Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی جہنم میں یہ اپنے خاوند کی آگ پر لکڑیاں لا لا کر ڈالے گی، تاکہ مزید آگ بھڑکے۔ یہ اللہ کی طرف سے ہوگا۔ یعنی جس طرح یہ دنیا میں اپنے خاوند کی، اس کے کفر وعناد میں مددگار تھی آخرت میں بھی عذاب میں اس کی مددگار ہوگی۔ (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ وہ کانٹے دار جھاڑیاں ڈھو ڈھو کر لاتی اور نبی کریم کے راستے میں لا کر بچھا دیتی تھی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اس کی چغل خوری کی عادت کی طرف اشارہ ہے۔ چغل خوری کے لیے یہ عربی محاورہ ہے۔ یہ کفار قریش کے پاس جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غیبت کرتی اور انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت پر اکساتی تھی۔ (فتح الباری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] ابو لہب کی بیوی کا تعارف :۔ ابو لہب کی بیوی کا نام آرویٰ اور کنیت ام جمیل تھی۔ ابو سفیان بن حرب بن امیہ کی بہن تھی۔ جو ابو جہل کی موت کے بعد رئیس قریش اور سپہ سالار افواج بنا تھا۔ رسول دشمنی میں یہ عورت بھی اپنے خاوند سے کسی صورت کم نہ تھی۔ جنگل سے خار دار جھاڑ جھنکار اٹھا لاتی اور رات کے اندھیرے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے آگے ڈال دیتی تاکہ جب آپ صبح بیت اللہ کو جائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں میں کانٹے چبھ جائیں۔ نیز آپ کے بال بچے بھی زخمی ہوں۔ خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز عورت تھی۔ جب سورة لہب نازل ہوئی تو یہ مٹھی بھر کنکریاں لے کر بیت اللہ کو چل کھڑی ہوئی۔ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجو کی صورت میں سورة لہب کا جواب دے اور کنکریاں مار کر اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرے۔ اتفاق کی بات کہ اسے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نظر ہی نہ آئے۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سے کہنے لگی : تمہارا ساتھی کدھر ہے ؟ سنا ہے وہ میری ہجو کرتا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے جواب دیا کہ اس نے تو کوئی ہجو نہیں کی۔ (یعنی اگر ہجو کی ہے تو وہ اللہ نے کی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کی) یہ جواب سن کر وہ واپس چلی آئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

امر اتہ حما لة الحطب، جس طرح ابولہب کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت غیظ اور دشمنی تھی اس کی بیوی بھی اس دشمنی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذارسانی میں اس کی مدد کرتی تھی۔ قرآن کریم کی اس آیت نے بتلایا کہ یہ بدبخت بھی اپنے شوہر کے ساتھ جہنم کی آگ میں جائے گی اس کے ساتھ اس کا ایک حال یہ بتلایا کہ وہ حمالة الحطب ہے۔ جس کے لفظی معنے ہیں سوختہ کی لکڑیاں لادنے والی۔ یعنی آگ لگانیوالی، عرب کے محاورات میں چغل خوری کرنے والے کو حمال الحطب کہا جاتا تھا کہ جیسے کوئی سوختہ کی لکڑیاں جمع کر کے آگ لگانے کا سامان کرتا ہے چغل خوری کا عمل بھی ایسا ہی ہے کہ وہ اپنی چغل خوری کے ذریعہ افراد اور خاندانوں میں آگ بھڑکا دیتا ہے یہ عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی ایذا رسائی کے لئے چغل خوری کا کام بھی کرتی تھی۔ اس آیت میں ابولہب کی بیوی کو حمالة الحطب کہنے کی تفسیر حضرت ابن عباس مجاہد، عکرمہ وغیرہ ایک جماعت مفسرین نے یہی کی ہے کہ یہ چغل خوری کرنے وای تھی، اور ابن زید، ضحاک وغیرہ مفسرین نے اس کو اپنے حقیقی معنے میں رکھا ہے جس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ یہ عورت جنگل سے خاردار لکڑیاں جمع کر کے لاتی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے میں بچھا دیتی تھی تاکہ آپ کو تکلیف پہچنے اس کی اس ذلیل وخسیس حرکت کو قرآن نے حمالة الحطب سے تعبیر فرمایا ہے (قرطبی، ابن کثیر) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا یہ حال جہنم میں ہوگا کہ اپنے شوہر پر جہنم کے درختوں زقوم وغیرہ کی لکڑیاں لاکر ڈالے گی تاکہ اس کی آگ بھڑک جائے جس طرح دنیا میں وہ اس کے کفر وظلم کو بڑھاتی تھی آخرت میں اس کے عذاب کو بڑھائے گی (ابن کثیر) - چغل خوری سخت گناہ کبیرہ :۔ حدیث صحیح میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں چغل خورداخل نہ ہوگا اور حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ تین عمل ایسے ہیں جو انسان کے تمام اعمال صالحہ کو برباد کردیتے ہیں روزہ دار کا روزہ اور وضو والے کا وضو خراب کردیتے ہیں یعنی غیبت اور چغل خوری اور جھوٹ عطار بن سائب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث کا ذکر کیا جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ لا ید خل الجنة سافک دم ولا مشاء بنمیمة ولا تاجریربی، یعنی تین قسم کے آدمی جنت میں نہ داخل ہوں گے۔ ناحق خون بہانے والا چغل خوری کرنے والا، اور تاجر جو سود کا کاروبار کرے۔ عطا کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کا ذکر کر کے شعبی سے بطور تعجب کے دریافت کیا کہ حدیث میں چغلخور کو قاتل اور سود خور کی برابر بیان فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں چغلوخوری تو ایسی چیز ہے کہ اس کی وجہ سے قتل ناحق اور غصب اموال کی نوبت آجاتی ہے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّامْرَاَتُہٗ۝ ٠ ۭ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ۝ ٤ ۚ- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- حطب - قال تعالی: كانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] ، أي : ما يعدّ للإيقاد، وقد حَطَبْتُ حَطَباً واحْتَطَبْتُ ، وقیل للمخلّط في کلامه : حَاطِب ليل، لأنّه لا يبصر ما يجعله في حبله، وحَطَبْتُ لفلان حَطَباً : عملته له، ومکان حَطِيب : كثير الحطب، وناقة مُحَاطِبَة : تأكل الحطب، وقوله تعالی: حَمَّالَةَ الْحَطَبِ [ المسد 4] ، كناية عنها بالنمیمة، وحَطَبَ فلان بفلان : سعی به، وفلان يوقد بالحطب الجزل : كناية عن ذلک - ( ح ط ب ) الحطب ( ایندھن ) ہر وہ چیز جو آگ جلانے کے لئے تیار کی جائے حطب کہلاتی ہے اور حطب ( مل ) حطبا واحطب کے معنی ایندھن جمع کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں : كانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] تو وہ جہنم کا یندھن ہوں گے ۔ اپنی گفتگو میں رطب دیا بس ملانے والے کو حاطب لیل کہا جاتا ہے کیو ن کہ رات کو لکڑی جمع کرنے والا بھی یہ نہیں دیکھتا کہ رسی میں کیا باندھ رہا ہے ۔ حطب لفلان حطبا کسی کے لئے کام کرنا مکان حطیبوی جگہ جہاں بہت لکڑیاں ہوں ( صفت از حطب المکان ) ناقتہ محاطبتہ ( ناقہ کہ خار خشک خورد ) اور آیت کریمہ : حَمَّالَةَ الْحَطَبِ [ المسد 4] جو اندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے ۔ میں سخن چینی سے استعارہ ہے ۔ اور حطب فلان بفلان کے معنی کسی کی چغلی کھانے کے ہیں ۔ اسی طرح کہا جاتا ہے فلان یوقد بالحطب الجزل ( مثل ) فلاں بہت بڑا چغل خور ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ وَّامْرَاَتُہٗ ” اور اس کی بیوی کو بھی۔ “- اس کی بیوی بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھی۔ اس کا نام اَروَہ اور کنیت اُمّ جمیل تھی اور اس کے دل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی کے اعتبار سے ان دونوں کے بارے میں جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ میاں بیوی میں سے کون حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بڑا دشمن تھا۔ - قبل ازیں سورة التحریم کے آخری رکوع میں ہم خواتین کے کردار کی تین مثالوں کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ پہلی مثال میں حضرت لوط اور حضرت نوح - کی کافر بیویوں کا ذکر ہے۔ یہ بہترین شوہروں کے گھروں میں بدترین بیویوں کی مثال ہے۔ پھر فرعون کی بیوی آسیہ (رض) کا ذکر گویا بدترین شوہر کے ہاں بہترین بیوی کی مثال ہے۔ اس کے بعد حضرت مریم (سلامٌ علیہا) کے حوالے سے ایک ایسی خاتون کی مثال بیان کی گئی ہے جو خود بھی نیک فطرت تھی اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کی سرپرستی میں انہیں ماحول بھی ایسا ملا جو نیکی اور پاکیزگی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ گویا وہاں سورة التحریم میں خواتین کے حوالے سے تین قسم کی ممکنہ صورتوں کی مثالوں کا ذکر تو ہوچکا ہے ‘ جبکہ اس سلسلے کی چوتھی ممکنہ صورت کا ذکر یہاں اس سورت میں ہوا ہے ‘ یعنی شوہر بھی بدترین اور بیوی بھی بدترین۔ - حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ ۔ ” جو ایندھن اٹھانے والی ہوگی ۔ “- روایات میں چونکہ ذکر ملتا ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی بہت بخیل تھے ‘ اس لیے بعض لوگوں نے ان الفاظ سے یہ سمجھا ہے کہ یہ عورت جنگل سے لکڑیاں ُ چن کر لایا کرتی تھی ‘ حالانکہ یہ بات خلافِ عقل و قیاس ہے۔ ابولہب نہ صرف بہت مال دار تھا بلکہ معاشرتی لحاظ سے وہ اپنے زمانے کا بہت بڑا منصب دار بھی تھا۔ وہ حرم کے محکمہ مالیات کا انچارج تھا (اس حیثیت سے اس پر اگرچہ یہ الزام بھی تھا کہ اس نے حرم کے خزانے سے سونے کے دو ہرن چرالیے تھے) ۔ چناچہ یہ دونوں میاں بیوی اپنے معاشرے کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معاشرے کی ایکوی آئی پی خاتون ‘ بنوہاشم کے رئیس کی بیوی ‘ جسے گویا خاتونِ اوّل کا سا درجہ حاصل تھا ‘ کے بارے میں جنگل سے لکڑیاں چن کر سرپر گٹھڑ لاد کر لانے والی بات بالکل قرین قیاس نہیں۔ چناچہ اس آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اس عورت کی حرکتیں جہنم کی آگ کا ایندھن اکٹھا کرنے اور اپنے شوہر کی آگ کو مزید بھڑکانے کے مترادف ہیں۔ جب یہ اپنے شوہر کے ساتھ جہنم میں جھونکی جائے گی اس وقت اس کا حال اس مجرم کا سا ہوگا جو اپنے جلانے کا ایندھن خود اٹھائے ہوئے ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اللھب حاشیہ نمبر : 3 اس عورت کا نام اَرویٰ تھا اور ام جمیل اس کی کنیت تھی ۔ یہ ابو سفیان کی بہن تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عداوت میں اپنے شوہر ابولہب سے کسی طرح کم نہ تھی ۔ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی حضرت اسماء کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور ام جمیل نے اس کو سنا تو وہ بپھری ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی ۔ اس کے ہاتھ میں مٹھی بھر پتھر تھے اور وہ حضور کی ہجو میں اپنے ہی کچھ اشعار پڑھتی جاتی تھی ۔ حرم میں پہنچی تو وہاں حضرت ابوبکر کے ساتھ حضور تشریف فرما تھے ۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ، یہ آرہی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر یہ کوئی بیہودگی کرے گی ۔ حضور نے فرمایا یہ مجھ کو نہیں دیکھ سکے گی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کے موجود ہونے کے باوجود وہ آپ کو نہیں دیکھ سکی اور اس نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہارے صاحب نے میری ہجو کی ہے ۔ حضرت ابوبکر نے کہا ، اس گھر کے رب کی قسم انہوں نے تو تمہاری کوئی ہجو نہیں کی ۔ اس پر وہ واپس چلی گئی ( ابن ابی حاتم ۔ سیرۃ ابن ہشام ۔ بزار نے حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اسی سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے ) حضرت ابوبکر کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ ہجو تو اللہ تعالی نے کی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی ۔ سورة اللھب حاشیہ نمبر : 4 اصل الفاظ ہیں حَمَّالَةَ الْحَطَبِ جن کا لفظی ترجمہ ہے لکڑیاں ڈھونے والی مفسرین نے اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ، ابن زید ، ضحاک اور بعی بن انس رضی اللہ عنہم کہتےہیں کہ وہ راتوں کو خاردار درختوں کی ٹہنیاں لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ڈال دیتی تھی ، اس لیے اس کو لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا ہے ۔ قتادہ ، عکرمہ ، حسن بصری ، مجاہد اور سفیان ثوری رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ وہ لوگوں میں فساد ڈلوانے کے لیے چغلیاں کھاتی پھرتی تھی ، اس لیے اسے عربی محاورے کے مطابق لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا ، کیونکہ عرب ایسے شخص کو جو ادھر کی بات ادھر لگا کر فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہو ، لکڑیاں ڈھونے والا کہتے ہیں ۔ اس محاورے کے لحاظ سے حَمَّالَةَ الْحَطَبِ معنی ٹھیک ٹھیک وہی ہیں جو اردو میں بی جمالو کے معنی ہیں ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جو شخص گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہا ہو اس کے متعلق عربی زبان میں بطور محاورہ کہا جاتا ہے فلان یحتطب علی ظھرہ ۔ فلاں شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لاد رہا ہے ۔ پس حَمَّالَةَ الْحَطَبِ کے معنی ہیں گناہوں کا بوجھ ڈھونے والی ۔ ایک اور مطلب مفسرین نے اس کا یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ آخرت میں اس کا حال ہوگا ، یعنی وہ لکڑیاں لا لا کر اس آگ میں ڈالے گی جس میں ابو لہب جل رہا ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: ابو لہب کی بیوی اُمِّ جمیل کہلاتی تھی، اور وہ بھی حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی دُشمنی میں اپنے شوہر کے ساتھ برابر کی شریک تھی، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ رات کے وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے دار لکڑیاں بچھا دیا کرتی تھیں، اور آپ کو طرح طرح ستایا کرتی تھی۔ 4: اس کا مطلب بعض مفسرین نے تو یہ بتایا ہے کہ وہ اگرچہ ایک باعزت گھرانے کی عورت تھی، لیکن اپنی کنجوسی کی وجہ سے ایندھن کی لکڑیاں خود ڈھو کر لاتی تھی، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے راستے میں جو کانٹے دار لکڑیاں بچھاتی تھی، اس کی طرف اشارہ ہے۔ ان دونوں صورتوں میں لکڑیاں ڈھونے کی یہ صفت دُنیا ہی سے متعلق ہے۔ اور بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ یہ اُس کے دوزخ میں داخلے کی حالت بیان فرمائی گئی ہے، اور مطلب یہ ہے کہ وہ دوزخ میں لکڑیوں کا گٹھڑا اُٹھائے داخل ہوگی۔ قرآنِ کریم کے الفاظ میں دونوں معنیٰ ممکن ہیں، اور ہم نے جو ترجمہ کیا ہے، اس میں بھی دونوں تفسیروں کی گنجائش موجود ہے۔