2۔ 1 یعنی سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔
[٣] صمد کا مفہوم اور صمد اور غنی میں فرق :۔ صَمَدٌ میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) کسی چیز کا ٹھوس اور مضبوط ہونا (٢) لوگ ہر طرف سے اس کی طرف قصد کریں۔ اور الصَّمَدُ ایسی ذات ہے جو خود تو مستقل اور قائم بالذات ہو۔ وہ خود کسی کی محتاج نہ ہو مگر دوسری سب مخلوق اس کی محتاج ہو۔ بےنیاز کے لیے عربی زبان میں غنی کا لفظ بھی آتا ہے اور اس کی ضد فقیر ہے۔ اور غنی وہ ہے جسے کسی دوسرے کی احتیاج نہ ہو مگر یہ لفظ صرف مال و دولت کے معاملہ میں بےنیاز ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور غنی دولت مند کو کہتے ہیں۔ یعنی کم از کم اتنا مالدار ضرور ہو کہ اسے معاش کے سلسلے میں دوسروں کی احتیاج نہ ہو جبکہ صمد کا لفظ جملہ پہلوؤں میں بےنیاز ہونے کے معنوں میں آتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جملہ پہلوؤں میں اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ کھانے پینے سے بھی بےنیاز ہے اور سونے اور آرام کرنے سے بھی۔ وہ اپنی زندگی اور بقا کے لیے بھی کسی کا محتاج نہیں ہے۔ مگر باقی سب مخلوق ایک ایک چیز رزق، صحت، زندگی، شفائ، اولاد حتیٰ کہ اپنی بقا تک کے لیے بھی اللہ کی محتاج ہے۔ کوئی بھلائی کی بات ایسی نہیں جس کے لیے مخلوق اپنے خالق کی محتاج نہ ہو۔
(١) اللہ الصمد :” الصمد “ کی تفسیر میں سلف کے کئی اقوال ہیں، ان کا خلاصہ تین اقوال میں آجاتا ہے :- (١) ” الصمد “ وہ سردار ہے جس کی طرف لوگ قصد کر کے جائیں، جس سے بڑا کوئی سردار نہ ہو۔ یہ ” صمد “ (ف، ن) (قصد کرنا) سے مشتق ہے۔ گویا ” الصمد “ بمعنی ” مصمود “ ہے۔ اکثر سلف نے یہی معنی کیا ہے۔ (٢) جو کھاتا پیتا نہ ہو۔ (٣) جس کا پیٹ نہ ہو جو کھوکھلا نہ ہو، جس سے کچھ نکلتا نہ ہو۔ اللہ پر تینوں معانی صادق آتے ہیں۔- (٢) عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب خبر پر الف لام آجائے تو کلام میں حصر پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر ” اللہ صمد “ ہوتا تو معنی یہ تھا کہ اللہ صمد ہے۔ اب ” اللہ الصمد “ فرمایا، تو معنی یہ ہے کہ اللہ ہی ” صمد “ ہے، کوئی اور صمد نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ” اللہ احد “ فرمایا، جس کا معنی ہے اللہ ایک ہے۔ وہاں ” اللہ الا حد “ نہیں فرمایا کہ اللہ ہی ایک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ وہ ہستی جو ایک ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے ، کسی اور کو احد کہہ ہی نہیں سکتے۔ ہر ایک کا ثانی کسی نہ کسی طرح موجود ہے، کسی اور چیز میں اس کا ثانی نہ ہو تو مخلوق ہونے میں اس کے بیشمار ثانی موجود ہیں، اس لئے اس کائنات میں ایک ہستی صرف اللہ کی ہے، اسلئے وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں، جبکہ صمد ہونے کے دعوے دار بیشمار ہیں، جن کے پاس لوگ اپنی ضرورتوں کے لئے جاتے ہیں۔ اسلئے فرمایا اصل صمد صرف وہ ہے، کیونکہ دوسرے لوگ کتنے بھی بڑے سردار ہوں، لوگ ان کے پاس اپنی حاجتوں کے لئے جاتے ہوں، مگر وہ خود کسی نہ کسی کے محتاج ہیں۔ یہ صرف اللہ کی ہستی ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں، باقی سب اس کے محتاج ہیں، وہ سب کو کھلاتا ہے، خود کھانے کا محتاج نہیں، جیسا کہ فرمایا : - (وھو یطعم ولا یطعم) (الانعام : ١٣)” حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔ “ پھر نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔” الصمد “ کے اس مفہوم کو ” بےنیاز “ کا لفظ کافی حد تک ادا کرتا ہے۔
