Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بھائی اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوگئے ۔ سمجھا بجھا کر بھائیوں نے باپ کو راضی کر ہی لیا ۔ اور حضرت یوسف کو لے کر چلے جنگل میں جا کر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوسف کو کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں ڈال دیں ۔ حالانکہ باپ سے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ اس کا جی بہلے گا ، ہم اسے عزت کے ساتھ لے جائیں گے ۔ ہر طرح خوش رکھیں گے ۔ اس کا جی بہل جائے گا اور یہ راضی خوشی رہے گا ۔ یہاں آتے ہی غداری شروع کردی اور لطف یہ ہے کہ سب نے ایک ساتھ دل سخت کر لیا ۔ باپ نے ان کی باتوں میں آکر اپنے لخت جگر کو ان کے سپرد کردیا ۔ جاتے ہوئے سینے سے لگا کر پیار پچکار کر دعائیں دے کر رخصت کیا ۔ باپ کی آنکھوں سے ہٹتے ہی ان سب نے بھائی کو ایذائیں دینی شروع کر دیں برا بھلا کہنے لگے اور چانٹا چٹول سے بھی باز نہ رہے ۔ مارتے پیٹتے برا بھلا کہتے ، اس کنویں کے پاس پہنچے اور ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ کر کنویں میں گرانا چاہا ۔ آپ ایک ایک کے دامن سے چمٹتے ہیں اور ایک ایک سے رحم کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہر ایک جھڑک دیتا ہے اور دھکا دے کر مار پیٹ کر ہٹا دیتا ہے مایوس ہوگئے سب نے مل کر مضبوط باندھا اور کنویں میں لٹکا دیا آپ نے کنویں کا کنارا ہاتھ سے تھام لیا لیکن بھائیوں نے انگلویوں پر مار مار کر اسے بھی ہاتھ سے چھڑا لیا ۔ آدھی دور آپ پہنچے ہوں گے کہ انہوں نے رسی کاٹ دی ۔ آپ تہ میں جا گرے ، کنویں کے درمیان ایک پتھر تھا جس پر آکر کھڑے ہوگئے ۔ عین اس مصیبت کے وقت عین اس سختی اور تنگی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب وحی کی کہ آپ کا دل مطمئن ہو جائے آپ صبر و برداشت سے کام لیں اور انجام کا آپ کو علم ہو جائے ۔ وحی میں فرمایا گا کہ غمگین نہ ہو یہ نہ سمجھ کہ یہ مصیبت دور نہ ہوگی ۔ سن اللہ تعالیٰ تجھے اس سختی کے بعد آسانی دے گا ۔ اس تکلیف کے بعد راحت ملے گی ۔ ان بھائیوں پر اللہ تجھے غلبہ دے گا ۔ یہ گو تجھے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ کی چاہت ہے کہ وہ تجھے بلند کرے ۔ یہ جو کچھ آج تیرے ساتھ کر رہے ہیں وقت آئے گا کہ تو انہیں ان کے اس کرتوت کو یاد دلائے گا اور یہ ندامت سے سر جھکائے ہوئے ہوں گے اپنے قصور سن رہے ہوں گے ۔ اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ تو وہ ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب برادران یوسف حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے تو انہیں پہچان لیا لیکن یہ نہ پہچان سکے ۔ اس وقت آپ نے ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر اسے انگلی سے ٹھونکا ۔ آواز نکلی ہی تھی اس وقت آپ نے فرمایا لو یہ جام تو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہارے متعلق ہی کچھ خبر دے رہا ہے ۔ یہ کہہ رہا ہے تہارا ایک یوسف نامی سوتیلا بھائی تھا ۔ تم اسے باپ کے پاس سے لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا ۔ پھر اسے انگلی ماری اور ذرا سی دیر کان لگا کر فرمایا لو یہ کہہ رہا ہے کہ پھر تم اس کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر باپ کے پاس گئے اور وہاں جاکر ان سے کہہ دیا کہ تیرے لڑکے کو بھیڑیئے نے کھا لیا ۔ اب تو یہ حیران ہوگئے آپس میں کہنے لگے ہائے برا ہوا بھانڈا پھوٹ گیا اس جام نے تو تمام سچی سچی باتیں بادشاہ سے کہہ دیں ۔ پس یہی ہے جو آپ کو کنویں میں وحی ہوئی کہ ان کے اس کے کرتوت کو تو انہیں ان کے بےشعوری میں جتائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 قرآن کریم نہایت اختصار کے ساتھ واقعہ بیان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینک دیا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تسلی اور حوصلے کے لئے وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تیری حفاظت ہی نہیں کریں گے بلکہ ایسے بلند مقام پر تجھے فائز کریں گے کہ یہ بھائی بھیک مانگتے ہوئے تیری خدمت میں حاضر ہونگے اور پھر تو انھیں بتائے گا کہ تم نے اپنے ایک بھائی کے ساتھ اس طرح سنگ دلانہ معاملہ کیا تھا، جسے سن کر وہ حیران اور پشیمان ہوجائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ الاسلام اس وقت اگرچہ بچے تھے، لیکن جو بچے، نبوت پر سرفراز ہونے والے ہوں، ان پر بچپن میں بھی وحی آجاتی ہے جیسے حضرت عیسیٰ و یحیٰی وغیرہ (علیہم السلام) پر آئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] چناچہ یہ برادران یوسف اپنے باپ کو چکمہ دینے اور اپنا اعتماد جمانے میں کامیاب ہوگئے اور باپ نے ان پر اعتبار کرتے ہوئے سیدنا یوسف کو دوسرے دن ان کے ہمراہ کردیا۔ یہ بہت بڑا مرحلہ تھا جو سرانجام پا گیا۔ پھر جب وہ اپنی اتفاق سے طے شدہ تجویز کے مطابق اسے ایک گمنام کنویں میں پھینکنے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو صبر عطا فرمایا اور ان کے دل میں بات ڈال دی کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ تم اپنے بھائیوں کو ان کے یہ کرتوت جتلاؤ گے۔ درآنحالیکہ وہ تمہیں پہچانتے بھی نہ ہوں گے اور اس نہ پہچاننے کی بھی دو وجوہ ممکن ہیں ایک یہ کہ یوسف کسی اتنے بلند مرتبہ پر فائز ہوں کہ برادران یوسف کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکے کہ ان کا بھائی اس مقام پر سرفراز ہوسکتا ہے اور اس کا لباس و طرز بودو باش ان سے اس قدر مختلف اور مغائر ہوسکتی ہے، اور دوسرے یہ کہ اتنا طویل عرصہ گزر چکا ہو کہ شکل میں تبدیلی کی وجہ سے وہ انھیں پہچان بھی نہ سکیں۔- واضح رہے ( غَیٰبَتِ الجُبِّ ) کا مفہوم کسی کچے کنویں میں پانی کی سطح سے ذرا اوپر وہ چھوٹے چھوٹے طاقچے ہیں جن میں پاؤں جمائے جاسکیں اور چھوٹی موٹی چیز بھی رکھی جاسکے تاکہ کنویں کی صفائی وغیرہ کے لیے کنوئیں میں اترنے اس سے نکلنے میں سہولت رہے۔ اسی طرح کے ایک چھوٹے سے طاقچے میں بردران یوسف سیدنا یوسف کو رکھ کر واپس آگئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ ۔۔ :” وَاَجْمَعُوْٓا “ باب افعال ہے، کسی کام کا مصمم عزم کرلینا، یعنی آخر وہ باپ کے کسی عذر کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کے خاموش ہونے پر اسے اپنے ساتھ لے ہی گئے۔ اب یہاں قرآن کریم کا کمال اعجاز دیکھیے، فرمایا : ” پھر جب وہ اسے لے گئے اور طے کرلیا کہ اسے کسی اندھے کنویں کی گہرائی میں پھینک دیں “ تو پھر کیا ہوا ؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ذکر ہی نہیں فرمایا، تاکہ سننے والے خود ہی سمجھ لیں کہ قتل تک کا منصوبہ بنانے والے ان دس شیر جوانوں نے یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ کنویں میں پھینکنے کے وقت اور اس سے پہلے کیا سلوک کیا ہوگا۔ قرآن اشارہ کرتا ہے، پھر سمجھنے والے پر چھوڑ دیتا ہے اور کچھ اس لیے بھی کہ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ ان کا سلوک تصور میں تو آسکتا ہے، اسے الفاظ کا جامہ پہنانا مشکل ہے، یا پھر بات اتنی لمبی ہوجائے گی جو قرآن کا طریقہ نہیں۔ مفسر آلوسی نے فرمایا : ” انھیں کنویں میں پھینکنے کی کیفیت اور اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں سے جو کچھ کہا اور جو کچھ انھوں نے اس سے کہا، اس کے متعلق کتب تفسیر میں بہت سی روایات ہیں جنھیں سن کر پتھر بھی پانی ہوجاتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کی سند پر اعتماد ہوسکتا ہو۔ “ کیونکہ ان مفسرین میں سے کوئی چشم دید بیان کرنے والا ہے ہی نہیں اور وہ عالم الغیب جو سب کچھ دیکھ رہا تھا اس نے یہ بات ہمارے خود سوچنے کے لیے بلا تفصیل چھوڑ دی ہے۔ - وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ ۔۔ : یعنی اس مشکل وقت میں یوسف (علیہ السلام) کو اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے تسلی دی گئی کہ ایک ایسا وقت ہر صورت آئے گا جب تم ان بھائیوں کو ان کا یہ کام بتاؤ گے، جب کہ طویل مدت اور آج اور اس وقت کے حالات کے فرق کی وجہ سے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ہم اسی بھائی سے پورا غلہ دینے اور صدقہ کرنے کی درخواست کر رہے ہیں جسے ہم کنویں میں پھینک کر اس سے فارغ ہوچکے تھے۔ یہاں ” لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا “ (تو ضرور ہی انھیں ان کے اس کام کی خبر دے گا) میں ” ان کے اس کام “ کے الفاظ میں بھی ان کے یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ سلوک کی لمبی و دلخراش داستان دو تین لفظوں میں سمٹی ہوئی نظر آرہی ہے۔ - کچھ لوگ یعقوب (علیہ السلام) کے ان الفاظ سے کہ ” میں ڈرتا ہوں کہ اسے بھیڑیا کھاجائے گا “ ان کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں، مگر چند میل کے فاصلے پر کنویں میں یوسف (علیہ السلام) پر گزرنے والی حالت، ان کی غلامی، عفت کی آزمائش، قید خانے کے سال، بادشاہ کے خواب کا قید سے نکلنے کا ذریعہ بننا، خوش حالی اور قحط کے سال، قید سے نکل کر قرب شاہی اور وزارت خزانہ کا حصول، یہ سب کچھ یعقوب (علیہ السلام) کو کیوں معلوم نہ ہوسکا ؟ آنکھیں غم سے سفید کیوں ہوگئیں ؟ کیا علم غیب یہی ہوتا ہے ؟ ہاں، پیغمبروں کو اللہ تعالیٰ جتنی بات وحی کے ذریعے سے بتاتا ہے وہ انھیں معلوم ہوجاتی ہے، جیسے بشارت دینے والے کے مصر سے قمیص لے کر چلنے کے ساتھ ہی انھیں یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگی اور قمیص آنکھوں پر ڈالنے سے بینائی واپس آگئی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ یہ نہ یوسف (علیہ السلام) کے بس کی بات تھی اور نہ ان کے والد ماجد یعقوب (علیہ السلام) کے بس کی۔ اللہ تعالیٰ جتنی بات بتادے وہ معلوم، باقی کی خبر نہیں، ایسا شخص عالم الغیب نہیں ہوتا، ورنہ غیب کی کئی باتیں ہمیں بھی رسول کے بتانے سے معلوم ہیں، تو کیا ہم بھی عالم الغیب ہوگئے ؟ نہیں، آسمان و زمین میں عالم الغیب صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہے، جیسے فرمایا : (قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ) [ النمل : ٦٥ ] ” کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس بات پر سب بھائیوں کا اتفاق ہوگیا جس کا بیان آیات مذکورہ میں سے تیسری آیت میں اس طرح آیا ہے (آیت) فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ یعنی جب یہ بھائی یوسف (علیہ السلام) کو جنگل میں لے گئے اور اس پر سب متفق ہوگئے کہ اس کو کنویں کی گہرائی میں ڈال دیں تو اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اطلاع دی کہ ایک دن ایسا آئے گا جب تم اپنے بھائیوں کو ان کے اس کرتوت پر تنبیہ کرو گے اور وہ کچھ نہ جانتے ہوں گے،- یہاں لفظ وَاَوْحَيْنَآ فَلَمَّا ذَهَبُوْا کی جزاء اور جواب ہے حرف واؤ اس جگہ زائد ہے (قرطبی) مطلب یہ ہے کہ بھائیوں نے مل کر کنویں میں ڈالنے کا عزم کر ہی لیا تو اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی تسلی کے لئے وحی بھیج دی جس میں کسی آئندہ زمانے میں بھائیوں سے ملاقات کی اور اس کی خوش خبری دی گئی ہے کہ اس وقت آپ ان بھائیوں سے مستغنی اور بالادست ہوں گے،- جس کی وجہ سے ان کے اس ظلم و ستم پر مواخذہ کریں گے اور وہ اس سارے معاملہ سے بیخبر ہوں گے امام قرطبی نے فرمایا کہ اس کی دو صورتوں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ یہ وحی ان کو کنویں میں ڈالنے کے بعدان کی تسلی اور یہاں سے نجات کی خوش خبری دینے کے لئے آئی ہو دوسرے یہ کہ کنویں میں ڈالنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو پیش آنے والے حالات و واقعات سے بذریعہ وحی باخبر کردیا جس میں یہ بھی بتلا دیا کہ آپ اس ہلاکت سے سلامت رہیں گے، اور ایسے حالات پیش آئیں گے کہ آپ کو ان بھائیوں پر سرزنش کرنے کا موقع ملے گا جب کہ وہ آپ کو پہچانیں گے بھی نہیں کہ ان کے بھائی یوسف (علیہ السلام) ہیں - یہ وحی حضرت یوسف (علیہ السلام) پر زمانہ طفولیت میں نازل ہوئی تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ وحی نبوت نہ تھی کیونکہ وہ چالیس سال کی عمر میں عطا ہوتی ہے بلکہ یہ وحی ایسی ہی تھی جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بذریعہ وحی مطلع کیا گیا یوسف (علیہ السلام) پر وحی نبوت کا سلسلہ مصر پہونچنے اور جوان ہونے کے بعد شروع ہواجیسا کہ ارشاد ہے (آیت) وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗٓ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا اور ابن جریر، ابن ابی حاتم وغیرہ نے اس کو استثنائی طور پر وحی نبوت ہی قرار دیا ہے، جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں نبوت عطاکی گئی (مظہری)- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ مصر پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اس بات سے منع کردیا تھا کہ وہ اپنے حال کی خبر اپنے گھر بھیجیں (قرطبی) یہی وجہ تھی کہ یوسف (علیہ السلام) جیسے پیغمبر خدا نے جیل سے رہائی اور ملک مصر کی حکومت ملنے کے بعد بھی کوئی ایسی صورت نہیں نکالی جس کے ذریعہ والد ضعیف کو اپنی سلامتی کی خبر دے کر مطمئن کردیتے،- اللہ جل شانہ کی حکمتوں کو کون جان سکتا ہے جو اس طرز میں مخفی تھیں شاید یہ بھی منظور ہو کہ یعقوب (علیہ السلام) کو غیر اللہ کے ساتھ اتنی محبت کے ناپسند ہونے پر متنبہ کیا جائے اور یہ کہ بھائیوں کا حاجت مند بن کر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے پیش کر کے ان کے عمل کی کچھ سزا تو ان کو بھی دینا مقصود ہو،- امام قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس جگہ یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈالنے کا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ جب ان کو ڈالنے لگے تو وہ کنویں کی من سے چمٹ گئے بھائیوں نے ان کا کرتہ نکال کر اس سے ہاتھ باندھے، اس وقت پھر یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں سے رحم کی درخواست کی مگر وہی جواب ملا کہ گیارہ ستارے جو تجھے سجدہ کرتے ہیں ان کو بلا وہی تیری مدد کریں گے پھر ایک ڈول میں رکھ کر کنویں میں لٹکایا جب نصف تک پہنچنے تو اس کی رسی کاٹ دی اللہ تعالیٰ نے اپنے یوسف کی حفاظت فرمائی پانی میں گرنے کی وجہ سے کوئی چوٹ نہ آئی اور قریب ہی ایک پتھر کی چٹان نکلی ہوئی آئی صحیح سالم اس پر بیٹھ گئے بعض روایات میں ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) کو حکم ہوا انہوں نے چٹان پر بٹھا دیا،- یوسف (علیہ السلام) تین روز اس کنویں میں رہے ان کا بھائی یہودا دوسرے بھائیوں سے چھپ کر روزانہ ان کے لئے کھانا پانی لاتا اور ڈول کے ذریعہ ان تک پہنچا دیتا تھا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْہُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ۝ ٠ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ھٰذَا وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ١٥- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - غيابة- والغَيَابَةُ : منهبط من الأرض، ومنه : الغَابَةُ للأجمة، قال : فِي غَيابَتِ الْجُبِّ [يوسف 10] ، - ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- الغیابۃ - کے معنی نشیبی زمین کے ہیں اور اسی سے گھنے جنگل کو غابۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي غَيابَتِ الْجُبِّ [يوسف 10] کسی کنویں کی گہرائی میں ۔۔۔۔ ایک محاورہ ہے َھم یشھدون احیانا ویتغایبون احیانا کہ وہ کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی چھپ جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ سبأ 53] کے معنی یہ ہیں کہ ( وہ یونہی اندھیرے میں تیرچلاتے ہیں اور ) نگاہ وبصیرت سے اس کا ادراک نہیں کرتے ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے واوحینا الیہ لتنبھنھم بامرھم ھذا وھم لا یشعرون ہم نے یوسف کو وحی کی ، کہ ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتنانے گا ۔ یہ اپے فعل کے نتائج سے بیخبر ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جس وقت حضرت یوسف انہیں ان کی یہ حرکت جتائیں گے اس وقت انہیں احساس نہیں ہوگا کہ جتانے والے یوسف ہی ہیں ۔ حسن سے بھی یہی قول منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں وحی بھیج کر نبوت عطا کردی تھی اور انہیں بتادیا تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو ان کی یہ حرکت جتائیں گے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) چناچہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لے جان کی اجازت لے کر وہ انکو جنگل میں لے گئے تو سب نے پختہ ارادہ کرلیا کہ ان کو کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دیں گے۔- چناچہ انہوں نے اپنا ارادہ پورا کیا تو اس وقت ہم نے جبریل امین کو یوسف (علیہ السلام) کے پاس بھیجا اور بذریعہ الہام ان کو تسلی دی کہ اے یوسف تم ان کو ان کی یہ بات جتلاؤ گے اور وہ تمہیں پہچانیں گے بھی نہیں کہ تم یوسف ہو حتی کے تم خود ہی ان سے اپنا تعارف کراؤ گے اور کہ اس وقت ہم نے جو وحی بھیجی ان کے بھائیوں کو اس چیز کی قطعا کچھ خبر نہ ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ )- یہاں پر اَجْمَعُوْٓا کے بعد عَلٰی کا صلہ محذوف ہے یعنی اس منصوبے پر وہ سب کے سب جمع ہوگئے انہوں نے اس رائے پر اتفاق کرلیا۔- (وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ )- یہ بات الہام کی صورت میں حضرت یوسف کے دل میں ڈالی گئی ہوگی کیونکہ ابھی آپ کی عمر نبوت کی تو نہیں تھی کہ باقاعدہ وحی ہوتی۔ بہر حال آپ پر یہ الہام کیا گیا کہ ایک دن تم اپنے ان بھائیوں کو یہ بات اس وقت جتلاؤ گے جب انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہوگا۔ اس چھوٹے سے فقرے میں جو بلاغت ہے اس کا جواب نہیں۔ چند الفاظ کے اندر حضرت یوسف کی تسلی کے لیے گویا پوری داستان بیان کردی گئی ہے کہ تمہاری جان کو خطرہ نہیں ہے تم نہ صرف اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوجاؤ گے بلکہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب تم اس قابل ہو گے کہ اپنے ان بھائیوں کو ان کا یہ سلوک جتلا سکو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :12 متن میں وَھُم لَایَشعُرُونَ کے الفاظ کچھ ایسے انداز سے آئے ہیں کہ ان سے تین معنی نکلتے ہیں اور تینوں ہی لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم یوسف علیہ السلام کو یہ تسلی دے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس پر وحی جاری ہے ۔ دوسرے یہ کہ تو ایسے حالات میں ان کی یہ حرکت انہیں جتائے گا جہاں تیرے ہونے کا انہیں وہم و گمان تک نہ ہوگا ۔ تیسرے یہ کہ آج یہ بے سمجھے بوجھے ایک حرکت کر رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں ۔ بائیبل اور تَلمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوسف علیہ السلام کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی ۔ اس کے بجائے تلمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بلبلائے اور خوب چیخ چیخ کر انہوں نے بھائیوں سے فریاد کی ۔ قرآن کا بیان پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ ایک ایسے نوجوان کا بیان ہو رہا ہے جو آگے جل کر تاریخ انسانی کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے ۔ تلمود کو پڑھیے تو کچھ ایسا نقشہ سامنے آئے گا کہ صحرا میں چند بدو ایک لڑکے کو کنویں میں پھینک رہے ہیں اور وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو ہر لڑکا ایسے موقع پر کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: حضرت یوسف علیہ السلام اس وقت بچے تھے، روایت میں اُن کی عمر سات سال بتائی گئی ہے۔ اس لئے یہ وحی نبوّت کی وحی نہیں تھی، بلکہ یہ اُس قسم کی وحی تھی جیسی قرآنِ کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ یا حضرت مریم کے لئے بیان فرمائی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کسی ذریعے سے یہ بتا دیا کہ گھبراو نہیں، ایک وقت آنے والا ہے کہ یہ لوگ تمہارے آگے جھکیں گے، اور تم انہیں ان کی ساری حرکتوں کے بارے میں انہیں اس وقت سب کچھ جتلا دو گے جب یہ تمہیں ہچانتے بھی نہیں ہوں گے۔ چنانچہ آگے آیت نمبر 89 میں آ رہا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کا حاکم بننے کے بعد انہیں جتلایا تھا۔