Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پرانے معبودوں سے دستبرداری سے انکار حضرت اعمش فرماتے ہیں صلواۃ سے مراد یہاں قرأت ہے ۔ وہ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ واہ آپ اچھے رہے کہ آپ کو آپ کی قرآت نے حکم دیا کہ ہم باپ دادوں کی روش کو چھوڑ کر اپنے پرانے معبودوں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں ۔ یہ اور بھی لطف ہے کہ ہم اپنے مال کے بھی مالک نہ رہیں کہ جس طرح جو چاہیں اس میں تصرف کریں کسی کو ناپ تول میں کم نہ دیں ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں واللہ واقعہ یہی ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی نماز کا حکم یہی تھا کہ آپ انہیں غیر اللہ کی عبادت اور مخلوق کے حقوق کے غصب سے روکیں ۔ ثوری فرماتے ہیں کہ ان کے اس قول کا مطلب کہ جو ہم چاہیں ، اپنے مالوں میں کریں یہ ہے کہ زکوٰۃ کیوں دیں؟ نبی اللہ کو ان کا حلیم و رشید کہنا ازراہ مذاق و حقارت تھا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 صَلَوٰۃً سے مراد عبادت دین یا تلاوت ہے۔ 87۔ 2 اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک زکوٰۃ و صدقات ہیں، جس کا حکم ہر آسمانی مذہب میں دیا گیا ہے اللہ کے حکم سے زکوٰ ۃ و صدقات کا اخراج، اللہ کے نافرمانوں پر نہایت شاق گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم اپنی محنت و لیاقت سے مال کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں ہو۔ اور اس کا کچھ حصہ ایک مخصوص مد کے لیے نکالنے پر ہمیں مجبور کیوں کیا جائے ؟ اسی طریقے سے کمائی اور تجارت میں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی پابندی بھی ایسے لوگوں پر نہایت گراں گزرتی ہے، ممکن ہے ناپ تول میں کمی سے روکنے کو بھی انہوں نے اپنے مالی تصرفات میں دخل درمعقولات سمجھا ہو۔ اور ان الفاظ میں اس سے انکار کیا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحیح ہیں۔ 87۔ 3 حضرت شعیب (علیہ السلام) کے لئے یہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧] ٹھیک طرح سے نماز ادا کرنے کے اثرات :۔ نماز اگر فی الواقع سوچ سمجھ کر اور خشوع و خضوع سے ادا کی جائے تو فی الواقع وہی باتیں سکھلاتی ہے جن کی قوم شعیب کو سمجھ آگئی تھی۔ مگر افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں کو ان باتوں کی بھی سمجھ نہیں آتی جو مدین والے سمجھ گئے تھے نماز انسان میں تقویٰ پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان - کو ہر طرح کی اعتقادی، اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے بچاتا ہے۔ غور فرمائیے کہ جو انسان ایک دن میں بیسیوں دفعہ سوچ سمجھ کر ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) پڑھے گا وہ مشرک رہ سکتا ہے جو انسان دن میں بیسیوں دفعہ اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے وہ کیا اپنے کام کاج اور کاروبار کے وقت اللہ کو یاد نہ رکھے گا اور بددیانتیاں ترک نہ کردے گا اور حرام و حلال کی تمیز اسے ملحوظ نہ رہے گی ؟ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : (اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ 45؀) 29 ۔ العنکبوت :45) اور فحشاء اور منکر کے الفاظ کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ ہر طرح کی برائیاں ان میں آجاتی ہیں بالفاظ دیگر نماز کی صحت کا معیار ہی یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ پیدا ہو وہ ہر طرح کی برائیاں چھوڑ دے اور نیکی کے کاموں کی طرف راغب ہو اور کسی شخص میں نماز ایسا اثر پیدا نہیں کرتی تو سمجھ لیجئے کہ وہ نماز ادا نہیں کرتا بلکہ بےگار کاٹتا ہے۔- [ ٩٨] کیا نماز اور عبادت اللہ اور بندے کا پرائیویٹ معاملہ ہے ؟ ان لوگوں کا اپنے مال میں تصرف کا مطلب یہ تھا کہ ہم جن جائز اور ناجائز ذرائع سے مال کمائیں یا جن کاموں میں ہم چاہیں خرچ کریں ہم پر کچھ پابندی نہ ہونا چاہیے اگر تم نمازیں پڑھتے ہو تو پڑھو مگر ہمیں کیوں اس سلسلہ میں تنگ کرتے ہو کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھلاتی ہے کہ اسے دوسروں پر بھی لاگو کرو۔ تم تو اچھے بھلے سمجھ دار آدمی ہو یہ دوسروں کے معاملات میں دخل دینا بھلا کون سی عقل مندی ہے گویا عبادات کے متعلق ان لوگوں کا نظریہ وہی تھا جو آج کل کی اس دنیا کا ہے جسے مہذب سمجھا جاتا ہے یعنی عبادت بندے اور خدا کا ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے اور اسے دنیوی معاملات میں اثر انداز نہ ہونا چاہیے گویا وہی پرانی جاہلیت پھر سے نئی روشنی کی صورت میں عود کر آئی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ ۔۔ : یعنی کیا تو اپنی نماز کا دائرۂ عمل اس قدر وسیع سمجھتا ہے کہ دوسروں کے مذہبی اور مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگا ہے۔ ہماری مرضی ہے جس کی چاہیں پوجا اور جس کی چاہیں بندگی کریں اور یہ مال جو ہمارے اپنے ہیں، ان میں جس طرح چاہیں تصرف کریں، جائز و ناجائز جیسے چاہیں کمائیں، کوئی ہمیں کیوں ٹوکے یہ وہی سیکولر سوچ ہے جو آج کل بھی چل رہی ہے کہ نماز اور دین ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے۔ مملکت اور دنیا کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے ہم پابند نہیں۔ بیشک دین سود سے روکتا ہے مگر ساری دنیا کی معیشت اس پر چل رہی ہے، دین کا اس میں کیا دخل ؟ پھر کوئی شرک کرے، کفر کرے یا موحد ہو، اللہ تعالیٰ کو مانے یا نہ مانے، کسی کو اس سے کیا غرض۔ بس مملکت کے جو قانون خود لوگوں نے اکثریت سے بنائے ہیں، ان کی پابندی لازم ہے، باقی کسی پر کوئی پابندی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی بغاوت ہے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا نہ ہوتی کہ یا اللہ میری امت (دعوت و اجابت) کو عام عذاب سے ہلاک نہ کرنا تو کب کا عذاب آچکا ہوتا۔ - اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ : اس کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ تم تو خاندان میں بڑے بردبار اور نہایت سمجھ دار سمجھے جاتے ہو، تمہیں کیا ہوگیا کہ ایسی اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے لگے ہو۔ دوسرا یہ کہ دراصل وہ انھیں ٹھٹھے اور مذاق سے یہ کہہ رہے تھے، مقصد ان کا انھیں نہایت بےحوصلہ اور نادان کہنا تھا۔ صاحب کشاف نے اس کی مثال دی کہ جیسے کوئی شخص کسی سخت بخیل آدمی کو کہے کہ تمہاری سخاوت کا کیا کہنا، اگر تمہیں حاتم طائی دیکھے تو وہ بھی تمہارے آگے سر جھکا دے۔ ایک معنی یہ ہے کہ بس تو ہی ایک عقل مند اور نیک چلن رہ گیا ہے ؟ باقی ہم اور ہمارے باپ دادا جاہل اور احمق ہی رہے ؟ یہ بھی استہزا اور تمسخر کی ایک صورت تھی۔ (ابن کثیر) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جاہلوں کا دستور ہے کہ نیکوں کے کام آپ نہ کرسکیں تو انھی کو لگیں چڑانے، یہی خصلت ہے کفر کی۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤ ُ نَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤ ُ ا ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ ، یعنی کیا تمہاری نماز تمہیں یہ بتلاتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے آبا و اجداد کرتے چلے آئے ہیں، اور یہ کہ ہم اپنے مملوک اموال میں خود مختار نہ رہیں کہ جس طرح ہمارا جی چاہے معاملہ کریں بلکہ اپنے معاملات بھی آپ سے پوچھ پوچھ کر کیا کریں کہ کیا حلال ہے کہ حرام ؟ - حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نماز پوری قوم میں معروف تھی کہ بکثرت نوافل و عبادت میں لگے رہتے تھے اس لئے ان کے ارشادات کو بطور استہزاء کے نماز کی طرف منسوب کیا کہ تمہاری یہ نماز ہی تمہیں ( معاذ اللہ) ایسی غلط باتیں بتاتی ہے، ان کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی یوں سمجھتے تھے کہ دین و شریعت کا کام صرف عبادات تک محدود ہے معاملات میں اس کا کیا دخل ہے، ہر شخص اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے، اس پر کوئی پابندی لگانا دین کا کام نہیں جیسے اس زمانہ میں بھی بہت سے بےسمجھ لوگ ایسا خیال رکھتے ہیں۔- قوم نے خالص ہمدردی، دلسوزی اور نصیحت کا جواب اس قدر تلخ دیا مگر حضرت شعیب (علیہ السلام) شان پیغمبری رکھتے ہیں، یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی اسی ہمدردی کے ساتھ مخاطب ہو کر مزید فہمائش کے لئے فرمانے لگے :۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤُا۝ ٠ ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ۝ ٨٧- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] ، - ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ - رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حقیقی نمازی مشرک نہیں ہوسکتا - قول باری ہے اصلوتک تامرک ان نترک ما یعبد اباء نا او ان فعل فی اموالنا ما تشاء کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشاء کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو۔ انہوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے یہ کہا کہ کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کی حیثیت نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے کی طرح ہے چناچہ ارشاد باری ہے ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر بیشک نماز بےحیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت شعیب نے انہیں نماز کی حالت میں یہ بات بتائی ہو جسے سن کر انہوں نے کہا ہو کہ کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے ۔ حسن سے مروی ہے کہ آیا تیرا دین تجھے اس کا حکم دیتا ہے ؟ یعنی کیا ان باتوں کا حکم تیرے دین کے اندر ہے ؟

