اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک ٭٭ اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے ، حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم حضرت عزیز کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم حضرت مسیح کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی تم کہدو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں جس کا کوئی وزیر نہیں جس کا کوئ شریک نہیں جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ہم جنس نہیں جس کا برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں ۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے ۔ وہ صمد ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں ، اپنی شرافت میں ، اپنی بندگی اور عظمت میں ، اپنے علم و علم میں ، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے ۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبانہ و تعالیٰ سب پر الب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے ، صمد کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے ، جو ہمیشہ کی بقا والا سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں صمد وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ صمد کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر کی روایت سے حضرت ابی بن کعب سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گذرا اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ صمد کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو ۔ شعبی کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو ، عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں صمد وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو ، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ صمد میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو ، لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں ، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ۔ حافظ ابو القاسم طبراین رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنہ میں لفظ صمد کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ درصال یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں ۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردر اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے نہ وہ کھوکھلا ہے نہ وہ کھائے نہ پئے سب فانی ہے اور وہ باقی ہے وغیرہ ۔ پھر فرمایا اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی ۔ جیسے اور جگہ ہے یعنی وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے: یعنی وہ ہر چیز کا خلاق مالک ہے پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا ؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے جیسے اور جگہ فرمایا وقالو اتحذا الرحمٰن ولدا الخ ، یعنی یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں ، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں اور جگہ ہے ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ 26ۙ ) 21- الأنبياء:26 ) ، یعنی ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں اور جگہ ہے وجعلوا بینہ وبین الجنتہ نسبتاً الخ ، یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے ۔ بخاری کی اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور احلمد اللہ سورہ اخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی ۔
[١] اللہ کے اکیلے اور وحدہ لاشریک ہونے پر کفار کا تعجب اور سوالات :۔ آیت کے انداز سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کسی سوال کا جواب دیا جارہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے اللہ کی دعوت دے رہے تھے جبکہ دور نبوی کی ساری دنیا طرح طرح کے شرک میں مبتلا تھی۔ لہذا اللہ کی ذات کے متعلق آپ سے کئی بار سوال ہوا اور کئی قسم کے فرقوں کی طرف سے ہوا۔ سب سے پہلے یہ سوال مشرکین مکہ نے اٹھایا تھا۔ جو ہر خوبصورت پتھر کو معبود بنالیتے تھے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اس سوال کی نوعیت درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے۔