Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 کہتے ہیں کہ ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے یوسف (علیہ السلام) کی قمیص خون میں لت پت کرلی اور یہ بھول گئے کہ بھیڑیا اگر یوسف (علیہ السلام) کو کھاتا تو قمیص کو بھی پھٹنا تھا، قمیص ثابت کی ثابت ہی تھی جس کو دیکھ کر، علاوہ ازیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب اور فراست نبوت سے اندازہ لگا کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ واقعہ اس طرح پیش نہیں آیا جو تم بیان کر رہے ہو، بلکہ تم نے اپنے دلوں سے ہی یہ بات بنا لی ہے، حضرت یعقوب اس کی تفصیل سے بیخبر تھے، اس لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ اور اللہ کی مدد کے علاوہ کوئی سہارا نہ تھا۔ 18۔ 1 منافقین نے جب حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی تو انہوں نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افہام وارشاد کے جواب میں فرمایا تھا۔ واللہ لا اجدلی ولالکم مثلا الا ابا یوسف (فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون) اللہ کی قسم میں اپنے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثال پاتی ہوں جس سے یوسف (علیہ السلام) کے باپ یعقوب (علیہ السلام) کو سابقہ پیش آیا تھا اور انہوں نے فصبر جمعیل کہہ کر صبر کا راستہ اختیار کیا تھا، یعنی میرے لیے بھی سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥] اناڑی مجرم :۔ سیدنا یعقوب ان کی طرف سے پہلے ہی مشکوک تھے۔ جب قمیص کو دیکھا تو انھیں پختہ یقین ہوگیا کہ یہ سب مکر اور فریب کاری ہے۔ کیونکہ قمیص کسی جگہ سے بھی نوچی ہوئی یا پھٹی ہوئی نہ تھی۔ ان نو آموز مجرموں کو یہ خیال ہی نہ آیا کہ اگر قمیص کو خون لگانا ہی ہے تو اسے پہلے بےترتیبی سے کچھ پھاڑ بھی لیں تاکہ وہ کسی درندے کی نوچی ہوئی معلوم ہوسکے۔ یہ قمیص دیکھ کر سیدنا یعقوب کہنے لگے وہ بھیڑیا تو بڑا سمجھدار ہوگا جس نے پہلے آرام سے یوسف کی قمیص کو اتارا پھر انھیں پھاڑ کھانے کے بعد کچھ لہو بھی اس پر لگا دیا۔ حقیقت حال کا تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مگر معلوم یہی ہوتا ہے کہ تم نے یوسف کو کہیں گزند پہنچایا ہے یا غائب کردیا ہے اور تمہاری یہ آہ و بکا اور قمیص کو خون آلود کرکے دکھانا اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے ملمع سازیاں ہیں۔- [١٦] صبر جمیل ایسا صبر ہے کہ مصیبت پڑنے پر انسان اسے ٹھنڈے دل سے برداشت کر جائے جزع فزع نہ کرے نہ ہی کسی دوسرے سے اس کا شکوہ شکایت کرے۔ یعنی سیدنا یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہ افسانہ سننے کے بعد ان سے کچھ تعرض نہ کیا نہ انھیں برا بھلا کہا۔ کہیں وہ کوئی اور غلط حرکت نہ کر بیٹھیں۔ اگر کہا تو صرف یہی کہا کہ میری فریاد تو اللہ ہی سے ہے اور میں اسی سے مدد چاہتا ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ ۔۔ : یہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی ایک اور چال تھی کہ وہ یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر ایسا خون لگا کر لائے جو ” کَذِب “ تھا، جس کا معنی جھوٹ ہے یا یہ بمعنی ” مَکْذُوْبٌ“ ہے، جیسے ” خَلْقٌ“ بمعنی ” مَخْلُوْقٌ“ یعنی جھوٹا بنایا ہوا، یا مصدر مبالغے کے لیے ہے کہ وہ خون سراسر جھوٹ تھا، یوسف (علیہ السلام) کا ہرگز نہ تھا، بلکہ وہ بھیڑ بکری یا جنگل سے شکار کیا ہوا کوئی جانور ذبح کرکے اس کا خون لگا کرلے آئے تھے۔ والد ساری حقیقت سمجھ گئے، کیونکہ ان کی گھڑی ہوئی کہانی خود ہی اپنی حقیقت بتارہی تھی اور فرمایا : ” بَلْ سَوَّلَتْ لَکُم انفسکم امرا “ (بلکہ) یعنی جو کچھ تم کہہ رہے ہو سب جھوٹ ہے، بھیڑیے نے یوسف کو ہرگز نہیں کھایا، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دلوں نے تمہارے لیے کوئی بات خوشنما بنادی جو تم کر گزرے ہو۔ اب وہ چونکہ کئی چیزیں ہوسکتی تھیں، اس لیے کسی کی تعیین نہیں فرمائی اور وہ یوسف کو کہیں پھینک آنا، اسے کسی جگہ لے جا کر بیچ آنا، اسے کہیں چھپا دینا وغیرہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مرنے کا یقین ہوجائے تو صبر آجاتا ہے مگر جب خبر ہی نہ ہو کہ بیٹا اس وقت کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے ؟ تو یہ بہت ہی بڑی آزمائش اور ہر وقت دل میں سلگتی رہنے والی چنگاری ہوا کرتی ہے۔ ادھر خواب کے مطابق ابھی یوسف (علیہ السلام) پر اتمام نعمت ہونا تھا اور ” تاویل الاحادیث “ کی تعلیم بھی باقی تھی۔ سو کس طرح مان لیتے کہ اسے بھیڑیا کھا گیا۔ - اہل علم نے لکھا ہے کہ اس سورت میں یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کا تین دفعہ ذکر ہے اور ہر دفعہ اس کا انوکھا ہی اثر ہے۔ ایک تو یہ خون آلود قمیص تھی جس کے نتیجے میں یعقوب (علیہ السلام) کی بینائی ختم ہوگئی، دوسرا یوسف (علیہ السلام) کو تہمت دست درازی سے ان کی قمیص دیکھ کر بری قرار دیا گیا اور تیسرا یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کی خوشبو آنا اور یعقوب (علیہ السلام) پر اسے ڈالنے سے ان کی بینائی کا واپس آنا۔ سبحان اللہ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کمال نشانیاں ہیں۔ - تفسیر ” التحریر والتنویر “ کے مصنف ابن عاشور لکھتے ہیں : ” اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے قمیص کو خون آلود کرنے کی جعل سازی میں اور اسے چیر پھاڑ کر ایسی قمیص کی صورت میں پیش کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہوگی جس کے پہننے والے کو بھیڑیے نے کھالیا ہو۔ خصوصاً اس لیے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ سمجھ دار تھے کہ اتنی سی بات بھی ان میں سے کسی کے ذہن میں نہ آئی ہو، جب کہ وہ دس جوان تھے۔ سو بعض اہل تفسیر نے جو لکھا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں نے آج کی طرح کا کوئی بھیڑیا نہیں دیکھا جو اس بھیڑیے سے زیادہ حلیم (بردبار) ہو کہ میرے بیٹے کو کھا گیا اور اس کی قمیص نہیں پھاڑی، تو یہ قصہ گوئی کی ایک ظرافت ہے۔ “ اگر قمیص کے سالم رہنے کی بات قرآن و حدیث یا کسی صحیح ذریعے سے آئی ہوتی تو میرے خیال کے مطابق ابن عاشور (رض) اتنے واضح الفاظ میں اسے قصہ گو حضرات کی کارستانی قرار نہ دیتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں، بالکل ممکن ہے اور جرم یقیناً اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے مگر بات ثابت تو ہونی چاہیے۔ یہاں ان کے جھوٹے ہونے کے اور دلائل ہی میں کچھ کمی نہ تھی کہ ہم قمیص کا سالم رہنا کسی صحیح ذریعۂ خبر کے بغیر ہی تسلیم کرلیں۔ - فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ : جملہ فعلیہ ” أَصْبِرُ صَبْرًا جَمِیْلاً “ (یعنی اب میں صبر جمیل اختیار کروں گا) کے بجائے جملہ اسمیہ ارشاد فرمایا : ” فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ“ کیونکہ اس میں دوام ہوتا ہے۔ گویا اس میں مبتدا یا خبر محذوف ہے، یعنی ” فَأَمْرِیْ صَبْرٌ جَمِیْلٌ“ یا ” فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ اَمْرِیْ “ یعنی اب میرا کام صبر جمیل ہے۔ کسی بھی چیز کا جمال یہ ہے کہ وہ اپنے جیسی دوسری چیزوں سے بہتر اور خوبصورت ہو۔ چناچہ صبر بھی دو طرح کا ہوتا ہے، ایک صبر جمیل، جس میں حسن ہو اور دوسرا غیر جمیل جو حسن سے خالی ہو۔ پہلا وہ جس کے ساتھ جزع فزع اور واویلا وغیرہ نہ ہو بلکہ اللہ کی تقدیر پر صبر کیا جائے۔ دوسرا وہ جو یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہو اور جو ہر ایک کو آخر کرنا ہی پڑتا ہے۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے ایک بچے پر رو رہی تھی۔ (عبد الصمد کی روایت میں ہے کہ وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی) تو آپ نے اس سے کہا : ( اِتَّقِي اللّٰہَ وَاصْبِرِيْ ، فَقَالَتْ وَمَا تُبَالِيْ بِمُصِیْبَتِيْ ؟ فَلَمَّا ذَھَبَ ، قِیْلَ لَھَا إِنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَخَذَھَا مِثْلُ الْمَوْتِ ، فَأَتَتْ بَابَہُ ، فَلَمْ تَجِدْ عَلٰی بَابِہِ بَوَّابِیْنَ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَمْ أَعْرِفْکَ ، فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَۃٍ ) [ مسلم، الجنائز، باب الصبر علٰی المصیبۃ عند الصدمۃ الأولی : ١٥؍٩٢٦ ] ” اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ “ اس نے کہا : ” آپ کو میری مصیبت کی کیا پروا ہے ؟ “ جب آپ چلے گئے تو اسے بتایا گیا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے، تو اس کی حالت تو موت جیسی ہوگئی۔ وہ آپ کے دروازے پر آئی تو اس نے آپ کے دروازے پر کوئی دربان نہیں دیکھے۔ کہنے لگی : ” یا رسول اللہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ “ آپ نے فرمایا : ” اصل صبر تو صرف پہلی چوٹ کے وقت ہوتا ہے۔ “ - وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ : یہاں ” الْمُسْتَعَانُ “ خبر پر الف لام کی وجہ سے حصر کا معنی پیدا ہوگیا، یعنی صرف اللہ ہے یا اللہ ہی ہے جس سے مدد مانگی جاتی ہے اور اللہ سے مدد مانگنے کا طریقہ بھی اس نے خود ہی سکھایا، جس پر یعقوب (علیہ السلام) نے عمل کیا، فرمایا : (وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ) [ البقرۃ : ٤٥ ] ” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو۔ “- ہمارے جو بھائی کہتے ہیں کہ فلاں حضرت صاحب کی نظر لوح محفوظ پر ہے اور فلاں صاحب کے دل کا آئینہ انھیں کل عالم کی خبر دیتا ہے، وہ غور فرمائیں کہ چند میل کے فاصلے پر کنویں میں اللہ کے نبی یعقوب (علیہ السلام) کو یوسف (علیہ السلام) کی خبر نہ ہوسکی۔ نہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے دل میں کھٹکا تک ہوا کہ والد ماجد سے تو کوئی چیز چھپی رہتی نہیں، ہمارا مکر کیسے کامیاب ہوگا ؟ تو ان کے حضرت صاحبان لوح محفوظ تک کیسے پہنچ گئے ؟ یہاں ایک سوال ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اس وقت یوسف (علیہ السلام) کو تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ جواب یہ ہے کہ وجہ یہ تھی کہ ان کی تلاش بھی انھی بھائیوں ہی نے کرنا تھی، وہ خود تو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے کمزور تھے۔ چناچہ جب موقع مناسب جانا انھی بھائیوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو، فرمایا : (فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ ) [ یوسف : ٨٧ ]” یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ یعنی یوسف (علیہ السلام) کے بھائی یوسف (علیہ السلام) کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر لائے تھے تاکہ والد کو بھیڑئیے کے کھانے کا یقین دلائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا جھوٹ ظاہر کرنے کے لئے ان کو اس سے غافل کردیا کہ کرتے پر خون لگانے کے ساتھ اس کو پھاڑ بھی دیتے جس سے بھیڑئیے کا کھانا ثابت ہوتا انہوں نے صحیح سالم کرتے پر بکری کے بچے کا خون لگا کر باپ کو دھوکہ میں ڈالنا چاہا یعقوب (علیہ السلام) نے کرتا صحیح سالم دیکھ کر فرمایا میرے بیٹو یہ بھیڑیا کیسا حکیم اور عقل مند تھا کہ یوسف کو اس طرح کھایا کہ کرتہ کہیں سے نہیں پھٹا، اس طرح حضرت یعقوب (علیہ السلام) پر ان کی جعل سازی کا راز فاش ہوگیا اور فرمایا بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ یعنی یوسف کو بھیڑیئے نے نہیں کھایا بلکہ تمہارے ہی نفوس نے ایک بات بنائی ہے اب میرے لئے بہتر یہی ہے کہ صبر کروں اور جو کچھ تم کہتے ہو اس پر اللہ سے مدد مانگوں - مسئلہ : یعقوب (علیہ السلام) نے کرتہ صحیح سالم ہونے سے برادران یوسف (علیہ السلام) کے جھوٹ پر استدلال کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قاضی یا حاکم کو فریقین کے دعوے اور دلائل کیساتھ حالات اور قرائن پر بھی نظر کرنا چاہئے (قرطبی)- ماروردی (رح) نے فرمایا کہ پیراہن یوسف بھی عجائب روزگار میں سے ہے تین عظیم الشان وقائع اسی پیراہن یعنی کرتے سے وابستہ ہیں،- پہلاواقعہ : خون آلود کر کے والد کو دھوکہ دینے اور کرتے کی شہادت سے جھوٹ ثابت ہونے کا ہے،- دوسرا واقعہ : زلیخا کا کہ اس میں بھی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ہی شہادت میں پیش ہوا ہے،- تیسرا واقعہ : یعقوب (علیہ السلام) کی بینائی واپس آنے کا اس میں بھی ان کا کرتہ ہی اعجاز کا مظہر ثابت ہوا ہے - مسئلہ : بعض علماء نے فرمایا کہ یعقوب (علیہ السلام) نے جو بات اپنے صاحبزادوں سے اس وقت کہی تھی کہ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا یعنی تمہارے نفوس نے ایک بات بنائی ہے یہی بات اس وقت بھی کہی جبکہ مصر میں یوسف (علیہ السلام) کو اس کی خبر کی تو فرمایا بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے یہ دونوں باتیں اپنی رائے سے کہی تھیں ان میں سے پہلی بات صحیح نکلی دوسری صحیح نہیں تھی کیونکہ اس میں بھائیوں کا قصور نہ تھا اس سے معلوم ہوا کہ رائے کی غلطی پیغمبروں سے بھی ابتداءً ہو سکتی ہے اگرچہ بعد میں ان کو بوحی الہی غلطی پر قائم رہنے نہیں دیا جاتا ،- نیز قرطبی میں ہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ رائے کی غلطی بڑے بڑوں سے ہو سکتی ہے اس لئے ہر صاحب رائے کو چاہئے کہ اپنی رائے کو متہم سمجھے اس پر ایسا جمود نہ کرے کہ دوسروں کی بات سننے ماننے کو تیار نہ ہو

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ۝ ٠ۭ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا۝ ٠ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ۝ ٠ۭ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ۝ ١٨- قمیص - الْقَمِيصُ معروف، وجمعه قُمُصٌ وأَقْمِصَةٌ وقُمْصَانٌ. قال تعالی: إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف 26] ، وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] وتَقَمَّصَهُ : لبسه، وقَمَصَ البعیر يَقْمُصُ ويَقْمِصُ : إذا نزا، والقُمْاصُ : داء يأخذه فلا يستقرّ به موضعه ومنه ( القَامِصَةُ ) في الحدیث .- ( ق م ص ) القمیص - قمیص ۔ کرتہ ۔ جمع قمص واقمصتہ وقمصان قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف 26] اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو ۔ وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف 27] اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو ۔ تقمصتہ قمیص پہنا ۔ قمص ( ن ۔ ض ) البعیر اونٹ کا جست کرنا ۔ القماص اونٹ کا ایک مرض جو اسے چین سے کھڑا ہونے نہیں دیتا اور اسی سے لفظ قامصتہ ہے جس کو ذکر حدیث میں آیا ہے ( 85 )- دم - أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية .- ( د م ی ) الدم - ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - سول - والتَّسْوِيلُ : تزيين النّفس لما تحرص عليه، وتصویر القبیح منه بصورة الحسن، قال : بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف 18] - ( س و ل )- التسویل ۔ کے معنی نفس کے اس چیز کو مزین کرنا کے ہیں جس پر اسے حرص بھی ہو اور اس کے قبح کو خوشنما بناکر پیش کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف 18] بلکہ تم اپنے دل سے ( یہ ) بات بنا لائے ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - جمیل - الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان :- أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله .- والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83]- ( ج م ل ) الجمال - کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔- (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ - وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔- فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )- استِعَانَةُ :- طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45]- الا ستعانہ - مدد طلب کرنا قرآن میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔- وصف - الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ :- الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116]- ( و ص ف ) الوصف - کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

عدالت کا یعقوب (علیہ السلام) کی طرح زیرک اور معاملہ فہم ہونا چاہیے - قول باری بدم کذب جھوٹ کا خون یعنی جھوٹ خون ۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد اور قول ہے کہ اگر بھیڑے نے حضرت یوسف کو پھاڑ کھایا ہوتا تو قمیص ضررور تار تار ہوجاتی لیکن قمیص کا درست حالت میں ہونا اور اس پر کسی پھٹن وغیرہ کا نہ ہونا ان کے جھوٹ کی واضح علامت تھی ۔ شعبی کا قول ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کے ساتھ تین نشانیاں وابستہ ہوگئیں ۔ اس پر جو خون تھا وہ جھوٹ موٹ کا تھا اس میں پھٹن وغیرہ کا کوئی نشان نہیں تھا۔ تیسری نشانی یہ تھی کہ جب یہ قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈالی گئی تو آپ کی بنیائی لوٹ آئی ۔ حسن کا قول ہے کہ جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے قمیص کو درست حالت میں دیکھا تو فرمانے لگے کہ بیٹو میں نے آج تک ایسا حلیم الطبع بھیڑیا نہیں دیکھا۔- قول باری ہے قال بل سولت لکم انفسکم امرا ً ۔ یہ سن کر ان کے باپ نے کہا ۔ بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنادیا۔ یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہالسلام کو اپنے بیٹوں کی خیانت اور ظلم کا قطعی طور پر علم ہوگیا تھا نیز یہ کہ یوسف کو بھیڑے نے نہیں کھایا تھا جس کی دلیل یہ تھی کہ انکا قمیص درست حالت میں تھا ۔ اس میں پھٹن وغیرہ کا کوئی نشان نہیں تھا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس جیسی صورت حال میں ظاہری نشان اور علامت کو دیکھ کر تصدیق یا تکذیب کا حکم لگاناجائز ہے اس لیے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو قطعی طور پر یقین ہوگیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیے نے نہیں کھایا ہے۔ اسلیی کہ بیٹوں کی کذب بیانی کی علامت واضح طور پر ظاہر ہوچکی تھی۔- صبر جمیل کسے کہا جاتا ہے ؟- قول باری ہے فصبر جمیل اچھا صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا ایک قول ہے کہ صبر جمیل اس صبر کو کہتے ہیں جس میں کسی قسم کا شکوہ شکایت نہ ہو ۔ آیت میں یہ بیان کردیا گیا ہے کہ مصیبت صبر جمیل کا تقاضا کرتی ہے ، نیز غم و اوندوہ میں مبتلا کرنے والے امور پیش آنے کی صورت میں اللہ سے مدد کی درخواست کرنی چاہیے۔ اللہ تعلایٰ نے ہمارے سامنے اپنے نبی یعقوب (علیہ السلام) کی کیفیت بیان فرما دی کہ جب پیارا بیٹا نظروں سے غائب ہوگیا اور اس کی جدائی کا غم سر پر آپڑا تو آپ نے اس آزمائش میں صبر جمیل اختیا ر کیا ، اللہ کی طرف توجہ کی اور اس سے ہی مدد کے خواستگار ہوئے ، اس کی نظریہ قول باری ہے الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون اولیک علیھم صلوات من ربھم ورحمۃ اولیک ھم المھتدون اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جا ان ہے ، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی ۔ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ تمام باتیں بیان کردی ہیں تا کہ ہم مصائب کی گھڑی میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پیروی کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) اور آتے وقت کسی بکری کو ذبح کرکے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر اس کا خون بھی لگا لائے تھے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے دیکھا کر فرمایا تو تم نے یوسف کی ہلاکت کے لیے اپنے دل سے بات بنالی اور اس کو کر گزرے۔- خیر صبر ہی روں گا جس میں شکایت کا کوئی نام نہ ہوگا اور تم جو کچھ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں کہہ رہے ہو اس میں اللہ ہی سے مدد طلب کروں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا)- ان کی بات سن کر حضرت یعقوب نے فرمایا کہ نہیں بات کچھ اور ہے۔ یہ بات جو تم بتا رہے ہو یہ تو تمہارے جی کی گھڑی ہوئی ایک بات ہے۔ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے ایک بڑی بات کو ہلکا کر کے پیش کیا ہے اور تم لوگوں نے کوئی بہت بڑا غلط اقدام کیا ہے۔- (فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ )- حضرت یعقوب اکیلے تھے بوڑھے تھے اور دوسری طرف دس جوان بیٹے اس صورت حال میں اور کیا کہتے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :13 متن میں”صبر جمیل“ کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ” اچھا صبر“ ہوسکتا ہے ۔ اس سے مراد ایسا صبر ہے جس میں شکایت نہ ہو ، فریاد نہ ہو ، جَزَع نزع نہ ہو ، ٹھنڈے دل سے اس مصیبت کو برداشت کیا جائے جو ایک عالی ظرف انسان پر آپڑی ہو ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :14 بائیبل اور تلمود یہاں حضرت یعقوب علیہ السلام کے تأثر کا نقشہ بھی کچھ ایسا کھینچتی ہیں جو کسی معمولی باپ کے تاثر سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے ۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ” تب یعقوب علیہ السلام نے اپنا پیراہن چاک کیا اور ٹاٹ اپنی کمر سے لپیٹا اور بہت دنوں تک اپنے بیٹے کے لیے ماتم کرتا رہا “ ۔ اور تلمود کا بیان ہے کہ ” یعقوب بیٹے کا قمیص پہچانتے ہی اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور دیر تک بے حس و حرکت پڑا رہا ، پھر اٹھ کر بڑے زور سے چیخا کہ ہاں یہ میرے بیٹے ہی کا قمیص ہے …………. اور وہ سالہا سال تک یوسف علیہ السلام کا ماتم کرتا رہا“ ۔ اس نقشے میں حضرت یعقوب علیہ السلام وہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو ہر باپ ایسے موقع پر کرے گا ۔ لیکن قرآن جو نقشہ پیش کر رہا ہے اس سے ہمارے سامنے ایک ایسے غیر معمولی انسان کی تصویر آتی ہے جو کمال درجہ بردبار و باوقار ہے ، اتنی بڑی غم انگیز خبر سن کر بھی اپنے دماغ کا توازن نہیں کھوتا ، اپنی فراست سے معاملہ کہ ٹھیک ٹھیک نوعیت کو بھانپ جاتا ہے کہ یہ ایک بناوٹی بات ہے جو ان حاسد بیٹوں نے بنا کر پیش کی ہے ، اور پھر عالی ظرف انسانوں کی طرح صبر کرتا ہے اور خدا پر بھروسہ کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے قمیص پر خون تو لگا دیا۔ لیکن قمیص صحیح سالم تھا اس پر پھٹن کے کوئی آثار نہیں تھے اس لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ بھیڑیاں بڑا مہذب تھا کہ بچے کو کھا گیا اور قمیص جوں کی توں صحیح سالم رہی۔ خلاصہ یہ کہ ان کو یہ بات یقین سے معلوم ہوگئی کہ بھیڑیے کے کھانے کی بات محض افسانہ ہے اس لیے انہوں نے فرمایا کہ یہ بات تم نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہے۔