3۔ 1 یعنی یہ سمجھ لے کہ تبلیغ رسالت اور احقاق حق کا فرض، جو تیرے ذمہ تھا، پورا ہوگیا اور اب تیرا دنیا سے کوچ کرنے کا مرحلہ قریب آگیا ہے، اس لئے حمد و تسبیح الٰہی اور استفغار کا خوب اہتمام کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کے آخری ایام میں ان چیزوں کا اہتمام کثرت سے کرنا چاہئے۔
[٣] آپ کی وفات کی طرف اشارہ :۔ یہ سورت سب سے آخری نازل ہونے والی مکمل سورت ہے۔ (مسلم، کتاب التفسیر) اور یہ ١٠ ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں نازل ہوئی۔ اس کے بعد چند متفرق آیات نازل ہوئیں جیسے (الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ۔۔ ) (٣: ٥) وغیرہ مگر مکمل کوئی سورت نازل نہیں ہوئی اور یہ آیت بھی اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ اس سورت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمجھ لیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عنقریب اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ چناچہ اسی سال حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ کہہ کر کہ : شاید آئندہ سال تم میں موجود نہ ہوں گا اس بات کی طرف واضح اشارہ کردیا تھا، اور سمجھدار صحابہ بھی اس سورت سے یہی کچھ سمجھتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر مجھے (اپنی مجلس مشاورت میں) بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ بلالیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ کو یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگے : آپ اسے ہمارے ساتھ بلالیتے ہیں جبکہ ہمارے بیٹے اس جیسے ہیں سیدنا عمر نے جواب دیا : اس کی وجہ تم جانتے ہو چناچہ ایک دن سیدنا عمر نے مجھے بھی بزرگ صحابہ کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دن آپ نے مجھے صرف اس لیے بلایا کہ انہیں کچھ دکھائیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ : اللہ تعالیٰ کے قول (اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ) نصر "1) سے تم کیا سمجھتے ہو ؟ بعض لوگوں نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں فتح حاصل ہو تو ہمیں چاہیے کہ اللہ کی تعریف کریں اور اس سے بخشش چاہیں اور بعض خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ پھر مجھے پوچھا گیا : کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے ؟ میں نے کہا : نہیں کہنے لگے : پھر تم کیا کہتے ہو ؟ میں نے کہا : اس سورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی طرف اشارہ ہے جس سے اللہ نے اپنے رسول کو آگاہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب اللہ کی مدد آپہنچی اور مکہ فتح ہوگیا اور یہی تمہاری وفات کی علامت ہے۔ سو اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی تعریف کیجیے، اس سے بخشش مانگیے وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ سیدنا عمر کہنے لگے : میں بھی اس سے وہی کچھ سمجھا ہوں جو تم کہہ رہے ہو (بخاری، کتاب التفسیر) - اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے اتنے بڑے احسانات کے شکریہ کے طور پر اب پہلے سے زیادہ اللہ کی تسبیح وتحمید کیا کریں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی بھر کی کاوشوں میں جو کوئی لغزش رہ گئی ہو تو اس کے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ چناچہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب سورت نصر نازل ہوئی تو اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع اور سجدہ میں اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة النصر)
جب موت قریب محسوس ہو تو تسبیح و استغفار کی کثرت چاہئے :۔ فسبح بحمد ربک واستغفرہ حضرت صدیقہ ائشہ فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی نماز پڑھتے تو یہ دعا کرتے تھے سبحانک ربنا وبحمدک الھم اغفرلی (٤ واہ البخاری) - حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد اٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے ہر وقت میں یہ دعا پڑھتے تھے، سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ اور فرماتے تھے کہ مجھے اس کا حکم کیا گیا اور دلیل میں اذا جاء نصر اللہ کی تلاوت فرماتے تھے۔- حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبادت میں بڑا مجاہدہ فرمایا یہاں تک کہ آپ کے پاؤں ورم کر گئے۔ (قرطبی) - تمت سورة النصر بحمد اللہ تعالیٰ
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہُ ٠ ۭ ؔ اِنَّہٗ كَانَ تَوَّابًا ٣ ۧ- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔
قول باری ہے (فسبح بحمد ربک واستغفرہ۔ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو) ابوالضحیٰ نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع اور سجود میں کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ ” سبحانک اللھم وبحمدک اللھم اغفرلی “ آپ یہ کہہ کر قرآن کے درج بالا حکم پر حمل کرتے تھے۔- اعمش نے مسلم سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی وفات سے پہلے کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ ” سبحانک اللھم وبحمدک استفرک واتوب الیک۔ “- حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نئے کلمات کیسے ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار کرلیے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری امت کے سلسلے میں میرے لئے ایک نشانی مقرر کردی گئی ہے کہ جب میں یہ نشانی دیکھ لوں تو یہ کلمات کہوں۔ وہ نشانی یہ ہے (اذا جاء نصر اللہ والفتح) تا آخر سورت۔