- سیدنا ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے رب کا ہم سے نسب بیان کرو۔ تو اللہ نے یہ سورت اتار دی کہ آپ انہیں کہہ دیں کہ وہ اکیلا ہے۔ اللہ صمد ہے اور صمد وہ ہوتا ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا ہو اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہو۔ اس لیے کہ جو کسی سے پیدا ہوگا ضرور مرے گا اور جو مرے گا اس کا کوئی وارث بھی ہوگا۔ اور اللہ نہ مرے گا اور نہ اس کا کوئی وارث ہوگا اور نہ اس کا کوئی کفو ہے۔ راوی کہتا ہے کہ کفو کی معنی یہ ہے کہ نہ کوئی اس کے مشابہ ہے اور نہ برابر ہے اور اس کی مثال کوئی چیز نہیں۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) - مشرکوں کے بعد جس نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کے بارے میں کوئی سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سورت پڑھ کر سنا دیتے تھے۔- [٢] مختلف قوموں کے خداؤں کی تعداد :۔ اَحَدٌ بمعنی لاثانی، بےنظیر، یکتا، اس لحاظ سے اس لفظ کا اطلاق صرف ذات باری تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ غیر اللہ کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ گنتی میں ایک، دو ، تین کے لیے واحد، اثنین، ثلثۃ آتا ہے۔ واحد کے بجائے احد نہیں بولا جاتا۔ البتہ دو موقعوں پر احد کا لفظ واحد کا مترادف ہو کر آتا ہے۔ (١) اسمائے اعداد کی ترکیب میں جیسے احد عشر (گیارہ) احدھما (دونوں میں سے کوئی ایک۔ ) احَدٌمِّنْکُمْ (تم میں سے کوئی ایک) اَحَدُکُمْ (تمہارا کوئی ایک) یوم الاحد (اتوار) وغیرہ (٢) نفی کی صورت میں صرف ذوی العقول کے لیے آتا ہے جیسے لَیْسَ فِی الدَّارِ اَحَدٌ (گھر میں کوئی بھی نہیں ہے) جبکہ واحد کا لفظ عام ہے جو ماسوا اللہ کے لیے تو عام مستعمل ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے صرف اس صورت میں کہ اللہ کی کوئی صفت بھی مذکور ہو جیسے ھُوَ اللّٰہ الْوَاحِدُ الْقَھَّار (١٣: ١٦) یعنی اللہ وہ ہے جو اکیلا ہے سب کو دبا کر رکھنے والا) ۔- اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ صرف ایک ہی ہے۔ دو نہیں۔ جیسا کا مجوسیوں کا عقیدہ ہے کہ نیکی کا خدا یزدان ہے اور بدی کا خدا اہرمن ہے۔ تین بھی نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں خدا ہیں اور تینوں مل کر بھی ایک ہی خدا بنتا ہے۔ یا ہند وؤں کا عقیدہ ہے کہ خدا، مادہ اور روح تینوں ہی ازلی ابدی ہیں۔ وہ تینتیس کروڑ بھی نہیں جیسا کہ ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کی تعداد شمار کرتے ہیں بلکہ وہ ایک اور صرف ایک ہے۔
(١) قل ھو اللہ احد : اس کی ترکیب کئی طرح سے کی گئی ہے ، زیادہ واضح دو ہیں :(١)” ھو “ مبتدا ہے، لفظ ” اللہ “ پہلی خبر اور ” احد “ دوسری خبر۔ معنی یہ ہوگا :”(ہمارے جس رب کا نسب پوچھ رہے ہو) وہ اللہ ہے (وہ) ایک ہے۔ “ - (٢) ” ھو “ مبدل منہ اور لفظ ” اللہ “ بدل، دونوں مل کر مبتدا اور ” احد “ خبر ہے۔ معنی یہ ہوگا :” وہ اللہ (جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو) ایک ہے۔ “- (٢) کائنات کے خلاق اور پروردگار کے بیشمار ناموں میں سے لفظ ” اللہ “ بطور علم یعنی اصل نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، باقی نام اس کی کسی نہ کسی صفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی اصل ” الا لہ “ ہے،” الہ “ کا معنی معبود ہے۔ تو لفظ ” اللہ “ کا معنی یہ ٹھہرا کہ وہ خاص ہستی جو عبادت کے لائق ہے، کیونکہ اس میں کمال کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔” ھو اللہ احد “ کا معین یہ ہے کہ وہ رب جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو وہ کوئی نئی یا نامعلوم ہستی نہیں، بلکہ وہ اللہ ہے جسے تم بھی جانتے اور مانتے ہو ، وہی جو معبود برحق ہے اور وہ اللہ ایک ہے۔- (٣) اللہ احد : اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے تین معانی ہوسکتے ہیں اور تینوں یہاں درست ہیں، پہلا یہ کہ وہ ایک ذات ہے، دو یا تین یا زیادہ نہیں اور اس کی ذات میں تعدد نہیں، دوسرا یہ کہ وہ معبود برحق ہونے میں اکیلا ہے، اس کا کوئی ثانی یا شریک نہیں اور تیسرا یہ کہ وہ ایک ہے، اس کی تقسیم نہیں ہوسکتی اور نہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتا ہے۔ اس ایک ہی آیت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی قسم کا شریک بنانے والوں کی تردید ہوگئی، خواہ وہ مجوس (آتش پرست) ہوں، جو دو خلاق مانتے ہیں، ایک خیر کا خالق (یزداں) اور دوسرا شر کا خلاق (اہرمن) ، خواہ تثلیث (تین خداؤں) کو ماننے والے ہوں، خواہ ہندو ہوں جو کروڑوں خالق (یزداں) اور دوسرا شرکا خالق (اہر من) ، خواہ تثلیث (تین خداؤں) کو ماننے والے ہوں، خواہ ہندو ہوں جو کروڑوں دیوتاؤں کو خدائی میں حصے دار مانتے ہیں اور خواہ وہ وحدت الوجود کیق ائل ہوں جو ہر چیز ہی کو اللہ مانتے ہیں، کیونکہ اگر ہر چیز ہی اللہ ہے یا ہر چیز میں اللہ ہے تو اللہ ایک تو نہ رہا جبکہ اللہ تعالیٰ کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے، اس میں تعدد اور کثرت نہیں۔- اسی طرح ان لوگوں کے عقیدہ کی بھی تردید ہوگئی جو اللہ کے علاوہ کسی کو عالم الغیب یا اختیار ات کا مالک سمجھ کر مدد کے لئے پکارتے ہیں اور انہیں خدائی اختیارات میں اللہ کا شریک بناتے ہیں۔- اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہوگئی جو اللہ کی ذات سے ٹکڑوں کے جدا ہونے کیق ائل ہیں، کوئی کہتا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے غزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور میں سے پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ ان تمام صورتوں میں کوئی نہ کوئی ہستی اللہ کی شریک ٹھہرتیہے اور وہ ایک نہیں رہتا۔ میں نے ایک صاحب کی تقریر سنی، وہ کہہ رہے تھے :” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نور میں سے نور کس طرح جدا ہوسکتا ہے ؟ میں آپ کو مثال سے سمجھاتا ہوں، دیکھیے یہ ایک موم بتی جل رہی ہے، اس میں سے ایک اور موم بتی جلا لیں تو کیا پہلی کے نور میں کوئی کمی واقع ہوگی ؟ ہرگز نہیں، اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور میں نور ہیں اور اللہ کے نور میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ “ اس بےچارے نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مثالیں بیان کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے :- (فلا تضربوا للہ الامثال، ان اللہ یعلم و انتم لاتعلمون) (النحل : ٨٣)” پس تم اللہ کیلئے مثالیں مت بیان کرو، کیو کہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ “ اور نہ یہ سمجھا کہ پلہی موم بتی میں کوئی کمی ہو یا نہ ہو، دو موم بتیاں تو بن گئیں، جب کہ اللہ ایک ہے اور نہ یہ سمجھا کہ اللہ کا نور نہ کسی سے نکلا ہے اور نہ اس سے کوئی نکلتا ہے۔ یہ عقیدہ تو بعینہ وہی عقیدہ ہے جو نصرانیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اختیار کیا۔- اسی طرح ” اللہ احد “ سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ بندہ جب زیادہ عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں اتر آتا ہے، پھر وہ اللہ ہی بن جاتا ہے اور دلیل میں صحیح بخاری کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل ہوا ہے کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ ان لوگوں نے سورة اخلصا پر غور نہ کیا کہ اس صورت میں اللہ ایک تو نہ رہا جبکہ اس کا سب سے پہلا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے اور نہ اس حدیث کے آخر پر غور کیا جس میں واضح الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا وہ بندہ اگر مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دوں گا۔ اگر ” من تو شدم تو من شدی “ کے مطابق اللہ اور بندہ ایک ہوگئے تو پھر مانگے گا کون اور دے گا کون ؟ پناہ مانگنے والا کون ہوگا اور پناہ دینے والا کون ؟- اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ بندہ عبادت کرتے کرتے اللہ کے ساتھ اس طرح واصل ہوجاتا ہے کہ وہ وہی بن جاتا ہے، جس طرح لوہا گرم ہوتے ہوتے آگ بن جاتا ہے ۔ اس غلطی کی بنیادی وجہبھی اللہ کے لئے مخلوق کی مثالیں بیان کرنا ہے، جبکہ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ ان بےچ اورں نے یہ نہ سوچا کہ آیت (اللہ احد) (اللہ ایک ہے) اس کی نفی کر رہی ہے، بندہ تو اللہ سے الگ ایک ذات ہے۔ مخلوق اور خالق دو ہیں ایک نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، دو ایک کیسے بن گئے ؟ یہ تو وہی نصرانیوں والا عقیدہ ہے کہ باپ خدا، بیٹا خدا، روح القدس خدا ، مگر تین نہیں بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو دو یا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو دو یا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے بلکہ ایک خدا۔ ے اللہ کے بندو دو یا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض ، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو دو یا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو دوی ا تین ایک کیسے بن گئے ؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے لخاف جتنے عقیدے ہیں اور ان کی جتنی بھی توجیہیں کی جاتی ہیں، یہ اکیلی سورت بلکہ اس کی ایک آیت ہی ان کی تردید کے لئے کافی ہے۔ پھر اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قرآن کا ثلث (ایک تہائی) قرار دیا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
خلاصہ تفسیر - (اس کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین نے آپ سے کہا کہ اپنے رب کی صفات اور نسب بیان کیجئے اس پر یہ سورت نازل ہوئی، کذافی الدور المنثور باسانید متعددہ) (آپ ان لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ وہ یعنی اللہ (اپنے کمال ذات وصفات میں) ایک ہے (کمال ذات یہ ہے کہ واجب الوجود ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور کمال صفات یہ کہ علم قدرت وغیرہ اس کے قدیم اور محیط ہیں اور) اللہ بےنیاز ہے (یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور اس کے سبب محتاج ہیں) اس کے اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔- معارف و مسائل - شان نزول :۔ ترمذی حاکم وغیرہ کی روایت میں ہے کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کا نسب پوچھا تھا ان کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ دوسری بعض روایات میں یہ سوال یہود مدینہ کی طرفم نسوب کیا ہے اسی لئے اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے حضرت عبداللہ بن مسعود، حسنب صری، عطار، عکرمہ، جابر (رض) نے اس کو مکی کہا ہے اور قتادہ، ضحاک وغیرہ نے مدنی، حضرت ابن عباس کے دو قول منقول ہیں (قرطبی) - بعض روایات میں ہے کہ مشرکین کے سوال میں یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کس چیز کا بنا ہوا ہغے سونا چاندی یا اور کچھ، ان کے جاب میں یہ سورت نازل ہوئی۔- فضائل سورت :۔ امام احمد نے حضرت انس سے روایت کیا ہے غ کہ ایک شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے اس سورت (یعنی سورة اخلاص) سے بڑی محبت ہے آپ نے فرمایا کہ اس کی محبت نے تمہیں جنت میں داخل کردیا (ابن کثیر) - ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا کہ سب جمع ہوجاؤ میں تمہیں ایک تہائی قرآن سنائیں گا جو جمع ہو سکتے تھے جمع ہوگئے تو آپ تشریف لائے اور قل ہو اللہ احد الخ کی قرات فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کی برابر ہے (رواہ مسلم فی صحیحہ) ابوداؤ، ترمذی، نسائی نے ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص صبح اور شام قل ھو اللہ احد اور معوذتین پڑھ لیا کرے تو یہ اس کے لئے کافی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ یہ اس کو ہر بلا سے بچانے کے لئے کافی ہے (ابن کثیر) - امام امد نے حضرت عقبہ ابن عامر سے رایت کیا ہغے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تم کو ایسی تین سورتیں بتاتا ہوں کہ جو تو رات، انجیل، زبور اور قرآن سب میں نازل ہوئی ہیں اور فرمایا کہ رات کو اس وقت تک نہ سوؤ جب تک ان تنیوں (معوذتین اور قل ہو اللہ احد) کو نہ پڑھ لو۔ حضرت عقبہ کہتے ہیں کہ اس وقت سے میں نے کبھی ان کو نہیں چھوڑا (ابن کثیر) - قل ھو اللہ احد لفظ قل میں اشارہ ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کی طرف کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کا حکم ہو رہاے اور لفظ اللہ اس ذات کا نام ہے جو واجب الودود ہی اور تمام کمالات کا جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے۔ احد اور واحد ترجمہ تو دونوں کا ایک ہی کیا جاتا ہے مگر مفہوم کے اعتبار سے لفظ احد کے معنے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ترکیب اور تزیہ سے اور تعدد سے اور کسی چیز کی مشابہت اور مشاکلت سے پاک ہے یعنی وہ کسی ایک یا متعدد مادوں سے نہیں بنا، نہ اس میں تعدد کا کوئی امکان ہے نہ کسی کے مشابہ ہے، یہ جواب ہوگیا ان لوگوں کا جو اللہ تعالیٰ کے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ سونے چاندی کا ہے یا کسی جوہر کا۔ اس ایک مختصر جملہ میں ذات وصفات کے سب مباحث آگئے اور لفظ قل میں نبوت و رسالت کا مسئلہ آ گیا، اس میں غور کرو تو یہ ایک مختصر جملہ ان عظیم الشان مباحث کو حاوی میں جو بڑی بڑی جلدوں میں لکھے جاتے ہیں۔
قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ ١ ۚ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] - والقَوْلُ يستعمل علی أوجه :- أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا .- الثاني :- يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا .- الثالث :- للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة .- الرابع :- يقال للدّلالة علی الشیء نحو قول الشاعر :- امتلأ الحوض وقَالَ قطني - الخامس :- يقال للعناية الصادقة بالشیء، کقولک : فلان يَقُولُ بکذا .- السادس :- يستعمله المنطقيّون دون غيرهم في معنی الحدّ ، فيقولون : قَوْلُ الجوهر كذا، وقَوْلُ العرض کذا، أي : حدّهما .- السابع :- في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . - ( ق و ل ) القول - اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے - ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے - جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔- ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو - اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے - ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے - ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفتہ ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) - ( 4 ) کسی چیز پر دلالت کرنے کو قول سے تعبیر کرلیتے ہیں - ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ الرجز ) ( 324 ) امتلاالحوض وقال قطنی حوض بھر گیا اور اس نے کہا بس مجھے کافی ہے - ( 5 ) کسی چیز کا صدق دل سے اعتبار کرنا - اور اس کی طرف متوجہ ہونا جیسے فلان یقول بکذا فلان اس کا صدق دل سے خیال رکھتا ہے - ( 6 ) اہل منطق کے نزدیک قول بمعنی حد کے آتا ہے - جیسے قول اجواھر کزا ۔ وقول العرض کزا یعنی جوہر کی تعریف یہ ہے اور عرض کی یہ ہے - ( 7 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا - جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- أحد - أَحَدٌ يستعمل علی ضربین :- أحدهما : في النفي فقط - والثاني : في الإثبات .- فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة 47] .- وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه :- الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین .- والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین .- والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة :- كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد - ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔
(1 ۔ 4) قریش نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے اللہ کے بارے میں کچھ بیان کرو کہ وہ سونے کا ہے یا چاندی کا اس پر یہ سورت نازل ہوئی کہ قریش سے فرما دیجیے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔ اور وہ ایسا سردار ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں یا یہ کہ وہ کھانے پینے سے بےنیاز ہے یا یہ کہ اس کا پیٹ نہیں، یا یہ مطلب ہے کہ اس کی ذات ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے یا یہ کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور سب کو کافی ہے اس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے کہ وراثت میں ملک ملا ہو اور نہ کوئی بادشاہت میں، یا یہ کہ صفات میں اس کے برابر ہے۔