9۔ 1 اس سے مراد تائب ہوجانا ہے یعنی کنوئیں میں ڈال کر یا قتل کر کے اللہ سے اس گناہ کے لئے توبہ کرلیں گے۔
[٨] صالحین کے دو مفہوم :۔ باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ترکیب انہوں نے یہ سوچی کہ کسی طرح یوسف کو غائب ہی کردیا جائے یا تو اسے مار ہی ڈالا جائے۔ یا پھر کسی دور دراز مقام میں اسے پہنچا دیا جائے تاکہ وہاں سے وہ واپس نہ آسکے۔ اس طرح ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ اب چونکہ وہ ایک جلیل القدر نبی کی اولاد بھی تھے۔ اس لیے ایسے فعل کے ارتکاب پر ان کا ضمیر انھیں ملامت بھی کر رہا تھا۔ اس کا حل یہ سوچا گیا کہ پہلے اپنی خواہش نفس تو پوری کرلیں۔ بعد میں تو بہ کرکے نیک بن جائیں گے۔ یہی وہ شیطانی چالیں تھیں جن کے متعلق یعقوب کو پہلے سے ہی اندیشہ تھا۔- (وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ ۔ ) 12 ۔ یوسف :9) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم لوگ یوسف کو ٹھکانے لگا دو گے تو اس کے بعد از خود ہی تم لوگ اپنے باپ کو اچھے لگنے لگو گے۔
اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا : دیکھیے حسد انسان کو کہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ آدمی صغیرہ گناہ کو کبیرہ اور کبیرہ کو صغیرہ سمجھنے لگتا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) کا باپ کی نظر میں زیادہ محبوب ہونا بھائیوں کی نظر میں اتنا بڑا جرم بن گیا کہ اس کی وجہ سے قتل ناحق جو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، ان کی نگاہ میں معمولی بن گیا۔ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے قصے میں بھی حسد نے ایک بےگناہ کا قتل قاتل کی نگاہ میں جائز بلکہ خوش نما بنادیا۔ دوسری تجویز بھی کم خطرناک نہ تھی۔ ” طَرْحٌ“ کا معنی ہے دور پھینک دینا۔ ” اَرْضًا “ نکرہ ہے، یعنی اسے کسی نامعلوم زمین میں پھینک دو ، تاکہ وہیں مرجائے۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے متعلق فرمایا : (وَلَوْلَآ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاۗءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ) [ الحشر : ٣ ] ” اور اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ان (بنو نضیر) پر جلاوطن ہونا لکھ دیا تھا تو وہ یقیناً انھیں دنیا میں سزا دیتا۔ “ معلوم ہوا کہ جلاوطنی اور وہ بھی نامعلوم سرزمین میں، کم عذاب نہیں ہے۔ - يَّخْلُ لَكُمْ ۔۔ :” يَّخْلُ “ اصل میں ” یَخْلُوْ “ تھا۔ ” اقْــتُلُوْا “ (امر) کے جواب میں مجزوم ہونے کی وجہ سے اس کی واؤ اور ” تَکُوْنُوْنَ “ کا نون گرگئے، یعنی یوسف کے قتل یا غائب کردینے سے تمہارے والد صاحب کی توجہ صرف تمہارے لیے رہ جائے گی۔ ” وَجْہ “ کا معنی چہرہ ہے اور چہرے کے ساتھ ہی توجہ ہوتی ہے۔ والد کی محبت میں شریک غالب کا کانٹا نکلنے کی دیر ہے، وہ تمہارے ہی ہوجائیں گے۔ حسد نے انھیں ایسا اندھا کیا کہ یہ بھی نہ سوچا کہ اس بوڑھی جان پر کیا گزرے گی، انھیں یوسف (علیہ السلام) کی عداوت میں نہ باپ پر گزرنے والی حالت کا کوئی خیال آیا نہ یوسف پر رحم آیا۔ - وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ : اتنے بڑے جرم پر ملامت کرنے والے ضمیر کو انھوں نے یہ تسلی دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی کہ یوسف کا قصہ تمام کرکے تم نیک لوگ بن جانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی سنگ دلی کے باوجود انھیں اپنے مجرم ہونے کا احساس تھا۔ یہ شیطان کا بندے کو گناہ میں مبتلا کرنے کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے کہ گناہ کرلو، بعد میں توبہ کرلینا، لیکن شیطان کے اس وار سے بچنا نہایت ضروری ہے، کیا خبر کہ اس کے بعد توبہ کا موقع ہی نہ ملے، پہلے ہی موت آجائے، جس کا وقت کسی کو بتایا ہی نہیں گیا، تاکہ ہر شخص موت کے کسی بھی وقت آجانے کے خیال سے گناہ سے باز رہے، فرمایا : (وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) [ آل عمران : ١٠٢ ] ” اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ “ پھر اس کی بھی کیا خبر کہ وقت ملنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے اس کی طرف سے توبہ کی توفیق ہی نہ ملے۔ فرمایا : (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ) [ الأنفال : ٢٤ ] ” اور جان لو کہ بیشک اللہ بندے اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے۔ “- ایک معنی ” وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ “ کا یہ بھی کیا گیا ہے کہ یوسف کے بعد تم درست معاملے والے لوگ بن جانا، یعنی والد کو راضی کرلینا اور آپس میں شیر و شکر ہوجانا۔ یہ معنی ہو تو بھی وہ دھوکے ہی میں مبتلا تھے۔ اپنے لخت جگر کو غائب کرنے والوں سے ظاہری صلح ہو بھی جائے تو ہر وقت غم سے بھرا ہوا دل پہلی حالت میں کیسے آسکتا ہے۔
تیسری آیت میں یہ بیان ہے کہ ان بھائیوں میں مشورہ ہوا بعض نے یہ رائے دی کہ یوسف (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالو، بعض نے کہا کہ کسی غیرآباد کنویں کی گہرائی میں ڈال دو تاکہ یہ کانٹا درمیان سے نکل جائے اور تمہارے باپ کی پوری توجہ تمہارے ہی طرف ہوجائے رہا یہ گناہ جو اس کے قتل یا کنویں میں ڈالنے سے ہوگا سو بعد میں توبہ کر کے تم نیک ہو سکتے ہو آیت کے جملہ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ کے یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یوسف کے قتل کے بعد تمہارے حالات درست ہوجائیں گے کیونکہ باپ کی توجہ کا یہ مرکز ختم ہوجائے گا یا یہ کہ قتل کے بعد باپ سے عذر معذرت کر کے تم پھر ویسے ہوجاؤ گے،- یہ دلیل ہے اس بات کی کہ یوسف (علیہ السلام) کے یہ بھائی انبیاء نہیں تھے کیونکہ انہوں نے اس واقعہ میں بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ایک بےگناہ کے قتل کا ارادہ باپ کی نافرمانی اور ایذاء رسانی، معاہدہ کی خلاف ورزی، پھر جھوٹی سازش وغیرہ، انبیاء (علیہم السلام) سے قبل نبوت بھی جمہور کے عقیدہ کے مطابق ایسے گناہ سرزد نہیں ہو سکتے،
اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْہُ اَبِيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ ٩- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- طرح - الطَّرْحُ : إلقاء الشیء وإبعاده، والطُّرُوحُ : المکان البعید، ورأيته من طَرْحٍ أي : بُعْدٍ ، والطِّرْحُ : المَطْرُوحُ لقلّة الاعتداد به . قال تعالی: اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً [يوسف 9] .- ( ط ر ح ) الطرح کے معنی کسی چیز کو پھینکنے اور دور کردینے کے ہیں اور دوردراز مقام کو الطروح کہاجاتا ہے ۔ محاورہ ہے ؛رائتہ من طرح میں نے اسے دور سے دیکھا ۔ الطرح پھینکی ہوئی چیز جس کی کسی کو ضرورت نہ ہو قرآن میں ہے : اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً [يوسف 9] تو یوسف (علیہ السلام) کو یا تو جان سے مارڈالو یا کسی دور دراز ملک میں پھینک آؤ ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - خلا - الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] - ( خ ل و ) الخلاء - ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجر ات 11]
قول باری ہے اقتلوا یوسف او طرحوہ ارضا ً یخل لکم وجہ ابیکم چلو یوسف کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تا کہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہوجائے تا آخر آیت ۔ برادران یوسف نے آپ میں یہ فیصلہ کرلیا کہ یا تو یوسف کو قتل کر دیاجائے یا باپ سے انہیں دور کردیا جائے ۔ جس چیز کی بنیاد پر انہوں نے اس فعل کو جائز قرار دے کر اس کے ارتکاب کی جرأت کرلی تھی اسے قرآن کے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ وتکونوا من بعدۃ قوما ً صلحین یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن رہنا ۔ اس فعل کے ارتکاب کے بعد انہوں نے توبہ کرلینے کی توقع رکھی تھی ، اس کی مثال یہ قول باری ہے بل یرید الانسان لیفجر ا مامہ۔ اصل یہ ہے کہ انسان تو یہی چاہتا ہے کہ آئندہ بھی فسق و فجور ہی کرتا ہے۔ اس کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ انسان اس توقع پر گناہ کا عزم کرلیتا ہے کہ وہ اس کا ارتکاب کے بعد توبہ کرلے گا ۔ وہ اپنے دل میں کہتا ہے ۔ میں یہ گناہ کرلینے کے بعد توبہ کرلوں گا ۔ آیت میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ قاتل کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ برادران یوسف نے یہ کہا تھا کہ یوسف کو قتل کرنے کے بعد ہم نیک بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ بات نقل کردی لیکن اس پر تنقید نہیں کی، نہ ہی تردید کی۔
(٩) پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یوسف کو قتل کر دو یا کسی دور دراز علاقے میں چھوڑ آؤ، اس صورت میں تمہارے باپ کا رخ صرف تمہاری طرف ہوجائے گا اور تم یوسف کے قتل کے بعد ان کے قل کے گناہ سے توبہ کرلینا یا یہ کہ پھر تمہارے باپ کے ساتھ تمہارے سب معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔
آیت ٩ (اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ )- یوسف چونکہ ان دونوں میں بڑا ہے اس لیے وہی والد صاحب کی ساری توجہ اور عنایات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ چناچہ جب یہ نہیں رہے گا تو لا محالہ والد صاحب کی تمام تر شفقت اور مہربانی ہمارے لیے ہی ہوگی۔- (وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ )- اس فقرے میں ان کے نفس اور ضمیر کی کشمکش کی جھلک صاف نظر آرہی ہے۔ ضمیر تو مسلسل ملامت کر رہا تھا کہ یہ کیا کرنے لگے ہو ؟ اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتے ہو ؟ یہ تمہاری سوچ درست نہیں ہے لیکن عام طور پر ایسے مواقع پر انسان کا نفس اس کے ضمیر پر غالب آجاتا ہے جیسا کہ ہم نے سورة المائدۃ آیت ٣٠ میں ہابیل اور قابیل کے سلسلے میں پڑھا تھا : (فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ ) ” پس قابیل کے نفس نے اسے آمادہ کر ہی لیا اپنے بھائی کے قتل کرنے پر۔ “- اسی طرح ان لوگوں نے بھی اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک دفعہ یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتار لو ‘ پھر اس کے بعد توبہ کر کے اور کفارہ وغیرہ ادا کر کے کسی نہ کسی طرح اس جرم کی تلافی کردیں گے اور باقی زندگی نیک بن کر رہیں گے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :10 یہ فقرہ ان لوگوں کے نفسیات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے جو اپنے آپ کو خواہشات نفس کے حوالے کر دینے کے ساتھ ایمان اور نیکی سے بھی کچھ رشتہ جوڑے رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی نفس ان سے کسی برے کام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ ایمان کے تقاضوں کو ملتوی کر کے پہلے نفس کا تقاضا پورا کرنے پر تل جاتے ہیں اور جب ضمیر اندر سے چٹکیاں لیتا ہے تو اسے یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذرا صبر کر ، یہ ناگزیر گناہ ، جس سے ہمارا کام اٹکا ہوا ہے ، کہ گزرنے دے ، پھر ان شاءاللہ ہم توبہ کر کے ویسے ہی نیک بن جائیں گے جیسا تو ہمیں دیکھنا چاہتا ہے ۔
5: یہ ترجمہ اس آیت کی ایک تفسیر کے مطابق ہے گویا اُن کا خیال یہ تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ ایک گناہ ہوگا، اور ہر گناہ کی معافی توبہ سے ہو سکتی ہے، چنانچہ توبہ مانگ کر پھر ساری عمر نیکی کرتے رہنا۔ حالانکہ کسی بندے پر اگر ظلم کیا جائے تو اُس کی معافی صرف توبہ سے نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ مظلوم معاف نہ کرے۔ اس جملے کی ایک اور تفسیر بھی ممکن ہے، اور وہ یہ کہ ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم بعد میں نیک بن جائیں گے، بلکہ ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’یہ سب کرنے کے بعد تمہارے سارے کام درست ہوجائیں گے‘‘ یعنی والد کی طرف سے کسی امتیازی سلوک کا اندیشہ نہیں رہے گا۔ قرآنِ کریم کے الفاظ میں اس معنیٰ کی بھی گنجائش موجود ہے۔