تو اس شکریہ میں آپ اپنے پروردگار کی خوب عبادت کیجیے چناچہ اس صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم آخرت کے سفر سے مطلع کردیا گیا کہ اب وقت قریب آگیا۔- شان نزول : اذا جاء نصر اللہ والفتح الخ - عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں بواسطہ معمر زہری سے روایت کیا ہے کہ جب فتح مکہ کے سال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تو حضرت خالد بن ولید کو ایک دستے کے ساتھ مکہ کے نشیبی حصہ سے بھیجا چناچہ انہوں نے قریش کی صفیں کاٹ ڈالیں پھر ان کو ہتھیار کاٹ ڈالیں پھر ان کو ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا چناچہ انہوں نے کافروں پر ہتھیار اٹھائے تو وہ سب میں گھس گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٣ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ” تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے ‘ اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ “- اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ۔ ” یقیناوہ بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ “- یعنی ابھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت و تبلیغ اور فریضہ رسالت کے سلسلے میں بہت سی مشقتیں اٹھانی ہیں اور جنگ و قتال کے مراحل سے گزرنا ہے ‘ لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں یعنی اللہ کا دین غالب ہوجائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمہ وقت ‘ ہمہ تن اپنے رب کی تسبیح وتحمید میں مشغول ہوجایئے گا۔ نوٹ کیجیے سورة الانشراح کی آخری آیات میں بھی اسی اسلوب و انداز میں بالکل ایسا ہی حکم دیا گیا ہے۔
سورة النصر حاشیہ نمبر : 3 حمد سے مراد اللہ تعالی کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اس کا شکر ادا کرنا بھی ۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالی کو ہر لحاظ سے پاک اور منزہ قرار دینا ہے ۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے رب کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو ، اس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے ، بلکہ اس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو ، اس پر اس کا شکر ادا کرو ، اور قلب و زبان سے اس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے ۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور منزہ قرار دو کہ اس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اس پر منحصر تھا ۔ اس کے برعکس تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی اللہ کی تائید و نصرت پر منحصر تھی ، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا ۔ اس کے علاوہ تسبیح ، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے ۔ جب کوئی محیر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اس سے صادر ہوسکتا ۔ سورة النصر حاشیہ نمبر : 4 یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اس نے تمہارے سپرد کی تھی اس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے ۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے ۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو ، اس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں ، اس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے رب کا جو حق تھا وہ میں نے پورا کا پورا ادا کردیا ہے ، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کرسکا ، اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے ۔ یہ ادب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ، تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اس غرے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اس پر تھا وہ اس نے ادا کردیا ہے ۔ اللہ کا حق اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اسے ادا کرسکے ۔ اللہ تعالی کا یہ فرمان مسلمان کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمت دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں ، بلکہ اپنی جان راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔ اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو ، اسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخر و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمد و تسبیح اور توبہ و استغفار کریں ۔
2: اگرچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہر طرح کے گناہوں سے بالکل پاک اور معصوم تھے، اور اگر آپ کی شان کے لحاظ سے کوئی بھول چوک ہوئی بھی تو سورۂ فتح (۲۸:۲) میں اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی معاف کرنے کا اعلان فردیا تھا، اس کے باوجودآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو استغفار کی تلقین امت کو یہ بتانے کے لئے کی جارہی ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے استغفار کرنے کے لئے کہا جارہا ہے تو دوسرے مسلمانوں کو تو اور زیادہ اہتمام کے ساتھ استغفار کرنا چاہئے۔