اللہ الصمد، لفظ صمد کے بہت سے معنی ہو سکتے ہیں اسی لئے حضرات مفسرین کے اوقال اس میں بہت میں امام حدیث طبرانی نے کتاب السنہ میں ان تمام اقوال کو جمع کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ سب صحیح ہیں اور ان میں جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ سب ہمارے رب کی صفات ہیں، لیکن اصل معنی صمد کے یہ ہیں کہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجات اور ضروریات میں رجوع کری اور جو بڑائی اور سرداری میں ایسا ہو کہ اس سے کوئی بڑا نہیں، خلاصہ یہ کہ سب اس کے محتاج ہوں وہ کسی کا محتاج نہ ہو (ابن کثیر)
اَللہُ الصَّمَدُ ٢ ۚ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- صمد - الصَّمَدُ : السَّيِّدُ : الذي يُصْمَدُ إليه في الأمر، وصَمَدَهُ : قصد معتمدا عليه قصده، وقیل :- الصَّمَدُ الذي ليس بأجوف، والذي ليس بأجوف شيئان : أحدهما لکونه أدون من الإنسان کالجمادات، والثاني أعلی منه، وهو الباري والملائكة، والقصد بقوله : اللَّهُ الصَّمَدُ [ الإخلاص 2] ، تنبيها أنه بخلاف من أثبتوا له الإلهيّة، وإلى نحو هذا أشار بقوله : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ کانا يَأْكُلانِ الطَّعامَ [ المائدة 75] .- ( ص م د) الصمد وہ سردار جس کی طرف ہر معاملہ میں رجوع کیا جائے ۔ صمد صمدہ کسی کو معتمد سمجھ کر اس کی جانب قصد کرنا ۔ بعض نے کہا ہے لہ صمد ٹھوس اور بےجوف چیز کو کہتے ہیں ۔ اور بےجوف چیزیں دوقسم پر ہیں ایک وہ جو انسان سے کم درجہ کی ہیں جیسے جمادات اور دوم وہ جو انسان سے اعلیٰ درجہ کی ہیں ، جیسے باری تعالیٰ اور فرشتے اور آیت کریمہ : اللَّهُ الصَّمَدُ [ الإخلاص 2] ، اللہ بےنیاز ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کو صمد کہہ کر اس حقیقت سے آگاہ کردیا ہے کہ مشرکین نے جن چیزوں کو معبود بنا رکھا ہے ۔ ذات الہیٰ ان سب کے برعکس ہے چناچہ آیت کریمہ : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ کانا يَأْكُلانِ الطَّعامَ [ المائدة 75] اور ان کی والداہ ( مریم خدا کی دل اور ) سچی فرمانبردار تھیں دونوں ( انسان تھے اور ) کھانا کھاتے تھے ۔ میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے ۔
آیت ٢ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۔ ” اللہ سب کا مرجع ہے۔ “- صَمَد کے لغوی معنی ایسی مضبوط چٹان کے ہیں جس کو سہارا بنا کر کوئی جنگجو اپنے دشمن کے خلاف لڑتا ہے تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے ۔ بعد میں یہ لفظ اسی مفہوم میں ایسے بڑے بڑے سرداروں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو لوگوں کو پناہ دیتے تھے اور جن سے لوگ اپنے مسائل کے لیے رجوع کرتے تھے۔ اس طرح اس لفظ میں مضبوط سہارے اور مرجع (جس کی طرف رجوع کیا جائے) کے معنی مستقل طور پر آگئے۔ چناچہ اَللّٰہُ الصَّمَدُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کا مرجع اور مضبوط سہارا ہے۔ وہ خود بخود قائم ہے ‘ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔ باقی تمام مخلوقات کو اس کے سہارے کی ضرورت ہے اور تمام مخلوق کی زندگی اور ہرچیز کا وجود اسی کی بدولت ہے۔ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلاَّ بِمَا شَآئَج (البقرۃ : ٢٥٥) ” اور وہ احاطہ نہیں کرسکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو وہ خود چاہے “۔ ظاہر ہے وہ الحی اور القیوم ہے ‘ یعنی خود زندہ ہے اور تمام مخلوق کو تھامے ہوئے ہے۔ باقی تمام مخلوقات کے ہر فرد کا وجود مستعار ہے اور کائنات میں جو زندہ چیزیں ہیں ان کی زندگی بھی مستعار ہے۔ جیسے ہم انسانوں کی زندگی بھی ” عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن “ کے مصداق اسی کی عطا کردہ ہے۔
سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 4 اصل میں لفظ صَمَد استعمال کیا گیا ہے جس کا مادہ ص ، م ، د ہے ۔ عربی زبان میں اس مادے سے جو الفاظ نکلے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے معانی کی وسعت کس قدر ہے: ۔ اَلصَّمدُ ۔ قصد کرنا ، بلند مقام جو بڑی ضخامت رکھتا ہو ، سطح مرتفع ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو ، وہ سردار جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو ۔ اَلصَّمَدُ ۔ ہر چیز کا بلند حصہ ، وہ شخس جس سے بالا تر کوئی دوسرا شخص نہ ہو ، وہ سردار جس کی اطاعت کی جاتی ہو اور اس کے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کیا جاتا ہو ، وہ سردار جس کی طرف حاجتمند لوگ رجوع کرتے ہوں ، دائم ، بلند مرتبہ ، ٹھوس جس میں کوئی خول یا جھول نہ ہو ، اور جس سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو نہ اس میں داخل ہوسکتی ہو ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو ۔ اَلمُصمَدُ ۔ ٹھوس چیز جس کا کوئی جوف نہ ہو ۔ اَلمُصَمَّدُ ۔ مقصود جس کی طرف جانے کا قصد کیا جائے ، سخت چیز جس میں کوئی کمزوری نہ ہو ۔ بَیتٌ مُصَمَّدٌ ۔ وہ گھر جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو ۔ بِنَاءٌ مُّصمَدٌ ۔ بلند عمارت ۔ صَمَدَہٗ وَ صَمَدَ اِلَیہِ صَمدًا ۔ اس شخص کی طرف جانے کا قصد کیا ۔ اَصمَدَ اِلَیہِ الاَمرَ ۔ اس کے سپرد معاملہ کردیا ، اس کے آگے معاملہ پیش کردیا ، اس کے آگے معاملہ پیش کردیا ، اس کے اوپر معاملہ میں اعتماد کیا ۔ ( صحاح ، قاموس ، لسان العرب ) ان لغوی معنوں کی بنا پر آیت اَللّٰهُ الصَّمَدُ میں لفظ الصَّمَدُ کی جو تفسیریں صحابہ و تابعین اور بعد کے اہل علم سے منقول ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: حضرت علی ، عکرمہ اور کعب احبا: صَمَد وہ ہے جس سے بالا تر کوئی نہ ہو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس اور ابو وائل شقیق بن سلمہ: وہ سردار جس کی سیادت کامل ہو اور انتہا کو پہنچی ہوئی ہو ۔ ابن عباس کا دوسرا قول: صمد وہ ہے جس کی طرف لوگ کسی بلا یا مصیبت کے نازل ہونے پر مدد کے لیے رجوع کریں ۔ ان کا ایک اور قول وہ سردار جو اپنی سیادت میں ، اپنے شرف میں ، اپنی عظمت میں ، اپنے حلم اور بردباری میں ، اپنے علم میں اور اپنی حکمت میں کامل ہو حضرت ابو ہریرہ: وہ جس میں سے نہ کوئی چیز کبھی نکلی ہو نہ نکلتی ہو ۔ جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو ۔ اسی کے ہم معنی اقوال شعبی اور محمد بن کعب القرظی سے بھی منقول ہیں ۔ سدی ۔ مطلوب چیزیں حاصل کرنے کے لیے لوگ جس کا قصد کریں اور مصائب میں مدد کے لیے جس کی طرف رجوع نہ کریں ۔ سعید بن جبیر: وہ جو اپنی تمام صفات اور اعمال میں کامل ہو ۔ ربیع بن انس: وہ جس پر کوئی آفت نہ آتی ہو ۔ مقاتل بن حیان: وہ جو بے عیب ہو ۔ ابن کیسان: وہ جس کی صفت سے کوئی دوسرا متصف نہ ہو ۔ حسن بصری اور قتادہ: جو باقی رہنے والا اور لازوال ہو اسی سے ملتے جلتے اقوال مجاہد اور معمر اور مرۃ الہمدانی سے بھی منقول ہیں ۔ مرۃ الہمدانی کا ایک اور قول یہ ہے کہ وہ جو اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے اور جو کام چاہے کرے ، اس کے حکم اور فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا کوئی نہ ہو ۔ ابراہیم نخعی: وہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں کے لیے رجوع کریں ۔ ابوبکر الانباری: اہل لغت کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صَمَد اس سردار کو کہتے ہیں جس سے بالا تر کوئی اور سردار نہ ہو ، اور جس کی طرف لوگ اپنی حاجات اور اپنے معاملات میں رجوع کریں ۔ اسی کے قریب الزجاج کا قول ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ صَمَد وہ ہے جس پر سرداری ختم ہوگئی ہو اور ہر ایک اپنی حاجات کے لیے جس کی طرف رجوع کرے ۔ اب غور کیجیے کہ پہلے فقرے میں اللّٰهُ اَحَدٌ کیوں کہا گیا ، اور اس فقرے میں اَللّٰهُ الصَّمَدُ کہنے کی کیا وجہ ہے ۔ لفظ اَحَدٌ کے متعلق ہم بیان کرچکے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے ، کسی اور کے لیے سرے سے مستعمل ہی نہیں ہے ، اس لیے اسے اَحَدٌ ، یعنی نکرہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے ، لیکن صَمَد کا لفظ چونکہ مخلوقات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اس لیے اللہ صمد کہنے کے بجائے اَللّٰهُ الصَّمَدُ کہا گیا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ اصلی اور حقیقی صَمَد اللہ تعالی ہی ہے ۔ مخلوق اگر کسی حیثیت سے صمد ہو بھی تو کسی دوسری حیثیت سے وہ صمد نہیں ہے ، کیونکہ وہ فانی ہے ، لازوال نہیں ہے ، قابل تجزیہ و تقسیم ہے ، مرکب ہے ، کسی وقت اس کے اجزاء بکھر سکتے ہیں ، بعض مخلوقات اس کی محتاج ہیں تو بعض کا وہ خود محتاج ہے ، اس کی سیادت اضافی ہے نہ کہ مطلق ، کسی کے مقابلے میں وہ برتر ہے تو اس کے مقابلے میں کوئی اور برتر ہے ، بعض مخلوقات کی بعض حاجات کو وہ پورا کرسکتا ہے ، مگر سب کی تمام حاجات کو پورا کرنا کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے ۔ بخلاف اس کے اللہ تعالی کی صمدیت ہر حیثیت سے کامل ہے ۔ ساری دنیا اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ دنیا کی ہر اچیز اپنے وجود بقا اور اپنی حاجات و ضروریات کے لیے شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اسی کی طرف رجوع کرتی ہے اور سب کی تمام حاجات پوری کرنے والا وہی ہے ۔ وہ غیر فانی اور لازوال ہے ۔ رزق دیتا ہے ، لیتا نہیں ہے ، مفرد ہے ، مرکب نہیں ہے کہ قابل تجزیہ و تقسیم ہو ۔ ساری کائنات پر اس کی سیادت قائم ہے اور وہ سب سے برتر ہے ۔ اس لیے وہ محض صَمَد نہیں ، بلکہ الصمد ہے ، یعنی ایک ہی ایسی ہستی جو حقیقت میں صمدیت سے بتمام و کمال متصف ہے ۔ پھر چونکہ وہ الصمد ہے اس لیے لازم آتا ہے کہ وہ یکتا اور یگانہ ہو ، کیونکہ ایسی ہستی ایک ہی ہوسکتی ہے جو کسی کی حاجتمند نہ ہو اور سب جس کے محتاج ہوں ۔ دو یا زائد ہستیاں سب سے بے نیاز اور سب کی حاجت روا نہیں ہوسکتیں ۔ نیز اس کے الصمد ہونے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہی ایک معبود ہو ، کیونکہ انسان عبادت اسی کی کرتا ہے جس کا وہ محتاج ہو ۔ اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہ ہو ، کیونکہ جو حاجت روائی کی طاقت اور اختیارات ہی نہ رکھتا ہو اس کی بندگی و عبادت کوئی ہوشمند آدمی نہیں کرسکتا ۔
3: یہ قرآنِ کریم کے لفظ ’’اَلصَّمَدُ‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا مفہوم بھی اُردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ عربی میں ’’صمد‘‘ اس کو کہتے ہیں جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لئے رجوع کرتے ہوں، اور سب اُس کے محتاج ہوں۔ اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ عام طور سے اِختصار کے پیش نظر اس لفظ کا ترجمہ ’’بے نیاز‘‘ کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس کے صرف ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن یہ پہلو اُس میں نہیں آتا کہ سب اُس کے محتاج ہیں۔ اس لئے یہاں ایک لفظ سے ترجمہ کرنے کے بجائے اُس کا پورا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