قوم مدین کا جواب اور اللہ کا عتاب قوم مدین کے کہا کہ اے شعیب آپ کی اکثر باتیں ہماری سمجھ میں تو آتی نہیں ۔ اور خود آپ بھی ہم میں بے انتہا کمزور ہیں ۔ سعید و غیرہ کا قول ہے کہ آپ کی نگاہ کم تھی ۔ مگر آپ بہت ہی صاف گو تھے ، یہاں تک کہ آپ کو خطیب الانبیاء کا لقب حاصل تھا ۔ سدی کہتے ہیں اس وجہ سے کمزور کہا گیا ہے کہ آپ اکیلے تھے ۔ مراد اس سے آپ کی حقارت تھی ۔ اس لیے کہ آپ کے کنبے والے بھی آپ کے دین پر نہ تھے ۔ کہتے ہیں کہ اگر تیری برادری کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم تو پتھر مار مار کر تیرا قصہ ہی ختم کر دیتے ۔ یا یہ کہ تجھے دل کھول کر برا کہتے ۔ ہم میں تیری کوئی قدر و منزلت ، رفعت وعزت نہیں ۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا بھائیو تم مجھے میری قرابت داری کی وجہ سے چھوڑ تے ہو ۔ اللہ کی وجہ سے نہیں چھوڑتے تو کیا تمہارے نزدیک قبیلے والے اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں اللہ کے نبی کو برائی پہنچاتے ہوئے اللہ کا خوف نہیں کرتے افسوس تم نے کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا ۔ اس کی کوئی عظمت و اطاعت تم میں نہ رہی ۔ خیر اللہ تعالیٰ تمہارے تمام حال احوال جانتا ہے وہ تمہیں پورا بدلہ دے گا ۔
91۔ 1 یہ یا تو انہوں نے بطور مذاق تحقیر کہا درآنحالیکہ ان کی باتیں ان کے لئے ناقابل فہم نہیں تھیں۔ اس صورت میں یہاں فہم کی نفی مجازا ہوگی۔ یا ان کا مقصد ان باتوں کے سمجھنے سے معذوری کا اظہار ہے جن کا تعلق غیب سے ہے۔ مثلا بعث بعدالموت، حشر نشر، جنت و دوزخ وغیرہ اس لحاظ سے، فہم کی فنی حقیقتا ہوگی۔ 91۔ 2 یہ کمزوری جسمانی لحاظ سے تھی، جیسا کہ بعض کا خیال ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بینائی کمزور تھی یا وہ نحیف و لاغر جسم کے تھے یا اس اعتبار سے انھیں کمزور کہا کہ وہ خود بھی مخالفین سے تنہا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ 91۔ 3 حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قبیلہ کہا جاتا ہے کہ ان کا مددگار نہیں تھا، لیکن وہ قبیلہ چونکہ کفر و شرک میں اپنی ہی قوم کے ساتھ تھا، اس لئے اپنے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے اس قبیلے کا لحاظ، بہرحال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے اور انھیں نقصان پہنچانے میں مانع تھا۔ 91۔ 4 لیکن چونکہ تیرے قبیلے کی حیثیت بہرحال ہمارے دلوں میں موجود ہے، اس لئے ہم درگزر سے کام لے رہے ہیں۔
[١٠٣] حرام خور کو حلال کمانا بہت مشکل ہوتا ہے :۔ یعنی یہ جو تم کاروبار میں سچائی، راست بازی اور دیانتداری کی باتیں کرتے ہو اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا سارا کاروبار ہی مندا پڑجائے گا۔ مارکیٹ میں مقابلہ بڑا سخت ہے اگر ہم یہ کام نہ کریں گے تو کمائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا ؟ لہذا یہ نصیحتیں تم اپنے پاس ہی رکھو ہم اگر ایسی دیانتداری سے کام لیں جیسی تم کہتے ہو تو ہمارا تو سارا کاروبار ہی ٹھپ ہوجائے گا اور ایک دن بھی نہ چل سکے گا۔ تمہاری یہ باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔- اور واقعہ ہے بھی یہی کہ جب انسان حرام ذرائع سے مال کمانے کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کے لیے حلال ذریعہ سے مال کمانا اتنا ہی دشوار نظر آتا ہے جتنا کسی بلند پہاڑ پر چڑھنا۔ یہاں حسب حال مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے ایک گوالے کا بیٹا کچھ دین کا علم پڑھ گیا۔ لڑکا نیک تھا ایک دن اپنے باپ سے کہنے لگا : ابا دودھ میں پانی ملانا چھوڑ دو اور بیشک دودھ کچھ مہنگا بیچ لیا کرو۔ باپ نے بیٹے کو تلخ لہجے میں جواب دیا چل دفع ہو تم تو کسی گوالے کے بیٹے ہی نہیں ہو اس مختصر سے واقعہ سے ایک حرام خور کی پوری ذہنیت سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہی ذہنیت شعیب کی قوم کی تھی جنہوں نے اپنے پیغمبر کو یوں جواب دیا تھا کہ تمہاری ان باتوں کی ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی - [ ١٠٤] سیدنا شعیب کو دھمکی :۔ تمہاری برادری کا ہمیں پاس ہے جو ہمارے ہی ہم خیال ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو تم تو ایک کمزور سے آدمی ہو جس طرح تم نے ہمیں ستا رکھا ہے کب کا ہم نے تمہیں سنگسار کردیا ہوتا۔ تمہیں ہم اپنے مقابلے میں کیا سمجھتے ہیں ؟
قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ ۔۔ : ” فَقِہَ یَفْقَہُ “ (ع) متکلم کی بات کا مطلب سمجھنا۔ یہ بات انھوں نے استہزا اور تحقیر، یعنی شعیب (علیہ السلام) اور ان کے کلام کو بےوقعت قرار دینے کے لیے کہی، یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے کرتے ان کے ذہن اس قدر مسخ ہوچکے تھے کہ شعیب (علیہ السلام) کی سیدھی باتیں بھی واقعتا ان کے ذہن میں نہیں آتی تھیں، حالانکہ شعیب (علیہ السلام) نہ کسی غیر زبان میں گفتگو کرتے تھے اور نہ ان کا انداز بیان ہی پیچیدہ اور الجھا ہوا تھا، بلکہ شعیب (علیہ السلام) کی گفتگو سے صاف پتا چل رہا ہے کہ وہ کتنے بڑے فصیح اللسان خطیب تھے۔ مفسر ابوالسعود کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ بات کہ ” ہم تیری بات کا مطلب ہی نہیں سمجھتے “ اس وقت کہی جب وہ بہترین اور بلیغ ترین طریقے سے شعیب (علیہ السلام) سے حق اور اس کے ایسے واضح دلائل سن چکے جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اب اس سے آگے ان کے پاس کوئی بات باقی ہی نہ تھی جو وہ کہہ سکتے، تو جس طرح کوئی بندہ لاجواب ہو کر بدزبانی، گالی گلوچ اور دھمکیوں پر اتر آتا ہے، یہی کام انھوں نے کیا۔ - وَاِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا : یعنی نہ تیرے پاس فوج ہے، نہ حکومت اور نہ کرو فر۔ - وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ : جو ہمارے دین پر ہیں، لیکن تیری پشت پناہی کر رہے ہیں۔ - وَمَآ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ : ” عَزِیْزٌ“ معزز، محبوب اور قوی، یعنی تو ہم پر کسی طرح بھی عزیز نہیں ہے، نہ ہم تمہاری کچھ عزت سمجھتے ہیں، نہ ہمیں تجھ سے کوئی محبت ہے اور نہ تو ہم سے طاقت میں بڑھ کر ہے۔ غرض تجھے سنگسار کرنا ہمیں کچھ بھی مشکل نہیں، اگر تیرے قبیلے کے لوگ جو ہمارے ہی دین پر ہیں، تیری پشت پر نہ ہوتے تو ہم ضرور تجھے سنگسار کردیتے۔ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئیں بالکل وہی صورت حال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ معظمہ میں درپیش تھی۔ قریش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور ہر ممکن طریقے سے آپ کی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے، لیکن چونکہ بنو ہاشم آپ کی پشت پر تھے اور خاص طور پر آپ کے چچا ابوطالب آپ کی پوری طرح حفاظت کر رہے تھے، اس لیے قریش کو آپ پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَہُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَاِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا ٠ۚ وَلَوْلَا رَہْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ ٠ۡوَمَآ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ ٩١- فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔- ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ - رهط - الرَّهْطُ : العصابة دون العشرة، وقیل : يقال إلى الأربعین، قال : تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ [ النمل 48] ، وقال : وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] - ( رھ ط ) الرھط - دس آدمیوں سے کم جماعت کو رھط کہتے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کا اطلاق چالیس آدمیوں تک کی جماعت پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ [ النمل 48] نو آدمی تھے جو ملک میں فساد کرتے ۔ وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] اگر تیری بر اور ی کے لوگ نہ ہوتے تو ہم ےتجھے سنگسار کردیتے ہیں۔- رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