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٧) ان کی قوم کہنے لگی اے شعیب (علیہ السلام) کیا تمہاری نمازوں کی کثرت تمہیں اس بات کی تعلیم دے رہی ہے کہ ہم ان بتوں کی پوجا چھوڑ دیں یا ہم ناپ تول میں کمی کرنے کو چھوڑ دیں اور بطور مذاق بولے آپ واقعی ہیں بڑے عقل مند دین پر چلنے والے یعنی نعوذ باللہ بیوقوف بےراہ ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ)- اگرچہ حضرت شعیب کی گفتگو میں ان کے شرک کا تذکرہ نہیں ہے ‘ مگر ان کے اس جواب سے معلوم ہوا کہ وہ بنیادی طور پر اس مرض شرک میں بھی مبتلا تھے جو تمام گمراہ قوموں کا مشترک مرض رہا ہے۔- (اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤُا)- یعنی ہماری ملکیت میں جو سامان اور مال ہے کیا ہم اس کے استعمال میں بھی اپنی مرضی نہیں کرسکتے ؟ یہ وہی تصور ہے جو آج کے جدید زمانے میں کے خوبصورت الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ اسلام میں ملکیت کا ایسا تصور نہیں ہے۔ اسلام کی رو سے ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور دنیا کا یہ مال اور ساز و سامان انسانوں کے پاس اللہ کی امانت ہے ‘ جس میں اللہ کی مرضی کے خلاف تصرف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا اسلام ملکیت کے کسی ” مقدس حق “ کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ : - ایں امانت چند روزہ نزد ماست - درحقیقت مالک ہر شے خدا ست - یعنی یہ مال و دولت ہمارے پاس چند دن کی امانت ہے ‘ ورنہ حقیقت میں ہر شے کا مالک حقیقی تو اللہ ہی ہے۔ بہر حال جب انسان خود کو مالک سمجھتا ہے تو پھر وہ وہی کچھ کہتا ہے جو حضرت شعیب کی قوم نے کہا تھا کہ ہمارا مال ہے ہم جیسے چاہیں اس میں تصرف کریں - (اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ )- قوم کا حضرت شعیب کو حلیم اور رشید کہنا کسی تعظیم اور تکریم کے لیے نہیں تھا بلکہ طعن اور استہزا کے طور پر تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :96 یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر دراصل بات ان لوگوں کو سنانی مقسصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے ۔ اور اہل کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے ، ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی ، مگر اہل کتاب کے علماء میں جو لوگ متدین اور منصف مزاج تھے وہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں ۔ سورہ هُوْد حاشیہ نمبر :97 یعنی یہ قول کہ جو لوگ خود طالب حق نہیں ہوتے ، اور جو اپنے دلوں پر ضد ، تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھائےرکھتے ہیں اور جو دنیا کے عشق میں مدہوش اور عاقبت سے بے فکر ہوتے ہیں انہیں ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

54: یہ در حقیقت وہ سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے کہ جو کچھ مال ہے، وہ ہماری مکمل ملکیت میں ہے، اس لئے ہمیں پورا پورا اختیار حاصل ہے کہ اس میں جو چاہیں، تصرف کریں، کسی کو اس میں رُکاوٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اس کے برعکس قرآنِ کریم کا ارشاد یہ ہے کہ ہر مال پر اصل ملکیت اﷲ تعالیٰ کی ہے، البتہ اس نے اپنے فضل و کرم سے اِنسان کو عارضی ملکیت عطا فرمائی ہے۔( دیکھئے سورۂ یس آیت ۳۶:۷۱) لہٰذا اسی کو یہ حق ہے کہ وہ اس ملکیت پر کچھ پابندیاں عائد کرے۔ (دیکھئے سورۂ قصص آیت ۲۸:۷۷) اور جہاں مناسب سمجھے، وہاں خرچ کرنے کا حکم دے۔ (دیکھئے سورۂ نور آیت ۲۴:۳۳) اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ پابندیاں اس لئے عائد کی جاتی ہیں، تاکہ ہر شخص اپنی دولت کا حصول اور خرچ ایسے صحت مند طریقے پر کرے کہ معاشرے میں ہر ایک کو یکساں مواقع حاصل ہوں، کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے، اور معاشرے میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہوسکے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ’’اسلام کا نظام تقسیمِ دولت‘‘ از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ 55: یہ جملہ انہوں نے طنز کے طور پر بولا تھا۔ البتہ بعض مفسرین نے اسے حقیقی معنوں میں قرار دے کر اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ تم تو ہمارے درمیان ایک عقل مند اور نیک چلن آدمی کی حیثیت سے مشہور ہو۔ تم نے ایسی باتیں کیوں شروع کردی ہیں؟