اہل مدین کی جانب حضرت شعیب کی آمد عرب کا قبیلہ جو حجاز و شام کے درمیان معان کے قریب رہتا تھا ان کے شہروں کا نام اور خود ان کا نام بھی مدین تھا ۔ ان کی جانب اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام بھیجے گئے ۔ آپ ان میں شریف النسب اور اعلی خاندان کے تھے اور انہیں میں سے تھے ۔ اسی لیے اخاہم کے لفظ سے بیان کیا یعنی ان کے بھائی آپ نے بھی انبیاء کی عادت اور سنت اور اللہ کے پہلے اور تاکیدی حکم کے مطابق اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا ۔ ساتھ ہی ناپ تول کی کمی سے روکا کہ کسی کا حق نہ مارو ۔ اور اللہ کا یہ احسان یاد لایا کہ اس نے تمہیں فارغ البال اور آسودہ حال کر رکھا ہے ۔ اور اپنا ڈر ظاہر کیا کہ اپنی مشرکانہ روش اور ظالمانہ حرکت سے اگر باز نہ آؤ گے تو تمہاری یہ اچھی حالت بد حالی سے بدل جائے گی ۔
84۔ 1 مدین کی تحقیق کے لئے دیکھئے سورة الا عراف، آیت 85 کا حاشیہ۔ 84۔ 2 توحید کی دعوت دینے کے بعد اس قوم میں جو نمایاں اخلاقی خرابی۔ ناپ تول میں کمی کی تھی اس سے انھیں منع فرمایا۔ ان کا معمول بن چکا تھا جب ان کے پاس فروخت کندہ (بائع) اپنی چیز لے کر آتا تو اس سے ناپ اور تول میں زائد چیز لیتے اور جب خریدار (مشتری) کو کوئی چیز فروخت کرتے تو ناپ میں بھی کمی کر کے دیتے اور تول میں ڈنڈی مار لیتے۔ 84۔ 3 یہ اس منع کرنے کی علت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا فضل کر رہا ہے اور اس نے تمہیں آسودگی اور مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر تم یہ قبیح حرکت کیوں کرتے ہو۔ 84۔ 4 یہ دوسری علت ہے کہ اگر تم اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو پھر اندیشہ ہے کہ قیامت والے دن کے عذاب سے تم نہ بچ سکو۔ گھیرنے والے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہا اس دن کوئی گناہ گار مواخذہ الہی سے بچ سکے گا نہ بھاگ کر کہیں چھپ سکے گا۔
[٩٥] شرک ام الامراض ہے :۔ سیدنا شعیب کا قصہ بھی سورة اعراف کی آیت نمبر ٨٤ تا ٩٥ میں گذر چکا ہے لہذا وہ حواشی بھی پیش نظر رکھنے چاہئیں۔- شرک ایسی بیماری ہے جو تقریباً ہر قوم میں پائی جاتی ہے اور بالخصوص ان اقوام میں ضرور موجود تھی جن کی طرف انبیاء مبعوث ہوتے رہے باقی تمام اخلاقی اور معاشرتی بیماریاں اور برائیاں اسی شرک سے ہی پھوٹتی ہیں گویا جس طرح جسمانی بیماریوں میں قبض کو ام الامراض قرار دیا گیا ہے اسی طرح روحانی بیماریوں میں شرک ام الامراض ہے۔- شرک سے اجتناب اور توحید کے عقیدہ سے معاشرہ کی اصلاح کیسے ہوتی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت کا پہلا ہدف یہی مرض رہا ہے انبیاء شرک کی تردید کے ساتھ ساتھ توحید کی دعوت دیتے اور ایمان لانے والوں میں اللہ کی صحیح معرفت پیدا کرتے ہیں جس سے دلوں میں تقویٰ یا خشیت الٰہی پیدا ہوتا ہے اور یہ تقویٰ ہی ایسی چیز ہے جو تمام معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کے لئے شفا کا حکم رکھتا ہے۔ شرک کے علاوہ بعض قوموں میں بعض مخصوص برائیاں بھی ہوتی ہیں جیسے قوم لوط جو لونڈے بازی کی لعنت میں گرفتار تھے۔ قوم شعیب تجارتی کاروبار میں بےایمانی کرتے تھے۔ قوم فرعون نے بنواسرائیل پر قیامت ڈھا رکھی تھی۔ شرک کے بعد انبیاء کی دعوت کا دوسرا ہدف ایسی ہی مخصوص بیماریاں ہوتی ہیں۔- اہل مدین دو تجارتی شاہراہوں کے چوک میں واقع تھے اور یہ علاقہ اس وجہ سے نہایت اہم تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ یہ لوگ صرف ناپ تول کے پیمانوں میں ہی ہاتھ کی صفائی نہیں دکھاتے تھے بلکہ ہر وہ بددیانتی کرنا جانتے تھے جس کی وجہ سے دوسرے کا حق مارا جاسکے۔ اسی لیے شعیب نے شرک کے بعد انھیں ایسی ہی تجارتی بددیانتیاں چھوڑنے کی نصیحت کی اور ان کی یہی کرتوتیں فساد فی الارض کے مترادف تھیں جن کے ذریعہ وہ دوسروں کے حق غصب کیا کرتے تھے۔
وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يٰقَوْمِ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٨٥ تا ٩٣) اور سورة شعراء (١٧٦ تا ١٩٠) مکیال اور کیل سے مراد کسی مقرر پیمانے کے برتن مثلاً صاع (ٹوپہ وغیرہ) میں ڈال کر غلے وغیرہ کو ماپنا اور میزان اور وزن کا معنی ترازو وغیرہ سے تولنا ہے۔ - اِنِّىْٓ اَرٰىكُمْ بِخَيْرٍ : یعنی تم اچھے خاصے خوش حال ہو، پھر اس قسم کی بےایمانی اور فریب کاری کی کیا ضرورت ہے۔ - عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : یعنی آخرت کا عذاب یا دنیا ہی میں اس دن کا عذاب جس کے گھیرے سے کوئی نکل نہ سکے گا۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے مدین (والوں) کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا انہوں نے ( اہل مدین سے) فرمایا کہ اے میری قوم تم ( صرف) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (بننے کے قابل) نہیں (یہ حکم تو دیانات و عقائد کے متعلق ان کے مناسب حال تھا) اور (دوسرا حکم معاملات کے متعلق ان کے مناسب یہ فرمایا کہ) تم ناپ تول میں کمی مت کیا کرو ( کیونکہ) میں تم کو فراغت کی حالت میں دیکھتا ہوں ( پھر تم کو ناپ تول میں کمی کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے اور حقیقۃً تو کسی کو بھی ضروت نہیں ہوتی) اور ( علاوہ اس کے کہ ناپ تول میں کمی نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تقاضا ہے خود خوف ضرر بھی اس کو مقتضی ہے کیونکہ اس میں) مجھ کو تم پر اندیشہ ہے ایسے دن کے عذاب کا جو انواع عذاب کا جامع ہوگا اور ( ہرچند کہ کمی نہ کرنا مستلزم ہے پورا کرنے کو مگر تاکید کے لئے اس کی ممانعت کے بعد اس امر کی تصریح بھی فرمائی کہ) اے میری قوم تم ناپ اور تول پوری پوری طرح کیا کرو اور لوگوں کا ان چیزوں میں نقصان مت کیا کرو (جیسا تمہاری عادت ہے) اور ( شرک اور لوگوں کے حقوق میں کمی کر کے) زمین میں فساد کرتے ہوئے حد ( توحید و عدل) سے مت نکلو ( لوگوں کے حقوق ادا کرنے کے بعد) اللہ کا دیا ہوا جو کچھ (حلال مال) بچ جاوے وہ تمہارے لئے (اس حرام کمائی سے) بدرجہا بہتر ہے (کیونکہ حرام میں گو وہ کثیر ہو برکت نہیں اور انجام اس کا جہنم ہے اور حلال میں گو وہ قلیل ہو برکت ہوتی ہے اور انجام اس کا رضائے حق ہے) اگر تم کو یقین آوے (تو مان لو) اور (اگر یقین نہ آوے تو تم جانو) میں تمہارا پہرہ دینے والا تو ہوں نہیں ( کہ تم سے جبرًا یہ افعال چھڑا دوں جیسا کہ کرو گے بھگتو گے) وہ لوگ ( یہ تمام مواعظ و نصائح سن کر) کہنے لگے اے شعیب کیا تمہارا (مصنوعی اور وہمی) تقدس تم کو (ایسی ایسی باتوں کی) تعلیم کر رہا ہے کہ ( تم ہم سے کہتے ہو کہ) ہم ان چیزوں ( کی پرستش) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے بڑے کرتے آئے ہیں اور اس بات کو چھوڑ دیں کہ ہم اپنے مال میں جو چاہیں تصرف کریں واقعی آپ بڑے عقلمند دین پر چلنے والے ہیں (یعنی جن