Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 (بَقِیَّتُ اللّٰہِ ) سے مراد جو ناپ تول میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر، دیانتداری کے ساتھ سودا دینے کے بعد حاصل ہو۔ یہ چونکہ حلال و طیب ہے اور خیرو برکت بھی اسی میں ہے، اس لئے اللہ کا بقیہ قرار دیا گیا ہے۔ 86۔ 2 یعنی میں تمہیں صرف تبلیغ کرسکتا ہوں اور اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں۔ لیکن برائیوں سے میں تمہیں روک دوں یا اس پر سزا دوں، یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، ان دونوں باتوں کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٦] یعنی اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہو تمہیں بددیانتی کرنے کی کچھ ضرورت بھی نہیں لہذا جتنا منافع حلال ذرائع سے حاصل ہوتا ہے اسے کافی سمجھو اسی میں اللہ برکت عطا فرمائے گا۔ اگر تم یہ باتیں مان کر ان پر عمل کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور یہ سب کام اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو میں تمہارا محتسب نہیں ہوں کہ یہ دیکھتا رہوں کہ کون کم تولتا ہے اور کون پورا ماپتا ہے اور کون سودے بازی میں بددیانتی کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا۔ اس جملے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور میری بس اتنی ہی ذمہ داری تھی تمہیں راہ راست پہ لاکے چھوڑنا میری ذمہ داری نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ۔۔ : یعنی بےایمانی سے جمع کردہ مال سے اتنی بچت اور منافع ہر طرح سے بہتر ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق حاصل ہو۔ ” اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ “ (بشرطیکہ تم مومن ہو) کیونکہ کافر کے نیک اعمال بھی قیامت کے دن اس کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ دیکھیے سورة کہف (١٠٥) ۔- وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ : یعنی میں تم پر نگران تو نہیں ہوں جو ہر وقت تمہارے ناپ تول کو دیکھتا رہوں اور نہ یہ میرے بس میں ہے۔ ہر ایک کے ایک ایک لمحہ پر نظر تو صرف رب تعالیٰ کی ہے، میرا کام تو تمہیں سمجھا دینا اور اللہ کے عذاب سے ڈرا دینا ہے، ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ ڬ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ ، یعنی لوگوں کے حقوق ناپ تول پورا کرکے ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچ رہے تمہارے لئے وہی بہتر ہے اگر تم میری بات مانو، اور اگر میری بات نہ مانو گے تو یاد رکھو میں اس کا ذمہ دار نہیں کہ تم پر کوئی عذاب آجائے۔- حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ خطیب الانبیاء ہیں، آپ نے اپنے حسن بیان سے اپنی قوم کو سمجھانے اور ہدایت پر لانے کی پوری کوشش میں انتہا کردی، مگر یہ سب کچھ سننے کے بعد قوم نے وہی جواب دیا جو جاہل قومیں اپنے مصلحین کو دیا کرتی ہیں ان پر پھبتیاں کسیں استہزاء کیا، کہنے لگے :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَقِيَّتُ اللہِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٠ۥۚ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ۝ ٨٦- بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وقد بَقِيَ بَقَاءً ، وقیل : بَقَي في الماضي موضع بقي، وفي الحدیث : «بقینا رسول الله» أي : انتظرناه وترصّدنا له مدة كثيرة، والباقي ضربان : باق بنفسه لا إلى مدّة وهو الباري تعالی، ولا يصحّ عليه الفناء، وباق بغیره وهو ما عداه ويصح عليه الفناء .- والباقي بالله ضربان :- باق بشخصه إلى أن يشاء اللہ أن يفنيه، کبقاء الأجرام السماوية .- وباق بنوعه وجنسه دون شخصه وجزئه، كالإنسان والحیوان .- وكذا في الآخرة باق بشخصه كأهل الجنة، فإنهم يبقون علی التأبيد لا إلى مدّة، كما قال عزّ وجل : خالِدِينَ فِيها [ البقرة 162] .- والآخر بنوعه وجنسه، كما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «أنّ ثمار أهل الجنة يقطفها أهلها ويأکلونها ثم تخلف مکانها مثلها» «1» ، ولکون ما في الآخرة دائما، قال اللہ عز وجل : وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص 60] ، وقوله تعالی: وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف 46] ، أي : ما يبقی ثوابه للإنسان من الأعمال، وقد فسّر بأنها الصلوات الخمس، وقیل : سبحان اللہ والحمد لله والصحیح أنها كلّ عبادة يقصد بها وجه اللہ تعالیٰ وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ- [هود 86] ، وأضافها إلى اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة 8] . أي : جماعة باقية، أو : فعلة لهم باقية . وقیل : معناه : بقية . قال : وقد جاء من المصادر ما هو علی فاعل وما هو علی بناء مفعول والأوّل أصح .- ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اس کا باب بقی ( ض ) بقیا بھی آتا ہے چناچہ حدیث میں ہے یعنی ہم آنحضرت کے منتظر رہے اور کافی عرصہ تک آپ کی نگہبانی میں بیٹھے رہے ۔ الباقی ( صفت ) دو قسم پر ہے ایک الباقی بنفسہ جو ہمیشہ ایک حالت پر قائم رہے اور اس پر گھبی فنا طاری نہ ہو اس معنی میں یہ حق تعالیٰ کی صفت ہے ۔ دوم الباقی بغیرہ اس میں سب ماسوی اللہ داخل ہیں کہ ان پر فناء اور تغیر کا طاری ہونا صحیح ہے ۔ الباقی باللہ بھی دو قسم پر ہے ۔ ایک وہ جو بذاتہ جب تک اللہ کی مشیت ہو باقی جیسے اجرام سماویہ ۔ دوم وہ جس کے افراد و اجزاء تو تغیر پذیر ہوں مگر اس کی نوع یا جنس میں کسی قسم کا تغیر نہ ہو ۔ جیسے انسان وحیوان ۔ اسی طرح آخرت میں بھی بعض اشیاء بشخصہ باقی رہیں گی ۔ جیسے اہل جنت کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گے ۔ جیسے فرمایا : ۔ خالِدِينَ فِيها [ البقرة 162] خالدین ( 4 ) جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اور بعض چیزیں صرف جنس ونوع کے اعتبار سے باقی رہیں گی ۔ جیسا کہ آنحضرت سے مروی ہے ان اثمار اھل الجنۃ یقطفھا اھلھا ویاء کلونھا ثم تخلف مکانھا مثلھا : کہ ثمار ( جنت کو اہل جنت چن کر کھاتے رہنیگے اور ان کی جگہ نئے پھل پیدا ہوتے رہیں گے چونکہ آخرت کی تمام اشیاء دائمی ہیں اس لئے فرمایا : ۔ وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص 60] اور جو خدا کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف 46] میں وہ تمام اذکار و اعمال صالحہ داخل ہیں جن کا ثواب انسان کے لئے باقی رہے ا ۔ بعض نے ان سے پانچ نمازیں مراد لی ہیں ۔ اور بعض نے اس سے یعنی تسبیح وتحمید مراد لی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ ان میں ہر وہ عبادت داخل ہے جس سے رضائے الہی مقصود ہو یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة 8] بھلا تو ان میں سے کسی بھی باقی دیکھتا ہے میں باقیۃ کا موصوف جماعۃ یا فعلۃ محزوف ہے یعنی باقی رہنے والی جماعت یا ان کا کوئی فعل جو باقی رہا ہو ۔ اور بعض کے نزدیک باقیۃ بمعنی بقیۃ ہے ان کا قول ہے کہ بعض مصادر فاعل کے وزن پر آتے ہیں اور بعض مفعول کے وزن پر لیکن پہلا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٦) ناپ تول کو پورے طریقہ پر ادا کرنے میں جو اللہ کی طرف سے ثواب مل جائے، وہ تمہارے لیے بہتر ہے یا یہ کہ ناپ تول کو پورا کرنے کے بعد جو حلال رزق تمہارے لیے بچ جائے، وہ اس مال سے بہتر ہے جو ناپ تول کی کمی میں تمہیں ملتا ہے، اگر تمہیں میری باتوں کا یقین آئے اور میں تمہارا پہرہ دینے والا تو ہوں نہیں کہ تمہاری نگرانی کروں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ (بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ )- انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپو اور تولو ‘ اور لوگوں کی چیزوں میں کمی کر کے ان کی حق تلفی نہ کیا کرو۔ اگر تم لوگ دیانتداری سے تجارت کرو ‘ اور اس طرح اللہ تعالیٰ تمہیں جو منافع عطا کریں اسی پر قناعت کرو تو یہ تمہاری دنیا و آخرت کے لیے بہت بہتر ہوگا۔- (وَمَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ )- میں تو تمہیں سمجھا سکتا ہوں نیکی کی تلقین کرسکتا ہوں تم پر میرا کوئی زور نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :95 مطلب یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے دین میں جو تفرقے برپا کیے اور نئے نئے مذہب نکالے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو حقیقت کا علم نہیں دیا گیا تھا اور ناواقفیت کی بنا پر انہوں نے مجبورًا ایسا کیا ، بلکہ فی الحقیقت یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا ۔ خدا کی طرف سے تو انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ دین حق یہ ہے ، یہ اس کے اصول ہیں ، یہ اس کے تقاضے اور مطالبے ہیں ، یہ کفر و اسلام کے امتیازی حدود ہیں ، طاعت اس کو کہتے ہیں ، معصیّت اس کا نام ہے ، ان چیزوں کی باز پرس خدا کے ہاں ہونی ہے ، اور یہ وہ قواعد ہیں جن پر دنیا میں تمہاری زندگی قائم ہونی چاہیے ۔ مگر ان صاف صاف ہدایتوں کے باوجود انہوں نے ایک دین کے بیسیوں دین بنا ڈالے اور خدا کی دی ہوئی بنیادوں کو چھوڑ کر کچھ دوسری ہی بنیادوں پر اپنے مذہبی فرقوں کی عمارتیں کھڑی کرلیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani