10۔ 1 جب کنویں کو اور غَیَابَۃ اس کی تہ اور گہرائی کو کہتے ہیں، کنواں ویسے بھی گہرا ہی ہوتا ہے اور اس میں گری ہوئی چیز کسی کو نظر نہیں آتی۔ جب اس کے ساتھ کنویں کی گہرائی کا بھی ذکر کیا تو گویا مبالغے کا اظہار کیا۔ 10۔ 2 یعنی آنے جانے والے نو وارد مسافر، جب پانی کی تلاش میں کنوئیں پر آئیں گے تو ممکن ہے کسی کے علم میں آجائے کہ کنوئیں میں کوئی انسان گرا ہوا ہے اور وہ اسے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں۔ یہ تجویز ایک بھائی نے ازراہ شفقت پیش کی تھی۔ قتل کے مقابلے میں یہ تجویز واقعتا ہمدردی کے جذبات ہی کی حامل ہے۔ بھائیوں کی آتش حسد اتنی بھڑکی ہوئی تھی کہ یہ تجویز بھی اس نے ڈرتے ڈرتے ہی پیش کی کہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کام اس طرح کرلو۔
[٩] پھر ان میں کسی بھائی نے (غالباً سب سے بڑے بھائی یہودا نے) شاید یوسف کی جان پر ترس کھا کر یہ رائے دی کہ اسے جان سے ختم نہ کرو کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اسے کسی دور دراز مقام پر چھوڑ کر آنا بھی سہل کام نہیں۔ لہذا بہتر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے دور کسی کنویں میں پھینک دو جو تجارتی قافلوں کے راستہ پر واقع ہو۔ کوئی قافلہ آئے گا تو اسے دیکھ کر اٹھالے جائے گا۔ اس طرح خود ہی یوسف دور دراز مقام پر پہنچ جائے گا۔ ہم وہاں جانے آنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے۔
قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ ۔۔ :” غَيٰبَتِ “ کا معنی لغت میں ہے : ” غِیَابَۃُ کُلِّ شَیْءٍ مَا سَتَرَکَ مِنْہُ “ یعنی ہر چیز کی غیابت وہ ہے جو تمہیں اس سے پردے میں کرلے، یعنی اسے تم سے چھپالے۔ اس لیے قبر کو بھی ” غِیَابَۃٌ“ کہتے ہیں۔ ” الْجُبِّ “ کا معنی کنواں، بہت پانی اور گہرائی والا کنواں یا مٹی کا کھودا ہوا کنواں جس میں پتھروں اور اینٹوں کی دیوار نہ بنائی گئی ہو، ” السَّـيَّارَةِ “ قافلہ۔ (قاموس) ان بھائیوں میں سے ایک نے جو فطرتاً دوسروں سے بہتر اور رحم دل تھا، جب انھیں حد سے گزرتے دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ یہ کسی طرح ٹلنے والے نہیں، انھیں ایسا مشورہ دیا جسے وہ بھی قبول کرسکیں اور اسے یوسف کا طرف دار بھی قرار نہ دیں۔ وہ یہ تھا کہ یوسف کو قتل نہ کرو، قتل تو بہت ہی بڑا جرم ہے۔ (مفسرین فرماتے ہیں کہ یوسف کا نام اس نے ان کے دل میں نرمی، شفقت اور رحم ابھارنے کے لیے لیا، تاکہ وہ کچھ سوچیں کہ ہم کسے قتل کرنے جا رہے ہیں، یوسف کو ؟ جو ہمارا بھائی ہے) اگر ضرور ہی کچھ کرنا ہے تو اسے کسی اندھے کنویں کی گہرائی میں پھینک دو ۔ اس سے تمہارا مقصد بھی پورا ہوجائے گا کہ کوئی قافلہ اسے اٹھا کرلے جائے گا، تم اپنے مقصد یعنی والد کی نگاہوں سے دور کرنے میں بھی کامیاب ہوجاؤ گے اور ایک معصوم جان کے قتل سے بھی بچ جاؤ گے۔ ” قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ “ مطلب یہ کہ اگر قتل کا مشورہ دینے والے بھائی تھے تو یہ بھی ایک بھائی ہی تھا۔ یہ بات کس بھائی نے کہی تھی، قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہیں، کیونکہ ہدایت کے مقصد کے لیے اس کی ضرورت نہ تھی اور پہلی کتابوں کے سچ یا جھوٹ کا کچھ پتا نہیں کہ ان پر بھروسا کر کے کوئی نام بتایا جائے۔