- شان نزول : سورة اخلاص - ترمذی، حاکم اور ابن خزیمہ نے ابوالعالیہ کے طریق سے محمد بن کعب سے روایت کیا ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے پروردگار کا نسب بیان کریں اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور طبرانی اور ابن جریر نے جابر کی روایت سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اس روایت سے سورت کے مکی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔- اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہود حضور کے پاس آئے جن میں کعب بن اشرف اور یحییٰ بن اخطب تھا اور کہنے لگے اپنے پروردگار کی صفت بیان کریں اور ابن المنذر نے قتادہ سے اور ابن جریر نے سعید بن جبیر سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس سے اس سورت کے مدنی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔- اور ابن جریر نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ قتادہ نے بیان کیا کہ مختلف لوگوں نے کہا کہ اپنے پروردگار کا نسب بیان کرو چناچہ آپ کے پاس جبریل یہ سورت لے کر آئے اور ابی بن کعب کی روایت میں جو مشرکین کا لفظ آیا ہے اس سے یہی مراد ہیں یہ سورت مدنی ہے جیسا کہ ابن عباس (رض) کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے اور دونوں روایتوں میں جو اختلاف ہو رہا تھا وہ ختم ہوگیا مگر ابوالشیخ نے کتاب الفقہ میں ابان کے واسطہ سے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ خیبر کے یہودی حضور کی خدمت میں آئے اور انہوں نے کہا کہ ابوالقاسم اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حجاب کے نور سے اور آدم کو کھکھناتی مٹی سے اور ابلیس کو دہکتی ہوئی آگ سے اور آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے پیدا کیا ہے تو آپ اپنے پروردگار کے بارے میں بتائیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ جبریل امین یہ سورت لے کر آئے۔
آیت ١ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔ ” کہہ دیجیے وہ اللہ یکتا ہے۔ “- اَحَد : وہ اکیلا اور یکتا جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ وہی اکیلا ربّ ہے ‘ کسی دوسرے کا ربوبیت اور الوہیت میں کوئی حصہ نہیں۔ وہی تنہا کائنات کا خالق ‘ مالک الملک اور نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے۔
سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 1 اس حکم کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، کیونکہ آپ ہی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون اور کیسا ہے ، اور آپ ہی کو حکم دیا گیا کہ اس سوال کے جواب میں آپ یہ کہیں ۔ لیکن حضور کے بعد ہر مومن اس کا مخاطب ہے ۔ اسے بھی وہی بات کہنی چاہیے جس کے کہنے کا حکم حضور کو دیا گیا تھا ۔ سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 2 یعنی میرے جس رب سے تم تعارف حاصل کرنا چاہتے ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے ۔ یہ ان سوال کرنے والوں کی بات کا پہلا جواب ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی نیا رب لے کر نہیں آگیا ہوں جس کی عبادت دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر میں تم سے کروانا چاہتا ہوں ، بلکہ وہ وہی ہستی ہے جس کو تم اللہ کے نام سے جانتے ہو ۔ اللہ عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا ۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالق کائنات کے لیے یہی استعمال کر رہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اس کا اطلاق نہیں کرتے تھے ۔ دوسرے معبودوں کے لیے ان کے ہاں الہ کا لفظ رائج تھا ۔ پھر اللہ کے بارے میں ان کے جو عقائد تھے ان کا اظہار اس موقع پر خوب کھل کر ہوگیا تھا جب ابرھہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی ۔ اس وقت خانہ کعبہ میں 360 الہوں کے بت موجود تھے ، مگر مشرکین نے ان سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اس بلا سے ان کو بچائے ۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اس نازک وقت میں ان کی مدد نہیں کرسکتا ۔ کعبے کو بھی وہ ان الہوں کی نسبت سے بیت الآلہہ نہیں ، بلکہ اللہ کی نسبت سے بیت اللہ کہتے تھے ۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں مشرکین عرب کا عقیدہ کیا تھا ، مثال کے طور پر: سورہ زخرف میں ہے : اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ( آیت 87 ) سورہ عنکبوت میں ہے: اگر تم سے ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے: ( آیات 61 تا 63 ) سورہ مومنون میں ہے: ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی ۔ ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ ۔ ان سے کہو ، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔ یہ ضرور جواب دیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے ۔ ( آیات 84 تا 89 ) سورہ یونس میں ایک اور جگہ ہے: ان سے پوچھو ، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں جو تمہیں حاصل ہیں کس کے اختیار میں ہیں؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ( آیت 31 ) اسی سورہ یونس میں ایک اور جگہ ہے: جب تم لوگ کشتیوں پر سوار ہوکر باد موافق پر فرحان و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے ، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے ۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہوکر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ( آیات 22 ۔ 23 ) یہی بات سورہ بنی اسرائیل میں یوں دہرائی گئی ہے: جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں ، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو ( آیت 67 ) ان آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ تمہارا کون ہے اور کیسا ہے جس کی بندگی و عبادت کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ، تو انہیں جواب دیا گیا هُوَ اللّٰهُ ، وہ اللہ ہے ۔ اس جواب سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ جسے تم خود اپنا اور ساری کائنات کا خالق ، مالک ، رازق اور مدبر و منتظم مانتے ہو ، اور سخت وقت آنے پر جسے دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر مدد کے لیے پکارتے ہو ، وہی میرا رب ہے اور اسی کی بندگی کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں ، اس جواب میں اللہ تعالی کی تمام صفات کمالیہ آپ سے آپ آ جاتی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ بات سرے سے قابل تصور ہی نہیں ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا ، اس کا انتظام اور اس کے معاملات کی تدبیر کرنے والا ، اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کو رزق دینے والا ، اور مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ، زندہ نہ ہو ، سنتا اور دیکھتا نہ ہو ، قادر مطلق نہ ہو ، علیم اور حکیم نہ ہو ، رحیم اور کریم نہ ہو ، اور سب پر غالب ہو ۔ سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 3 نحوی قواعد کی رو سے علماء نے هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ کی متعدد ترکیبیں بیان کی ہیں ، مگر ہمارے نزدیک ان میں سے جو ترکیب اس مقام کے ساتھ پوری مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ھُوَ مبتداء ہے ، اللہ اس کی خبر ہے اور اَحَدٌ اس کی دوسری خبر ، اس ترکیب کے لحاظ سے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ( جس کے بارے میں تم لوگ سوال کر رہے ہو ) اللہ ہے ، یکتا ہے دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ، اور زبان کے لحاظ سے غلط نہیں ہے کہ وہ اللہ ایک ہے ۔ یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس جملہ میں اللہ تعالی کے لیے لفظ احد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے ۔ معمولا یہ لفظ یا تو مضاف یا مضاف الیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ، جیسے یوم الاحد ، ہفتے کا پہلا دن ، اور فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ اپنے کسی آدمی کو بھیجو یا نفی عام کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے ما جاء نی احد میرے پاس کوئی نہیں آیا ۔ یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے ، جیسے ھل عندک احد؟ کیا تمہارے پاس کوئی ہے ؟ یا اسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے ، جیسے ان جاء ک احد ، اگر تمہارے پاس کوئی آئے ۔ یا گنتی میں بولا جاتا ہے ، جیسے احد ، اثنان ، احد عشر ، ایک ، دو گیارہ ، ان استعمالات کے سوا نزول قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ محض احد وصف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بولا گیا ہو ، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا ۔ اس غیر معمولی طرز بیان سے خودبخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یکتا و یگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے ، موجودات میں سے کوئی دوسرا اس صفت سے متصف نہیں ہے ، وہ ایک ہے ، کوئی اس کا ثانی نہیں ۔ پھر جو سوالات مشرکین اور اہل کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے رب کے بارے میں کیے تھے ان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ هُوَ اللّٰهُ کہنے کے بعد اَحَدٌ کہہ کر ان کا جواب کس طرح دیا گیا ہے: اولا ، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہی اکیلا رب ہے ، کسی دوسرے کا ربوبیت میں کوئی حصہ نہیں ہے ، اور چونکہ الہ ( معبود ) وہی ہوسکتا ہے جو رب ( مالک و پروردگار ) ہو ، اس لیے الوہیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔ ثانیا ۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہی تنہا کائنات کا خالق ہے ، تخلیق کے اس کام میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہے ۔ وہی اکیلا مالک الملک ہے ، نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے ، اپنی مخلوق کا رزق رساں ہے ، اور آڑے وقت میں مدد کرنے والا فریاد رس ہے ، خدائی کے ان کاموں میں ، جن کو تم خود مانتے ہو کہ یہ اللہ کے کام ہیں ، کسی دوسرے کا قطعا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ ثالثا ۔ چونکہ انہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟ اس کا نسب کیا ہے؟ وہ کس جنس سے ہے؟ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے؟ اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہوگا ؟ اس لیے ان کو ان سارے سوالات کا جواب بھی اللہ تعالی کے لیے صرف ایک لفظ اَحَد بول کر دے دیا گیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ( ۱ ) وہی ایک خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ، نہ اس سے پہلے کوئی خدا تھا ، نہ اس کے بعد کوئی خدا ہوگا ( ۲ ) خداؤں کی کوئی جنس نہیں ہے جس کا وہ فرد ہو ، بلکہ وہ اکیلا خدا ہے اور کوئی اس کا ہم جنس نہیں ( ۳ ) اس کی ذات محض واحد نہیں بلکہ اَحَد ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کثرت کا کوئی شائبہ نہیں ہے ، وہ اجزاء سے مرکب وجود نہیں ہے جو قابل تجزیہ و تقسیم ہو ، جو کوئی شکل و صورت رکھتا ہو ، جو کسی جگہ میں رہتا ہو یا کوئی چیز اس کے اندر جگہ پاتی ہو ، جس کا کوئی رنگ ہو ، جس کے کچھ اعضا ہوں ، جس کی کوئی سمت اور جہت ہو ، اور جس کے اندر کسی قسم کا تغیر و تبدل ہوتا ہو ۔ تمام اقسام کی کثرتوں سے بالکل پاک اور منزہ وہ ایک ہی ذات ہے جو ہر لحاظ سے اَحَد ہے ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عربی زبان میں واحد کا لفظ بالکل اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ایک کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے ، جیسے ایک آدمی ، ایک قوم ، ایک ملک ، ایک دنیا ، حتی کہ ایک کائنات ، اور کسی مجموعہ کے ہر جز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا جاتا ہے ۔ لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالی کے سوا کسی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ۔ اسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالی کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں الہ واحد ، ایک ہی معبود ، یا اللہ الواحد القھار ، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے ، کہا گیا ہے ۔ محض واحد نہیں کہا گیا ، کیونکہ یہ لفظ ان چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں ، بخلاف اس کے اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے احد کا لفظ مطلقا استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ وجود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے ، جس کی وحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے ) ۔
1: بعض کافروں نے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ کیسا ہے؟ اس کا حسب نسب بیان کر کے اُس کا تعارف تو کرائیے۔ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ (روح المعانی بحوالہ بیہقی و طبرانی وغیرہ) 2: یہ قرآنِ کریم کے لفظ ’’احدٌ‘‘ کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صرف ’’ایک‘‘ کا لفظ اس کے پورے معنیٰ ظاہر نہیں کرتا۔ ’’ہر لحاظ سے ایک‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات اُس طرح ایک ہے کہ اُس کے نہ اجزا ہیں، نہ حصے ہیں، اور نہ اُس کی صفات کسی اور میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی ایک ہے، اور اپنی صفات میں بھی۔