(٩١) وہ کہنے لگے اے شعیب (علیہ السلام) بہت سی باتیں تمہاری کہی ہوئی ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تو آپ کی بینائی میں کمی دیکھ رہے ہیں اور اگر آپ کی قوم کا پاس نہ ہوتا تو ہم آپ کو قتل کر ڈالتے اور ہماری نظر میں تمہاری کچھ وقعت اور عزت نہیں۔
آیت ٩١ (قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ )- جب ذہنوں کے سانچے بگڑ جائیں اور سوچوں کے زاویے بدل جائیں تو پھر سیدھی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔- (وَاِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا ۚ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ ۡ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ )- یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لیں کہ جس زمانے میں جو سورت نازل ہوئی ہے اس میں نبی اکرم اور آپ کے صحابہ کرام کو پیش آنے والے معروضی حالات کے ساتھ تطابق پیدا کیا گیا ہے۔ یعنی گزشتہ اقوام کے واقعات جو مختلف سورتوں میں تواتر کے ساتھ بار بار آئے ہیں یہ تکرار محض نہیں ہے ‘ بلکہ حضور کی دعوت و تحریک کو جس دور میں جن مسائل کا سامنا ہوتا تھا اس خاص دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں ان مسائل کی مناسبت سے پچھلی اقوام کے حالات و واقعات سے وہ باتیں نمایاں کی جاتی تھیں جن میں حضور اور اہل ایمان کے لیے راہنمائی اور دلجوئی کا سامان موجود ہوتا۔ چناچہ آیت زیر نظر میں حضرت شعیب کے خاندان اور قبیلے کی حمایت کی بات اس لیے ہوئی ہے کہ ادھر مکہ میں حضور کو بھی کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا تھا۔ اس زمانے میں بنو ہاشم کے سردار آپ کے چچا ابو طالب تھے جنہیں حضور سے بہت محبت تھی اور آپ نے اپنے بچپن کا کچھ عرصہ ان کے سایہ عاطفت میں گزارا تھا۔ انہی کی وجہ سے آپ کو پورے قبیلہ بنی ہاشم کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اگر اس وقت بنوہاشم کی سرداری کہیں ابولہب کے پاس ہوتی تو آپ کو اپنے خاندان اور قبیلہ کی یہ حمایت حاصل نہ ہوتی اس طرح مشرکین مکہ کو آپ کے خلاف (معاذ اللہ) کوئی انتہائی اقدام کرنے کا موقع مل جاتا۔ لہٰذا یہاں حالات میں تطابق اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آج مکہ میں بنو ہاشم کی حمایت سے محمد رسول اللہ کو ایک محفوظ قلعہ مہیا فرما دیا ہے ‘ بالکل اسی نوعیت کی حفاظت اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب کو ان کے خاندان کی حمایت کی صورت میں بھی عطا فرمائی تھی۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :102 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا ۔ دراصل اس فقرے میں وہی اندازِی بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن میں بکثرت مقامات پر ہمیں ملتا ہے ، کہ خطاب بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو ، حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہِ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی نے پورا پورا ادا کر دیا ہے ۔ اب اگر تم خود راست رو بننا چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اسی پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبر دستی راہِ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے ۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لیے اُسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کر سکتا تھا ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :103 یعنی جس طرح تمام نعمتیں تنہا اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے ، اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحب ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پر منحصر ہے ۔ کوئی شخص نہ اس نعمت کو اذنِ الہٰی کے بغیر خود پا سکتا ہے ، اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہے کہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کردے ۔ پس نبی اگر سچے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بنا سکتا ۔ اس لیے کہ اللہ کا اذن اور اس کوتوفیق درکار ہے ۔