Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

گناہوں کی بخشش مانگو اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرو: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ بڑی عمر والے مجاہدین کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے بھی شامل کر لیا کرتے تھے تو شاید کسی کے دل میں اس کی کچھ ناراضگی پیدا ہو گئی اس نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ نہ آیا کریں ان جتنے تو ہمارے بچے ہیں خلیقۃ المسلمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم انہیں خوب جانتے ہو ایک دن سب کو بلایا اور مجھے بھی یاد فرمایا میں سمجھ گیا کہ آج انہیں کچھ بتانا چاہتے ہیں جب ہم سب جا پہنچے تو امیرا لمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم سے پوچھا کہ سورہ اذا جآء کی نسبت تمہیں کیا علم ہے بعض نے کہا اس میں ہمیں اللہ کی حمدو ثناء بیان کرنے اور گناہوں کی بخشش چاہنے کا حکم کیا گیا ہے کہ جب مدد اللہ آ جائے اور ہماری فتح ہو تو ہم یہ کریں اور بعض بالکل خاموش رہے تو آپ نے میری طرف توجہ فرمائی اور کہا کیا تم بھی یہی کہتے ہو میں نے کہا نہیں فرمایا پھر اور کیا کہتے ہو میں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کا پیغام ہے آپ کو معلوم کرایا جا رہا ہے کہ اب آپ کی دنیوی زندگی ختم ہونے کو ہے آپ تسبیح حمد اور استفغار میں مشغول ہو جائیے حضرت فاروق نے فرمایا یہی میں بھی جانتا ہوں بخاری جب یہ سورت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب اسی سال میرا انتقال ہو جائیگا مجھے میرے انتقال کی خبر دی گئی ہے مسند احمد مجاہد ابو العالیہ ضحاک وغیرہ بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں تھے فرمانے لگے اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ کی مدد آ گئی اور فتح بھی یمن والے آ گئے پوچھا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یمن والے کیسے ہیں فرمایا وہ نرم دل لوگ ہیں سلجھی ہوئی طبیعت والے ہیں ایمان تو اہل یمن کا ہے اور سمجھ بھی اہل یمن کی ہے اور حکمت بھی اہل یمن والوں کی ہے ابن جریر ابن عباس کا بیان ہے کہ جب یہ سوت اتری چونکہ اس میں آپ کے انتقال کی خبر تھی تو آپ نے اپنے کاموں میں اور کمر کس لی اور تقریبا وہی فرمایا جو اوپر گزرا طبرانی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ سورتوں میں پوری سورت نازل ہونے کے اعتبار سے سب سے آخری سورت یہی ہے طبرانی اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت اتری آپ نے اس کی تلاوت کی اور فرمایا لوگ ایک کنارہ ہیں میں اور میرے اصحاب ایک کنارہ میں ہیں سنو فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں البتہ جہاد اور نیت ہے مروان کو جب یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری نے سنائی تو یہ کہنے لگا جھوٹ کہتا ہے اس وقت مروان کیساتھ اس کے تخت پر حضرت رافع بن خدیج اور حضرت زید بن ثابت بھی بیٹھے تھے تو حضرت ابو سعید فرمانے لگے ان دونوں کو بھی اس حدیث کی خبر ہے یہ بھی اس حدیث کو بیان کر سکتے ہیں لیکن ایک کو تو اپنی سرداری چھن جانے کا خوف ہے اور دوسرے کو زکوٰۃ کی وصولی کے عہدے سے سبکدوش ہو جانے کا ڈر ہے مروان نے یہ سن کر کوڑا اٹھا کر حضرت ابو سعید کو مارنا چاہا ان دونوں بزرگوں نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے مروان سن حضرت ابو سعید نے سچ بیان فرمایا مسند احمد یہ حدیث ثابت ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فتح مکہ کے دن فرمایا ہجرت نہیں رہی ہاں جہاد اور نیت ہے جب تمہیں چلنے کو کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جایا کرو صحیح بخاری اور صحیح مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض صحابہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے اس سورت کا یہ مطلب بیان کیا کہ جب ہم پر اللہ تعالیٰ شہر اور قلعے فتح کر دے اور ہماری مدد فرمائے تو ہمیں حکم مل رہا ہے کہ ہم اس کی تعریفیں بیان کریں اس کا شکر کریں اور اس کی پاکیزگی بیان کریں نماز ادا کریں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں یہ مطلب بھی بالکل صحیح ہے اور یہ تفسیر بھی نہایت پیاری ہے دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ والے دن ضحی کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی گو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ضحی کی نماز تھی لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضحی کی نماز آپ ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے پھر اس دن جبکہ شغل اور کام بہت زیادہ تھا مسافرت تھی یہ کیسے پڑھی؟ آپ کی اقامت فتح کے موقعہ پر مکہ شریف میں رمضان شریف کے آخر تک انیس دن رہی آپ فرض نماز کو بھی قصر کرتے رہے روزہ بھی نہیں رکھا اور تمام لشکر جو تقریبا دس ہزار تھا اسی طرح کرتا رہا ان حقائق سے یہ بات صاف ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ نماز فتح کے شکریہ کی نماز تھی اسی لیے سردار لشکر امام وقت پر مستحب ہے کہ جب کوئی شہر فتح ہو تو داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز ادا کرے حضرت سعد بن ابی وقاص نے فتح مدائن والے دن ایسا ہی کیا تھا ان آٹھ رکعات کو دو دو رکعت کر کے ادا کرے گو بعض کا یہ قول بھی ہے کہ آٹھوں ایک ہی سلام سے پڑھ لے لیکن ابو داؤد کی حدیث صراحتا مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا ہے دوسری تفسیر بھی صحیح ہے جو ابن عباس وغیرہ نے کی ہے کہ اس میں آپ کو آپ کے وصال کی خبر دی گئی کہ جب آپ اپنی بستی مکہ فتح کرلیں جہاں سے ان کفار نے آپ کو نکل جانے پر مجبور کیا تھا اور آپ اپنی آنکھوں اپنی محنت کا پھل دیکھ لیں کہ فوجوں کی فوجیں آپ کے جھنڈے تلے آ جائیں جوق در جوق لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں تو ہماری طرف آنے کی اور ہم سے ملاقات کی تیاریوں میں لگ جاؤ سمجھ لو کہ جو کام ہمیں تم سے لینا تھا پورا ہو چکا اب آخرت کی طرف نگاہیں ڈالو جہاں آپ کے لیے بہت بہتری ہے اور اس دنیا سے بہت زیادہ بھلائی آپ کے لیے وہاں ہے وہیں آپ کی مہمانی تیار ہے اور مجھ جیسا میزبان ہے تم ان نشانات کو دیکھ کر بکثرت میری حمدو ثناء کرو اور توبہ استغفار میں لگ جاؤ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رکوع سجدے میں بہ کثرت سبحانک اللھم وبحمدک اللھم اغفرلی پڑھا کرتے تھے آپ قرآن کی اس آیت فسبح الخ پر عمل کرتے تھے اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں ان کلمات کا اکثر ورد کرتے تھے سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے لیے سب تعریفیں مختص ہیں میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف جھکتا ہوں اور فرمایا کرتے تھے کہ میرے رب نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب میں یہ علامت دیکھ لوں کہ مکہ فتح ہو گیا اور دین اسلام میں فوجیں کی فوجیں داخل ہونے لگیں تو میں ان کلمات کو بہ کثرت کہوں چنانچہ بحمد اللہ میں اسے دیکھ چکا لہذا اب اس وظیفے میں مشغول ہوں ( مسند احمد ) ابن جریر میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں بیٹھتے اٹھتے چلتے پھرتے آتے جاتے سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کرتے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کیا وجہ ہے تو آپ نے اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا مجھے حکم الٰہی یہی ہے کسی مجلس میں بیٹھیں پھر وہ مجلس برخاست ہو تو کیا پڑھنا چاہیے اسے ہم اپنی ایک مستقل تصنیف میں لکھ چکے ہیں مسند احمد میں ہے کہ جب یہ سورت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے اکثر اپنی نماز میں تلاوت کرتے اور رکوع میں تین مرتبہ یہ پڑھتے سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی انک انت التواب الرحیم فتح سے مراد یہاں فتح مکہ ہے اس پر اتفاق ہے عموما عرب قبائل اسی کے منتظر تھے کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آ جائیں اور مکہ ان کے زیر نگیں آ جائے تو پھر ان کے نبی ہونے میں ذرا سا بھی شبہ نہیں اب جبکہ اللہ نے اپنے حبیب کے ہاتھوں مکہ فتح کرا دیا تو یہ سب اسلام میں آ گئے اس