قوم کو تبلیغ آپ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ دیکھو میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل و حجت اور بصیرت پر قائم ہوں اور اسی کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں ۔ اس نے اپنی مہربانی سے مجھے بہترین روزی دے رکھی ہے ۔ یعنی نبوت یا رزق حلال یا دونوں ، میری روش تم یہ نہ پاؤ گے کہ تمہیں تو بھلی بات کا حکم کروں اور خود تم سے چھپ کر اس کے برعکس کروں ۔ میری مراد تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کرنی ہے ۔ ہاں میرے ارادہ کی کامیابی اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اسی پر میرا بھروسہ اور توکل ہے اور اسی کی جانب رجوع توجہ اور جھکنا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے راویت کرتے ہیں کہ اس کے بھائی مالک نے کہا کہ اے معاویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پڑوسیوں کو گرفتار کر رکھا ہے ، تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات چیت بھی ہو چکی ہے اور تمہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہچانتے بھی ہیں ۔ پس میں اس کے ساتھ چلا ۔ اس نے کہا کہ میرے پڑوسیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہا کر دیجئے وہ مسلمان ہو چکے تھے ۔ آپ نے اس سے منہ پھر لیا ۔ وہ غضب ناک ہو کر اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا واللہ اگر آپ نے ایسا جواب دیا تو لوگ کہیں گے کہ آپ ہمیں تو پڑوسیوں کے بارہ میں اور حکم دیتے ہیں اور آپ خود اس کے خلاف کرتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا کیا لوگوں نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے؟ اگر میں ایسا کروں تو اس کا وبال مجھ پر ہی ہے ان پر تو نہیں ۔ جاؤ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو ۔ اور روایت میں ہے کہ اس کی قوم کے چند لوگ کسی شبہ میں گرفتار تھے ۔ اس پر قوم کا ایک آدمی خاص حاضر ہوا ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے ۔ اس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کسی چیز سے اوروں کو روکتے ہیں اور خود اسے کرتے ہیں ۔ آپ نے سمجھا نہیں ۔ اس لیے پوچھا کہ لوگ کیا کہتے ہیں حضرت بہزبن حکیم کے دادا کہتے ہیں میں نے بیچ میں بولنا شروع کر دیا کہ اچھا ہے آپ کے کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے منہ سے میری قوم کے لیے کوئی بد دعا نکل جائے کہ پھر انہیں فلاح نہ ملے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر اسی کوشش میں رہے یہاں تک کہ آپ نے اس کی بات سمجھ لی اور فرمانے لگے کیا انہوں نے ایسی بات زبان سے نکالی؟ یا ان میں سے کوئی اس کا قائل ہے؟ واللہ اگر میں ایسا کروں تو اس کا بوجھ بار میرے ذمے ہے ان پر کچھ نہیں ۔ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو ۔ اسی قبیل سے وہ حدیث بھی ہے جسے مسند احمد لائے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میری جانب سے کوئی ایسی حدیث سنو کہ تمہارے دل اس کا انکار کریں اور تمہارے بدن اور بال اس سے علیحدگی کریں یعنی متاثر نہ ہوں اور تم سمجھ لو کہ وہ تم سے بہت دور ہے تو میں اس سے اس سے بھی زیادہ دور ہوں ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ حضرت مسروق کہتے ہیں کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئی اور کہنے لگی کیا آپ بالوں میں جوڑ لگانے کو منع کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس نے کہا آپ کے گھر کی بعض عورتیں تو ایسا کرتی ہیں آپ نے فرمایا اگر ایسا ہو تو میں نے اللہ کے نیک بندے کی وصیت کی حفاظت نہیں کی ۔ میرا ارادہ نہیں کہ جس چیز سے تمہیں روکوں اس کے برعکس خود کروں ۔ حضرت ابو سلیمان ضبی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز کے رسالے آتے تھے جن میں اوامر ونواہی لکھے ہوئے ہوتے تھے اور آخر میں یہ لکھا ہوتا تھا کہ میں بھی اس میں ہی ہوں جو اللہ کے نیک بندے نے فرمایا کہ میری توفیق اللہ ہی کے فضل سے ہے ۔ اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔
88۔ 1 رزق حسن کا دوسرا مفہوم نبوت بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) 88۔ 2 یعنی جس کام سے میں تجھے روکوں، تم سے خلاف ہو کر وہ میں خود کروں، ایسا نہیں ہوسکتا۔ 88۔ 3 میں تمہیں جس کام کے کرنے یا جس سے روکنے کا حکم دیتا ہوں، اس سے مقصد اپنی مقدور بھر، تمہاری اصلاح ہی ہے۔ 88۔ 4 یعنی حق تک پہنچنے کا جو میرا ارادہ ہے، وہ اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے، اس لئے تمام معاملات میں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
[٩٩] یہ واضح دلیل وہی داعیہ فطرت ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے پھر جو لوگ اللہ کی ہر سو پھیلی ہوئی نشانیوں میں غور و فکر کرتے ہیں ان میں یہ داعیہ تحت الشعور سے شعور میں آجاتا ہے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔- [ ١٠٠] رزق حسن سے مراد :۔ یہاں رزق حسن سے مراد نبوت اور علم وحی ہے اور اگر رزق سے مراد ظاہری حلال اور پاکیزہ رزق یا مال و دولت ہی لیا جائے تو بھی اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں تمہاری بددیانتیوں کے معاملہ میں تمہارا حامی کیسے بن سکتا ہوں بھلا کیا میں ایسے کام کرسکتا ہوں جن سے تمہیں روکتا ہوں۔ میں تو تمہاری بھی اصلاح چاہتا ہوں پھر میں ایسے کام کیوں کروں گا اور میں اپنے اس عزم پر قائم رہنے کی اللہ سے توفیق چاہتا ہوں اور ہر پریشانی کے وقت اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ ۔۔ :” بَيِّنَةٍ “ وہ دلیل جس کے ساتھ حق اور باطل واضح اور الگ الگ ہوجائے۔ ” رِزْقًا حَسَـنًا “ یہ لفظ تین چیزوں کے لیے آیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نبوت، حلال روزی اور صاف ستھری پاکیزہ زندگی۔ یہاں ” اَرَءَيْتُمْ “ کا جواب محذوف ہے، یعنی اے میری قوم یہ بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھے رزق حسن دیا ہو تو کیا میں اسے چھوڑ کر تمہاری طرح حرام کھانے لگوں اور تمہیں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چھوڑ دوں ؟ ” رِزْقًا حَسَـنًا “ سے معلوم ہو رہا ہے کہ شعیب (علیہ السلام) عطائے نبوت کے ساتھ ساتھ حلال روزی کے ذریعے سے اچھے خاصے مال دار آدمی تھے۔ - وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ ۔۔ : یعنی میں جو تمہیں اللہ کے ساتھ شرک سے اور ماپ تول میں کمی سے منع کر رہا ہوں، اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمہیں تو اس سے باز رہنے کی تلقین کروں اور خود اس کا ارتکاب کرتا رہوں، بلکہ میں تم سے جو بات بھی کہتا ہوں، پہلے خود اس پر عمل کرتا ہوں۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) کا اور سلف صالحین کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔ اس کے برعکس کرنے والوں کا انجام حدیث میں یوں ہے، اسامہ بن زید (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُجَاء بالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقَی فِي النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُہٗ فِي النَّارِ ، فَیَدُوْرُ کَمَا یَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاہٗ فَیَجْتَمِعُ أَھْلُ النَّارِ عَلَیْہِ فَیَقُوْلُوْنَ یَا فُلَانُ مَا شَأْنُکَ ؟ أَلَیْسَ کُنْتَ تَأْمُرُ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ ؟ قَالَ کُنْتُ آمُرُکُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَلاَ آتِیْہِ ، وَأَنْھَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ ) [ بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ النار و أنھا مخلوقۃ : ٣٢٦٧ ] ” ایک آدمی کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کی انتڑیاں تیزی سے باہر نکل پڑیں گی تو وہ اس طرح گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے، تو جہنمی اس پر اکٹھے ہوجائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں تیرا کیا معاملہ ہے ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہمیں برائی سے منع نہیں کرتا تھا ؟ وہ کہے گا، میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود وہ نیکی نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔ “- اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ : تاکہ تمہارا دنیا و آخرت میں بھلا ہو۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یہ خصلت ہے اللہ کے نیک لوگوں کی کہ چڑانے سے برا نہ مانا اور اپنے مقدور بھر سمجھاتے رہے۔ “- وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا باللّٰهِ : یعنی آج میں تمہیں جو نصیحت کر رہا ہوں یا کرنا چاہتا ہوں، اس کو جاری رکھنے اور اس کی کامیابی کا دارو مدار اللہ ہی پر ہے۔
