Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] ابو لہب کنیت ہونے کی دنیا میں مناسبت یہ تھی کہ اس کا رنگ سیب کی طرح لال تھا اور آخرت میں مناسبت یہ ہوگی کہ شعلوں والی آگ میں پھینکا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) سیصلی ناراً ذات لھب …:” امراتہ “ کا عطف ” سیصلی “ ابو لہب کی طرف لوٹنے والی ضمیر پر ہے، یعنی وہ اور اس کی بیوی شعلے مارتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ ابولہب کی بیوی ام جمیل کا نام ارویٰ بنت حرب بن امیہ تھا، یہ قریش میں اونچے نسب والی عورت تھی، ابوسفیان بن حرب (رض) کی بہن اور معاویہ (رض) کی پھوپھی تھی اور اپنے خاوند کی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت عداوت رکھتی تھی۔ (ابن کثیر) - (٢) ” حمالۃ الخطب “” امراتہ “ سے حال ہے، یعنی اس کی بیوی ایندھن اٹھائے ہوئے آگ میں داخل ہوگی۔ مفسرین نے اس کے تین معانی بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ وہ گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے جہنم میں داخل ہوگی، جو جہنم کو بھڑکانے کے لئے ایندھن ہے، دوسرا یہ کہ وہ لوگوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف عداوت کی آگ بھڑکاتی رہتی ہے اور تیسرا یہ کہ اپنی پیٹھ پر ایندھن لا کر آپ کی راہ میں کانٹے بچھاتی رہتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سیصلے نارا ذات لھب، یعنی قیامت کے بعد یا مرنے کے فوراً بعد قبر ہی میں یہ ایک شعلہ زن آگ میں داخل ہوگا۔ اس کے نام کی مناسبت سے آگ کیساتھ ذات لھب کی صفت میں خاص بلاغت ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَيَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ۝ ٣ ۚۖ- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - لهب - اللَّهَبُ : اضطرام النار . قال تعالی: لا ظَلِيلٍ وَلا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ [ المرسلات 31] ، سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ [ المسد 3] . واللَّهِيبُ : ما يبدو من اشتعال النار، ويقال للدّخان وللغبار : لَهَبٌ ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] فقد قال بعض المفسّرين :- إنه لم يقصد بذلک مقصد کنيته التي اشتهر بها، وإنما قصد إلى إثبات النار له، وأنه من أهلها، وسمّاه بذلک کما يسمّى المثیر للحرب والمباشر لها : أبا الحرب، وأخا الحرب . وفرس مُلْهِبٌ: شدید العدو تشبيها بالنّار المُلْتَهَبَةِ ، والْأُلْهُوبُ من ذلك، وهو العدو الشّديد، ويستعمل اللُّهَابُ في الحرّ الذي ينال العطشانَ.- ( ل ھ ب ) اللھب ۔ آگ کا شعلہ ۔ قرآن میں ہے : وَلا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ [ المرسلات 31] اور نہ لپٹ سے بچائیگا ۔ سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ [ المسد 3] وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں جلے گا ۔ اللھیب ۔ شعلہ ۔ اور لھب کا لفظ دھوئیں اور غبار پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو ۔ میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں ابولہب کے لفظ سے اس کی کنیت ۔۔۔ مراد نہیں ہے ۔ جس کے ساتھ وہ مشہور تھا ۔ بلکہ اس سے اس کے دوزخی ہونے کیطرف اشارہ کرنا مقصود ہے لہذا یہاں اس نام سے اسے موسوم کرنا ایسے ہی ہے ۔ جیسا کہ لڑائی بھڑکانے والے اور ہمیشہ لڑنے والے کو ابوالحرب یا اخرالحرب کہا جاتا ہے ۔ فرس ملھب برق رفتار گھوڑا گویا وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے ۔ اسی سے الھرب ہے جس کے معنی سخت دوڑ کے ہیں ۔ اللھاب ۔ پیاس کی شدت ، اندورنی سوزش جو پیاسی کی وجہ سے محسوس ہ وتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ابولہب اور اس کی بیوی کفر پر مریں گے یہ پیش گوئی بھی دلیل نبوت ہے - قول باری ہے (سیصلی نارا ذات لھب ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا۔ ) یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ کیونکہ اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ ابولہب اور اس کی بیوی کفر پر ہی مریں گے اور مسلمان ہونا انہیں نصیب نہیں ہوگا۔- چنانچہ ایسا ہی ہوا جس کی خبر دی گی تھی۔ ابولہب اور اس کی بیوی نے یہ سورت سن لی تھی اور اس کی بیوی نے کہا تھا کہ ” محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے ہماری ہجو کی ہے۔ “ اگر یہ دونوں کہتے کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور اس کا اظہار کرتے اگرچہ انہیں اس کا اعتقاد نہ ہوتا تو بھی اس صورت میں وہ اس قول باری کی تردید کرسکتے تھے اور پھر مشرکین اس قول کی گرفت کرلیتے۔- لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ دونوں مسلمان نہیں ہوں گے نہ نو اسلام کے اظہار کے ذریعے اور نہ ہی اسلام کے اعتقاد کے ذریعے اس لئے اس نے اس بات کی خبر دے دی اور جس طرح خبر دی گئی تھی حقیقت کے لحاظ سے بھی وہی کچھ ہوا۔- اس کی نظیرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو شخصوں سے کہتے ” آج تم دونوں باتیں نہیں کرسکو گے۔ “ پھر وہ دونوں باتیں نہ کرسکتے جبکہ رکاوٹ بھی کوئی نہ ہوتی اور آلہ تکلم یعنی زبان بھی صحیح سالم ہوتی تو یہ چیز آپ کی نبوت کی صحت کی نشانی بن جاتی۔- اللہ تعالیٰ نے ابولہب کا ذکر اس کی کنیت کے ساتھ کیا جب کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر نیز زید کا ذکر ناموں کے ساتھ کیا۔ کنیتوں کے ساتھ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابولہب کا نام عبدالعزیٰ تھا اور اس نام کے ساتھ اس کا ذکر مناسب نہیں تھا اس لئے نام کی بجائے کنیت کے ساتھ اس کا ذکر ہوا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ ۔ ” عنقریب وہ جھونکا جائے گا بھڑکتی ہوئی آگ میں۔ “- لَہَبکے معنی آگ کے شعلے اور انگارے کے ہیں۔ اس شخص کی کنیت (ابولہب) کے حوالے سے یہاں اس لفظ کا استعمال ” صنعت ِ لفظی “ کی بہترین مثال ہے۔ اس کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا ‘ لیکن اپنی سرخ وسفید رنگت کی وجہ سے ” ابولہب “ (شعلہ رو) کی کنیت سے مشہور تھا۔ ظاہری اعتبار سے ابولہب بہت وجیہہ اور خوبصورت شخص تھا ۔ اس پس منظر میں اس آیت کے الفاظ گویا یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اس شخص کو سرخ وسفید رنگت اور خوبصورت شکل و صورت بھی ہم نے عطا کی ہے اور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں بھی اسے ہم ہی جھونکیں گے۔ - ] قرآن مجید کا یہ واحد مقام ہے جہاں دشمنانِ اسلام میں سے کسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے ‘ حالانکہ مکہ ‘ مدینہ اور دیگر قبائل عرب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں اور بدخواہوں کی کمی نہ تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابولہب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حقیقی چچا اور قریب ترین ہمسایہ ہونے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور اس شخص نے اسلام کی دشمنی اور کفر کی محبت میں صلہ رحمی اور خاندانی حمیت جیسی عرب روایات کا بھی کچھ پاس نہ کیا۔ [

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: بھڑکتے شعلے کو عربی میں ’’لہب‘‘ کہتے ہیں، ابو لہب بھی اُس کو اس لئے کہتے تھے کہ اُس کا چہرہ شعلے کی طرح سرخ تھا۔ قرآنِ کریم نے یہاں دوزخ کے شعلوں کے لئے یہی لفظ استعمال کرکے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ ُاس کے نام میں بھی شعلے کا مفہوم داخل ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورت کا نام بھی سورۃ اللہب ہے۔