چوتھی آیت میں ہے کہ انہی بھائیوں میں سے ایک نے یہ ساری گفتگو سن کر کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو اگر کچھ کرنا ہی ہے تو کنویں کی گہرائی میں ایسی جگہ ڈال دو جہاں یہ زندہ رہے اور راہ مسافر جب اس کنویں پر آئیں تو وہ اس کو اٹھا کرلے جائیں اس طرح تمہارا مقصد بھی پورا ہوجائے گا اور اس کو لے کر تمہیں خود کسی دور مقام پر جانا بھی نہ پڑے گا کوئی قافلہ آئے گا وہ خود اس کو اپنے ساتھ کسی دور مقام پر پہنچا دے گا،- یہ رائے دینے والا ان کا سب سے بڑا بھائی یہودا تھا اور بعض روایات میں ہے کہ روبیل سب سے بڑا تھا اسی نے یہ رائے دی اور یہ وہ شخص ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے کہ جب مصر میں یوسف (علیہ السلام) کے چھوٹے بھائی بنیامین کو روک لیا گیا تو اس نے کہا کہ میں جا کر باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا اس لئے میں واپس کنعان نہیں جاتا اس آیت میں لفظ غَيٰبَتِ الْجُبِّ فرمایا ہے غَیَابہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز کو چھپا لے اور غائب کر دے اسی لئے قبر کو بھی غیابہ کہا جاتا ہے اور جُبّ ایسے کنویں کو کہتے ہیں جس کی مَن بنی ہوئی نہ ہو،- يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ لفظ التقاط لقطہ سے بنا ہے لقطہ اس گری پڑی چیز کو کہتے ہیں جو کسی کو بغیر طلب مل جائے غیر جان دار چیز ہو تو اس کو لقطہ اور جان دار کو فقہاء کی اصطلاح میں لقیط کہا جاتا ہے انسان کو لقیط اسی وقت کہا جائے گا جبکہ وہ بچہ ہو عاقل بالغ نہ ہو قرطبی نے اسی لفظ سے استدلال کیا ہے کہ جس وقت یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈالا گیا تھا اس وقت وہ نابالغ بچے تھے نیز یعقوب (علیہ السلام) کا یہ فرمانا بھی ان کے بچہ ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ مجھے خوف ہے کہ اس کو بھیڑیا کھا جائے کیونکہ بھیڑئیے کا کھاجانا بچوں ہی کے معاملہ میں متصور ہے ابن جریر ابن المنذرا بن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کی عمر سات سال تھی (مظہری)- امام قرطبی (رح) نے اس جگہ لقطہ اور لقیط کے شرعی احکام کی تفصیل دی ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں البتہ اس کے متعلق ایک اصولی بات یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اسلامی حکومت کے محکوموں کی ذمہ داری نہیں بنایا بلکہ ہر شخص کو اس کا مکلف بنایا ہے راستوں اور سڑکوں میں کھڑے ہو کر یا اپنا کوئی سامان ڈال کر چلنے والوں کے لئے تنگی پیدا کرنے پر حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔- فرمایا کہ جو شخص مسلمانوں کا راستہ تنگ کر دے اس کا جہاد مقبول نہیں اسی طرح اگر راستہ میں کوئی ایسی چیز پڑی ہے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جانے کا خطرہ ہے جیسے کانٹے یا کانچ کے ٹکڑے یا پتھر وغیرہ ان کو راستہ سے ہٹانا صرف میونسپل بورڈ کی ذمہ داری نہیں بنایا بلکہ ہر مسلمان کو ترغیبی انداز میں اس کا ذمہ دار بنایا ہے اور ایسا کرنے والوں کے لئے بڑے اجرو ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے ،- اسی اصول پر کسی شخص کا گم شدہ مال کسی کو مل جائے تو اس کی شرعی ذمہ داری صرف اتنی ہی نہیں کہ اس کو چرائے نہیں بلکہ یہ بھی اس کے ذمہ ہے کہ اس کو حفاظت سے اٹھا کر رکھے اور اعلان کر کے مالک کی تلاش کرے وہ مل جائے اور علامات وغیرہ بیان کرنے سے یہ اطمینان ہوجائے کہ یہ مال اسی کا ہے تو اس کو دیدے اور اعلان و تلاش کے باوجود مالک کا پتہ نہ چلے اور مال کی حیثیت کے مطابق یہ اندازہ ہوجائے کہ اب مالک اس کو تلاش نہ کرے گا اس وقت اگر خود غریب مفلس ہے تو اپنے صرف میں لے آئے ورنہ مساکین پر صدقہ کر دے اور بہر دو صورت یہ مالک کی طرف سے صدقہ قرار دیا جائے گا اس کا ثواب اس کو ملے گا گویا آسمانی بیت المال میں اس کے نام پر جمع کردیا گیا،- یہ ہیں خدمت عامہ اور امداد باہمی کے وہ اصول جن کی ذمہ داری اسلامی معاشرہ کے ہر فرد پر عائد کی گئی ہے کاش مسلمان اپنے دین کو سمجھیں اور اس پر عمل کرنے لگیں تو دنیا کی آنکھیں کھل جائیں کہ حکومت کے بڑے بڑے محکمے کروڑوں روپیہ کے خرچ سے جو کام انجام نہیں دے سکتے وہ اس آسانی کے ساتھ کس شان سے پورا ہوجاتا ہے،
قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْہُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْہُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّـيَّارَۃِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ ١٠- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - غيابة- والغَيَابَةُ : منهبط من الأرض، ومنه : الغَابَةُ للأجمة، قال : فِي غَيابَتِ الْجُبِّ [يوسف 10] ، - ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- الغیابۃ - کے معنی نشیبی زمین کے ہیں اور اسی سے گھنے جنگل کو غابۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي غَيابَتِ الْجُبِّ [يوسف 10] کسی کنویں کی گہرائی میں ۔۔۔۔ ایک محاورہ ہے َھم یشھدون احیانا ویتغایبون احیانا کہ وہ کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی چھپ جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ سبأ 53] کے معنی یہ ہیں کہ ( وہ یونہی اندھیرے میں تیرچلاتے ہیں اور ) نگاہ وبصیرت سے اس کا ادراک نہیں کرتے ۔- جبَ- قال اللہ تعالی: وَأَلْقُوهُ فِي غَيابَتِ الْجُبِ [يوسف 10] ، أي : بئر لم تطو، وتسمیته بذلک إمّا لکونه محفورا في جَبُوب، أي : في أرض غلیظة، وإمّا لأنه قد جبّ ،- ( ج ب ب ) الجب - کنواں جو پختہ پالیا ہوا نہ یو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقُوهُ فِي غَيابَتِ الْجُبِ [يوسف 10] کسی گہرے گڑھے م ہیں ڈال دو ۔ اور اس کنوئیں کو جب یا تو اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ جبوب یعنی سخت زمین میں کھدا ہوا تھا اور یا اس لئے کہ وہ گہرا گڑھا سا تھا ۔ اصل میں الجب ( ن ) کے معنی کسی چیز کو اس کے اصل سے کاٹ دینے کے ہیں - التقاط - ( افتعال) سے لقط مادہ۔ وہ نکال لیگا لقط ( باب نصر) زمین پر پڑی ہوئی چیز کو اٹھا لینا - ( السيّارة) ، جمع السيّار من صيغ المبالغة، وزنه فعّال .
قول باری ہے قال قائل منھم لا تقتلوا یوسف والقوہ فی غیایۃ الجب یلتقطہ بعض السیارۃ ان کنتم فاعلین ۔ اس پر ان میں سے ایک بولا ۔ یوسف کو قتل نہ کرو ۔ اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے اندھے کنوئیں میں ڈال دو کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا ۔ جب بھائیوں نے آپس میں حضرت یوسف کو قتل کردینے یا باپ کی نظروں سے دور لے جانے میں سے ایک پر عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا تو اس موقع پر ان میں سے ایک نے یہ مشورہ دیا کہ اس مقصد کے لیے درج بالا دونوں باتوں کی بجائے ایک تیسری راہ اختیار کی جائے جس میں شر اور بدی کا عنصر نسبتاً کم ہے۔ وہ یہ کہ یوسف کو کسی کم پانی والے کنویں میں پھینک دیا جائے تاکہ مسافروں کا کوئی قابلہ وہاں سے گزرے اور انہیں کنوئیں سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائے۔- جب انہوں نے قطعی طور پر اس تیسری تدبیر پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے نرمی اور چاپلوسی کی راہ اختیار کرلی چناچہ اپنے والد سے کہنے لگے ( یا ابانا مالک لا تامنا علی یوسف وانا لہ لنا صحون ارسلہ معنا غدا ً یرقع ویلعب وانا لہ لحافظون ۔ ابا جان کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں ، کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ۔ کچھ چرچگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دلا بہلائے گا ۔ ہم اس کی حفاظت موجود ہیں۔ یرقع کے معنی یرعی کے ہیں یعنی چرچگ لینا ۔ ایک قول کے مطابق رقع علاقوں میں فراخی کے ساتھ رہنے کو کہتے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ یرقع فی المال یعنی وہ اپنے مال کے ذریعے فراخی کے ساتھ علاقوں میں رہتا ہے۔