(آیت) يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَرَزَقَنِيْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَـنًا، یعنی اے میری قوم مجھے بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے اپنی بات کے حق ہونے پر دلیل اور کافی شہادت رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے بہترین رزق بھی عطا فرمایا ہو، کہ ظاہری رزق جس پر معاش کا مدار ہے وہ بھی عطا فرمایا اور باطنی رزق فہم و عقل اور اس پر وحی و نبوت کا انعام گرانمایہ بھی عطا فرمایا تو پھر کیا تمہاری رائے یہ ہے کہ ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے میں بھی تمہاری طرح گمراہی اور ظلم کو اختیار کرلوں اور حق بات تمہیں نہ پہنچاؤ ں، اس کے بعد فرمایا :- (آیت) وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ، یعنی یہ بھی تو سمجھو کہ میں جس چیز سے تمہیں روکتا ہوں خود بھی تو اس کے پاس نہیں جاتا، اگر میں تمہیں منع کرتا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تمہارے لئے کہنے کی گنجائش تھی۔- اس سے معلوم ہوا کہ داعی اور واعظ و مبلغ کے عمل کو اس کی وعظ و نصیحت میں بڑا دخل ہوتا ہے جس چیز پر واعظ خود عامل نہ ہو اس کی بات کا دوسروں پر کوئی اثر نہیں ہوتا، پھر فرمایا : - (آیت) اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ، یعنی میرا مقصد اس ساری جدوجہد اور تمہیں بار بار کی فہمائش سے بجز اس کے کچھ نہیں کہ مقدور بھر اصلاح کی کوشش کروں، اور پھر فرمایا کہ یہ کوشش بھی درحقیقت میرے اپنے اختیار سے نہیں بلکہ (آیت) وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا باللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ ، یعنی میں جو کچھ کرتا ہوں وہ سب اللہ کی دی ہوئی توفیق سے کرتا ہوں، ورنہ میرے بس میں کچھ نہ تھا، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف ہر کام میں میں رجوع کرتا ہوں۔
قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَرَزَقَنِيْ مِنْہُ رِزْقًا حَسَـنًا ٠ۭ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْہٰىكُمْ عَنْہُ ٠ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ٠ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللہِ ٠ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ ٨٨- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجر ات 11] - بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - اخالفکم - ۔ مخالفۃ ( باب مفاعلۃ) سے مضارع واحد متکلم کا صیغہ ہے اور کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ میں تمہاری مخالفت کروں ۔ کہا جاتا ہے خالفی فلان عن کذا۔ جب کہ وہ اعراض کر دہا ہو اور تم اس چیز کا قصد کر رہے ہو۔ اور خالفنی الی کذا۔ جبکہ تم اعراض کرنے والے ہو اور وہ قصد کرنے والا ہو۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - وفق - الوِفْقُ : المطابقة بين الشّيئين . قال تعالی: جَزاءً وِفاقاً [ النبأ 26] والتَّوْفِيقُ نحوه لكنه يختصّ في التّعارف بالخیر دون الشّرّ. قال تعالی: وَما تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ [هود 88] - ( و ف ق ) الوفق - ۔ دو چیزوں کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی ہونے کو کہتے ہیں قرآن نے اعمال کے نتائج کو ۔۔۔ جَزاءً وِفاقاً [ النبأ 26] ( یہ ) بدلہ ہے پور اپورا ۔ توفق۔ یہ متعدی ہے اور عرف میں یہ خبر کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ( یعنی اسباب کا مقصد کے مطابق مہیا کردینا ) اور شر میں استعمال نہیں ہوتا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَما تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ [هود 88] اور مجھے توفیق کا ملنا خدا ہی کے فضل سے ہے ۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔
(٨٨) شعیب (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی نازل کردہ دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے نبوت اور اسلام کے ساتھ نوازا ہے اور پاکیزہ مال عطا کیا ہے تو پھر کیسے تبلیغ نہ کروں اور میں وہ نہیں کہ تمہارے برخلاف ان کاموں کو کروں، جن سے تمہیں منع کرتا ہوں یعنی ناپ تول میں کمی کرنا۔- میں تو جہاں تک میرے امکان میں ہے، ناپ تول میں عدل و انصاف اور اصلاح چاہتا ہوں اور مجھ کو جو کچھ توفیق ہوتی ہے صرف اللہ ہی کی مدد سے ہوتی ہے، میں نے تمام امور اسی کے سپرد کردیے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
آیت ٨٨ (قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ )- حضرت شعیب نے وہی بات فرمائی جو دوسرے انبیاء و رسل اپنی اپنی قوم سے فرماتے آئے تھے کہ تمہارے درمیان رہتے ہوئے میرا کردار اور اخلاق پہلے بھی مثالی تھا ‘ میں اس معاشرے میں ایک شریف النفس اور سلیم الفطرت انسان کے طور پر معروف تھا۔- (وَرَزَقَنِيْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَـنًا)- یعنی پھر مجھے اللہ نے نبوت اور رسالت سے بھی سرفراز فرما دیا ہے۔- (اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا باللّٰهِ )- میرا مقصد تم لوگوں کی اصلاح ہے اور اس سلسلے میں جو کچھ بھی میں کر رہا ہوں وہ اللہ کی توفیق ہی سے کر رہا ہوں۔ اسی نے مجھے ہمت اور استقامت سے نوازا ہے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :98 یونس علیہ السلام ( جن کا نام بائیبل میں یوناہ ہے اور جن کا زمانہ سن ۸٦۰ – ۷۸٤ قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے ) اگر چہ اسرائیلی نبی تھے ، مگر ان کو اشور ( اسیریا ) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور اسی بنا پر اشوریوں کی یہاں قوم یونس کہا گیا ہے ۔ اس قوم کا مرکز اس زمانہ میں نینویٰ کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج تک دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موجودہ شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں ”یونس نبی“ کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے ۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینوی تقریبًا ٦۰ میل کے دَور میں پھیلا ہوا تھا ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :99 قرآن میں اس قصّہ کی طر ف تین جگہ صرف اشارات کیے گئے ہیں ، کوئی تفصیل نہیں دی گئی ( ملاحظہ ہو سورہ ٔ انبیاء ، آیات ۸۷ – ۸۸ ۔ الصافّات ، ۱۳۹ – ۱٤۹ ۔ القلم ، ٤۸ – ۵۰ ) اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قوم کن خاص وجوہ کی بنا پر خدا کے اس قانون سے مستثنیٰ کی گئی کہ”عذاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کسی کا ایمان اس کے لیے نافع نہیں ہوتا“ ۔ بائیبل میں ”یوناۃ“ کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ چنداں قابل اعتماد نہیں ہے ۔ کیونکہ اوّل تو نہ وہ آسمانی صحیفہ ہے ، نہ خود یونس علیہ السلام کا اپنا لکھا ہوا ہے ، بلکہ ان کے چار پانچ سو برس بعد کسی نامعلوم شخص نے اسے تاریخ یونس کے طور پر لکھ کر مجموعہ کتب مقدسہ میں شامل کر دیا ہے ۔ دوسرے اس میں بعض صریح مہملات بھی پائے جاتے ہیں جس ماننے قابل نہیں ہیں ۔ تاہم قرآن کے اشارات اور صحیفہ ٔ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جو مفسرین ِ قرآن نے بیان کی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر چھوڑ کر چلے گئے تھے ، اس لیے جب آثارِ عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ۔ قرآن مجید میں خدائی دستور کے جو اصول و کلیات بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قومکو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کر لیتا ۔ پس جب نبی نے اس قوم کی مہلت کے آخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جا ری نہ رکھا ، اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطورر خود ہی وہ ہجرت کر گیا ، تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارا نہ کیا کیونکہ اس پر اتمام حجت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورۂ الصافات ، حاشیہ نمبر ۸۵ ) ۔
56: اس رزق سے مراد کھانے پینے وغیرہ کا سامان بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب اﷲ تعالیٰ نے سیدھے سیدھے طریقے سے مجھے رِزق عطا فرمایا ہے تو میں اس کے حصول کے لئے وہ غلط طریقے کیوں اختیار کروں جو تم کرتے ہو؟ اور رزق سے یہاں مراد نبوّت بھی ہوسکتی ہے۔