Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اس کا بھائی سے مراد بنیامین ہے۔ 8۔ 2 یعنی ہم دس بھائی طاقتور جماعت اور اکثریت میں ہیں، جب کہ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین (جن کی ماں الگ تھی) صرف دو ہیں، اس کے باوجود باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں۔ 8۔ 3 یہاں ضلال سے مراد غلطی ہے جو ان کے زعم کے مطابق باپ سے یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین سے زیادہ محبت کی صورت میں صادر ہوئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی باپ کی خدمت تو ہم کرتے ہیں۔ کما کر ہم لاتے ہیں۔ مشکل کے وقت کام ہم آتے ہیں اور شفقت اور پیار ہمارے بجائے یوسف اور اس کے بھائی پر ہوتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باپ کی توجہ ہماری طرف ہوتی لیکن توجہ کا مرکز یہ دونوں بنے ہوئے ہیں اور یہ ہمارے باپ کی صریح غلطی ہے۔ لفظ ضلال مبین کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ ان حقائق کے باوجود ہمارا باپ انھیں دونوں کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ ۔۔ : یعنی انھوں نے آپس میں کہا۔ دراصل انھوں نے اپنے ظلم کے جواز کے لیے یوسف (علیہ السلام) کا یہ جرم تجویز کیا، ورنہ اگر یہ جرم تھا تو والد کا تھا جو انھوں نے والد کو بھی معاف نہیں کیا، اس کا ذکر آگے آ رہا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید میں کہیں اشارہ بھی نہیں کہ اس میں یعقوب (علیہ السلام) کی کوئی غلطی تھی، اگر یہ غلطی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یعقوب (علیہ السلام) کو ضرور اس سے آگاہ کردیتا، کیونکہ وہ نبی تھے۔ بعض مفسرین نے بھی یہ لکھ دیا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ باپ کو بیٹوں کے درمیان محبت میں بھی برابری رکھنی چاہیے، حالانکہ نہ ان حضرات نے خیال فرمایا، نہ برادران یوسف نے کہ والدین کے بعض اولاد کی طرف میلان کے کیا مراتب و اسباب ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹے بچے والدین کی شفقت اور محبت زیادہ حاصل کرتے ہیں، جو یوسف (علیہ السلام) کے بڑے بھائیوں میں سے ہر ایک اپنی اس عمر میں حاصل کرچکا تھا، پھر اولاد کی طبیعت کی سرکشی اور اطاعت ماں باپ کی محبت کھینچنے میں فرق کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح بیمار بچے اور پردیس میں رہنے والے بچے کی طرف والدین کی توجہ زیادہ ہوتی ہے، جیسا کہ اس قدیم عرب نے کہا تھا جس سے پوچھا گیا کہ تمہیں اپنے بیٹوں میں سب سے پیارا کون ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : ” چھوٹا، یہاں تک کہ بڑا ہو، غائب یہاں تک کہ آجائے اور بیمار یہاں تک کہ تندرست ہوجائے۔ “ (شعراوی) اس لیے شریعت نے اولاد کے درمیان عطیے میں برابری اور بیویوں کے درمیان عدل کا حکم دیا ہے، دلی میلان اور محبت نہ بندے کے اختیار میں ہے اور نہ اس کے کم و بیش ہونے میں ماں باپ کا کوئی جرم ہے، نہ اولاد کا۔ یوسف (علیہ السلام) کے چھوٹے بھائی کا جرم بھی یہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چھوٹے بھائی کا نام بتایا نہ بڑوں کا، کیونکہ یہ بات قرآن کے مقصود سے خاص تعلق نہیں رکھتی۔ اب اگر ہم اہل کتاب سے سن کر چھوٹے کا نام بنیامین لکھیں یا بڑوں کا نام لکھیں تو جس بات کو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق سچا یا جھوٹا نہیں کہہ سکتے، اس کا علم سے کیا تعلق ہے اور اس کا اعتبار ہی کیا ہے ؟ علم یقین کا نام ہے، شک کا نہیں۔ - وَنَحْنُ عُصْبَةٌ : یہ جملہ حالیہ ہے۔ لفظ ” عُصْبَةٌ“ ایک قوی جماعت پر بولا جاتا ہے، جو عموماً دس سے لے کر چالیس پر مشتمل ہوں۔ یہ ” عَصْبٌ“ سے مشتق ہے جو بمعنی ” شَدٌّ“ (باندھنا) ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو قوت اور سہارا دیتا ہے، یعنی ہم تمام کام سنبھالنے والے اور وقت پر کام آنے والے ہیں، جب کہ یوسف اور اس کا بھائی کم عمر ہونے کی وجہ سے والد کے کسی کام نہیں آسکتے اور ہم ایک قوی جتھا ہیں جو اس بدوی ماحول میں وقت پر کام آسکتے ہیں۔ - اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ : یہاں انھوں نے باپ کو بھی نہیں بخشا۔ ” ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ “ سے مراد رائے کی غلطی ہے جو دنیوی معاملات میں ہوتی ہے، یہاں ضلالت سے مراد دینی ضلالت یا عام گمراہی نہیں ہے، ایسا کہتے تو یہ لوگ کافر ہوجاتے۔ (قرطبی) بعض اوقات کسی خاص کام میں غلطی پر بھی یہ لفظ آجاتا ہے، جیسا کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہونے کی وجہ بتائی، فرمایا : (اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى ۭ ) [ البقرۃ : ٢٨٢ ] ”(اس لیے) کہ دونوں میں سے ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے۔ “ دراصل وہ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ آئندہ کیے جانے والے سلوک میں اپنے آپ کو بےقصور باور کروا کر ساری غلطی والد کے ذمے ڈالنا چاہتے تھے، جنھوں نے اولاد کی محبت میں فرق کیا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں یوسف (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے والد یعقوب (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ یوسف (علیہ السلام) سے غیر معمولی محبت رکھتے ہیں جو ان کے بڑے بھائیوں کو حاصل نہیں اس لئے ان پر حسد ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی طرح ان کو یوسف (علیہ السلام) کا خواب بھی معلوم ہوگیا جس سے انہوں نے یہ محسوس کیا ہو کہ ان کی بڑی شان ہونے والی ہے اس سے حسد پیدا ہوا اور آپس میں گفتگو کی کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے والد کو بہ نسبت ہمارے یوسف اور اس کے حقیقی بھائی بنیامین سے زیادہ محبت ہے حالانکہ ہم دس ہیں اور ان سے بڑے ہیں گھر کے کام کاج سنبھالنے کی قوت رکھتے ہیں اور یہ دونوں چھوٹے بچے ہیں جو کچھ کام نہیں کرسکتے ہمارے والد کو اس کا خیال کرنا اور ہم سے زیادہ محبت کرنا چاہئے تھا مگر انہوں نے کھلی ہوئی بےانصافی کر رکھی ہے اس لئے یا تو تم یوسف (علیہ السلام) کو قتل ڈالو یا پھر کسی دور زمین میں پھینک آؤ جہاں سے واپس نہ آسکے۔- اس آیت میں ان بھائیوں نے اپنے متعلق لفظ (آیت) اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ استعمال کیا ہے یہ لفظ عربی زبان میں پانچ سے لے کر دس تک کی جماعت کے لئے بولا جاتا ہے اور اپنے والد کے بارے میں جو یہ کہا کہ (آیت) وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ اس میں لفظ۔۔ کے لغوی معنی گمراہی کے ہیں مگر یہاں گمراہی سے مراد دینی گمراہی نہیں ورنہ ایسا خیال کرنے سے یہ سب کے سب کافر ہوجاتے کیونکہ یعقوب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبرا ور نبی ہیں ان کی شان میں ایساخیال قطعی کفر ہے،- اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے متعلق خود قرآن کریم میں مذکور ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کر کے والد سے دعاء مغفرت کی درخواست کی جس کو ان کے والد نے قبول کیا جس سے ظاہریہ ہے کہ ان سب کی خطامعاف ہوئی یہ سب اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ یہ سب مسلمان ہوں ورنہ کافر کے حق میں دعاء مغفرت جائز نہیں اسی لئے ان بھائیوں کے انبیاء ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مسلمان ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ضلال اس جگہ صرف اس معنی میں بولا گیا ہے کہ بھائیوں کے حقوق میں برابری نہیں کرتے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ۝ ٠ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ۝ ٨ ۚۖ- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - عُصْبَةُ- والعُصْبَةُ : جماعةٌ مُتَعَصِّبَةٌ متعاضدة . قال تعالی: لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص 76] ، وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف 14] ، أي : مجتمعة الکلام متعاضدة، - ( ع ص ب ) العصب - العصبۃ وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے حامی اور مدد گار ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص 76] ایک طاقتور جماعت وٹھانی مشکل ہوتیں ۔ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف 14] حالانکہ ہم جماعت کی جماعت ) ہیں ۔ یعنی ہم باہم متفق ہیں اور ایک دوسرے یکے یاروں مددگار - ضَلل - وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان .- جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے اذا قالوا لیوسف واخوہ احب الی ابینا منا ونحن عصبۃ ان ابانا لفی ضلال مبنی ۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا یہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں ۔ انہوں نے آپس میں یہ گفتگو کی اور اپنے اس حسد کا اظہار کیا جو وہ والد سے حضرت یوسف کے قریب اور وابستگی کی بنا پر اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے ، یہ مرتبہ اور یہ وابستگی انہیں حاصل نہیں تھی ۔ انہوں نے اپنے والد کے اس طرز عمل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان ابا نا لفی ضلال مبین ان کا اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا یہ طرز عمل درست رائے پر مبنی نہ تھا اس لیے کہ حضرت یوسف ان سے چھوٹے تھے اور بھائیوں کا خیال یہ تھا کہ بڑے بھائی کا درجہ چھوٹے بھائی سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس لیے باپ کا قر ب انہیں حاصل ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ بیٹوں کا ایک پورا جتھا صر ف ایک بیٹھے کی بہ نسبت شفقت و محبت کا زیادہ مستحق ہے ۔ قول باری ونحن عصبۃ کا یہی مفہوم ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ دنیاوی امور میں وہ حضرت یعقوب کے لیے حضرت یوسف سے بڑھ کر نفع مند تھے اس لیے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے مال مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اس بنا پر ان کی رائے یہ تھی کہ باپ نے انہیں نظر انداز کرکے ایک بیٹے کو اپنی شفقت و محبت کا مرکز بنا لیا ہے نیز ان سب پر اسے مقدم رکھا ہے ، باپ کا یہ طرز عمل راہ صواب سے ہٹا ہوا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨) وہ وقت قابل ذکر ہے جب ان سوتیلے بھائیوں نے باہم مشورہ کیا کہ یوسف اور ان کے حقیقی بھائی بنیامین ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ عزیز ہیں اور ہم اس کی ایک جماعت ہیں واقعی ہمارے باپ یوسف (علیہ السلام) سے محبت کرنے اور ان کو ہم پر ترجیح دینے میں ایک فاش غلطی پر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ)- برادران یوسف نے کہا کہ ہم پورے دس لوگ ہیں سب کے سب جوان اور طاقتور ہیں خاندان کی شان تو ہمارے دم قدم سے ہے (قبائلی زندگی میں نوجوان بیٹوں کی تعداد پر ہی کسی خاندان کی شان و شوکت اور قوت و طاقت کا انحصار ہوتا ہے) لیکن ہمارے والد ہمیں نظر انداز کر کے ان دو چھوٹے بچوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :8 اس سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی بنیامین ہیں جو ان سے کئی سال چھوٹے تھے ۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام ان دونوں بے ماں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ اس سے محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ساری اولاد میں صرف ایک حضرت یوسف علیہ السلام ہی ایسے تھے جن کے اندر ان کو آثار رشد و سعادت نظر آتے تھے ۔ اوپر حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر انہوں نے جو کچھ فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس بیٹے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے ۔ دوسری طرف ان دس بڑے صاحبزادوں کی سیرت کا جو حال تھا اس کا اندازہ بھی آگے کے واقعات سے ہو جاتا ہے ۔ پھر کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک نیک انسان ایسی اولاد سے خوش رہ سکے ۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیبل میں برادران یوسف علیہ السلام کے حد کی ایک ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جس سے الٹا الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر عائد ہوتا ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں کی چغلیاں باپ سے کھایا کرتے تھے اس وجہ سے بھائی ان سے ناراض تھے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :9 اس فقرے کی روح سمجھنے کے لیے بدویانہ قبائلی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ جہاں کوئی ریاست موجود نہیں ہوتی اور آزاد قبائل ایک دوسرے کے پہلو میں آباد ہوتے ہیں ، وہاں ایک شخص کی قوت کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بیٹے ، پوتے ، بھائی ، بھتیجے بہت سے ہوں جو وقت آنے پر اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے اس کا ساتھ دے سکیں ۔ ایسے حالات میں عورتوں اور بچوں کی بہ نسبت فطری طور پر آدمی کو وہ جوان بیٹے زیادہ عزیز ہوتے ہیں جو دشمنوں کے مقابلہ میں کام آسکتے ہوں ۔ اسی بنا پر ان بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑھاپے میں سٹیا گئے ہیں ۔ ہم جوان بیٹوں کا جتھا ، جو برے وقت پر ان کے کام آسکتا ہے ، ان کو اتنا عزیز نہیں ہے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ان کے کسی کام نہیں آسکتے بلکہ الٹے خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ عمر اور طاقت میں بھی زیادہ ہیں اور تعداد میں بھی، چنانچہ ہم اپنے باپ کی قوت بازو ہیں۔ جب کبھی انہیں کسی مدد کی ضرورت پڑے، ہم ہی ان کی مدد کرنے کے لائق ہیں۔ اس لیے ہم سے محبت زیادہ ہونی چاہیے۔