- بعض کھیل مباح ہیں بعض گناہ - اس کھیل کو کہتے ہیں جس میں تفریح مقصود ہوتی ہے اور اس کے ذریعے راحت حاصل کی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں کسی اچھے انجام کو مد نظر نہیں رکھ جاتا اور نہ ہی اس فعل کو کرنے والے کے سامنے تفریح اور تماشا کے حصول کے سوا اور کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اس بنا پر لعب کی بعض صورتیں مباح اور جائز ہوتی ہیں یعنی ان کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوتا مثلاً ایک شخص کا اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ ، اسی طرح طرب و تفریح کے لیے گھوڑا سواری وغیرہ لعب کی بعض صورتیں ممنوع اور حرام ہوتی ہیں ۔ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ جس لعب کا برادران یوسف نے ذکر کیا تھا وہ مباح اور جائز تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) اس پر انہیں ٹوکتے اور اس سے انہیں روکتے۔ جب بھائیوں نے حضرت یوسف کو اپنے ہمراہ لے جانے کی درخواست کی تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا انی لیحرننی ان تذھبوا بہ واخاف ان یاکلہ الذئب وانتم عنہ غافلون۔ تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہیں اسے کوئی بھیڑ یا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے اپنے اس غم کا ذکر کردیا جو یوسف کے چلے جانے سے انہیں لا حق ہوتا ۔ اس لیے کہ یوسف ان کی نظروں سے دورہو جاتے اور وہ انہیں دیکھنے سے قاصر رہ جاتے اس کے ساتھ انہیں یہ بھی خوف تھا کہ کہیں کوئی بھیڑیا ، ان کو مار لہ ڈالے ، اس طرح حضرت یوسف کے چلے جانے کی صورت میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) پر دو باتیں آ پڑتیں ۔ ایک تو جدائی کا غم اور دوسرا یوسف کی جان جانے کا خوف بھائیوں نے اس کے جواب میں باپ سے کہا کہ جہاں تک بھیڑے کے پھاڑ کھانے کا تعلق ہے تو یہ قطعی طور پر ناممکن ہے اس لیے کہ ہم ایک جتھا ہیں اور ہمارے ہوتے ہوئے اگر ایسا ہوگیا تو ہم بڑے ہی نکمے ہوں گے۔
(١٠) یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں میں سے یہودا نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ یوسف (علیہ السلام) کو قتل مت کرو بلکہ ان کو کسی گہرے یا اندھے کنویں میں ڈال دو تاکہ ان کو کوئی مسافر راہ چلتا ہوا نکال لے جائے اگر تمہیں یہ کام کرنا ہے تو اس طرح کرو۔
آیت ١٠ (قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ )- یہ شریف النفس انسان ان کے سب سے بڑے بھائی تھے جنہوں نے یہ مشورہ دیا۔ ان کا نام یہودا تھا اور انہی کے نام پر لفظ ” یہودی “ بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ تو اس سے پیچھا چھڑانے کا ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ قتل جیسا گناہ کر کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جائے اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔- (وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ )- پرانے زمانے کے کنویں کی ایک خاص قسم کو باؤلی کہا جاتا تھا اس کا منہ کھلا ہوتا تھا لیکن گہرائی میں یہ تدریجاً تنگ ہوتا جاتا تھا۔ پانی کی سطح کے قریب اس کی دیوار میں طاقچے سے بنائے جاتے تھے۔ اس طرح کی باؤلیاں پرانے زمانے میں قافلوں کے راستوں پر بنائی جاتی تھیں۔ چناچہ اس مشورے پر عمل کی صورت میں قوی امکان تھا کہ کسی قافلے کا ادھر سے گزر ہوگا اور قافلے والے یوسف کو باؤلی سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بڑے بھائی کے اس مشورے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ اس طرح کم از کم یوسف کی جان بچ جائے گی اور ہم بھی اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ - (اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ )- جب نو بھائی اس بات پر پوری طرح تلُ گئے کہ یوسف سے بہرحال چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو دسواں بھائی ان کو اس حرکت سے بالکل منع تو نہیں کرسکا لیکن اس نے کوشش کی کہ کم از کم وہ لوگ یوسف کو قتل کرنے سے باز رہیں۔