باتوں سے ہم کو منع کرتے ہو دونوں میں سے کوئی برا نہیں کیونکہ ایک کی دلیل تو نقلی ہے کہ ہمارے بڑوں سے بت پرستی ہوتی آئی ہے، دوسرے کی دلیل عقلی ہے کہ اپنا مال ہے اس میں ہر طرح کا اختیار ہے پس ہم کو منع نہ کرنا چاہئے، اور حلیم رشید تمسخر سے کہا، جیسا بد دینوں کی عادت ہوتی ہے دین داروں کے ساتھ تمسخر کرنے کی اور ان کی نقلی و عقلی دونوں دلیلوں کا فساد بدیہی ہے) شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم ( تم جو مجھ سے چاہتے ہو کہ میں توحید و عدل کی نصیحت نہ کروں تو) بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی جانب سے دلیل پر ( قائم) ہوں ( جس سے توحید و عدل ثابت ہے) اور اس نے مجھ کو اپنی طرف سے ایک عمدہ دولت (یعنی نبوت) دی ہو ( جس سے مجھ پر تبلیغ ان احکام کی واجب ہو، یعنی توحید و عدل کا حق ہونا بھی ثابت اور ان کی تبلیغ بھی واجب) تو پھر کیسے تبلیغ نہ کروں اور میں (جس طرح ان باتوں کی تم کو تعلیم کرتا ہوں خود بھی تو اس پر عمل کرتا ہوں) یہ نہیں چاہتا ہوں کہ تمہارے برخلاف خود اور راہ پر چلوں، مطلب یہ ہے کہ میری نصیحت محض خیر خواہی دلسوزی سے ہے جس کا قرینہ ہے کہ میں وہی باتیں بتلاتا ہوں جو اپنے نفس کے لئے بھی پسند کرتا ہوں غرض) میں تو اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے امکان میں ہے اور مجھ کو جو کچھ ( عمل و اصلاح کی) توفیق ہوجاتی ہے صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے ( ورنہ کیا میں اور کیا میرا ارادہ) اسی پر میں بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف ( تمام امور میں) رجوع کرتا ہوں ( خلاصہ یہ کہ توحید و عدل کے وجوب پر دلائل بھی قائم، اور بامر خداوندی اس کی تبلیغ، اور ناصح ایسا دلسوز اور مصلح، پھر بھی نہیں مانتے بلکہ الٹی مجھ سے امید رکھتے ہو کہ میں کہنا چھوڑ دوں چونکہ اس تقریر میں دلسوزی اور اصلاح کی اپنی طرف نسبت کی ہے، اس لئے مَا تَوْفِيْقِيْٓ فرما دیا، یہاں تک تو ان کے قول کا جواب ہوگیا، آگے ترہیب و ترغیب فرماتے ہیں) اور اے میری قوم میری ضد ( اور عداوت) تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہوجاوے کہ تم پر بھی اسی طرح کی مصیبتیں آپڑیں جیسے قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر پڑی تھیں اور ( اگر ان قوموں کا قصہ پرانا ہوچکا ہے اور اس لئے اس سے متاثر نہیں ہوتے تو) قوم لوط تو ( ابھی) تم سے ( بہت) دور ( زمانہ میں) نہیں ہوئی ( یعنی ان قوموں کی نسبت ان کا زمانہ نزدیک ہے، یہ تو ترہیب کا مضمون ہوگیا، آگے ترغیب ہے) اور تم اپنے رب سے اپنے گناہ ( یعنی شرک و ظلم) معاف کراؤ یعنی ایمان لاؤ کیونکہ ایمان سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، گو حقوق ادا کرنے پڑیں) پھر ( اطاعت عبادت کے ساتھ) اس کی طرف متوجہ ہو بلا شک میرا رب بڑا مہربان بڑی محبت والا ہے ( وہ گناہ کو معاف کردیتا ہے اور اطاعت کو قبول کرتا ہے) وہ لوگ ( یہ لاجواب دل آویز تقریر سن کر جواب معقول سے عاجز ہو کر براہ جہالت) کہنے لگے کہ شعیب بہت سی باتیں تمہاری کہی ہوئی ہماری سمجھ میں نہیں آئیں ( یہ بات یا تو اس وجہ سے کہی ہو کہ اچھی طرح توجہ سے آپ کی باتیں نہ سنی ہوں یا تحقیراً کہا ہو کہ نعوذ باللہ یہ ہذیان ہے سمجھنے کے قابل نہیں، چناچہ بد دینوں سے یہ سب امور واقع ہوتے ہیں) اور ہم تم کو اپنے ( مجمع) میں کمزور دیکھ رہے ہیں