Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

جید گردن۔ مسد، مضبوط بٹی ہوئی رسی۔ وہ مونج کی یا کھجور کی پوست کی ہو یا آہنی تاروں کی۔ جیسا کہ مختلف لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ وہ دنیا میں ڈالے رکھتی تھی جسے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہنم میں اس کے گلے میں جو طوق ہوگا، وہ آہنی تاروں سے بٹا ہوا ہوگا۔ مسد سے تشبیہ اس کی شدت اور مضبوطی کو واضح کرنے کے لیے دی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] ابو لہب کی بیوی کی موت :۔ جِیْد بمعنی لمبی اور خوبصورت گردن، ہرن کی طرح پتلی اور لمبی گردن۔ اس گردن میں وہ ایک سونے کا ہار پہنا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ میں یہ ہار بیچ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے کاموں میں لگاؤں گی۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جس مونج کی چبھنے والی موٹی رسی سے وہ جھاڑ جھنکار باندھا کرتی وہی اس کی گردن میں اٹک گئی اور ایسی پھنسی کہ بالآخر اس کی موت کا سبب بن گئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(فی جیدھا حبل من مسجد :” جید “ گردن۔ ” مسد “ کھجور کی چھال کی رسی یا گوگل کے درخت کی چھال کی رسی یا کسی بھی چیز کی بنی ہوئی رسی یا خوب مضبوط بٹی ہوئی رسی۔ لوہے کی رسی کو بھی ” مسد “ کہتے ہیں، یعنی جہنم میں اس حال میں داخل ہوگی کہ اس کی گردن میں مضبوط بٹی ہوئی رسی ہوگی۔ صحیح بخاری میں مجاہد سے منقول ہے کہ اس سے مراد وہ زنجیر ہے جو آگ میں ہوگی، جس میں مجرم پروئے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا :(ثم فی سلسلۃ ذرعھا سبعون ذراعاً فاسلکوہ) (الجآقۃ : ٣٢)” پھر ایک زنجیر میں جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے، اسے داخل کردو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فی جید ھا حبل من مسد، مسد بسکون السین مصدر ہے جس کے معنی رسی یا ڈور بٹنے یا اس کے تار پر تار چڑھا کر مضبوط کرنے کے ہیں اور مسد بفتح میم و سی اس رسی یا ڈور کو کہا جاتا ہے جو مضبوط بنائی گئی ہو خواہ وہ کسی چیز کی ہو، کھجور یا ناریل وغیرہ سے یا آہنی تاروں سے ہر طرح کی مضبوط رسی اس میں داخل ہے (کذا فے القامسو) بعض حضرات نے جو خاص کھجور کی رسی اس کا ترجمہ کیا ہے۔ وہ عرب کی عام عادت کے مطابق کیا گیا ہے اصل مفہوم عام ہے۔ اسی مفہوم عام کے اعتبار سے حضرت ابن عباس عروہ بن زبیر وغیرہ نے فرمایا کہ یہاں حبل من مسد سے مراد لوہے کے تاروں سے بٹا ہوا رسا ہے اور یہ اس کا حال جہنم میں ہوگا کہ آہنی تاروں سے مضبوط بٹا ہوا طوق اس کے گلے میں ہوگا۔ حضرت مجاہد نے بھی اس کی تفسیر میں فرمایا ہے من مسد ای من حدید (مظہری) - اور شعبی اور مقاتل وغیرہ مفسرین نے اس کو بھی دنیا کا حال قرار دے کر حبل من مسد سے مراد کھجور کی رسی لی ہے اور فرمایا کہ اگرچہ ابولہب اور اس کی بیوی مالدار غنی اور اپنی قوم کے سردار مانے جاتے تھے مگر اس کی بیوی اپنی خست طبیعت اور کنجوسی کے سبب جنگل سے سوختہ کی لکڑیاں جمع کر کے لاتی اور اس کی رسی کو اپنے گلے میں ڈال لیتی تھی کہ یہ گٹھا سر سے گر نہ جائے اور یہی ایک روز اس کی ہلاکت کا سبب بن اکر لکڑیوں کا گٹھہ سر پر اور رسی گلے میں تھی تھک کر کہیں بیٹھ گئی اور پھر گر کر اس کا گلا گھٹ گیا اور اسی میں مر گئی۔ اس دوسری تفسیر کی رو سے یہ حال اس کا اس کی خست طبیعت اور اس کا انجام بدبیان کرنے کے لئے ہے (مظہری) مگر چونکہ ابولہب کے گھرانہ صوصاً بیوی سے ایسا کرنا مستبعد تھا اس لئے اکثر حضرات مفسرین نے ہلی ہی تفسیر کو اختیار فرمایا ہے۔ واللہ اعلم تمت سورة اللھب بحمد اللہ تعالیٰ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِيْ جِيْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ۝ ٥ ۧ- ( جيد) ، اسم جامد لمعنی العنق، وزنه فعل بکسر فسکون .- حبل - الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين :- عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» .- والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة .- ( ج ب ل ) الحبل - ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ - مسد - المَسَدُ : ليف يتّخذ من جرید النخل، أي : من غصنه فيُمْسَدُ ، أي : يفتل . قال تعالی:- حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] ، وامرأةٌ مَمْسُودَةٌ: مطويّة الخلق کالحبل الممسود .- ( م س د ) المسد : کھجور کے درخت کی پتے نکالی ہوئی شاخو کا ریشہ جسے بٹ کر رسی بنائی جاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] یعنی کھجور کے پٹھوں سے بٹی ہوئی رسی ۔ امراءۃ ممسودۃ بٹی ہوئی رسی کی طرح گھتے ہوئے گوشت دالی ( معتدل قامت ) عورت ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ ۔ ” اس کے گلے میں بٹی ہوئی رسّی ہوگی۔ “- آج یہ عورت اپنے گلے میں جو خوبصورت ہار پہنے پھرتی ہے کل آخرت میں یہی ہار اس کے گلے میں ایک مضبوط بٹی ہوئی رسّی کی صورت اختیار کرلے گاجیسی رسی ایندھن ڈھونڈنے والی لونڈیوں کے گلے میں پڑی ہوتی ہے۔ اس رسّی میں یہ اپنے اعمالِ بد کا ایندھن باندھ کر جہنم میں لے جائے گی اور اپنی اور اپنے شوہر کی آگ کو مزید بھڑکائے گی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) نے لکھا ہے کہ ” شاید وہاں زقوم اور ضریع کی (جو جہنم کے خاردار درخت ہیں) لکڑیاں اٹھائے پھرے اور ان کے ذریعے سے اپنے شوہر پر عذاب الٰہی کی آگ کو تیز کرتی رہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اللھب حاشیہ نمبر : 5 اس کی گردن کے لیے جید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایسی گردن کے لیے بولا جاتا ہے جس میں زیور پہنا گیا ہو ۔ سعید بن المسیب ، حسن بصری اور قتادہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ وہ ایک بہت قیمتی ہار گردن میں پہنتی تھی ، اور کہا کرتی تھی کہ لات اور عزی کی قسم میں اپنا یہ ہار بیچ کر اس کی قمت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عداوت میں خرچ کردوں گی ۔ اسی بنا پر جید کا لفظ یہاں بطور طنز استعمال کیا گیا ہے کہ اس مزین گلے میں جس کے ہار پر وہ فخر کرتی ہے ، دوزخ میں رسی پڑی ہوگی ۔ یہ اسی طرح کا طنزیہ انداز کلام ہے جیسے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو ۔ جو رسی اس کی گردن میں ڈالی جائے گی اس کے لیے حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ، یعنی وہ رسی مسد کی قسم سے ہوگی ۔ اس کے مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ خوب مضبوط بٹی ہوئی رسی کو مسد کہتے ہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ کھجور کی چھال سے بنی ہوئی رسی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں مونجھ کی رسی یا اونٹ کی کھال یا اس کے صوف سے بنی ہوئی رسی ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد لوہے کے تاروں سے بٹی ہوئی رسی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: پہلی تفسیر کے مطابق جب یہ عورت لکڑیاں ڈھو کر لاتی تو اُن کو مونجھ کی رسّی سے باندھ کر رسی کو اپنے گلے میں لپیٹ لیتی تھی۔ اور دُوسری تفسیر کے مطابق یہ بھی دوزخ میں داخلے کی کیفیت بیان ہو رہی ہے کہ اُس کے گلے میں مونجھ کی رسّی کی طرح طوق پڑا ہوا ہوگا۔ واللہ سبحانہ اعلم۔