Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی نہ کوئی چیز اس سے نکلی ہے نہ وہ کسی چیز سے نکلا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ انسان نے جب بھی اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق سوچا ہے تو اسے انسانی سطح پر لا کر ہی سوچا ہے اور چونکہ انسان اولاد کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اس لیے انسان نے اللہ کی بھی اولاد قرار دے دی۔ حالانکہ جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کا مرنا اور فنا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور جو چیز مرنے والی یا فنا ہونے والی ہو وہ کبھی خدا نہیں ہوسکتی۔ نیز انسان کو اولاد کی خواہش اور ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قائم مقام بنے اور اس کی میراث سنبھالے جبکہ اللہ کو ایسی باتوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ حی لایموت ہے، اسی خیال سے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ کو اور یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا بنادیا۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اور یونانی، مصری اور ہندی تہذیبوں نے کروڑوں کی تعداد میں دیوی اور دیوتا بنا ڈالے۔ کوئی دیوی ایسی نہ تھی جس کا انہوں نے کوئی دیوتا شوہر نہ تجویز کیا ہو۔ اور کوئی دیوتا ایسا نہ تھا جس کے لیے انہوں نے کوئی دیوی بیوی کے طور پر تجویز نہ کی ہو۔ پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ چلا کر کروڑوں خدا بناڈالے۔ یہ بھی غنیمت ہی سمجھئے کہ کسی قوم نے کسی کو اللہ کا باپ نہیں بنا ڈالا۔ ورنہ ایسے مشرکوں سے کیا بعید تھا کہ وہ ایسی بکواس بھی کر ڈالتے۔ اس آیت سے ایسے توہمات کی تردید ہوجاتی ہے۔ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا شدید جرم ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی شدید مذمت وارد ہوئی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اس جرم پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔- اللہ کی اولاد قرار دینا اسے گالی دینے کے مترادف ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بنی آدم نے مجھے جھٹلایا اور یہ اسے مناسب نہ تھا اور مجھے گالی دی اور یہ اسے مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانے کا مطلب یہ ہے کہ جو وہ یہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ ہرگز پیدا نہ کروں گا حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے حالانکہ میں اکیلا ہوں، بےنیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور میرے جوڑ کا تو کوئی دوسرا ہے ہی نہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لم یلد، ولم یولد :” نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا “ اس آیت میں نصرانیوں کا رد ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کا بیٹا مانتے ہیں، یہودیوں کا رد ہے جو عزیز (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں، مشرکین عرب کا رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے ہیں، فلاسفہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ عقول عشرہ اللہ سے نکلی ہیں اور اب کائنات کا نظام وہ چلا رہی ہیں، ہندوؤں کا رد ہے جو کروڑوں کی تعداد میں مخلوق کو خدا مانتے ہیں اور ان مسلمان کہلانے والوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ائمہ اہل بیت اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور سے پیدا ہوئے ہیں۔- (٢) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے لئے اولاد کی نفی کے بہت سے دلائل بیان فرمائے ہیں، ان میں سب سے واضح چار ہیں، پہلی دلیل یہ ہے کہ اولاد لازماً باپ کی جنس سے ہوتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی جنس ہی نہیں۔ اس آیت میں اسی دلیل کی طرف اشارہ ہے :(ماالمسیح ابن مریم الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل، وامہ صدیقۃ کانا یاکلن الطعام) (المائدۃ : ٨٥) ” نہیں ہے مسیح ابن مریم مگر ایک رسول، اس سے پہلے کئی رسول گزر گئے اور اس کی ماں صدیقہ ہے۔ وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔ “ یعنی مسیح ابن مریم (علیہ السلام) سے پہلے کئی رسول گزرے، وہ پہلے نہیں تھے، پھر پیدا ہوئے، وہ حادث تھے جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے۔ باپ اور اولاد کی جنس ایک ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) حادث ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کھاتا نہیں اور وہ دونوں کھاتے تھے ۔ جنس ایک نہ رہی تو اولاد کیسے بن گئی ؟ دوسری دلیل یہ کہ والد اور اولاد اس لئے حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کا محتاج ہوتا ہے اور اللہ کو کسی کی کوئی حاجت نہیں۔ اس آیت میں یہی فرمایا ہے :- (قالوا اتخذ اللہ ولداً سبحنہ ھوالغنی) (یونس : ٦٨) ” انہوں نے کہا کہ اللہ نے اولاد پکڑی ہے، وہ پاک ہے، وہی تو غنی ہے۔ “ یعنی وہی تو ہے جو غنی ہے، جسے کسی کی حاجت نہیں، وہ اولاد کیوں بنائے گا ؟ تیسری دلیل یہ کہ تمام مخلوق اللہ کے بندے اور غلام ہیں اور بندہ ہونا بیٹا ہونے کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا، فرمایا :(وما ینبغی للرحمٰن ان یتخذ ولداً ، ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبداً ) (مریم : ٩٢، ٩٣) ” اور رحمان کے لائق ہی نہیں کہ وہ اولاد پکڑے، آسمانوں میں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے رحمان کے پاس بندہ (غلام) بن کر آنے والا ہے۔ “ یعنی رحمان کی اولاد کس طرح ہوسکتی ہے، جب کہ زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس غلام اور بندہ بن کر پیش ہونے والا ہے ؟ بیٹا ہو اور غلام بھی ممکن ہی نہیں۔ چوتھی دلیل یہ کہ اولاد اسی کی ہوتی ہے جس کی بیوی ہو اور اللہ تعالیٰ کی بیوی ہی نہیں تو اولاد کیسے ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(انی یکون لہ ولدو لم تکن لہ صاحبۃ) (الانعام : ١٠١)” اس کی اولاد کیسے ہوگ ی جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ “- (٣) ابوہریرہ (رض) عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(کذبنی ابن آدم ولم یکن لہ ذلک، وشمنی ولم یکن لہ ذلک، فاما تکذیبہ “ ایای فقولہ لن یعیدنی کما بدانی، ولیس اول الخلق باھون علی من اعادتہ واما شتمہ ایای فقولہ اتخذ اللہ ولداً ، وانا الاحد الصمد لم الد ولم اولد ولم یکن لی کفواً احد) (بخاری، التفسیر، سورة (قل ھو اللہ احد): ١٣٩٨٣” ابن آدم نے مجھے جھٹلا دیا حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حقن ہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے دوبارہ نہیں بنائے گا۔ حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا مجھے دوبارہ بنانے سے آسان نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ نے اولاد بنئای ہے، حالانکہ میں احد ہوں، صمد ہوں۔ میں نے نہ کسی کو جنا، نہ کسی نے مجھے جنا اور نہ ہی کوئی میرے برابر کا ہے۔ “- (٤) ولد یولد :” اور وہ جنا نہیں یا “ یعنی کسی نے اس کو نہیں جنا، اس کا کوئی باپ نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے سوال کا جواب ہے جنہوں نے کہا تھا کہ میں اپنے رب کا نسب بیان کیجیے، کیونکہ جو پیدا ہوگا وہ حادث ہوگا، ہمیشہ سے نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ سے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(کان اللہ ولم یکن شیء قبلہ) (بخاری، التوحید، باب : (وکان عرشہ علی المائ)…: ٨٣١٨)” اللہ تعالیٰ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔ “ معلوم ہوا کہ جو ولادت کے مرحلے سے گزرا ہو یا خلق کے مرحلے سے گزرا ہو وہ اللہ نہیں ہوسکتا۔ غلط کہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے اور ازلی (یعنی ہمیشہ سے) ہے، یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور سے جدا ہوئے ہیں، مگر درحقیقت وہی ہیں اور ہمیشہ سے ہیں۔ غور کرنا چاہیے کہ جو پیدا ہوا وہ ہمیشہ سے کیسے ہوگیا ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لم یلد، ولم یولد، یہ ان لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نسب نامہ کا سوال کیا تھا کہ اس کو مخلوقق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جو تو الدوتناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ کوئی اس کی الاد۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَمْ يَلِدْ۝ ٠ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۝ ٣ ۙ- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ لَمْ یَلِدْ لا وَلَمْ یُوْلَدْ ۔ ” نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ “- یعنی نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ یہ نکتہ سورة الجن میں بایں الفاظ واضح فرمایا گیا : مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا ۔ ” اس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی اختیار کی ہے اور نہ کوئی اولاد “۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور یہودیوں کے بعض فرقے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے تھے۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔ اس آیت میں ایسے تمام عقائد باطلہ کی نفی کردی گئی ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 5 مشرکین نے ہر زمانے میں خدائی کا یہ تصور اختیار کیا ہے کہ انسانوں کی طرح خداؤں کی بھی کوئی جنس ہے جس کے بہت سے افراد ہیں ، اور ان میں شادی بیاہ اور توالد و تناسل کا سلسلہ چلتا ہے ۔ اس جاہلانہ تصور سے انہوں نے اللہ رب العالمین کو بھی پاک اور بالا تر نہیں سمجھا اور اس کے لیے بھی اولاد تجویز کی ۔ چنانچہ اہل عرب کا یہ عقیدہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالی کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ انبیاء علیہم السلام کی امتیں بھی اس جہالت سے محفوظ نہ رہ سکیں ۔ ان کے ہاں بھی کسی بزرگ انسان کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دینے کا عقیدہ پیدا ہوگیا ۔ ان مختلف توہمات میں دو قسم کے تصورات ہمیشہ خلط ملط ہوتے رہے ہیں ۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جن کو وہ اللہ تعالی کی اولاد قرار دے رہے ہیں وہ اس ذات پاک کی نسبی اولاد ہے ۔ اور بعض نے یہ دعوی کیا کہ جس کو وہ اللہ کا بیٹا کہہ رہے ہیں اسے اللہ نے اپنا متبنی بنایا ہے ۔ اگرچہ ان میں سے کسی کی یہ جرات نہیں ہوئی کہ معاذ اللہ کسی کو اللہ کا باپ قرار دیں ، لیکن ظاہر ہے کہ جب کسی ہستی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ توالد و تناسل سے پاک نہیں ہے ، اور اس کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی انسان کی طرح اس قسم کی کوئی ہستی ہے جس کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے ، اور جس کو لا ولد ہونے کی صورت میں کسی کو بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ، تو پھر انسانی ذہن اس گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ اسے بھی کسی کی اولاد سمجھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو سوالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے گ۴ے تھے ان میں ایک سوال یہ تھا کہ اللہ کا نسب کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے اور کون اس کے بعد وارث ہوگا ؟ ان جاہلانہ مفروضات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ منطقی طور پر بیان کو فرض کرلینے سے کچھ اور چیزوں کو بھی فرض کرنا لازم آتا ہے ۔ اول یہ کہ خدا ایک نہ ہو ، بلکہ خداؤں کی کوئی جنس ہو ، اور اس کے افراد خدائی اوصاف ، افعال اور اختیارات میں شریک ہوں ، یہ بات خدا کی صرف نسبی اولاد فرض کرلینے ہی سے لازم نہیں آتی ، بلکہ کسی کو متبنی فرض کرنے سے بھی لازم آتی ہے ، کیونکہ کسی کا متبنی لا محالہ اس کا ہم جنس ہی ہوسکتا ہے ، اور جب معاذ اللہ وہ خدا کا ہم جنس ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خدائی کے اوصاف بھی رکھتا ہے ۔ دوم یہ کہ اولاد کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے ۔ پس اللہ کے لیے اولاد فرض کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذات خود معاذہ اللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خداؤں کی نسل ہو نہ کہ ذات خدا ۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذ باللہ خدا کی بھی کوئی ابتدا اور انتہا ہو ۔ کیونکہ توالد و تناسل پر جن اجناس کے بقاء کا انحصار ہوتا ہے ان کے افراد نہ ازلی ہوتے ہیں نہ ابدی ۔ چہارم یہ کہ کسی کو متبنی بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک لا ولد شخس اپنی زندگی میں کسی مددگار کا ، اور اپنی وفات کے بعد کسی وارث کا حاجت مند ہوتا ہے ۔ لہذا اللہ تعالی کے لیے یہ فرض کرنا کہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، اس ذات پاک کی طرف لازما وہی سب کمزوریاں منسوب کرنا ہے جو فانی اشخاص میں پائی جاتی ہیں ۔ ان تمام مفروضات کی جڑ اگرچہ اللہ تعالی کو احد اور الصمد کہنے سے کٹ جاتی ہے ، لیکن اس کے بعد یہ ارشاد فرمانے سے کہ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ، اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی ۔ پھر چونکہ ذات باری کے حق میں یہ تصورات شرک کے اہم ترین اسباب میں سے ہیں ، اس لیے اللہ تعالی نے صرف سورہ اخلاص ہی میں ان کی صاف صاف اور قطعی و حتمی تردید کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ، بلکہ جگہ جگہ اس مضمون کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو پوری طرح سمجھ لیں ۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں: ۭاِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭسُبْحٰنَهٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ ۘ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ( النساء ، 171 ) اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ، وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، سب اس کی ملک ہے ۔ اَلَآ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَيَقُوْلُوْنَ ۔ وَلَدَ اللّٰهُ ۙ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ( الصافات ، 151 ۔ 152 ) خوب سن رکھو ، یہ لوگ دراصل اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ۔ فی الواقع یہ قطعی جھوٹے ہیں ۔ وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ( الصافات ، 158 ) انہوں نے اللہ اور فرشتوں کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے ، حالانکہ فرشتے خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ ( مجرموں ) کی حیثیت سے ) پیش کیے جانے والے ہیں ۔ وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ ( الزخرف ، 15 ) لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے ۔ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭسُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ ۔ بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ( الانعام ، 100 ۔ 101 ) اور لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا دیا ، حالانکہ وہ ان کا خالق ہے ۔ اور انہوں نے بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں ، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو وہ کہتے ہیں ۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجود ہے ۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے ، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ ( الانبیاء ، 26 ) اور ان لوگوں نے کہا کہ خدائے رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، پاک ہے وہ ، بلکہ ( جن کو یہ اس کی اولاد کہتے ہیں ) وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے ۔ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ ھُوَ الْغَنِيُّ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ( یونس ، 68 ) لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، سبحان اللہ ، وہ تو بے نیاز ہے ، آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے ۔ تمہارے پاس اس قول کی آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے؟ ۔ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ( بنی اسرائیل ، 111 ) اور ( اے نبی ) کہو ، تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے ، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو ۔ مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ ( المومنون ، 91 ) اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ، اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے ۔ ان آیات میں ہر پہلو سے ان لوگوں کے عقیدے کی تردید کردی گئی ہے جو اللہ کے لیے نسبی اولاد یا متبنی بنائی ہوئی اولاد تجویز کرتے ہیں ، اور اس کے غلط ہونے کے دلائل بھی بیان کردیے گئے ہیں ، یہ اور اسی مضمون کی دوسری بہت سی آیات جو قرآن مجید میں ، سورہ اخلاص کی بہترین تفسیر کرتی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: یہ اُن لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اﷲ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسی یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اﷲ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