4۔ 1 اس کی ذات میں اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں۔ (لیس کمثلہ شئی) حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " انسان مجھے گالی دیتا ہے یعنی میرے لیے اولاد ثابت کرتا ہے، حالانکہ میں ایک ہوں بےنیاز ہوں، میں نے کسی کو جنا ہے نہ کسی سے پیدا ہوا ہوں اور نہ کوئی میرا ہمسر ہے (صحیح بخاری) اس سورت میں ان کا بھی رد ہوگیا جو متعدد خداؤں کے قائل ہیں اور جو اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں اور جو اس کو دوسروں کا شریک گردانتے ہیں اور ان کا بھی جو سرے سے وجود باری تعالیٰ ہی کے قائل نہیں۔
[٥] کفو کا لغوی مفہوم :۔ کُفُوًا : کفاء کپڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اس جیسے دوسرے ٹکڑے سے ملا کر خیمہ کی پچھلی طرف ڈال دیا جاتا ہے اور کفو اور کُفٰی بمعنی ہم پایہ، ہم پلہ، مرتبہ و منزلت میں ایک دوسرے کے برابر ہونا۔ اس کے مقابلہ اور جوڑ یا ٹکر کا ہونا۔ کفو کا لفظ عموماً میدان جنگ میں دعوت مبارزت کے وقت یا نکاح اور رشتہ کے وقت بولا جاتا ہے۔ فلان کفولفلان یعنی فلاں شخص فلاں کے جوڑ کا یا مدمقابل یا ہمسر ہے۔ رشتہ کے وقت بھی فریقین یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے فریق کی معاشی، معاشرتی اور تمدنی حالت اس جیسی ہے یا نہیں ؟ بس یہی کفو کا مفہوم ہے۔ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی ذات کے متعلق طرح طرح کے سوال کرتے ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ اس کائنات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کے جوڑ کی ہو اور تمہیں سمجھایا جاسکے کہ اللہ فلاں چیز کی مانند ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ 11 ) 42 ۔ الشوری :11) - سورة اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے :۔ واضح رہے کہ چونکہ اس سورت میں توحید کے جملہ پہلوؤں پر مکمل روشنی ڈال دی گئی ہے۔ لہذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کو تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے اور یہ چیز بیشمار احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں بنیادی طور پر تین عقائد پر ہی زور دیا گیا ہے۔ اور وہ ہیں توحید، رسالت اور آخرت۔ اس سورت میں توحید کا چونکہ جامع بیان ہے اس لیے اسے قرآن کی تہائی کے برابر قرار دیا گیا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- ١۔ سیدنا ابو الدرداء سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تم ہر رات کو ایک تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا : کوئی شخص تہائی قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ) تہائی قرآن کے برابر ہے (مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضلقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ) - ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ جمع ہوجاؤ تاکہ میں تمہارے سامنے قرآن کا تیسرا حصہ پڑھوں ہم جمع ہوئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے۔ اور سورت (قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحْدٌ) پڑھی۔ پھر اندر چلے گئے۔ ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ شاید آسمان سے کوئی خبر آئی ہے جس کے لیے آپ اندر چلے گئے۔ پھر آپ باہر نکلے تو فرمایا : میں نے تم سے کہا تھا کہ تمہارے سامنے تہائی قرآن پڑھوں گا۔ سو یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے۔ (حوالہ ایضاً ) - ٣۔ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو ایک فوج پر سردار مقرر کرکے بھیجا۔ وہ اپنی فوج کی نماز میں قرآن پڑھتے اور قراءت کو (قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحْدٌ) پر ختم کرتے تھے۔ جب فوج لوٹ کر آئی تو لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ رحمن کی صفت ہے اور میں اسے دوست رکھتا ہوں کہ اسے پڑھا کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اسے کہہ دو کہ اللہ تمہیں دوست رکھتا ہے (حوالہ ایضاً )
(١) ولم یکن لہ کفوا احد :” کفوا “ ہم مثل، جوڑ، جو برابر کا ہو۔” قل ھو اللہ احد “ کہنے سے اولاد اور کفو کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے مگر ان کو پھر لاگ بھی ذکر فرمایا، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت (٩٨) :(من کان عدواً للہ وملئکتہ ورسلہ و جبرئیل ومیکال فان اللہ عدو للکفرین) (وہ شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو تو بلاشبہ اللہ سب کافروں کا دشمن ہے) میں ملائکہ میں شامل ہونے کے باوجود جبریل اور میکائیل کو الگ ذکر فرمایا ہے۔ اس کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ دوبارہ ذکر کر کے اس کی طرف خاص توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ اس سے مزید وضاحت اور تفصیل ہوجاتی ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کو صرف ” قل ھو اللہ احد “ کہنے سے ان دونوں باتوں کی طرف توجہ ہی نہ ہوتی یا توجہ ہوتی بھی تو وہ اتنی وضاحت سے نہ سمجھ سکتا جتنی وضاحت سے وہ انہیں الگ ذکر کرنے سے سمجھا ہے۔ علم بلاغت میں اسے تجرید کہتے ہیں۔ (التہسیل)- (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کو قرآن کا ثلث قرار دیا ہے، یہ قرآن کا ثلث کس طرح ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس کی وضاحت نہیں فرمائی، اہل علم نے اپنے اپنے خیال کے مطابق ب اس کی توجیہ فرمائی ہے۔ بعض نے اس سے مراد ثواب لیا ہے، بعض نے فرمایا، قرآن مجید کے تین ثلث ہیں، ایک ثلث احکام، دوسرا وعد وعید اور تیسرا اسماء وصفات ہے اور اس سورت میں اسماء وصفات بیان ہوئے ہیں۔ بعض نے اللہ کی معرفت، آخرت کی معرفت اور صراط مستقیم کو قرآن کے تین ثلث قرار دے کر اللہ کی معرفت کو اس سورت کا موضوع قرار دیا ہے۔ بعض نے توحید، رسالت اور آخرت کو تین حصے قرار دیا اور اس سورت کو توحید کی جامع ہونے کی وجہ سے ثلث قرآن قرار دیا۔ یہ اختلاف خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہر ایک نے اپنے ذہن سے ایک بات سوچی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی وضاحت نہیں آئی، ورنہ سب اس پر متفق ہوجاتے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس بات پر ایمان رکھا جائے کہ یہ سورت قرآن کے ثلث کے برابر ہے اور یہ بات اللہ کے سپرد کردی جائے کہ ثلث کے برابر کس طرح ہے ؟- (٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی سنتوں میں ” قل یا یھا الکفرون “ اور ” قل ھو اللہ احد “ پڑھا کرتے تھے۔ (دیکھیے مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر…: ٨٢٦) سورت (قل یایھا الکفرون) توحید عملی کی جامع ہے کہ میں اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتا ہوں، نہ کروں گا اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ میں کسی اور کی عبادت کروں اور سورت (قل ھو اللہ احد) توحید علمی کی جامع ہے کہ اللہ کے متعلق عقیدہ وعلم کیا ہونا چاہیے۔ (زاد المعاد)- کسی بھی قسم کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کے لئے سورة فلق اور سورة ناس جیسی کوئی چیز نہیں۔ ان سورتوں میں تمام جسمانی و روحانی آفات سے بچانے اور انہیں دور کرنے کی زبردست تاثیر موجود ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سورتوں کی بہت فضیلت بیان فرمئای ہے، خصوصاً پناہ کے باب میں ان کو بےمثل قرار دیا ہے۔ یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں : - (١) عقبہ بن عامر (رض) عنہماکہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الم تر آیات انزلت اللیلۃ لم یرمثلھن قط :(قل اعوذ برب الفلق) و (قل اعوذ برب الناس) (مسلم صلاۃ المسافرین، باب فضل قراء ۃ المعودتین : ٨١٣) ” کیا تم نے وہ آیات نہیں دیکھیں جو آج رات نازل کی گئی ہیں، جن کی مثل کبھی دیکھی ہی نہیں کی گئی ؟ وہ سورة فلق اور سورة ناس ہیں۔ “ (٢) ابن عابس جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا :(الا اخیرک بافضل ما یتعود بہ المتعوذون ؟ قال بلی یا رسول اللہ قال :(قل اعوذ برب الفلق ) و (قل اعوذ برب الناس) ماتین السورتین) (نسائی، الاستعاذۃ ، باب ماجاء فی سورتی المعوذتین : ٥٣٣٣)” کیا میں تمہیں سب سے بہتر وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ساتھ پناہ پکڑنے والے پناہ پکڑیت ہیں ؟ “ انہوں نے کہا :” کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” قل اعوذ برب الفلق “ اور ” قل اعوذ برب الناس “ یہ دو سورتیں ۔ “- (٣) عبداللہ بن حنیب (رض) عنہمابیان کرتے ہیں :(خرجنا فی لیلۃ مطیرۃ وظلمۃ شدیدہ نطلب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یصلی لنا، قال فادر کتہ، فقال قل، فلم اقل سیئاً ثم قال قل، قلم اقل شیئاً ، قال قل، فقلت ما اقول ؟ قال قل (قل ھو اللہ احد) (والمعوذتین حین تمسی وتصبح ثلاث مرات تکفیل من کل شیء )- (ترذی، الدعوات، باب الدعائ، عند النوم : ٣٥٨٥، وقال الالبانی حسن )” ہم ایک بارش اور سخت اندھیرے والی رات میں نکلے، ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کر رہے تھے، تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں۔ چناچہ میں آپ سے جا ملا، تو آپ نے فرمایا : ” کہو۔ “ میں نے کچھ نہ کہا، آپ نے پھر فرمایا :” قل ھو اللہ احد “ اور معوذتین صبح و شام تین تین متربہ کہہ، یہ تجھے ہر چیز سے کافی ہوجائیں گی۔ “ (٤) ابو سعید خدری (رض) عنہمابیان کرتے ہیں :” معوذتین نازل ہونے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنوں سے اور انسان کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب معوذتین اتریں تو آپ نے ان دونوں کو معمول بنا لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیا۔ “ (ترمذی، الاستعاذۃ، باب ما جاء فی الرقیۃ بالمعوذتین، ٢٠٥٨ ) ترمذی نے اسے حسن صحیح اور البانی نے صحیح کہا ہے ۔- (٥) عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معوذتین کے متعلق پوچھا۔ عقبہ فرماتے ہیں کہ (ہم نے یہ سوال کیا تو) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ان دونوں سورتوں کے ساتھ صبح کی جماعت کروائی۔ (نسائی، الاستعاذۃ باب ما جاء فی سورتی السعوذتین : ٥٣٣٦، وصیححۃ الالبانی) اس سے معلوم ہوا کہ ان کا نام معوذتین معروف تھا اور یہبھی معلوم ہوا کہ آپ نے لمبی سورتوں کی جگہ انہیں کافی قرار دیا۔ (دیکھیے ترمذی، الاستعاذۃ ، باب ماجاء فی الرقیۃ بالمعوذتین، ٢٠٥٨)- (٦) عائشہ (رض) فرماتی ہیں :” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رات جب اپنے بستر پر آتے تو دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرتے پھر ان میں پھونکتے۔ دونوں میں ” قل ھو اللہ احد “ ، ” قل اعوذ برب اللفلق “ اور ” قل اعوذ برب الناس “ پڑھتے پھر دونوں ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر جہاں تک ہوسکتا پھیرتے۔ پھیرنے کی ابتدا سر، چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے کرتے۔ آپ اس طرح تین متربہ کرتے۔ “ (بخاری، فضائل القرآن، باب فضل المعوذات ، ٥٠١٨(٧) عائشہ (رض) ہی سے روایت ہے :” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیمار ہوتے تو اپنے آپ پر معوذات پڑھ کرپ ھونکتے تھے۔ جب آپ کا درد بہت بڑھ گیا تو میں آپ پر پڑھتی اور آپ ہی کا ہاتھ اس ہاتھ کی برکت کی امید سے (آپ کے جسم پر) پھیرتی تھی۔ “ (بخاری، الاستعاذۃ ، باب ماجاء فی المعوذات : ٥٠١٦) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ان تینوں سورتوں کو مذکورہ اوقات میں روزانہ پڑھنا چاہیے یہ ہر قسم کی روحانی اور جسمانی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں اور جن و انس میں سے شیاطین کے شر ورو آفات سے بھی اللہ کی پناہ میں رکھتی ہیں۔