Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 یعنی فرعون، جس طرح دنیا میں ان کا رہبر اور پیش رو تھا، قیامت والے دن بھی یہ آگے آگے ہی ہوگا اور اپنی قوم کو اپنی قیادت میں جہنم میں لے کر جائے گا۔ 98۔ 2 وِرْد پانی کے گھاٹ کو کہتے ہیں، جہاں پیاسے جا کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ لیکن یہاں جہنم کو ورد کہا گیا ہے گھاٹ یعنی جہنم جس میں لوگ لے جائے جائیں گے یعنی جگہ بھی بری اور جانے والے بھی برے۔ اعاذنا اللہ منہ

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٠] دنیوی اعمال کے اخروی نتائج میں مماثلت :۔ اس مقام پر قصہ موسیٰ و فرعون کی سب تفصیلات چھوڑ دی گئی ہیں نہ ہی یہ ذکر ہے کہ اس دنیا میں فرعون اور اس کے درباریوں اور پیروکاروں کا کیا انجام ہوا بلکہ ان لوگوں کا قیامت کے دن جو حال ہوگا اس کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ جس طرح اس دنیا میں فرعون اپنے پیروکاروں کا لیڈر بنا ہوا ہے اسی طرح قیامت کے دن بھی اپنے پیروکاروں کی قیادت کر رہا ہوگا لیکن آج تو فرعون کے پیروکاروں کو یہ نظر نہیں آرہا کہ فرعون انھیں اس ہلاکت کے گڑھے کی طرف لیے جارہا ہے لیکن قیامت کو ان سب کو یہ نظر آرہا ہوگا کہ وہ انھیں جہنم کی طرف لیے جارہا ہے لیکن اس وقت وہ اس کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیوی اعمال کی ان کے اخروی نتائج کے ساتھ غایت درجہ کی مماثلت ہوگی اور انسان اس دنیا میں تو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے مگر ان کاموں کے نتائج اس کے اختیار میں نہیں ہوتے بلکہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں لہذا اس دن وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور ہوں گے۔- پھر قیامت کے دن ایسی قیادت صرف فرعون سے ہی مختص نہ ہوگی بلکہ ہر قائد کا الگ الگ جھنڈا ہوگا اور وہ اپنے پیروکاروں کے آگے آگے چل کر انھیں ان کی منزل تک لے جائے گا اگر کوئی قائد دنیا میں اللہ کا فرمانبردار اور نیک بخت تھا تو وہ اپنے پیروکاروں کو لیے ہوئے جنت کی طرف روانہ ہوگا اور بدکردار لیڈر اپنے پیروکاروں کو جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔- [ ١١١] ورد کے لغوی معنی :۔ وَرَدَ کے معنی ہیں پانی پینے کے لیے پانی کے مقام یا گھاٹ پر پہنچنا اور اس کی ضد صَدَرَ ہے یعنی پانی پی کر اور سیراب ہو کر پانی کے مقام سے واپس جانا اور ورد گھاٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی فرعون اپنے پیروکاروں سمیت نکلا تو ہوگا پانی کی تلاش میں مگر یہ لوگ جا پہنچیں گے جہنم کے کنارے پر۔ یعنی دنیا میں بھی یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کرکے اپنی بھلائی چاہ رہے تھے اور ان کی یہ غلط سوچ دنیا میں بھی ان کی ہلاکت کا سبب بن گئی تھی اور آخرت میں بھی ان کی سوچ کچھ اور ہوگی اور نتیجہ ہلاکت ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَـقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۔۔ :” قَدِمَ یَقْدَمُ (ع) آنا اور ” قَدَمَ یَقْدُمُ “ (ن) آگے ہونا۔” فَاَوْرَدَهُمُ “ ” وِرْدٌ“ (واؤ کے کسرہ کے ساتھ) وہ پانی جسے پینے کے لیے لوگ اور جانور آتے ہوں، یعنی گھاٹ۔ ” اَوْرَدَ “ باب افعال سے ماضی معلوم ہے، یعنی جس طرح دنیا میں وہ اپنے لوگوں کا پیشوا تھا، اسی طرح آخرت میں بھی ان کا پیشوا ہوگا اور پینے کے لیے انھیں لے کر پانی کے گھاٹ پر جانے کے بجائے خود آگے ہو کر سب کو آگ میں لے جائے گا۔ یہی حال ان تمام لوگوں کا ہوگا جو کسی قوم کی رہنمائی کفر اور معصیت کی طرف کرتے ہیں کہ وہ انھی کی قیادت میں چل کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ ” یَقْدُمُ “ مضارع ہے، آگے ہوگا، اس کے بعد مضارع ” یُوْرِدُھُمْ “ (انھیں آگ پرلے آئے گا) کے بجائے ” فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ “ (وہ انھیں آگ پر لے گیا) ماضی کا لفظ یقین کے لیے استعمال فرمایا۔- وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ : پینے کی جگہ تو لوگ پیاس بجھانے کے لیے جاتے ہیں، مگر وہاں پانی کے بجائے آگ سے ان کی مہمان داری کی جائے گی۔ (والعیاذ باللہ)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَـقْدُمُ قَوْمَہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَ۝ ٠ۭ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ۝ ٩٨- قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - ورد - الوُرُودُ أصله : قصد الماء، ثمّ يستعمل في غيره . يقال : وَرَدْتُ الماءَ أَرِدُ وُرُوداً ، فأنا وَارِدٌ ، والماءُ مَوْرُودٌ ، وقد أَوْرَدْتُ الإبلَ الماءَ. قال تعالی: وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] والوِرْدُ : الماءُ المرشّحُ للوُرُودِ ، والوِرْدُ : خلافُ الصّدر،- ( ور د ) الورود - ۔ یہ اصلی میں وردت الماء ( ض ) کا مصدر ہے جس کے معنی پانی کا قصد کرنے کے ہے ۔ پھر ہر جگہ کا قصد کرنے پر بولا جاتا ہے اور پانی پر پہنچنے والے کو ورود اور پانی کو مردود کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] قرآن میں ہے : ۔ اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے الوادر اس پانی کو کہتے ہیں جو وادر ہونے کے لئے تیار کیا گیا ہو - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٨) وہ قیامت کے دن اپنی قوم کی قیادت کرتا ہوا اپنی قوم سے آگے ہوگا اور پھر ان کو دوزخ میں جا داخل کرے گا بہت ہی بری جگہ ہے یا یہ کہ فرعون اور اس کی قوم بہت ہی برے اترنے والے ہیں اور یہ دوزخ بہت ہی بری جگہ ہے جس میں یہ لوگ اتارے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨ (يَـقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ )- دنیا کی طرح قیامت کے دن بھی اسے قیادت کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ وہ آگے آگے ہوگا اور اس کی قوم پیچھے پیچھے آرہی ہوگی جیسے وہ لوگ دنیا میں اس کے پیچھے چلتے تھے۔- (فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ ۭ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ )- جس طرح جانوروں کا کوئی گروہ پانی پینے کے لیے گھاٹ پر آتا ہے اور ان کا لیڈر آگے آگے جا رہا ہوتا ہے ‘ ایسے ہی فرعون اپنی قوم کو جہنم کے گھاٹ پر لا اتارے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :104 یہاں صاف بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کا اذن اور اس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیر کسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کر دیا ۔ بلکہ اس کا ایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے ، اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بے لاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سع و طلب کے تناسب سے مہیا کر دیے جاتے ہیں ، اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی تو فیق بخشی جاتی ہے ۔ رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں ، یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے ، تو ان کے لیے اللہ کے خزانۂ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی و غلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ وہ اپنے آپ کو انہی نجاستوں کا اہل بناے ہیں اور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani