الذّهاب والابتغاء، وأجري مجری الذّهاب في قولهم : سَامَتِ الإبل، فهي سَائِمَةٌ ، ومجری الابتغاء في قولهم : سُمْتُ كذا، قال : يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذابِ [إبراهيم 6] ، ومنه قيل : سِيمَ فلان الخسف، فهو يُسَامُ الخسف، ومنه : السَّوْمُ في البیع، فقیل :( صاحب السّلعة أحقّ بالسّوم) ويقال : سُمْتُ الإبل في المرعی، وأَسَمْتُهَا، وسَوَّمْتُهَا، قال : وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] ، والسِّيمَاءُ والسِّيمِيَاءُ : العلامة، قال الشاعر : له سيمياء لا تشق علی البصر وقال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] ، وقد سَوَّمْتُهُ أي : أعلمته، وقوله عزّ وجلّ في الملائكة : مُسَوِّمِينَ أي : معلّمين ومُسَوِّمِينَ معلّمين لأنفسهم أو لخیولهم، أو مرسلین لها، وروي عنه عليه السلام أنه قال : «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» - ( س و م ) السوم - کے - معنی کسی چیز کی طلب میں جانیکے ہیں پس اسکا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے یعنی طلب اور جانا پھر کبھی صرف ذہاب یعنی چلے جانا کے معنی ہوتے ہیں ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سومتہ کے معنی نشان زدہ کرنے کے ہیں ۔ مُسَوِّمِينَ اور مسومین کے معنی معلمین کے ہیں یعنی نشان زدہ اور مسومین ( بصیغہ فاعل ) کے معنی والے یا ان کو چھوڑ نے والے ۔ آنحضرت سے ایک روایت میں ہے «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» کہ تم بھی نشان بنالو کیونکہ فرشتوں نے اپنے لئے نشان بنائے ہوئے ہیں ۔- وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے اور رسیم فلان الخسف ( فلاں کو خسف کا عذاب دیا گیا ) یا ھو یسام الخسف ۔ کا محاورہ بھی اسی سے ماخوذ ہے اور اسی سے بیع مین السوم ہے جس کے معنی نرخ کرنا کے ہیں چناچہ کہا گیا ہے صاحب السلعۃ احق بالسوم سامان کا مالک نرخ کرنے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور سمت الابل فی المرعی کے معنی چراگاہ میں چرنے کے لئے اونٹ بھیجنے کے ہیں ۔ اور اسی معنی میں اسمت الابل ( افعال) وسوم تھا ( تفعیل آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] اور اس سے درخت بھی ( شاداب ) ہوتے ہیں جن میں تم اپنے چار پویاں کو چراتے ہو ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٣) اور یہ پتھر ان ظالموں سے چوک نہیں سکتے بلکہ ان پر برسیں گے یا یہ کہ آپکی امت کے ظالم ان لوگوں کے افعال کی پیروی میں ان سے دور نہیں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ (مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ )- یعنی ہر پتھر ایک آدمی کے لیے نشان زدہ اور مخصوص تھا۔- (وَمَا ھِيَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ بِبَعِيْدٍ )- یعنی مشرکین مکہ سے قوم لوط ( علیہ السلام) کی یہ بستیاں زیادہ دور نہیں ہیں۔ قریش کے قافلے جب فلسطین کی طرف جاتے تھے تو پہلے قوم ثمود اور قوم مدین کے علاقے سے گزرتے تھے پھر قوم لوط کی بستیوں کے آثار بھی ان کے راستے میں آتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :92 آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہان فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی پائی گئی تھی ۔ اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے ۔ اس کی جائے وقوع ابوزَنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے ، اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی ۔ اگر یہ ڈوبنے والا وہی فرعون منفتہ ہے جس کو زمانۂ حال کی تحقیق نے فرعونِ موسیٰ قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے ۔ سن ۱۹۰۷ ء میں سرگرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی مَمی پر سے جب پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :93 یعنی ہم تو سبق آموز اور عبرت انگیز نشانات دکھائے ہی جائیں گے اگرچہ اکثر انسانوں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی عبرتناک نشانی کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

49: حضرت لوط (علیہ السلام) کے واقعے کے آخر میں اب روئے سخن مکہ مکرمہ کے کافروں کی طرف موڑا گیا ہے، اور ان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا یہ علاقہ تم سے زیادہ دور نہیں ہے۔ جب تم تجارت کے لیے شام جاتے ہو تو یہ علاقہ تمہارے راستے میں پڑتا ہے اور اگر تم میں ذرا بھی معقولیت ہو تو تمہیں اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