کے بعد دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہو گیا اور ہر ایک قبیلے میں اسلام اپنا راج کرنے لگا فالحملد اللہ صحیح بخاری شریف میں بھی حضرت عمر بن سلمہ کا یہ مقولہ موجود ہے کہ مکہ فتح ہوتے ہی ہر قبیلے نے اسلام کی طرف سبقت کی ان سب کو اسی بات کا انتظار تھا اور کہتے تھے کہ انہیں اور ان کی قوم کو چھوڑو دیکھو اگر یہ نبی برحق ہیں تو اپنی قوم پر غالب آ جائیں گے اور مکہ پر ان کا جھنڈا نصب ہو جائیگا ، ہم نے غزوہ فتح مکہ کا پورا پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ اپنی سیرت کی کتاب میں لکھا ہے جو صاحب تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ اس کتاب کو دیکھ لیں فالحمد اللہ مسند احمد میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑوسی جب اپنے کسی سفر سے واپس آئے تو حضرت جابر ان سے ملاقات کرنے کے لیے گئے انہوں نے لوگوں کی پھوٹ اور ان کے اختلاف کا حال بیان کیا اور ان کی نو ایجاد بدعتوں کا تذکرہ کیا تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور روتے ہوئے فرمانے لگے کہ میں نے اللہ کے حبیب شافع روز جزاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگوں کی فوجوں کی فوجیں اللہ کے دین میں داخل ہوئیں لیکن عنقریب جماعتوں کی جماعتیں ان میں سے نکلنے بھی لگ جائیں گی اس سورت کی تفسیر ختم ہوئی فالحمدللہ علی احسانہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] فتح مکہ۔ مکہ پر چڑھائی کا سبب اور کیفیت :۔ فتح سے مراد کسی عام معرکہ کی فتح نہیں بلکہ اس سے مراد مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن قریش کا مرکز شہر مکہ ہے۔ تمام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ آیا مسلمان مکہ کو فتح کرسکیں گے یا نہیں ؟ اگر کرلیں تو اسلام سچا مذہب ہے ورنہ نہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اسلام لانے کو بھی فتح مکہ سے مشروط اور فتح مکہ تک موخر کر رکھا تھا۔ گویا فتح مکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک فیصلہ کن فتح تھی۔ اور خالصتاً اللہ کی مدد سے اور معجزانہ انداز سے واقع ہوئی تھی۔ جس میں مسلمانوں کو معمولی سے معرکہ کی بھی ضرورت پیش نہ آئی۔ مکہ پر چڑھائی کا فوری سبب قریش مکہ کی عہد شکنی تھی جو انہوں نے صلح حدیبیہ کی شرائط کو پس پشت ڈال کر اور اپنے حلیف قبیلہ بنو بکر کی علی الاعلان مدد کرکے کی تھی۔ اور جب بنوخزاعہ کی فریاد پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے سامنے کچھ شرائط پیش کیں تو قریشی نوجوانوں نے انہیں ٹھکرا دیا تھا۔ اسی دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتہائی خفیہ طریق سے مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کردی اور اپنے حلیف قبائل کو بھی خفیہ طور پر پیغام بھیج دیا تھا۔ - ابوسفیان کی گرفتاری :۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے روانہ ہوئے تو لشکر کی تعداد چار ہزار تھی۔ راستہ میں حلیف قبائل ملتے گئے اور مکہ پہنچنے تک دس ہزار کا جرار لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے قریب مرالظہران میں پڑاؤ ڈالا تو اس لشکر کو میلوں میں پھیلا دیا اور حکم دیا کہ آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کیے جائیں۔ دشمن یہ منظر دیکھ کر اس قدر مرعوب ہوگیا کہ اس میں مقابلہ کی سکت ہی نہ رہی۔ ابو سفیان اپنے دو ساتھیوں سمیت حالات کا جائزہ لینے نکلا ہی تھی کہ گرفتار ہوگیا۔ سیدنا عباس نے اسے اپنے گھوڑے کے پیچھے بٹھایا تاکہ بلاتاخیر اس کے لیے دربار نبوی سے امان کا پروانہ حاصل کرلیا جائے۔ سیدنا عمر کو خبر ہوئی تو وہ بھی فوراً دربار نبوی کو روانہ ہوئے تاکہ ابو سفیان کو دربار نبوی میں پہنچنے سے پہلے اور امان ملنے سے پیشتر ہی قتل کردیا جائے۔ اتفاق کی بات کہ سیدنا عباس پہلے پہنچ گئے اور ابو سفیان کی جان بچ گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے معاف کردیا اور سیدنا عباس سے کہا کہ اسے اپنے خیمہ میں لے جائیں۔ - آپ کا مسلمانوں کو کفار کے سامنے شان وشوکت کا مظاہرہ کرنے کا حکم :۔ دوسرے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو سفیان کو پہاڑی کے ایک بلند مقام پر کھڑا کیا اور اسلامی لشکر، جو قبائل کے لحاظ سے مختلف فوجی دستوں میں بٹا ہوا تھا، کو حکم دیا کہ ابو سفیان کے سامنے پوری شان و شوکت کے ساتھ گزرتے جائیں۔ اس نظارہ نے صرف ابو سفیان پر ہی نہیں، تمام کفار کے دلوں پر اسلام کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ مقابلہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا اور اس طرح عرب کا یہ مرکزی شہر بلامقابلہ اور بغیر کسی خون خرابہ کے فتح ہوگیا۔ - معافی کا اعلان :۔ فتح کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ان جانی دشمنوں کو بڑی فراخدلی کے ساتھ معاف کردیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمان ہوگئے بلکہ اہل مکہ کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ کافروں کے دلوں میں اس طرح رعب ڈال دینا اور مکہ کا اس طرح بلامقابلہ فتح ہوجانا بلاشبہ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) اذا جآء نصر اللہ والفتح …: ابن کثیر نے فرمایا کہ ” الفتح “ سے مراد یہاں فتح مکہ ہے، اس پر اتفاق ہے۔ عرب کے قبائل اسلام قبول کرنے کے لئے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آگیا تو بلاشبہ وہ نبی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں سے مکہ فتح فرما دیا تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد دو سال نہیں گزرے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہوگیا اور تمام قبائل میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اسلام کا اقرار نہ کرتا ہو۔ (الحمد للہ) بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں عمرہ بن سلمہ (رض) سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا، جب مکہ فتح ہوا تو ہر قوم نے چاہا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہو کر پہلے اسلام قبول کرلے اور تمام قبائل اپنے مسلمان ہونے کے لئے فتح مکہ کا انتظار کر رہغے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اسے اور اس کی قوم کو چھوڑ دو ، اگر یہ ان پر غالب آگیا تو بلاشبہ وہ نبی ہے۔ (دیکھیے بخاری، المغازی، باب : ٣٣٠٢)- (٢) ابن ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن عمر (رض) عنہمانے شیوخ بدر کی موجودگی میں مجھے بلوایا اور حاضرین سے پوچھا :” اللہ تعالیٰ کے فرمان :(اذا جآء نصر اللہ والفتح) کے متعلق تم کیا کہتے ہو ؟ “ تو ان میں سے بعض نے کہا کہ اس میں ہمیں حکم ہوا ہے کہ جب ہمیں فتح و نصرت حاصل ہو تو اللہ کی حمد اور استغفار کریں اور بعض خاموش رہے۔ عمر (رض) عنہمانے کہا : ” ابن عباس تم بھی یہی کہتے ہو ؟ “ میں نے کہا :” نہیں “ فرمایا :” تو تم کیا کہتے ہو ؟ “ میں ن یک ہا :” اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کا وقت ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اطلاع دی ہے، فرمایا :(اذا جآء نصر اللہ والفتح)” جب اللہ کی نصرت اور فتح آگئی۔ “ یہ (فتح و نصرت) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی علامت ہے، لہٰذا اب آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے استغفار کیجیے، یقیناً وہ تواب ہے۔ “ عمر (رض) عنہمانے فرمایا :” جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس سورت کے متعلق مجھے بھی یہی معلوم ہے۔ “ (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(فسبح بحمد ربک …): ٣٩٨٠)- (٣) حافظ ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ شیوخ بدر نے جو تفسیر کی ہے وہ بھی بہت خوب صورت مفہوم ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد آٹھ رکعات ادافرمائیں۔ اس لئے امیر لشکر کے لئے مستحب ہے کہ کوئی شہر فتح کرنے کے بعد اس میں داخل ہو تو آٹھ رکعات (نوافل) پڑھے۔ سعد بن ابی وقاص (رض) عنہمانے مدائن فتح کیا تو ایسے ہی کیا تھا۔ البتہ عمر بن خطاب اور ابن عباس (رض) عنہمانے جو مفہوم سمجھا ہے کہ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی موت کی اطلاع دی گئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا کام مکمل ہوچکا، اب آپ کو ہمارے پاس آنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی سمجھا، اس لئے اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسبیح و تحمید اور استغفار کثرت سے کرنے لگے۔- (٤) اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے سے بھی زیادہ آخرت کی تیاری شروع کردی اور زیادہ سے زیادہ تسبیح و تحمید اور استغفار کرنے لگے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ” اذا جآء نصر اللہ والفتح “ نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی نماز نہیں پڑھی جس میں یہ نہ پڑھا ہو :(سبحانک ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی ) (بخاری، التفسیر، سورة (اذا جاء نصر اللہ): ٣٨٦٨)” تو (ہر عیب سے) پاک ہے، اے ہمارے پروردگار ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ مجھے بخش دے۔ “ بخاری کی اس سے بعد والی روایت بھی عائشہ (رض) ہی سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع اور سجدے میں کثرت سے یہ دعاپ ڑھتے ھتے :(سبحانک اللھم ربنا وبحمدک، اللھم اغفرلی) (بخاری، التفسیر، سورة (اذا جاء نصر اللہ): ٣٨٦٨)” اے ہمارے اللہ اے ہمارے پروردگار تو (ہرعیب سے) پاک ہے، ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ م جھے بخش دے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا قرآن پر عمل کرتے ہوئے پڑھتے تھے۔- (٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من جلس فی مجلس فکثر فیہ لغطہ فقال قبل ان یقوم من مجلسہ ذلک : سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک الا غفرلہ ما کان فی مجلسہ ذلک) (ترمذی، الدعوات، باب مایوقل اذا قام من مجلسہ : ٣٣٣٣، وقال الالبانی صحیح)” جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں شور و غل زیادہ کر بیٹھے، پھر اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ پڑھ لے تو اس مجلس میں اس سے جو کچھ ہوا وہ معاف کردیا جاتا ہے۔ (سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک)” اے اللہ تو پاک ہے اور تیری حمد کے ساتھ (ہم تیری تعریف کرتے ہیں) ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ، میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف کرتا ہوں۔ “- (٦)” انہ کان تواباً “ میں ” کان “ استمرار کے لئے ہے، سالئے ترجمہ کیا لیا ہے :” یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ “- عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب ( سورة شعراء کی ) آیت :(وانذر عشیرتک الاقربین) (اے نبی اپنے سے قریبی خاندان والوں کو ڈرا) اتری تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پر چڑھے اور آواز دی :(یا نبی فھر یا بنی عدی لیطون قریش حتی اجتمعوا، فجعل الرجل اذا لم یستطع ان یخرج ارسل رسولاً لینظر ماھو، فجاء ابولھب و قریش فقال ارایتکم لو اخبرتکم ان خیلاً بالوادی ترید ان تغیر علیکم، اکنتم مصدقی ؟ قالوا نعم، ما جربنا علیک الا صدقاً ، قال فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید، فقال ابو لھب تبالک سائر الیوم ، الھذا جمعتنا ؟ فنزلت :(تبت یدا ابی لھب و تب ، مااغنی عنہ مالہ و ما کسب) (بخاری، التفسیر، باب :(وانذر عشیرتک الافربین…): ٣٨٨٠)” اے بنی فہر اے بنی عدی “ اور قریش کے قبیلوں کے نام لے لے کر پکارا، یہاں تک کہ وہ جمع ہوگئے۔ کوئی آدمی خود نہ آسکا تو اس نے کسی کو بھیج دیا تاکہ دیکھے کہ کیا بات ہے۔ ابولہب اور قریش کے دوسرے لوگ آگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں اطلاع دوں کہ وادی میں ایک لشکر تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ “ انہوں نے کہا :” ہاں ہم نحے آپ سے سچ کے علاوہ کبھی کوئی اور تجربہ نہیں کیا (یعنی آپ کو ہمیشہ سچا ہی پایا۔ ) “ آپ نے فرمایا :” تو پھر میں تمہیں ایک سخت عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ “ ابولہب کہنے لگا :” سارا دن تیرے لئے ہلاکت ہوا تو نے ہمیں اسی لئے جمع کیا ہے ؟ “ تو یہ سورت اتری :(تبت یدآ ابی لھب و تب ، مااغنی عنہ مالہ وما کسب)” ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا ۔ نہ اس کے کام اس کا مال آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خدا کی مدد اور (مکہ کی) فتح (ع اپنے آثار کے) آپہنچے اور) اس فتح پر مرتب ہونے والے آثار یہ ہیں کہ) آپ لوگوں کو اللہ کے دین (اسلام) میں جوق جوق داخل ہوتا دیکھ لیں، تو (اس وقت سمجھئے کہ مقصود دنیا میں رہنے کا اور آپ کی بعثت کا جو تکمیل دین تھا وہ پورا ہوچکا اور اب سفر آخرت قریب ہے اس کے لئے تیاری کیجئے اور) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیجئے اور اس سے مغفرت کی درخواست کیجئے (یعنی ایسے امور جو خلاف اولیٰ واقع ہوگئے ان سے مغفرت مانگئے) وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔- معارف و مسائل - یہ سورة با جماع مدنی ہے اور اس کا نام سورة التودیع بھی ہے، تو دیع کے معنی کسی کو رخصت کرنے کے ہیں اس سورة میں چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات قریب ہونے کی طرف اشارہ ہے اس لئے اس کو سورة التودیع بھی کہا گیا ہے۔- قرآن مجید کی آخری سورة اور آخری آیات :۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ سورة نصر قرآن کی آخری سورة ہے (قرطبی) مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد کوئی مکمل سورة نازل نہیں ہوئی بعض آیات کا نزول جو اس کے بعد ہونا بعض روایات میں ہے وہ اس کے منافی نہیں، جیسا کہ سورة فاتحہ کو قرآن کی سب سے پہلی سورة اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ مکمل سورة سب سے پہلے فاتحہ نازل ہوئی ہے۔ سورة اقراء اور مدثر وغیرہ کی چند آیات کا اس سے پہلے نازل ہونا اس کے منافی نہیں۔- حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ یہ سورة حجتہ الوداع میں نازل ہوئی اس کے بعد آیت الیوم اکملت لکم دینکم نازل ہوئی، ان دونوں کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا میں صرف اسی روز رہے (اسی روز کے بعد وفات ہوگئی) ان دونوں کے بعد آیت کلالہ نازل ہوئی جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر شریف کے کل پچاس دن رہ گئے تھے اس کے بعد آیت لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم الآیہ نازل ہوئی جس کے بعد عمر شریف کے کل پینتیس روز باقی تھے اس کے بعد آیت اتقوایوماً ترجعون فیہ الی اللہ نازل ہوئی جس کے بعد صرف اکیس روز اور مقاتل کی روایت میں صرف سات روز کے بعد وفات ہوگئی۔ (قرطبی) - اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس آیت اذا جاء نصر اللہ والفتح میں فتح سے فتح مکہ مراد ہے اور اس میں اختلاف ہے کہ یہ سورة فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہے یا بعد میں لفظ اذا جاء سے بظاہر قبل فتح نازل ہونا معلم ہوتا ہے اور روح المعانی میں بحر محیط سے ایک روایت بھی اس کے موافق نقل کی ہے جس میں اس سورة کا نزول غزوہ خیبر سے لوٹنے کے وقت بیان کیا گیا اور خیبر کی فتح فتح مکہ سے مقدم ہونا معلوم و معروف ہے اور روح المعانی میں بسند عبدابن حمید حضرت قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورة کے نزول کے بعد دو سال زندہ رہے اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ اس کا نزول فتح مکہ سے پہلے ہوا کیونکہ فتح مکہ سے وفات تک دو سال سے کم مدت ہے۔ فتح مکہ رمضان 8 ہجری میں ہوئی اور وفات ربیع الاول 11 ہجری میں اور جن روایات میں اس کا نزول فتح مکہ یا حجتہ الوداع میں نازل ہونا بیان کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سورة پڑھی ہوگی جس سے لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ابھی نازل ہوئی ہے۔ مزید تحقیق اس کی بیان القرآن میں مذکورہ ہے۔- متعدد احادیث مرفوعہ اور آثار صحابہ میں ہے کہ اس سورة میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا وقت قریب آجانے کی طرف اشارہ ہے کہ اب آپ کی بعثت اور دنیا میں قیام کا کام پورا ہوچکا اب تسبیح و استغفار میں لگ جایئے۔ مقاتل کی روایت میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آپ نے صحابہ کرام کے ممجع کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی جن میں حضرت ابوبکر، عمر اور سعد بن ابی وقاص وغیرہ موجود تھے سب اس کو سنکر خوش ہوئے کہ اس میں فتح مکہ کی خوشخبری ہے مگر حضرت عباس رونے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ رونے کا کیا سبب ہے تو حضرت عباس نے عرض کیا کہ اس میں تو آپ کی وفات کی خبر مضمر ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تصدیق فرمائی۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے یہی مضمون روایت کیا ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ جب اس کو حضرت عمر نے سنا تو فرمایا کہ اس سورت کے مفہوم سے میں بھی یہی سمجھتا ہوں (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح، قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ۝ ١ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

فتح کی خوشی میں یاد الٰہی - قول باری ہے (اذا جآء نصر اللہ والفتح ۔ جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے) روایت ہے کہ اس سے فتح مکہ مراد ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ مکہ بزور شمشیر فتح ہوا تھا۔ کیونکہ لفظ کا اطلاق اس کا مقتضی ہے۔ فتح کے لفظ کو صلحاً فتح کی طرف صرف اس صورت میں موڑا جائے گا جبکہ اس کے ساتھ کسی قید کا ذکر کیا جائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(1 ۔ 2) جب دشمنوں کے خلاف اللہ کی مدد آپہنچے اور مکہ فتح ہوجائے اور یمن والے اسلام میں جماعت در جماعت آنے لگیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النصر حاشیہ نمبر : 1 فتح سے مراد کسی ایک معرکے میں فتح نہیں ، بلکہ وہ فیصلہ کن فتح ہے جس کے بعد ملک میں کوئی طاقت اسلام سے ٹکر لینے کے قابل باقی نہ رہے اور یہ امر واضح ہوجائے کہ اب عرب میں اسی دین کو غالب ہوکر رہنا ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد فتح مکہ لی ہے ۔ لیکن فتح مکہ 8ھ میں ہوئی ہے اور اس سورہ کا نزول 10 ھ کے آخر میں ہوا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت سراء بنت بنہان کی ان روایات سے معلوم ہوتا ہے جو ہم نے دیباچے میں نقل کی ہیں ۔ علاوہ بریں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول بھی اس تفسیر کے خلاف پڑتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی سب سے آخری سورۃ ہے ۔ کیونکہ اگر فتح سے مراد فتح مکہ ہو تو پوری سورہ توبہ اس کے بعد نازل ہوئی تھی ، پھر یہ سورۃ آخری سورۃ کیسے ہوسکتی ہے ۔ بلا شبہ فتح مکہ اس لحاظ سے فیصلہ کن تھی کہ اس نے مشرکین عرب کی ہمتیں پست کردی تھیں ، مگر اس کے بعد بھی ان میں کافی دم خم باقی تھا ۔ طائف اور حنین کے معرکے اس کے بعد ہی پیش آئے اور عرب پر اسلام کا غلبہ مکمل ہونے میں تقریبا دو سال صرف ہوئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: اِس سے مراد مکہ مکرَّمہ کی فتح ہے، یعنی جب مکہ مکرَّمہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوجائے۔ زیادہ تر مفسرین کے مطابق یہ سورت فتحِ مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس میں ایک طرف تو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ مکہ مکرَّمہ فتح ہوجائے گا اور اُس کے بعد عرب کے لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے، چنانچہ واقعہ بھی یہی ہوا، اور دُوسری طرف چونکہ اسلام کے پھیل جانے سے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے دُنیا میں تشریف لانے کا مقصد حاصل ہوجائے گا، اس لئے آپ کو دُنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کے لئے حمد، تسبیح اور استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ جب یہ سورت نازل ہوئی تو اس میں دی ہوئی خوشخبری کی وجہ سے بہت سے صحابہؓ خوش ہوئے، لیکن حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ اسے سن کر رونے لگے، اور وجہ یہ بیان کی کہ اِس سورت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دُنیا سے تشریف لے جانے کا وقت قریب آ رہا ہے۔