اور اگر تمہارے خاندان کا ( کہ ہمارے ہم مذہب ہیں ہم کو) پاس نہ ہوتا تو ہم تم کو ( کبھی کا) سنگسار کرچکے ہوتے اور ہماری نظر میں تمہاری کچھ توقیر ہی نہیں ( لیکن جس کا لحاظ ہوتا ہے اس کے سبب اس کے رشتہ دار کی بھی رعایت ہوتی ہے، مطلب ان کا یہ تھا کہ تم ہم کو یہ مضامین مت سناؤ ورنہ تمہاری جان کا خطرہ ہے، پہلے تمسخر کے طور پر تبلیغ سے روکا تھا، اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ الخ اور اب دھمکی دے کر روکا) شعیب ( علیہ السلام) نے ( جواب میں) فرمایا اے میری قوم ( افسوس اور تعجب ہے کہ میری جو نسبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے کہ میں اس کا نبی ہوں وہ تو میرے ہلاک سے مانع نہ ہوئی اور جو میری نسبت خاندان کے ساتھ ہے کہ ان کا رشتہ دار ہوں وہ اس سے میرا خاندان تمہارے نزدیک ( نعوذ باللہ) اللہ سے بھی زیادہ باتوقیر ہے ( کہ خاندان کا تو پاس کیا) اور اس کو ( یعنی اللہ تعالیٰ کو) تم نے پس پشت ڈال دیا (یعنی اس کا پاس نہ کیا، سو اس کا خمیازہ عنقریب بھگتو گے کیونکہ) یقینا میرا رب تمہارے سب اعمال کو ( اپنے علم میں) احاطہ کئے ہوئے ہے اور اے میری قوم (اگر تم کو عذاب کا بھی یقین نہیں آتا تو اخیر بات یہ ہے کہ تم جانو بہتر ہے) ہم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی ( اپنے طور پر) عمل کر رہا ہوں ( سو) اب جلدی تم کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا اور وہ کون شخص ہے جو جھوٹا تھا ( یعنی تم مجھ کو دعوی نبوت میں جھوٹا کہتے ہو اور حقیر سمجھتے ہو تو اب معلوم ہوجاوے گا کہ جرم کذب کا مرتکب اور سزائے ذلت کا مستوجب کون تھا تم یا میں) اور تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ( کہ دیکھیں عذاب کا وقوع ہوتا ہے جیسا میں کہتا ہوں یا عدم وقوع جیسا تمہارا گمان ہے، غرض ایک زمانہ کے بعد عذاب کا سامان شروع ہوا) اور جب ہمارا حکم (عذاب کیلئے) آپہنچا ( تو) ہم نے (اس عذاب سے) شعیب (علیہ السلام) کو اور جو ان کی ہمراہی میں اہل ایمان تھے ان کو اپنی عنایت ( خا ص) سے بچا لیا اور ان ظالموں کو ایک سخت آواز نے ( کہ نعرہ جبریل تھا) آپکڑا سو اپنے گھروں کے اندر اوندھے گرے رہ گئے (اور مرگئے) جیسے کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے، خوب سن لو ( اور عبرت پکڑو) مدین کو رحمت سے دوری ہوئی جیسا ثمود رحمت سے دور ہوئے تھے۔- معارف و مسائل - مذکور الصدر آیات میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ مذکور ہے ان کی قوم کفر و شرک کے علاوہ ناپ تول میں کمی بھی کرتی تھی، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو ایمان کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا اور اس کے خلاف کرنے پر عذاب الہٰی سے ڈرایا مگر یہ اپنے انکار اور سرکشی پر قائم رہے تو پوری قوم ایک سخت عذاب کے ذریعہ ہلاک کردی گئی۔ جس کی تفصیل اس طرح ہے۔- (آیت) وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا، یعنی ہم نے بھیجا مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو۔- مدین اصل میں ایک شہر کا نام تھا جس کو مدین بن ابراہیم نے بسایا تھا اس کا محل وقوع ملک شام کے موجودہ مقام " معان " کو بتلایا جاتا ہے، اس شہر کے با شندوں کو بھی بجائے اہل مدین کے مدین کہہ دیا جاتا ہے، شعیب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں جو اسی قوم مدین میں سے ہیں اسی لئے ان کو مدین کا بھائی فرما کر اس نعمت کی طرف اشارہ کردیا کہ اس قوم کے رسول کو اللہ تعالیٰ نے اسی قوم سے بنایا تاکہ ان سے مانوس ہو کر ان کی ہدایات کو بآسانی قبول کرسکیں۔- (آیت) قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ ۔ اس میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے پہلے تو اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی کیونکہ یہ لوگ مشرک تھے، درختوں کی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے، جس کو قرآن میں لفظ ایکہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسی کی نسبت سے اہل مدین کو اصحب الایکہ کا بھی لقب دیا گیا ہے، اس کفر و شرک کے ساتھ ان میں ایک اور عیب و گناہ نہایت سخت یہ تھا کہ بیو پار اور لین دین کے وقت ناپ تول میں کمی کرکے لوگوں کا حق مار لیتے تھے، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو اس سے منع فرمایا۔- فائدہ :- یہاں یہ بات خاص طور سے قابل غور ہے کہ کفر و شرک سب گناہوں کی جڑ ہے جو قوم اس میں مبتلا ہے اس کو پہلے ایمان ہی کی دعوت دی جاتی ہے، ایمان سے پہلے دوسرے معاملات اور اعمال پر توجہ نہیں دی جاتی، دنیا میں ان کی نجات یا عذاب بھی اسی ایمان و کفر کی بنیاد پر ہوتا ہے، تمام انبیاء سابقین اور ان کی قوموں کے واقعات جو قرآن میں مذکور ہیں اسی طرز عمل کے شاہد ہیں، صرف دو قومیں ایسی ہیں جن پر عذاب نازل ہونے میں کفر کے ساتھ ان کے اعمال خبیثہ کو بھی دخل رہا ہے، ایک لوط (علیہ السلام) کی قوم، جس کا ذکر اس سے پہلے آچکا ہے کہ ان پر جو عذاب پوری بستی الٹ دینے کا واقع ہوا اس کا سبب ان کے عمل خبیث کو بتلایا گیا ہے، دوسری قوم شعیب (علیہ السلام) کی ہے جن کے عذاب کا سبب کفر و شرک کے علاوہ ناپ تول میں کمی کرنے کو بھی قرار دیا گیا ہے۔- اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب گناہوں سے زیادہ مبغوض اور شدید ہیں، بظاہر وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں کام ایسے ہیں کہ پوری نسل انسانی کو اس سے شدید نقصان پہنچا ہے اور پورے عالم میں اس سے فساد عظیم پھیل جاتا ہے۔- حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے کے خبیث عمل سے روکنے کیلئے پیغمبر کے ساتھ اول تو یہ فرمایا :- (آیت) اِنِّىْٓ اَرٰىكُمْ بِخَيْرٍ وَّاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ ، یعنی میں تمہیں اس وقت خوشحالی میں دیکھتا ہوں، کوئی فقر و فاقہ اور مالی تنگی نہیں جس کی وجہ سے اس بلاء میں مبتلا ہو، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر اس کو مقتضی ہے کہ تم اس کی مخلوق پر ظلم نہ کرو، اور پھر یہ بھی بتلا دیا کہ اگر تم نے میری بات نہ سنی اور اس عمل خبیث سے باز نہ آئے تو مجھے خطرہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا عذاب تمہیں گھیر لے، اس عذاب سے آخرت کا عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے اور دنیا کا بھی، پھر دنیا کے عذاب بھی مختلف قسم کے آسکتے ہیں، ادنی عذاب یہ ہے کہ تمہاری یہ خوشحالی ختم ہوجائے اور تم قحط اور گرانی اشیاء میں مبتلا ہوجاؤ، جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قحط اور گرانی اشیاء کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔
وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا ٠ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ ٠ۭ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ اِنِّىْٓ اَرٰىكُمْ بِخَيْرٍ وَّاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ ٨٤- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - نقص - النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود 109] ،- ( ن ق ص ) النقص - ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔ - كَيْلُ :- كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3]- ( ک ی ل ) الکیل - ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے معیّ ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے معیْ ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے معید ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔- وزن - الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً- [ الكهف 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] - ( و زن ) الوزن )- تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
(٨٤) اور ہم نے مدین والوں کی طرف انکے نبی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرو اس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں، جس پر ایمان لانے کا میں تمہیں حکم دوں اور ناپ تول میں لوگوں کے حقوق میں کمی مت کیا کرو، میں تمہیں مال کے پھیلاؤ اور فراوانی اور بھاؤ کی تیزی کی حالت میں دیکھتا ہوں اگر تم مجھ پر ایمان نہ لائے اور ناپ تول ٹھیک طریقہ سے نہ کیا تو مجھے تم پر ایک ایسے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے جو تم پر نازل ہوگا اور پھر تم میں سے کوئی سختی اور قحط سالی وغیرہ سے نہیں بچ سکتا۔
آیت ٨٤ ( وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا )- اس قوم کے بارے میں ہم سورة الاعراف کے مطالعہ کے دوران پڑھ چکے ہیں کہ یہ لوگ بنی قطورہ میں سے تھے اور خلیج عقبہ کے دا ہنی (مشرقی) طرف کے علاقہ میں آباد تھے۔ اس علاقہ میں یہ لوگ ایک بڑی مضبوط قوم بن کر ابھرے تھے۔ یہ علاقہ اس وقت کی دو بہت اہم بین الاقوامی شاہراہوں کے مقام انقطاع ( ) پر واقع تھا۔ ایک شاہراہ شمالاً جنوباً تھی جو شام سے یمن جاتی تھی اور دوسری شرقاً غرباً تھی جو عراق سے مصر کو جاتی تھی۔ چناچہ تمام تجارتی قافلے یہیں سے گزرتے تھے جس کی وجہ سے یہ علاقہ اس زمانے کا بہت بڑا تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ نتیجتاً یہاں کے لوگ بہت خوشحال ہوگئے تھے ‘ مگر ساتھ ہی ناپ تول میں کمی اور راہزنی جیسے قبیح جرائم میں بھی ملوث تھے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :94 یعنی مصر سے نکلنے کے بعد ارض فلسطین ۔
50: مدین اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کے مختصر تعارف کے لیے سورۃ اعراف (85:7) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے 51: مدین کا علاقہ بڑا زرخیز تھا، اور یہاں کے لوگ بحیثیت مجموعی خوش حالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کی خوشحالی کا دو وجہ سے خاص طور پر ذکر فرمایا۔ ایک یہ کہ اتنی خوشحالی کے بعد تمہیں دھوکا بازی کر کے کمائی کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ اس خوشحالی کے نتیجے میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہونا چاہیے۔ نہ یہ کہ اس کی نافرمانی پر آمادہ ہوجاؤ۔