- تنبیہ : جب ہم ” اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم “ یا معوذات پڑھتے ہیں تو ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا مطلب یہ نہیں ہ صرف زبان سے یہ الفاظ ادا کردیئے جائیں، بلکہ ضروری ہے کہ وہ تمام خیالات، واہشات اور اعمال ترک کرنے کی کوشش کی جائے جو شیطان کو پ سند ہیں۔ جس طرح کسی شخص پر کوئی درندہ حملہ آور ہو تو اس کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ میں فلاں قلعہ میں پناہ لیتا ہوں، بلکہ اسے اس قلعہ میں پہنچنے کی جدوجہد بھی کرنا ہوگی۔ اسی طرح دشمن کے حملے سے اللہ کی پناہ طلب کرنے والے اور اس پر فتح و نصرت کی دعا کرنے والے کے لئے پناہ اور دعا کے الفاظ ہی منہ سے ادا کردینا کافی نہیں، بلکہ دشمن کے خلاف تیاری، میدان میں نکلنا اور قتل و قتال کے لئے تیار رہنا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ دعا بھی کی جائے تو واقعی اللہ تعالیٰ کی پناہ بھی حاصل ہوتی ہے اور اس کی حفاظت بھی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص عملاً تو ہر بات میں شیاطین الانس والجن کی پیروی کرے، مگر منہ سے اللہ کی پناہ طلب کرتا رہے تو یہ پناہ طلب کرنا اسے شیاطین سے اور ان کے وسوسوں سے نہیں بچا سکتا۔ اس کی ایک جامع مثال یہ ہے کہ ” لا الہ الا اللہ “ کہنے والا شخص یقیناً جنت میں جائے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہے، مگر کیا صرف یہ الفاظ ادا کرنے والا جہنم سے اللہ کی پناہ میں چلا جاتا ہے ؟ نہیں، بلکہ وہ جو ” صادقاً من قلبہ “ ہو، یعنی سچے دل سے صرف اللہ کو معبود برحق مانے اور اسی کی عبادت کرے، اس کیلئے یہ فضیلت ہے۔ اگر وہ کسی غیر کو یا اپنی خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنا لے تو پھر کروڑ دفعہ بھی ” لا الہ الا اللہ “ پڑھتا رہے تو جہنم سے نہیں بچ سکتا۔ (ملخص از قاسمی)
ولم یکن لہ کفوا احد، کفو کے لفظی معنے مثل اور مماثل کے ہیں، معنے یہ ہیں کہ نہ کوئی اس کا مثل ہے نہ کوئی اس سے مشاکلت اور مشابہت رکھتا ہے۔- سورة اخلاص میں مکمل توحید اور ہر طرح کے شرک کی نفی ہے :۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک سمجھنے والے منکرین توحید کی دنیا میں مختلف اقسام ہوئی ہیں۔ سورة اخلاص نے ہر طرح کے مشرکانہ خیالات کی نفی کر کے مکمل توحید کا سب دیا ہے کیونکہ منکرین توحید میں ایک گروہ تو خود اللہ کے وجود ہی کا منکر ہے بعض وجود کے توقائل ہیں مگر وجوب وجود کے منکر ہیں بعض دونوں کے قائل ہیں مگر کمال صفات کے منکر ہیں۔ بعض یہ سب کچھ مانتے ہیں، مگر پھر عبادت میں غیر اللہ کو شریک ٹھہراتے ہیں، ان سب کے خیالات باطلہ کا رد اللہ احد میں ہوگیا، بعض لوگ عبادت میں بھی کسی کو شریک نہیں کرتے مگر حاجت روا اور کار ساز اللہ کے سوا دوسروں کو بھی سمجھتے ہیں ان کے خیال کا ابطال لفظ صمد میں ہو گای۔ بعض لوگ اللہ کے لئے اولاد کے قائل ہیں ان کا رد لم یلد میں ہو گای۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ ٤ ۧ- كفؤ - الكُفْءُ : في المنزلة والقدر، ومنه : الْكِفَاءُ لشقّة تنصح بالأخری، فيجلّل بها مؤخّر البیت . يقال : فلان کفء لفلان في المناکحة، أو في المحاربة، ونحو ذلك . قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَدٌ [ الإخلاص 4] ومنه :- الْمُكَافَأَةُ. أي : المساواة والمقابلة في الفعل، وفلان كُفْؤٌ لک في المضادّة، والْإِكْفَاءُ : قلب الشیء كأنه إزالة المساواة، ومنه : الْإِكْفَاءُ في الشّعر ومُكْفَأُ الوجه، أي : کا سد اللّون وكَفِيئُهُ ، ويقال لنتاج الإبل ليست تامّة : كَفْأَةٌ وجعل فلان إبله كَفْأَتَيْنِ : إذا لقح کلّ سنة قطعة منها .- ( ک ف ء ) الکفئ کے معنی مرتبہ اور منزلت میں دوسرے کا ہم پلہ ہونے کے ہیں اسی سے کفاء کپڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اس جیسے دوسری ٹکڑے کے ساتھ ملا کر خیمہ کے پچھلی طرف ڈال دیا جاتا ہے اور اسی نکاح یا لڑائی میں ہمسروں کے متعلق کہا جاتا ہے فلان کفو لفلان فلاں اس کا ہمسر ہے قرآن میں ہے ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَدٌ [ الإخلاص 4] اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ۔ اسی سے مکافاءہ ہے جسکے معنی کسی کام ، میں دوسرے کے بالمقابل ہونے کے ہیں نیز محاورہ ہے :۔ فلان کفو لک فلاں دشمنی میں تیرا ہم پلہ ہے الاکفاء کے معنی کسی چیز کو الٹا کردینے کے ہیں گویا اس میں مسادات کو دور کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں اور اسی سے الفاء فی الشعر ہے جس کے معنی قسیدہ میں حرف رودی کے مختلف ہونے کے ہیں مکفاء الواجھہ اذا کفی الوجھہ متغیر آدمی کفا ۃ اونٹوں کی ناقص پیدائش محاورہ ہے : ۔ جعل فلانا ابلہ کفا تین اس نے اپنے اونٹوں کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ۔ یعنی ایک سال ایک حصہ سے نسل لیتا ہے اور دوسرے سال دوسرے سے ۔- أحد - أَحَدٌ يستعمل علی ضربین :- أحدهما : في النفي فقط - والثاني : في الإثبات .- فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة 47] .- وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه :- الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین .- والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین .- والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة :- كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد - ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔
آیت ٤ وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَ حَدٌ ۔ ” اور کوئی بھی اس کا کفو نہیں ہے۔ “- کُفْو کے معنی ہم سر کے ہیں ‘ جو قدرت ‘ علم ‘ حکمت اور دیگر صفات میں ہم پلہ اور ہم پایہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا نہ تو کوئی ہم پلہ اور برابری کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضد ‘ ند ‘ مثل ‘ مثال ‘ مثیل وغیرہ ہے۔
سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 6 اصل میں لفظ کُفُو استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں نظیر ، مشابہ ، مماثل ، ہم رتبہ ، مساوی ، نکاح کے معاملہ میں کفو کا لفظ ہماری زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی معاشرتی حیثیت سے برابر کی جوڑ ہوں ۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات میں کوئی نہیں ہے ، نہ کبھی تھا ، نہ کبھی ہوسکتا ہے ، جو اللہ کے مانند ، یا اس کا ہم مرتبہ ہو ، یا جو اپنی صفات ، افعال اور اختیارات میں اس سے کسی درجہ میں بھی مشابہت رکھتا ہو ۔
5: یعنی کوئی نہیں ہے جو کسی معاملے میں اُس کی برابری یا ہمسری کرسکے۔ اس سورۃ کی ان چار مختصر آیتوں میں اﷲ تعالیٰ کی توحید کو اِنتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔ پہلی آیت میں اُن کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ خداوں کے قائل ہیں، دوسری آیت میں اُن کی تردید ہے جو اﷲ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا، کار ساز یا حاجت روا قرار دیتے ہیں۔ تیسری آیت میں اُن کی تردید ہے جو اﷲ تعالیٰ کے لئے اولاد مانتے ہیں، اور چوتھی آیت میں اُن لوگوں کا رَدّ کیا گیا ہے جو اﷲ تعالیٰ کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں، مثلاً بعض مجوسیوں کا کہنا یہ تھا کہ روشنی کا خالق کوئی اور ہے، اور اندھیرا کا خالق کوئی اور ہے، یا بھلائی پیدا کرنے والا او رہے، اور بُرائی پیدا کرنے والا کوئی اور اسی طرح اس مختصر سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دیکر خالص توحید ثابت کی ہے۔ اس لئے اس سورت کو سورۂ اِخلاص کہا جاتا ہے، اور ایک صحیح حدیث میں اس کو قرآنِ کریم کا ایک تہائی حصہ قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے : توحید، رسالت اور آخرت۔ اور اس صورت نے ان میں توحید کے عقیدے کی پوری وضاحت فرمائی ہے۔ اس سورۃ کی تلاوت کے بھی احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں۔