2۔ 1 اللہ کی مدد کا مطلب، اسلام اور مسلمانوں کا کفر اور کافروں پر غلبہ ہے، اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مولد و مسکن تھا، لیکن کافروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام کو وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ چناچہ جب 8 ہجری میں یہ مکہ فتح ہوگیا تو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے، جب کہ اس سے قبل ایک ایک دو دو فرد مسلمان ہوتے تھے فتح مکہ سو لوگوں پر یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور دین اسلام دین حق ہے، جس کے بغیر اب نجات اخروی ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب ایسا ہو تو۔
[٢] فتح مکہ اور مشرک قبائل کا جوق درجوق اسلام میں داخل ہونا :۔ عرب قبائل تو پہلے ہی اس بات کے انتظار میں تھے کہ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ جب مکہ فتح ہوگیا تو یہ قبیلے دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ مکہ رمضان ٨ ھ میں فتح ہوا تھا۔ ٩ ھ میں اس قدر وفود اسلام لانے کے لیے مدینہ حاضر ہوئے کہ اس سال کا نام ہی عام الوفود پڑگیا۔ ہر قبیلے کے چند معتبر لوگ مدینہ جاتے، اسلام کی تعلیم حاصل کرتے پھر واپس آکر اپنے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگے۔ ٩ ھ میں حج کے موقع پر اعلان برات کیا گیا جس کا تفصیلی ذکر سورة توبہ کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔ اس اعلان کی رو سے اب مشرکین عرب کے لیے دو ہی راستے رہ گئے تھے یا تو وہ اسلام میں داخل ہوجائیں یا پھر جزیرہ عرب سے باہر نکل جائیں۔ چناچہ مشرکین عرب نے بھی پہلی ہی بات قبول کی اور اسلام لے آئے۔ اس طرح ١٠ ھ میں سر زمین عرب کفر و شرک سے پاک ہوگئی۔
ورایت الناس فتح مکہ سے پہلے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور اسلام کی حقانیت پر تقریباً یقین ہوچکا تھا مگر اسلام میں داخل ہونے سے ابھی تک قریش کی مخالفت کے خوف سے یا کسی تذبذب کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔ فتح مکہ نے وہ رکاوٹ دور کردی تو فوج فوج ہو کر یہ لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یمن سے سات سو نفر مسلمان ہو کر پہنچے جو راستہ میں اذانیں دیتے اور قرآن پڑھتے ہوئے آئے۔ اسی طرح عام عرب فوج فوج ہو کر داخل اسلام ہوئے۔
وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللہِ اَفْوَاجًا ٢ ۙ- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- فوج - الفَوْجُ : الجماعة المارّة المسرعة، وجمعه أَفْوَاجٌ. قال تعالی: كُلَّما أُلْقِيَ فِيها فَوْجٌ- [ الملک 8] ، هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ [ ص 59] ، فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجاً [ النصر 2] .- ( ف و ج ) الفوج کے معنی تیزی سے گزر نیوالی جماعت کے ہیں اس کی جمع افواج ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أُلْقِيَ فِيها فَوْجٌ [ الملک 8] جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی ۔ هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ [ ص 59] ایک فوج ( ہے تماہرے ساتھ ) داخل ہوگی ۔ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجاً [ النصر 2] غول کے غول خدا کے دین میں
سورة النصر حاشیہ نمبر : 2 یعنی وہ زمانہ رخصت ہوجائے جب ایک ایک دو دو کر کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے اور وہ وقت آجائے جب پورے پورے قبیلے ، اور بڑے بڑے علاقوں کے باشندے کسی جنگ اور کسی مزاحمت کے بغیر از خود مسلمان ہونے لگیں ۔ یہ کیفیت 9 ھ کے آغاز سے رونما ہونی شروع ہوئی جس کی وجہ سے اس سال کو سال وفود کہا جاتا ہے ۔ عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور اسلام قبول کر کے آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ 10 ھ میں جب حضور حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے اس وقت پورا عرب اسلام کے زیر نگیں ہوچکا تھا اور ملک میں کوئی مشرک باقی نہ رہا تھا ۔